وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے عاشورا محرم الحرام 1443 ہجری کے موقع پر امت مسلمہ کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ
تاریخ بشریت میں عدل و انصاف، امن و آشتی اور انسانی اقدار کو زندہ کرنے کے لئے، بہت سی تحریکوں نے جنم لیا، اور بہت سی مقدس نہضتیں معرض وجود میں آئیں، جن میں کچھ تو زمانے کی ستم ظریفی کی وجہ سے طاق نسیاں کا حصہ بن گئیں، لیکن کچھ تحریکیں ایسی ہیں، جو اگرچہ کسی خاص زمان و مکان میں وقوع پذیر ہوئیں، لیکن وہ اس قدر پاکیزہ، مقدس، اور با برکت تھیں، کہ جو زمان و مکان کے قید و بند کو توڑ کر ہمیشہ کے لئے امر ہوگئیں، اور جنہوں نے ہر زمانے میں مستضعفین جہاں کو نیا عزم و حوصلہ عطا کرکے انہیں ہر دور کے فرعونوں نمرودوں اور یزیدوں سے مقابلہ کرنے کے لئے جرات عطا کیں۔
انہوں نے کہا کہ ان جاویداں تحریکیوں میں سے ایک منفرد، بالکل الگ اور عظیم الشان تحریک واقعہ کربلا ہے۔ آپ واقعہ کربلا کی تاریخ پڑھیں آپ یہ جان کر حیران ہونگے کہ اس بے نظیر حادثے کے بارے جتنا لکھا گیا، اور اسکے بارے مختلف زاویوں اور متعدد جہتوں سے جتنا تجزیہ و تحلیل سامنے آیا، شاید ہی کسی اور تحریک کے بارے اتنا لکھا گیا ہو، اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس عظیم واقعے کے مثبت اور دور رس اثرات نہ صرف یہ کہ امت مسلمہ پر مرتب ہوئے، بلکہ اس الہی تحریک نے ہر دین و مذہب ، ہر رنگ و نسل، اور ہر قوم و قبیلے کے افراد کو متاثر کر دیااور عجیب تر یہ کہ اس تحریک نے ہر عمر کے افراد (مرد و زن) کے دلوں میں گھر کر گئی۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ اس عالمی اور زمان و مکان کے ہر قید و بند سے ماوراء نہضت کو کسی فرقے کی دوسرے فرقے، یا کسی قبیلے کی دوسرے قبیلے کے خلاف جنگ سمجھنا کوتاہ نظری کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ 61ھ کے عاشورا کی جنگ تمام انسانیت کی خاطر ظلم و ستم کے خلاف جنگ تھی، انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کی حکمرانی کے قیام کے لئے جنگ تھی، عالم بشریت کی سر بلندی، حریت و آزادی، عزت و شرف اور انسانی اقدار کے احیاء کی جنگ تھی، بنی نوع انسان کو غیر اللہ کی غلامی کی ذلت و رسوائی سے آزادی کی جنگ تھی اور تمام عالم انسانیت کو فضائل و کمالات کی معراج پر لے جانے کی جنگ تھی۔ اس لئے تمام تر انسانوں کا فریضہ بنتا ہے، کہ وہ اس بے مثل نہضت کو پڑھیں اور اس عظیم درسگاہ کے پیغام کو سمجھیں، اور اس پر عمل کریں، تاکہ دنیا میں امن و امان کی حکمرانی اور عدل و انصاف کا راج ہو۔
انہوں نے کہا کہ جس قدر پر فتن اور حساس زمانے میں ہم جی رہے ہیں، اتنا ہی ہم سب کا فریضہ بنتا ہے کہ ہم پیغام عاشورہ کو سمجھیں۔اس عظیم درسگاہ کا پہلا سبق خداوند قدوس کی ذات پر ایمان محکم، یقین کامل، توکل مطلق اور ذات حق سے بے پناہ محبت اور عشق ہے، کیونکہ انسانی ذات کا کمال، اور اسکی حقیقی منزل اللہ جل شانہ سے مضبوط تعلق ہے، اور ذات حق سے یہ تعلق، عشق اور اس کی ذات پر توکل کرنا کربلا میں اپنی معراج پہ نظر آتا ہے۔دوسرا سبق اسلام کی سربلندی، اس جاویدان دن کی حفاظت اور اس کے حقائق و معارف کی پرچار جو کہ شرک و کفر اور خواہشات دنیا کی وجہ سے زنگ آلود سینوں کے لئے اکسیر کا نسخہ ہیں، اور اس رستے میں ہر قسم کی مصیبتوں، سختیوں اور مشکلات کو برداشت کرنا اور ہر قسم کی قربانی کے لئے آمادہ رہنا ہے۔