وحدت نیوز(مظفرآباد) عزاداری کے لیے ہمیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ، یہ ریاست ہماری ہے ، ہم اس ریاست کے باشندے ہیں ، یہ ہمارا مذہبی ، آئینی ، قانونی ، شرعی و شہری حق ہے کہ ہم مذہبی عبادات کو آزادانہ انجام دیں ، آئی جی آزاد کشمیر اپنا بیان واپس لیں ، ہم ان کے اس بیان کی بھرپور مذمت کرتے ہیں ، ان خیالات کا اظہار ترجمان و ممبر مرکزی عزاداری سیل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر مولانا سید حمید حسین نقوی نے آئی جی آزاد کشمیر کے نئی مجالس کے انعقاد پر پابندی کے حوالے سے بیان پر اپنے ردعمل میں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ عزادری سید الشہداء ؑ ہماری شہ رگ حیات ہے، مر تو سکتے ہیں لیکن اس سے دستبردار نہیں ہو سکتے ، ہم انڈیا سے الگ ہوئے ہی اسی لیے تھے کہ اپنی مذہبی عبادات کو آزادی سے سرانجام دیں سکیں ۔ ہم اس ریاست کے پرامن و محب وطن شہری ہیں ، اس کے اندر ہمیں مذہبی طور پر آزادی ہے ، آئی جی آزاد کشمیر نئے ہیں یہاں کے زمینی حقائق بارے انہیں علم نہیں ، یہاں شیعہ سنی باہم اتحاد و اتفاق سے رہتے ہیں ، محرم الحرام ہو یا ربیع الاول ملکر مناتے ہیں ، ہر شہری اور ہر مسلک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مذہبی عبادات کو بھرپور طریقے سے سرانجام دے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی جی آزاد کشمیر اس معاملے پر مستعدی دکھانے کے بجائے علامہ تصور نقوی پر حملہ کرنے والے مجرمان کی گرفتاری کے لیے بات کریں ، اپنی پولیس کو بلائیں ، پوچھیں ! کہ آٹھ ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا ، چھوٹی سی جگہ سے حملہ آور فرار ہوگئے ، پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھے دیکھتی رہی اور آج تک حیلے بہانوں سے ٹرخائے جا رہی ہے کیوں ؟ آئی جی صاحب پولیس کو پیشہ ورانہ امور کی جانب متوجہ کریں اور ریاستی شہریوں پر دباؤ نہ ڈالیں ۔ مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیرنے تمام شیعہ تنظیمات سے رابطوں کا آغاز کر دیا ہے ، کہ آئی جی آزاد کشمیر کے اس بیان نے ملت جعفریہ کی دل آزاری کی ہے ، آزاد کشمیر کے اندر امن و امان کی صورتحال مخدوش ہو چکی ہے، ایک نہتے آدمی کو دن دیہاڑے شاہرائے عام پر گولیاں مار دی جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ، ان امور کی جانب توجہ کرنے کے بجائے انتہائی غیر ذمہ درانہ بیان ناقابل قبول ہے، ہم صدر و وزیراعظم آزاد کشمیر سے کہتے ہیں کہ وہ آئی جی پی کو درست سمت موڑیں ، بصورت دیگر ملت جعفریہ اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروائے گی۔ مولانا حمید نقوی نے کہا کہ ہم آئی آزاد کشمیر کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنا بیان واپس لیں۔