وحدت نیوز (آرٹیکل) ھر ملک کے کچھ حساس علاقے ہوتے ہیں۔ اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے یہ علاقے بہت مھم ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے طاقتور ہونے میں اقتصاد اور قوت دفاع کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ دنیا کی سپر طاقتوں میں ایک مملکت خداداد پاکستان ہے جو 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے شمال میں گلگت بلتستان ہے۔ جو پاکستان کے آزاد ہونے کے بعد آزاد ہوا اور کچھ عرصے کے لئے ایک الگ اور مستقل سٹیٹ رہا۔ چونکہ گلگت بلتستان کے لوگوں میں دینی جذبہ زیادہ ہونے کی وجہ سے اس دور کے بزرگوں نے بغیر کسی شرط و شروط کے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ الحاق کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان قرآن و سنت کے نام پر بنا تھا اور ایک الگ اور مستقل مسلم سٹیٹ تھا اور لوگوں کی محبتیں پاکستان کے ساتھ تھی۔ گلگت بلتستان پاکستان کا انتھائی حساس علاقہ ہے۔ طاقت کے دونوں عنصر اس علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ سیاچن کارگل کا باڈر دفاعی اعتبار سے بہت اھمیت رکھتا ہے اور اب تک پاکستان اور ھندوستان کے درمیان اسی مقام پر کافی جنگیں لڑی جا چکی ہیں خصوصا سنہ 1999 میں لڑنے والی کارگل جنگ 1965 اور 1971 میں لڑی جانے والی جنگوں سے خطرناک نہیں تو کم بھی نہیں تھی۔ جس میں قوم کے سینکڑوں دلاوروں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا اور اپنے پاک خون سے مملکت پاکستان کا دفاع کیا۔ این ایل آئی کے سینکڑوں دیندار اور وظیفہ شناس جوانوں نے سینوں پر گولیاں کھائی اور دشمن کا مقابلہ کیا یہ اس وقت کی بات ہے کہ این ایل آئی رجمنٹ کے طور پر نہ تھی کارگل جنگ کے بعد این ایل آئی کو رسمی طور پر پاک فوج میں شامل کیا گیا۔ اور دوسری طرف عوامی جمھوریہ چین جو آج کی دنیا میں اقتصادی اعتبار سے سپر پاور مانا جاتا ہے، سے سرحد ملتی ہے اور شاہراہ قراقرم پاکستان کی شہ رگ مانی جاتی ہے جس کے ذریعے سے چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر سوچا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی مناظر کے اعتبار سے گلگت بلتستان کےعلاقے نے دنیا بھر کی نظروں کو اپنی طرف جذب کر رکھا ہے۔ آسمان کی بلندیوں سے چھونے والی سرسبز وشاداب چوٹیاں دنیا بھر کے سیاحوں کے توجھات کو اپنی طرف مبذول کر رکھا ہے۔ سیاحوں کا آمد و رفت ملک کے اقتصاد میں بڑا اثر رکھتا ہے۔ گلگت بلتستان کی اتنی اھمیت کے باوجود پاکستان اب تک اس علاقے کو آئینی حقوق دینا تو دور کی بات کوئی خاص توجہ دینے سے بھی گریز کر رہا ہے اور اب تک یہ علاقہ متنازعہ علاقوں میں شامل ہے۔ گلگت بلتستان کا علاقہ پہاڑی علاقہ ہے وہاں کی اکثر زمینے بنجر ہیں عوام کی غربت اور ناداری ان بنجر زمینوں کو آباد کرنے کی اجازت نہیں دیتی جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا دریا دیائے سندھ گلگت بلتستان سے ھوتا ہوا پنجاب اور سندھ کو آباد کر رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں اکثر لوگوں کا گزارہ پنجاب سے آنے والے خورد و نوش کی چیزوں پر ہوتا ہے۔ اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب کی مدد امن اور سلامتی کے دنوں میں ہی کام آتی ہے مشکل اور کٹھن موقعوں پر کوئی کام نہیں آتی۔ راولپنڈی اسلام آباد سے گلگت تک کوئی 600 کلو میٹر کا راستہ ہے۔ یہ پورا راستہ کبھی فسادات اور کشت و کشتار کی وجہ سے مسدود ہو جاتا ہے تو کبھی قدرتی آفات کی وجہ سے بند ھو جاتا ہے۔ ابھی تک کتنی قیمتی جانے موت کی بازی حار چکی ہیں۔ کبھی مذھبی فسادات کے نام پر دھشتگردوں کی گولیوں اور پتھروں کا نظر ہوتے ہیں تو کبھی اکسیڈنٹ اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے اپنی زندگی کھو جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان اس راستے کی امنیت کو بحال کرنے میں ناکام ھو چکی ہے۔ حالیہ بارشیں گلگت بلتستان کے لئے رحمت نہیں زحمت اور عذاب بن چکی ہیں۔ کتنے دن اور کئی جگہوں پر روڈ بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو راستے میں جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مصیبت کو صرف وہیں احساس کر سکتا ہے جو اس مصیبت کا شکار ہوا ہو۔ نہ جانے اس سفر میں بچے، خواتین، بوڑھے، جوان مرد و عورت کو کتنی سختیان جھیلنی پڑی۔ راستے کی پریشانیاں ایک طرف اور گلگت بلتستان میں لوگوں کی مشکلات دوسری طرف۔ گلگت بلتستان کا علاقہ ھر طرف سے مشکلات کا شکار ہے۔ سیل کی وجہ سے گلگت بلتستان میں جو تباہی ہوئی ہے اس کا تصور بھی سخت ھے۔ لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ابھی تک کتنے دن بید گئے لیکن عوام بجلی اور پانی سے محروم ہیں بعض جگہوں میں ابھی تک پینے کا پانی فراھم نہیں ھو سکا ہے۔ لوگوں کے گھر، زمیں اور فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ گھروں کو چھوڑ کر غاروں میں پناہ لے چکے ہیں۔ اس قدرتی آفت کی وجہ سے اب تک کتنی جانے لقمہ اجل بن چکی ہیں۔ اس حساس علاقے میں حکومت کی خاموشی کے ساتھ امدارسانی کا سلسلہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ گلگت بلتستان تک تیل کی سپلائی بند ھوچکی ہے جس کی وجہ سے وہاں کا ٹرانسپورٹ سسٹم مکمل رک چکا ہے۔ اور دن بدن لوگوں کی زندگی سخت ہوتی جا رہی ہے۔ شھروں میں پہر بھی حکومت اور امداد رسانی کے ادارے کسی حد تک متحرک ہیں لیکن گلگت بلتستان کے لوگ اکثر دیہاتوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ گلگت اور آس پاس کے شھروں کی صورت حال قابل برداشت نہیں ہے تو وہاں کی دیہاتوں کا کیا حال ہوگا۔ بھت ساری دیہاتوں میں لوگوں کے پاس پینے کے لئے پانی نہیں ہے ان کی فصلیں تباہ اور مال مویشی آوارہ ہو گئے ہیں حراموش جو گلگت کا نواحی علاقہ ہے ابھی تک بجلی اور پانی کی فراھمی منقطع ہے۔ مٹھی کے تودے گرنے سے داسو نامی گاووں میں دو خواتیں جان بحق اور ایک شدت سے زخمی ہو چکی ہے۔ اس زبو حالی کے عالم میں لوگ میلوں دور سے صرف پینے کے لئے پانی بڑی مشکل سے فراھم کرتے ہیں۔ سپلائی کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو تین وقت کی روٹی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومت کے کانوں پر جووں تک نہیں رینگتی۔ گلگت بلتستان سے ھر وقت سوتیلی ماں والا سلوک کیا جا رہاہے۔ آخر کب تک یہ علاقہ اس حالت میں رہے گا۔ کیا کوئی ایسے وقت کی امید ہے کہ جس میں وہاں کے لوگوں پر فرج ہو جائے۔ اور لوگوں کو یقین ہو جائے کہ ہمارے سر پر ہاتھ رکھنے والا بھی کوئی ہے۔ ایسے میں 3ھم صرف شکوہ ہی کر سکتے ہیں کہ کاش مملکت خداداد پاکستان کے حکمران اپنے عوام کو اپنا سرمایہ اور اپنے ملک سے وفادار ہوں تاکہ پاکستان اپنی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کی بھی حفاظت کر سکے۔
تحریر۔۔۔۔عباس رضا