وحدت نیوز(سکردو) معروف ادیب و شاعر بابائے بلتی اخوند محمد حسین حکیم اور صوبائی وزیر زراعت و پارلیمانی لیڈر مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان جناب میثم کاظم کی اساتذہ جامعۃ النجف سکردو کے ساتھ ایک ادبی نشست۔ جامعۃ النجف سکردو میں ایک مختصر اور پرمغز ادبی نشست برگزار ہوئی۔
اس ادبی نشست میں وزیر زراعت میثم کاظم نے کہا کہ عربی زبان کی طرح بلتی ادب بھی گہرائی، گیرائی اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ایک جامع زبان ہے۔ ہمیں اس زبان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ آج کل جو بلتی عام طور پر بولی جاتی ہے اس میں دوسری زبانوں کے اختلاط کی وجہ سے اصل بلتی کی مٹھاس اور حلاوت میں کمی آ رہی ہے۔ بلتی زبان میں ایسے بہترین الفاظ موجود ہیں جن کا کماحقہ ترجمہ نہ انگلش میں ممکن ہے اور نہ فارسی اور عربی میں بلکہ ایسے الفاظ بلتی زبان کا خاصہ ہیں۔ بوا عباس جیسے شعرا نے اپنی شاعری کے ذریعے بلتی ادب کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ بچے مادری زبان میں علمی نکات کو جس قدر درک کرسکتے ہیں اس قدر کسی اور زبان میں ہرگز درک نہیں کر سکتے۔
بابائے بلتی اخوند محمد حسین حکیم نے کہا کہ بلتی ادب کے رسم الخط میں ادباء کا اختلاف بلتی ادب کے فروغ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ کسی خاص رسم الخط پر تمام بلتی ادیبوں کو اتفاق کرکے متروک ہوتے ادبی الفاظ کو محفوظ کرنا چاہئے۔ ہماری قوم میں ادبی ذوق کا فقدان ہے۔ میں نے ہزاروں کی تعداد میں متروک ہوتے بلتی الفاظ اور اہم بلتی کلمات ذخیرہ الفاظ کی صورت میں صفحہ قرطاس کے سپرد کر رکھا ہے لیکن آج تک کسی نے اس حوالے سے پوچھا تک نہیں۔
مدرسہ ھذا کے استاد آغا سید محمد علی شاہ الحسینی نے کہا کہ بلتی رسم الخط بہت مشکل ہے۔ لہذا اردو رسم الخط ہی میں ہمیں بلتی ادب کو فروغ دینا چاہیے۔ جس طرح دوسرے صوبوں میں ان کی مقامی زبان بھی پڑھائی جاتی ہے اسی طرح ہمارے سکولوں میں بھی بلتی زبان و ادب کو باقاعدہ نصاب تعلیم میں شامل کیا جانا چاہئے۔ زندہ قومیں اپنی زبان کی حفاظت کیا کرتی ہیں۔ بلتی زبان میں جو مٹھاس اور جامعیت پائی جاتی ہے اس کی ثانی کسی دوسری زبان میں ملنا مشکل ہے۔ ہماری محافل و مجالس کا بلتی ادب کے فروغ میں کلیدی کردار رہا ہے۔ مختلف ادبی حلقے بھی بلتی زبان و ادب کی حفاظت اور فروغ میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ علی نوری اور وزیر سلمان سمیت دیگر شرکائے محفل نے بھی بلتی زبان کی اہمیت اور اس کے فروغ کے لیے مفید نکات پیش کیے۔