تیسرا درس اپنے ہر کام اور ہر عمل کو اخلاص اور اللہ کی خاطر انجام دینا ہے، کیونکہ جو عمل خالصتا اللہ کے لئے انجام دیا جاتا ہے، وہ باقی رہتا ہے، اور اس کی دل آویزی، سحر آفرینی اور تاثیر روز بروز بڑھتی جاتی ہے، کربلا کا واقعہ اس بات پر ایک روشن دلیل ہے، بے آب و گیاہ بیابان میں شہید کئے جانے والوں کی یاد آج بھی پوری دنیا میں انتہائی عقیدت واحترام سے منائی جاتی ہے، اور ان کی مظلومانہ شہادت آج بھی دلوں کو عجیب حرارت، اولو العزمی، صدق و صفا اور نورانیت عطا کرتی ہے، اور اس تاثیر میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔اس عظیم واقعے کا چوتھا درس سسکتی انسانیت کے لئے دل میں تڑپ پیدا کرنا، اسے ذلت و رسوائی کے زندان سے رہائی عطا کرنے لئے عملی جدوجہد کرنا اور ان سب چیزوں سے بڑھ کر انسانیت کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھنا، کربلا اس مقدس کام کا عملی نمونہ ہے، شہدائے کربلا میں ایک شہید کا نام جون ہے، یہ حبشی غلام تھے، جب یہ میدان کربلا میں لڑتے لڑتے زخمی ہوگئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین کربلا پہ گرے، تو امام حسین علیہ السلام فورا ان کے سرہانے پہنچے، ان کے سر کو اپنے زانوئے مبارک پر رکھا، ان کے چہرے سے خون صاف کیا، اور ان سے بے پناہ محبت کا اظہار کیا، جون نے جب اپنے مولا و آقا کی اس قدر عزت و توقیر کو دیکھا تو روتے ہوئے کہا: مولا ایک غلام اور اتنی توقیر۔ یہ انسانیت سے بے پناہ محبت، اور اس کی عزت و توقیر کا عملی نمونہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ تحریک کربلا کا پانچواں درس ایک دن کے ماننے والے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا احترام، باہمی اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دینا، اور اسلام کی سربلندی کے لئے ایک ہی پرچم تلے جمع ہو کر انسان دشمن طاقتوں کے خلاف مشترکہ جنگ لڑنا ہے، میدان کربلا مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت، اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کا عملی مظہر ہے، آپ کے انصار و اعوان میں جہاں حبیب بن مظاہر، مسلم بن عوسجہ اور ہلال بن نافع جیسے خاندان رسالت سے بے پناہ عشق رکھنے والے افراد تھے، وہاں زہیر بن قین جیسے افراد بھی تھے جو واقعہ کربلا سے پہلے خاندان علی علیہ السلام وآل علی سے شدید نفرت کرتے تھے، اور حر جیسے لوگ بھی تھے جو شب عاشور تک یزید کی فوج کے کمانڈر رہے، لیکن امام حسین علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت نے ان سب کے دلوں کو نورانی کرکے، انہیں حق سے روشناس کردیا اور یہ سب کے سب روز عاشور دین حق کے شجر کی آبیاری اور اسے ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھنے کے لئے آپ ع کی رکاب میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے، اور ان کے نام تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہو گئے۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے پیغام عاشورا میں کہا کہ اس عظیم الشان درسگاہ سے بے شمار درس سیکھے جا سکتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے، کہ ان شہدا کی یاد منانے کو کسی ایک فرقے، مذہب یا دین کے ساتھ خاص نہ کیا جائے بلکہ روئے زمین پر بسنے والے تمام حریت پسندوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس واقعہ کو زندہ رکھیں کیونکہ امام حسین علیہ السلام کسی ایک دین یا مذہب کا نہیں بلکہ ہر دور میں پوری انسانیت کے امام، رہنما اور پیشوا ہیں۔