وحدت نیوز(مظفرآباد) بھکر واقعہ میں ملوث دھشتگردوں کو فوری طور پر گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دیتے ہوئے متاثرین کے خلاف درج مقدمات کو فی الفور ختم کیا جائے، واقعے کی تمام تر ذمہ داری رانا ثناء اللہ اور ڈی پی او فلکی پر عائد ہوتی ہے، وفاقی و صوبائی حکومت رانا ثناء اللہ کے خلاف ایکشن لے، رانا ثناء اللہ پچھلے دور میں شیعہ کشی کے اپنے ادھورے منصوبے کی تکمیل کے لیئے کوشاں ہے واقعے کی ایف آئی آر رانا ثناء کے خلاف درج کی جائے، جبکہ ڈی پی او فلکی کو معطل کر کے واقعہ کی جوڈیشل انکوئری کروائی جائے۔
ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے شوریٰ عالی کے ممبر اورمجلس وحدت مسلمین ریاست آزاد جموں و کشمیرکے سربراہ علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے مظفرآباد میں سانحہ بھکر کے حوالے سے پریس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر سید سرفراز کاظمی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں کشمیر، سید محمد رضا شاہ بخاری سیکرٹری جنرل ضلع میرپور، سید ظاہر علی نقوی سیکرٹری جنرل ضلع نیلم ، علامہ سید طالب ہمدانی سیکرٹری جنرل ضلع مظفرآباد، سید عاطف حسین جعفری سیکرٹری جنرل ضلع باغ کے علاوہ علامہ ممتاز حسینی،مولانا افتخار حسین جعفری،مولانا سید حمید حسین نقوی، سید سجاد حسین سبزواری ، سید قلندر حسین نقوی، سید ذیشان حیدر کاظمی ، خالد محمود عباسی ، عابد حسین قریشی اور مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے مرکزی کابینہ کے دیگر عہدیداران بھی موجود تھے۔
علامہ تصورجوادی نے کہا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں قانون کی عملداری قائم کی جائے، نواز حکومت امریکی اشاروں پر مذاکرات مذاکرات کا راگ الاپنے سے پہلے دہشتگردی اور فرقہ واریت میں ملوث افراد کے حوالے سے قانون سازی کرے تاکہ ایسے شخص کو معینہ دنوں میں سزا دی جا سکے ۔سٹیٹ کو پاور آف سٹیٹ سے کام لینا چاہیے نہ کہ دہشتگردوں سے مذاکرات کی بات کرنی چاہیے جو لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق عمل کرتے ہوئے ایکشن لیاجاناچاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ پہلے تو پولیس ایکشن کے بجائے تماشائی بنی رہتی ہے اور اگر کچھ دھشتگرد گرفتار بھی ہیں تو عدالتیں انہیں بری کر دیتی ہیں، ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ دھشتگردوں کو میڈیا کے ذریعے کیوں دکھایا جاتا ہے ؟ملکی سلامتی کے خلاف گھناؤنے واقعات میں ملوث دھشتگردوں کی میڈیا انٹرویو زبھی صورت میں تشہیرکیوں کرتاہے ، پولیس کے ذمہ داران بھی واقعات و جرائم کی نشاندھی کرتے ہیں لیکن پھرا نہیں کیا سزا دی جاتی ہے؟ وہ کہاں جاتے ہیں جیلوں سے کیسے چھوٹ جاتے ہیں یہ سب سوالات پاکستان کی عدالتوں کے متعلق ہیں، آخر کیوں چیف جسٹس چھوٹے چھوٹے واقعات پر از خود نوٹس لے لیتے ہیں لیکن شیعہ نسل کشی کے واقعات کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا اعلیٰ عدلیہ امن عامہ کے قیام کے حوالے سے صورتحال انتہائی مخدوش ہے، کہیں سزا موت کے مجرموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور کہیں اطلاعات کے باوجود ناقص سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے جیلیں ٹوٹتی ہیں ، سنگین واقعات میں ملوث قیدی چھڑوا لیئے جاتے ہیں ، جیل کے اندر موجود مخالف فرقے کے لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے لیکن نہ کوئی سوموٹو لیا جاتا ہے، اور نہ ہی جیل ٹوٹنے کے واقعات میں ذمہ داران کا تعین کیا جاتا ہے،
انہوں نے کہا کہ بھکر واقعہ اس لیئے بھی باعث تشویش ہے کہ انتظامیہ کی موجودگی میں کالعدم دھشتگرد تنظیم کی ریلی کس طرح نکالی جا رہی تھی اور شیعہ آبادی میں نعرے بازی اور مساجد سے حملے کرنے کے اعلان پر مقامی پولیس اور انتظامیہ نے فوری طور پر کوئی نوٹس کیوں نہ لیا؟ اور جب واقعہ ہو جاتا ہے6اور بیگناہ مظلوم افراد کی شہادت اور متعدد افراد زخمی ہو جاتے ہیں تو پولیس الٹی چال چلتے ہوئے دہشتگردی کا شکار ایسے 89افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرتی ہے جن کا کوئی عزیز شہید ہو گیا ، کوئی عزیز یا وہ فرد خود زخمی ہوا ،انہوں نے کہا کہ ہم ایسے واقعات کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت پنجاب اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو فی الفور نکالے اور واقع کے ذمہ دران کو قرار واقعی سزا کو یقینی بنایا جائے۔