وحدت نیوز(اسلام آباد) اپنے خصوصی انٹرویو میں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ناصرعباس شیرازی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے جو اپنے اہداف طے کئے تھے وہ حاصل کر لئے ہیں، سیاسی ہدف میں اگر ہمیں کامیابی ہو گئی تو اچھی بات ہے اور اگر نہ ہوئی تو ہمیں اس پر کوئی پریشانی نہیں ہے، ہم نے شیعہ اور سنی کو اکٹھا کر دیا ہے اور ہم نے پاکستان کے اندر محبت کی فضاء قائم کر دی ہے اور ہم تشیع کے وہ مطالبات جو ہمیشہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دئیے جاتے تھے انہیں مین اسٹریم میں لے آئے ہیں، اور اب قومی جماعتیں اُس پر بات کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
ایک منتخب وزیر اعظم کے خلاف تحریک چلانے اوراس موومنٹ میں کسی خفیہ ہاتھ کے ملوث ہونے کے شبہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےناصرشیرازی نے کہا کہ جسے آپ منتخب وزیراعظم کہہ رہے ہیں وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر نہیں آئے، بلکہ وہ جعلی الیکشن اور دھاندلی کے ذریعہ سے اقتدار میں آئے ہیں، وہ قانونی اور آئینی جواز کھو چکے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار خود قومی اسمبلی میں بیان دے چکے ہیں کہ ہر حلقے میں ساٹھ سے ستر ہزار ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکتی، اس کے بعد کیا دلیل رہ جاتی ہے کہ آپ اقتدار میں رہیں، آپ حق حکمرانی کھو چکے ہیں، آپ کے بھاری مینڈیت کے سارے دعوے ہوا میں اڑ چکے ہیں۔ آپ کیخلاف تمام ثبوت سامنے آ چکے ہیں، آپ کے ساتھ دھاندلی میں آر اوز اور جوڈیشری ملی ہوئی تھی، آپ دہشتگردوں کی ملی بھگت سے اقتدار میں آئے ہیں، ایک سال گزرنے کے باوجود آپ نے جن حلقوں پر اعتراض کیا گیا اور سوال اٹھائے گئے وہاں ووٹوں کی تصدیق نہیں ہونے دی، جس طرح تحریک انصاف نے وائٹ پیپر جاری کیا اور حلقے کھولنے کی بات کی، اسی طرح مجلس وحدت نے بھی حلقے کھولنے کی بات اور وائٹ پیپر جاری کیا۔ جب الیکشن کمیشن متنازعہ بن جائے، عدالتیں فیصلے نہ سنائیں، الیکشن ٹربیلز جانبدار بن جائیں اور کئی درخواستیں آج بھی التواء کا شکار ہیں ایسی صورت میں آپ کے پاس کیا چوائس بچتی ہے۔ ہمارا مارچ دراصل کرپٹ حکمرانوں کے خلاف ہے، جنہوں نے عوام کے حقیقی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا ہے۔
طاہر القادری کے ساتھ مجلس وحدت کے اتحاد پر بعض شخصیات کے اعتراض پروضاحت کرتے ہوئے ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ اس معاملے کو ہر پہلو سے الگ الگ دیکھنے کی ضرورت ہے، علامہ طاہر القادری کے اندر پانچ وہ صفات ہیں جو کسی اور میں نہیں ہیں، نمبر ایک طاہر القادری اہل سنت کے اندر وہ شخصیت ہیں جو پورے پاکستان میں مجلسیں پڑھتے ہیں، اس کے علاوہ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کے اندر جتنے بھی اہل سنت کے قائدین ہیں اُن کے پاکستان کے اندر یا کسی علاقے کے اندر نیٹ ورک ہو سکتا ہے لیکن اتنا وسیع و عریض نیٹ ورک نہیں ہو سکتا جتنا ڈاکٹر صاحب کا نیٹ ورک ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر طاہر القادری وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اہل تشیعُ کے حوالے سے ایک اسٹینڈ اختیار کیا ہے، شیعوں کے موقف کو قبول کیا ہے پاکستان میں کوئی ایسا سنی رہنما نہیں ہے جس نے اہل تشیع کے مذہبی مقدسات کو کھل کر قبول کیا ہو اور موقف کی تائید کی ہو، امام بارگاہوں کے اندر جانا، مجلس عزاء سے خطاب کرنا پلس پوائنٹ ہے، تیسری بات یہ ہے کہ علامہ طاہر القادری نے تکفیریت کو پہلے دن سے نامنظور کیا ہے، اُنھوں نے اہل سنت اور اہل تشیع کی کسی بھی تکفیر کو حرام قرار دیا ہے۔ تکفیریوں کے خلاف چھ سو صفحات پر مشتمل فتویٰ دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ طالبان اور ان کے حواریوں کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتے، چوتھی چیز یہ ہے کہ نہ صرف انہوں نے علمی سطح پر کام کیا ہے بلکہ عملی طور پر تکفیریت کے خلاف میدان عمل میں نکلے ہیں، آخری بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر تکفیری لابی یعنی سعودی لابی کیخلاف ایک محاذ کی علامت بن چکے ہیں۔
ایسی شخصیات بہت کم ہوتی ہیں جو ان پانچ صفات کی حامل ہوں، اہل سنت میں یہ واحد شخصیت ہیں جس میں یہ تمام صفات موجود ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے اہل سنت بھائیوں میں واحد سیاسی جماعت ہے جو ناصرف بہت منظم ہے بلکہ اپنے وسیع نیٹ ورک کی بدولت ایک ملک گیر جماعت کا اعزاز رکھتی ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہم کن حالات سے دوچار ہیں، ہمارے پاس کیا آپشنز ہیں؟ میرا آپ سے سوال ہے کہ پاکستان میں کونسی پارٹی نہیں ہے جس پر الزامات نہ لگے ہوں، پاکستان سب جماعتوں اور شخصیات پر الزامات لگے ہیں، آپ دیکھیں کہ طالبان سے مذاکرات کے ایشو پر کون کہاں تھا، اس صورتحال میں ہمیں کہاں ہونا چاہیئے تھا۔ آخر ہم پاکستان کے حالات سے اپنے آپ کو کنارے پر نہیں رکھ سکتے۔ ہم نے ایک نئے اتحاد کو وجود بخشا ہے، شیعہ سنی وحدت پیدا ہوئی ہے جو ڈرائنگ روم سے نکل میدان عمل میں پہنچ چکی ہے، اب یہ وحدت فقط آپ کو کانفرنسز اور سیمینار کی حد تک دکھائی نہیں دے گی، آپ دیکھیں کہ ورکرز کی حد تک ساتھ ملکر چل رہے ہیں۔
جہاں تک تحریک انصاف کی بات ہے کہ ہم انہیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اپنے سابقہ موقف سے پیچھے ہٹیں اور ہمیں یقین ہے کہ انہیں عوام کی طاقت پیچھے ہٹنے پر مجبور کریگی۔ سنی اتحاد کونسل اور طاہرالقادری یعنی بریلوی بھائیوں نے سانحہ راولپنڈی میں ہمارا ساتھ دیا اور کھل کر ساتھ کھڑے ہوئے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں بھی ان کا ساتھ دینا چاہیئے، ماڈل ٹاون میں ان کے ساتھ ظلم ہوا۔ علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنی ہر تقریر میں کہا ہے کہ ہم ہر ظالم کے مخالف ہیں چاہے وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو اور ہر مظلوم کے حامی ہیں چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے ہم نے طاہرالقادری کا ساتھ دینے کا اعلان کیا کیوں کہ وہ اس وقت مظلوم ہیں، ان کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے، ایسا ظلم جس کی پاکستان میں کوئی تاریخ نہیں ملتی، ایسی ظالم حکومت جو ایف آئی آر تک درج نہیں ہونے دیتی۔ میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا ہمیں ایسی صورتحال میں طاہرالقادری ساتھ نہیں دینا چاہیئے تھا، جب ان کے چودہ افراد کو شہید کر دیا گیا، عورتوں کے منہ میں گولیاں ماری گئیں۔ ان لوگوں نے شام کے معاملے پر ہمارا ساتھ دیا، عراق کے معاملے پر ہمارا ساتھ دیا، بحرین کے معاملے پر ہمارے موقف کی تائید کی، سعودیوں کی کھل کر مذمت کی۔
ہم ایسی حکومت کیخلاف کھڑے ہوئے ہیں جس نے شام کے معاملے پر اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کر دی، جس نے بحرین کے بادشاہ کو چالیس سال میں پہلی بار پاکستان میں آنے کی دعوت دی اور معاملات آگے بڑھائے، یہ لوگ سعودیوں کے ساتھ اس حد تک گئے کہ قاتلوں کے ہمراہ کھڑے ہو گئے۔ بحرین کے قاتل بادشاہ کو پاکستان میں خوش آمدید کہا گیا۔ پاکستان کے پچاس ہزار شہریوں کے قاتلوں سے مذاکرات کا راگ الاپا گیا، راولپنڈی واقعہ میں حکومت نے سرکاری وکیل کے بجائے ایک کروڑ روپے ادا کرکے اسپیشل وکیل کیا۔ آپ دیکھیں کہ مسلسل تشیع پر مظالم ڈھائے گئے، شہباز شریف نے ملک اسحاق جیسے لوگوں کو رہا کرایا۔ شیعہ بےگناہ افراد گرفتار کرائے گئے، حتیٰ شیعہ لیڈرشپ پر ہاتھ ڈالا گیا۔
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کےعلیحدہ علیحدہ احتجاجی ایجنڈے پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے ناصر شیرازی نے کہا کہ سب سے پہلے پاکستان عوامی تحریک کا پاکستان مسلم لیگ قاف کے ساتھ اتحاد ہوا جس میں انہوں نے دس نکات پر اتفاق کیا، اس کے بعد سنی اتحاد کونسل کے ساتھ ملکر ہم نے چار اپنے پوائنٹس دیئے اور اتحاد کیا۔ مجلس نے چار پوائنٹس کا اضافہ کرایا، یہ پوائنٹس پاکستان کی تاریخ ساز پوائنٹس ہیں۔ وہ پوائنٹس جن کو پاکستان میں گم کر دیا گیا تھا ان پوائنٹس کو صف میں لاکھڑا کیا ہے، ہم نے اُن مظلومین کے مطالبات اور مفادات پاکستان کے صف اول کے مطالبات بنا دیئے ہیں۔ پہلا نقطہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا ہے، دوسرا نقطہ تکفیریت کو پاکستان کے اندر ناقابل معافی جرم قرار دینے کا ہے، تیسرا نقطہ پاکستان میں دہشتگردوں اور سیاسی سرپرستوں کو انصاف کے کٹہرے پر لا کھڑا کرنا ہے، چھوتھا نقطہ پاکستان میں شیعہ اوقاف شیعوں کے لئے اور سنی اوقاف سنیوں کے لئے ہو گا اور ان نکات پر تین پارٹیوں کا اتحاد ہو گیا ہے تاہم صرف ایک پارٹی جس نے سائن نہیں کئے تھے وہ پی ایم ایل کیو ہے جس نے اس پر سائن نہیں کئے، وہ متناسب نمائندگی کا حصول ہے۔ ہم نے یہ تمام چیزیں مکتب اہل بیت کی خدمت کیلئے پیش کی ہیں اور ان کی عزت و سربلندی کیلئے میدان عمل میں ہیں۔
جہاں تک آپ کے انقلاب والے سوال کا تعلق ہے تو اتنا عرض کروں کہ یہ انقلاب علامہ طاہر القادری کا موقف اور اُن کے الفاظ ہیں، یہ طاہر القادری کا نعرہ ہے جیسے پاکستان کے اندر ہمارا نعرہ "جوانیاں لوٹائیں گے انقلاب لائیں گے"، ہمارا مقصد کہ پاکستان میں شیعہ اور سنی کو ایک پیج پر کھڑا کرنا ہے اور تکفیریت کو تنہا کرنا ہے اور نشان عبرت بنانا ہے۔ اس اتحاد میں اب پاکستان سنی تحریک بھی شامل ہو چکی ہے۔ الحمدللہ پاکستان کے اندر شیعہ سنی اکھٹے ہوگئے ہیں اور جو کوئی بھی ان کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے گا اگر شیعوں میں سے ہو گا تو شیعہ اُن کو اور اگر اہل سنت میں سے ہو گا تو سنی اُن کو عبرت ناک سزائیں سنائیں گے اور پاکستان میں شیعہ اور سنیوں کے درمیان کوئی فاصلے باقی نہیں رہیں گے۔ شیعہ سنی ایک دوسرے کے مکتب کا احترام کریں گے۔ ہم نے یہ کیفیت بنا دی ہے کہ ہزاروں سنی لوگ مجلس وحدت المسلمین کا لبیک یا حسین (ع) کے نعرہ سے استقبال کرتے ہیں، ہم نے لبیک یاحسین (ع) کا مظلومین کا نعرہ بنا دیا ہے ہم نے پاکستان کے اندر لبیک یا رسول اللہ (ص) اور لبیک یا حسین (ع) کے نعرے کو عام کردیا ہے۔ اب یہ نعرے وحدت کی علامت بن چکے ہیں۔ یہ سب کچھ اس سیاسی عمل کے نتیجے میں ہوا ہے۔ آج حقیقی اہل سنت اور اہل تشیع اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہمارے تمام مطالبات آئینی ہیں، آئین سے باہر نہیں ہیں، یہ مطالبات اسلامی اصولوں کے مطابق ہیں، جہاں تک عمران خان اور ہمارے مارچ کے فرق کی بات ہے وہ سسٹم کی تبدیلی کی بات ہے، ہم سمجھتے ہیں اس کرپٹ نظام سے تبدیلی نہیں آ سکتی۔ جب تک بنیادی تبدیلیاں نہیں کی جائیں گی اس وقت تک گلو بٹ جیسے لوگ اور کردار سامنے آتے رہیں گے۔
ایسی تبدیلی ہو کہ یہ مسائل سے کم سے کم ہو جائیں۔ عدل و انصاف کا بول بالا ہو، لوگوں کو انصاف ملے، تفریق پیدا نہ ہو، انصاف ہوتا نظر آئے۔ عمران خان چند حلقوں کی بات کر رہے ہیں، وہ فقط وزیراعظم کے استعفٰی کے بات کر رہے ہیں اور دوبارہ الیکشن کی بات کر رہے ہیں، لیکن ہم مکمل نظام کی تطہیر چاہتے ہیں، ایسا نظام جس میں عام بندہ بھی الیکشن لڑ سکے اور اسمبلی میں پہنچ سکے۔ میرے خیال میں ہمارا پہلے مرحلہ کامیابی سے مکمل ہو چکا ہے، وہ یہ کہ ہم مشترکہ دشمن کے مقابل کھڑے ہو چکےہیں، امید ہے کہ آگے کوئی صورت نکل آئیگی۔
آخری سوال مجلس نے اس اتحاد سے اب تک کیا حاصل کیا ہے۔ اگرآپ لوگ حکومت نہیں گرا پاتے تو اس میں کس کی کامیابی ہوگی اور کس کی ناکامی؟ کے جواب میں ناصر شیرازی کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے اہداف جو طے کئے تھے وہ ہم نے حاصل کر لئے ہیں، سیاسی ہدف میں اگر ہمیں کامیابی ہو گئی تو اچھی بات ہے اور اگر نہ ہوئی تو ہمیں اس پر کوئی پریشانی نہیں ہے، ہم نے شیعہ اور سنی کو اکٹھا کر دیا ہے اور ہم نے پاکستان کے اندر محبت کی فضاء قائم کر دی ہے اور ہم نے تشیع کے وہ مطالبات جو ہمیشہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیئے جاتے تھے انہیں مین اسٹریم میں لے آئے ہیں، اور اب قومی جماعتیں اُس پر بات کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے درمیان ثالثی کا کردار بھی ادا کیا ہے، الحمدللہ یہ کردار مکتب اہل بیت (ع) کے پاس آیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نوے فیصد مقاصد حاصل کر چکے ہیں۔ سیاسی حوالے سے بھی پرامید ہیں کہ انشاء اللہ کامیابی ہوگی۔ ہم نے کوشش کی کہ غزہ کے ایشو پر اپنے سنی بھائیوں کو ساتھ ملائیں الحمدللہ پوری قوم نے دیکھا کہ وہ ہمارے ساتھ نظر آئے۔ ہم اپنے مشترکہ دشمن کیخلاف ایک بہت بڑا اتحاد بنانے جا رہے ہیں۔ دشمن کو یہ چیز ایک آنکھ نہیں بھاتی۔