ایم ڈبلیوایم شعبہ قم المقدسہ کے زیر اہتمام ہفتہ وارعلمی وفکری نشست کا انعقاد، حوزہ علمیہ کے استاد آقائی مجید اشکوری کا خطاب

11 January 2019

وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم المقدس کی جانب سے  مسجد اھل بیت علیھم السلام میںہفتہ وار علمی اور فکری نشست بعنوان ولایت فقیہ منعقد کی گئی۔اس نشست میں حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کے استاد حجۃ الاسلام و المسلمین آقا مجید اشکوری صاحب نے اپنے لیکچر کو گذشتہ سے پیوستہ شروع کیا اور پچھلے درس کا خلاصہ بتانے کے بعد فرمایا:"اسلامی معاشرے کی امامت کی تھیوری کے مطابق کیسے شناخت کی جا سکتی ہے۔اس کی توضیح شیعہ مرجعیت اور لوگوں کے رابطے کے دوران تحول کی روش کو پرکھنے سے دی جا سکتی ہے۔میری مراد شیعہ مرجعیت سے یہ ہے کہ ایک وقت شیعہ مرجعیت امام معصوم کے ہاتھ میں ہے۔اور ایک وقت مجتہد جامع شرائط کے اختیار میں ہے۔ لوگوں سے مراد  ایک جغرافیائی وسعت یعنی ایک ملک کی ابادی ہے۔اب ہم تین قسم کے رابطے اور دور کی خصوصیات بیان کریں  گے۔ ایک قسم کا رابطہ،علمی ہے۔یہ دور ۱۰ قرن کا تھا۔صدر اسلام سے لے کر صفویوں کے سلسلے تک۔ اس ہزار سالہ دور کی خصوصیات یہ تھیں۔1- اس دور میں لوگ امامت کے مفہوم سے آشنا نہیں تھے۔امامت بعنوان ایک تھیوری۔2- اکثریت اہل سنت کی تھی۔3-حکومت اہل سنت کے پاس تھی۔خلفاء،بنی امیہ،بنی مروان،بنی عباس،عثمانی۔4- اس دوران شیعوں پر بہت سختی کی جاتی تھی۔اس سختی کے دور میں شیعہ مرجعیت کی کوشش تھی کہ لوگ امامت کی تھیوری سے آشنا ہوں۔اور اس کیلئے مختلف فرصتوں سے استفادہ کرتے تھے ۔مثلاً ایک وقت ایسا آتا ہے کہ آل بویہ قدرت حاصل کر لیتے ہیں۔ اب شیعوں کیلئے تھوڑی فرصت مہیا ہوتی ہے۔اس دوران شیخ مفید بعنوان مجتہد فرصت پیدا کرتے ہیں اور حوزہ بغداد کو تشکیل دیتے ہیں جو پہلا شیعہ حوزہ کہلاتا ہے۔اس حوزہ بغداد میں شیخ مفید رہ ،سید مرتضی ، سید رضی، شیخ طوسی جیسے شاگرد تربیت کرتے ہیں۔شیخ مفید کی وفات کے بعد یہ حوزہ شیخ طوسی کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ آل بویہ ضعیف ہو جاتے ہیں۔یہاں تک کہ حوزہ بغداد کو آگ لگادی جاتی ہے اور شیخ طوسی رات کی تاریکی میں فرار ہو جاتے ہیں۔بس مغل،تیموریان،خواجہ نصیر الدین طوسی،ابن سینا وغیرہ  فرصت ایجاد کرتے ہیں اور کچھ علمی کام کر جاتے ہیں۔اس دورہ کو دورۂ محنت کہتے ہیں۔

استاد سید اشکوری نے دوسرے رابطہ کی خصوصیات کے بارے میں فرمایا:" اس رابطہ کو رابطہ مقلد اور مقلدی کہیں گے۔یہ دورہ دو قرن شامل ہے۔دورۂ صفویہ سے ،دورۂ افشاریہ،دورۂ زندیہ تا دورۂ اول قاچار،فتح علی قاجار۔اس دورہ کی خصوصیات یہ ہیں۔1- ایک مستقل شیعہ حکومت کی تشکیل۔شاہ اسمعیل صفوی۔ بعد میں یہ دربار عثمانی کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے۔چونکہ خود کوئی سابقہ دار نہیں۔ اس دور میں اکثریت سنی تھے۔شاہ اسماعیل ایک سفر کرتا ہے مکہ کا۔وہاں اس کو بتایا جاتا ہے کہ جبل آمل لبنان سے یہاں ایک مجتہد آئے ہوئے ہیں ان کا نام تھا محقق کرکی۔محقق کرکی کو ایران آنے کی دعوت دی گئی۔ایران اکر محقق کرکی ،شیخ بہائی کے والد ،شیخ بہائی کے ساتھ ان فرصتوں سے فایدہ اٹھاتے ہیں اور حوزوں کی تشکیل اور شاگرد تربیت کرتے ہیں۔جیسے فیض کاشانی،علامہ مجلس اول ،علامہ مجلس دوم،ملا صدرا ان حوزوں میں تربیت پاتے ہیں۔یہ پورے علاقے میں پھیل جاتے ہیں اور شیعہ تربیت کرتے ہیں۔پچاس سال کے اندر ایران میں اکثر شیعہ ہیں۔بس یہ رابطہ مقلد اور مقلدی ہے۔خود یہ دورہ دو دوروں میں تقسیم ہوتا ہے۔1- منتشر مرجعیت۔اخباریوں اور حوزہ ہائے علمیہ کی حاکمیت کے سبب ۔اس دور میں اخباری ہمارے حوزوں میں غالب تھے۔زندیوں کے دور میں ایک اخوند مرحوم وحید بہیبانی ایک اصولی تحریک لیکر اٹھتے ہیں جو اخباریوں پر غالب آجاتے ہیں۔تقلید کو رواج ملتا ہے۔شیخ انصاری مرجع عام کے طور پر معروف ہوتے ہیں۔مرجیعت عامہ۔قاجاریوں کے دور میں ایران میں طاقت اور قدرت دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ایک سیاسی قدرت جو شاہ قاچار کے اختیار میں تھی اور ایک مذھبی طاقت جو شیخ انصاری کے پاس تھی۔
"استاد اشکوری نے تیسرے رابطہ کے بارے میں وضاحت فرمائی کہ:" تیسرا رابطہ ولائی ہے۔اب آہستہ آہستہ لوگ ان مفاہیم سے آشنا ہو رہے ہیں۔ یہ رابطہ فتح علی قاچار سے لیکر آج تک ،رابطہ ولائی کہلاتا ہے۔یہ رابطہ تین دوروں کو طے کرتا ہے۔دورۂ اول کو احکام کے اجراء کا عملی دور کہتے ہیں۔ جیسے اعلان جہاد۔دوسرے دورہ کو حوزۂ جعل حکم میں ولایت کا عملی دور کہتے ہیں۔تیسرے دورہ کو ساختار سازی یعنی ولائی نظام کہتے ہیں۔" آخر میں استاد حجۃالاسلام آقا سید مجید اشکوری نے حاضرین کو آئندہ لیکچر میں آنے سے  پہلے حضرت امام خمینی رہ کے وصیت نامے کے مقدمے کا مطالعہ کرنے کی تاکیدکی،یاد رہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم المقدس کی جانب سے مختلف موضوعات پر ہفتہ وار دروس کا سلسلہ جاری ہے جن میں علماء اور فاضل طلاب کی ایک کثیر تعداد شریک ہوتی ہے۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree