وحدت نیوز (راولپنڈی) مرکزی عید گاہ شریف میں سجادہ نشین پیر محمد نقیب الرحمٰن کی زیر صدارت اور پیر محمد حسان حسیب الرحمٰن کی میزبانی میں اتحاد امت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر ڈاکٹر نور الحق قادری اورمجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سمیت وطن عزیز کی بیشتر ممتاز خانقاہوں کے سجادہ نشین اور تمام مکاتب فکر کے علما ئےکرام جن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکڑ قبلہ ایاز، پیر سید حامد سعید کاظمی، پیر امین الحسنات شاہ، پیر سید سعادت علی شاہ ، اتحاد علما پاکستان کے چیئرمین علامہ طاہر اشرفی، سینیٹر طلحہ محمود،پیر عبید اللہ شاہ ،پیر سید منور شاہ جماعتی پیر سید شمس الدین گیلانی،خواجہ غلام قطب الدین فریدی،مولانا عبدالخبیرآزاد، پیر سلطان احمد علی،علامہ امین شہیدی،علامہ عارف واحدی و دیگر نے شرکت کی ۔
اتحاد امت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نےکہا کہ جغرافیائی لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان ایشیا کا بالعموم اور جنوبی ایشیا کا بالخصوص ایک بہت ہی اہمیت کا حامل ملک ہے ،یہاں 21 کروڑ مسلمانوں بستے ہیں یہ ایک لحاظ سے خطے کااہم ایٹمی دفاعی لحاظ سے مضبوط ملک ہے، اس ملک کے باشندے محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ محبان اہلبیت ؑ،عاشق رسول ﷺ و عاشق اسلام ہیں پاکستان کی اکثریت دین سے محبت کرتی ہے،جس کی دلیل یہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی توہین رسالت ہو یا قرآن کی بے حرمتی یا اہلبیت ؑ کی شان میں گستاخی ہو سب سے پہلے یہاں رد عمل سامنے آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا ہر باشندہ اسلام ،قرآن اور اہلبیت اطہار ؑسے اتنی ہی محبت رکھتا ہے اوریہ عشق رسولﷺ ہونے کا ثبوت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ وطن عزیزمیں اکٹھے رہنے کیلئے سب سے بہترین عمل یہ ہے کہ اپنا مسلک چھوڑو نہ اور دوسرے مسلک کو چھیڑو مت ۔ہمیں کبھی بھی ایک قوم نہیں بننے دیا گیا ۔پاکستان خود لوکیشن کے اعتبار سے خطرات کا مرکز ہے کیونکہ اس کی اہمیت دنیا پر واضح ہے ۔ ہمیں ملکر اپنا رول ادا کرنا ہو گا ۔ ہم ستر ہزار شہداء کے وارث ہیں ۔ جہاں اس ملک میں اداروں کی ذمہ داری ہے وہی علماء مشائخ کی بھی ذمہ داری ہے۔میری تجاویز یہ ہیں کہ وطن میں پہلے سے موجود قوانین پرعمل درآمد ضروری ہے /نیز ہر ماہ صاحبان اقتدار وصاحبان اختیار مزید بہتری کے لئے مل بیٹھیں۔
اتحاد امت کانفرنس کے آخر میں اعلامیہ جاری ہو جس کے اہم نکات یہ ہیں : 1.جن شخصیات کے ساتھ کروڑوں لوگوں کی عقیدتیں وابستہ ہوں وہ اہل بیت اطہار ہوں یا اصحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں ان کا ذکر خیر نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ کیا جائے اور کوئی کمزور بات ان سے منسوب نہ کی جائے 2۔دین کی مشترکہ تعلیمات کو عام کرکے اخوت و رواداری کو فروغ دیا جائے اور تفرقات کو ختم کیا جائے 3۔خفیہ فرقہ واریت پھیلانے اور کسی بھی انداز میں اس کی معاونت کرنے والے عوامل کی حوصلہ شکنی کی جائے 4. متنازعہ اور تنقیدی اسلوب تبلیغ کی بجائے مثبت اور غیر تنقیدی اسلوب تبلیغ اختیار کیا جائے 5۔ہنگامی تنازعات کے حل کے لیے سرکاری سطح پر مستقل مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے جو غیر جانبدارانہ طور پر معاملات کو حل کرے اور کسی بھی مسلک کے اشخاص کو قانون ہاتھ میں لینے کی قطعی طور پر اجازت نہ ہو اور اگر کوئی شخص قانون ہاتھ میں لیتا ہے یا کوئی ایسی بات کرتا ہے جو مذہب اخلاقیات اور ریاست کے خلاف ہے تو اس بات کو پورے مسلک کی طرف سے نہیں بلکہ اس شخص کا ذاتی و انفرادی عمل تصور کیا جائے اور اس کے جرم کی مناسبت سے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائی 6.حقیقی رواداری کا عملی مظاہرہ کیا جائے اور عدم اقرا کے قرآنی فلسفے کو اپنی زندگیوں میں لاگو کیا جائے7. ہم سب فرقہ وارانہ منافرت انتہا پسندیدہ اور دشت گردی کی مذمت کرتے ہیں یہ جو پیغام اتحاد امت کانفرنس میں متفقہ اعلامیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اس بل کی صورت میں قومی اسمبلی سے منظور کیا جائے اوردین کا حصہ بنایا جائے یہاں اکٹھے ہونے کا مقصد نفرتوں کا خاتمہ اور محبتوں کو عام کرنا ہے۔