وحدت نیوز(سکردو) صوبائی وزیر زراعت و پارلیمانی لیڈر مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان محمد کاظم میثم نے سابق سیکریٹری ایگریکلچر خادم حسین سلیم اور موجودہ پروگرام کوآرڈنیٹر ای ٹی آئی ایفاد سے تفصیلی میٹنگ کی۔ میٹنگ میں پروگرام کوآرڈینیٹر نے گلگت بلتستان میں جاری زرعی سرگرمیوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔
اس موقع پر وزیر زراعت نے کہا کہ ایفاد کے پروگرام کو تمام اضلاع میں ایکسٹینشن صوبائی حکومت کی بڑی کامیابی ہے اور یہ اسوقت تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا جبکہ بروقت سکیموں کا آغاز نہ ہو۔ انہوں کہا کہ مستقبل میں فوڈ سکیورٹی کے شدید ایشوز آ رہے ہیں جس کا حل قابل کاشت اراضی کو زیرکاشت لانا ہے۔ ایفاد کے تینوں سیگمنٹس جس میں زرعی اراضی کو قابل کاشت بنانا، آبپاشی کے منصوبوں رابطہ پل اور سڑکوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ویلیو ایڈیشن یہاں کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتی ہے اور زراعت کو وسیع پیمانے پر فروغ دیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانی کے سب سے زیادہ ذخائر جی بی میں ہونے کے باوجود آبپاشی کے لیے پانی فراہم نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جی بی کی ترقیاتی سکیموں کے لیے وفاق سے ملنے والے فنڈ ناکافی ہے لیکن ایفاد کے معیار پر پورا اترنے والی سکیموں پر جلد از جلد کام شروع کیا گیا تو معاشی انقلاب آئے اور اسے سبز انقلاب کہا جاسکتا ہے۔ منسٹر ایگریکلچر نے تمام دیگر اضلاع سمیت حلقہ نمبر میں موجود وسیع مگر بنجر اراضی کی نشاندہی کی جن کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کی نہریں، رابطہ سڑکیں اور ترقیاتی سکیمیں درکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سدپارہ سے بشو اور شغرتھنگ سے کواردو تک ہزاروں کنال اراضی بنجر ہے جنہیں آباد کیا جائے تو زمینداروں کی قسمت بدل جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ خالصہ کی زمین آباد ہونے کے بعد آبادکاروں کے نام پر انتقال کرنیکا فیصلہ جی بی گورنمنٹ کا تاریخی فیصلہ ہے۔ عوام کو چاہیے کہ جہاں جہاں تنازعات ہیں انہیں فوری ختم کرکے بنجر زمینوں کی آبادی کاری کے لیے ایفاد کی طرف بڑھنا چاہیے۔
انہوں نے خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دریائے شگر سے کچورا برج تک کی ایک بڑی نہر کا پلان تیار کرے فوری فزیبلٹی تیار کرکے اس پہ کام شروع کرے تو یہ تاریخی کام ہوگا۔ کورادو ستراندونگما کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت کواردو کی حد تک نہر پر کام شروع کیا ہے جوکہ لائق تحسین اور دوسروں کے لیے نمونہ عمل ہے انکی بھرپور حوصلہ افزائی ہونی ہے۔
وزیر زراعت نے اس بات کی ہدایات بھی دیں کہ دریائے سندھ کے سبب ہر سال کٹاو کی زد میں آکر کواردو، سندس، کتپناہ، رنگاہ، رزسنا اور حوطو میں زرعی اراضی تباہ ہو رہی ہیں۔ حکومتی سطح پر حفاظتی بند کے لیے کام جاری ہے تاہم وہ ناکافی ہے اس سلسلے میں ایفاد کی طرف سے بھی ان سکیموں پر کام شروع کیا جائے۔ وزیر زراعت نے حلقے میں موجود تمام بنجر اراضی کی تفصیلات اور فہرست پروگرام کوارڈنیٹر خادم سلیم کو دے دی اور ان پر فوری سروے کا کہا گیا۔
انہوں نے دیگر حلقوں کے اسمبلی اراکین سے بھی اس سلسلے میں تفصیلات لینے اور انکی معاونت سے اس منصوبے کو آگے بڑھانے پر زور دیا۔
اس موقع پر خادم حسین سلیم نے کہا کہ گلگت بلتستان بھر میں موجود بنجر اراضی کو زیرکاشت لانے کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ عوامی تنازعات کی وجہ سے بہت سارے مقامات پر منصوبے رکے ہوئے ہیں جو خطے کا نقصان ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام کے تعاون سے اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے پرعزم ہے۔