وحدت نیوز(کراچی) مسنگ پرسنز کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے اور ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، جبری گمشدگان کے اہل خانہ احتجاجی تحریک کے نئے مرحلے کا آغاز کررہے ہیں ، پیارے بازیاب نہ ہوئے تو پارلیمنٹ ہاؤس کا رخ کریں گے ۔ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ سید احمد اقبال رضوی نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار شیعہ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر عارف حسین الجانی ، علامہ سید حیدرعباس عابدی، ایم ڈبلیوایم کے رہنما علامہ صادق جعفری ، علامہ مبشر حسن اور شیعہ مسنگ پرسنز کے اہل وعیال بھی موجود تھے ۔ علامہ احمد اقبال رضوی نے کہاکہ یہ مائیں، یہ بہنیں، یہ بیٹیاں، یہ معصوم بچے فریاد کرتے ہیں لیکن صاحب اختیار توجہ نہیں دیتے ہیں۔ یہ مظلوم کبھی صدرِ پاکستان کے در پر جاتے ہیں، کبھی وزیر اعظم کو اپنی عرضداشت بھیجتے ہیں ، کبھی آرمی چیف کو اپنی روداد سناتے ہیں تو کبھی چیف جسٹس صاحب سے اس ظلم پر اپنے قانونی حق کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن افسوس کہیں سے بھی کوئی خاطر خواہ داد رسی نہیں ہوتی اور یہ فیملیز کوئی ۳ سال سے، کوئی ۴ سال سے اور کوئی ۵ سال سے اپنے پیاروں کی جدائی کے کرب میں مبتلا ہے۔ یہ کرب یہ تکلیف کسی کی موت سے زیادہ ہے، اگر کسی کو مار دیا جائے تو اس کی فیملی کو کچھ دنوں میں آرام آ جاتا ہے لیکن اگر کوئی اس طرح غائب کر دیا جائے کہ پتہ ہی نہ ہو کہ وہ کہاں ہے، کس کے پاس ہے، زندہ بھی ہے یا مار دیا گیا ہے۔ تو یہ تکلیف انسان کو ہر روز مارتی ہے۔
ان کا کہناتھا کہ ان جبری گمشدگان میں سے کچھ کے والدین ہسپتال کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں اور موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور کچھ اپنے جوان کو یاد کرتے کرتے اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔ ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ معصوم بچے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے باپ کا جرم کیا ہے؟ انہیں کیوں غائب کر دیا گیا ہے؟ انہیں کون لے کر گیا ہے؟ میرے بابا کب گھر آئیں گے؟ بتائیے یہ مظلوم مائیں اپنے بچوں کو ان سوالات کا کیا جواب دیں؟ہمارا سوال ہے مقتدر اداروں سے کیا اس طرح سے وہ ملک کی خدمت کر رہے ہیں، یا ملک سے بغض و عناد کا بیج نئی نسل میں بو رہے ہیں؟
انہوں نے کہاکہآج یہ بچے، یہ مظلوم فیملیز، اپنے مقتدر اداروں سے آرٹیکل ۱۰ پر عمل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کہ اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ یہ کون سا طریقہ ہے کہ سال، دو سال، پانچ سال تک آپ لاپتہ رکھیں اور ان کا جرم آپ کو پتہ ہی نہ چلے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ ملک میں مقتدر ادارے قانون پر عمل نہ کریں تو عوام کیا قانون پر عمل کرے گی؟یہ مظلوم خاندان دراصل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ خدارا قانون پر عمل کریں۔
رہنماؤں نے کہاکہ گزشتہ چند ماہ میں کرونا وباء کے دوران حساس اداروں سے رہنماؤں کی ملاقات کے باوجود اب تک کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ کرونا وائرس کی دوسری شدت آمیز لہر کے دوران شیعہ مسنگ پرسنز کے اہل خانہ پریشان ہیں، اہل خانہ مزید کتنا صبر کریں مسلسل یقین دہانیوں کے باوجود لاپتہ شیعہ افراد کو رہا نہیں کیا گیا ہے۔ گذشتہ ایک سال سے ریاستی اداروں اور حکومتی وزراء سے ملاقاتوں کے باوجود کسی جبری لاپتہ فرد کو بازیاب نہیں کیا گیا ہے اس دوران مسنگ پرسنز کے والدین اپنے پیاروں کی شکل دیکھے بغیر اس دنیا سے انتقال کر گئے ہیں نہ ہی ان کے جنازوں میں شریک ہو سکے۔ گذشتہ چھ چھ سالوں سے ملک کے مختلف حصوں سے شیعہ نوجوان جبری لاپتہ ہیں ہم اپنے احتجاج کو وسیع کر رہے ہیں ملک بھر سمیت دنیا بھر میں شیعہ مسنگ پرسنز کے چاہنے والے اب احتجاج کریں گے۔
انہوں نے مزید کہاکہ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور ہم ایک مستقل تحریک شروع کر رہے ہیں جس کے سلسلے میں ہم نے علامتی بھوک ہڑتال ۲۲ نومبر ۲۰۲۰ بروز اتوار کو کی تھی اور اب ۲۵ دسمبر ۲۰۲۰ یومِ پیدائش بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ان کے مزار پر شام ۳ بجے بھرپور احتجاج کریں گے اور ان کے سامنے اپنی مظلومیت کی فریاد بلند کرتے ہوئے یہ سوال کریں گے کہ آپ نے یہ ملک عدل و انصاف کے لئے، قانون پر عمل کرنے کے لئے بنایا تھا، یا قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ظلم کرنے کے لئےتاسیس کیا تھا۔اس کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کریں گے۔پھر جینوا سمیت دنیا بھر میں احتجاج کریں گےاور اگر پھر بھی ہماری آواز کو نہیں سنا گیا تو پورے پاکستان سے یہ ساری فیملیز اسلام آباد میں جمع ہو کر اور وہاں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بیٹھ کر اپنا حق لیں گے۔ انشاء اللہ