میرے بابا۔۔۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی فرزندِ شہید ،عباس فخرالدّین کے قلم سے

28 اکتوبر 2015

شہید منیٰ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین کے مختصر حالات زندگی
میرے بابا ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین ۲۲ نومبر 1971بمطابق ۴ ذالحجہ کو پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کے نواحی گاوں قمراہ کے ایک متدین خاندان میں پیدا ہوئے۔شہید کے والدین پہلے سے ہی۴ بیٹوں سے محروم ہوچکے تھے اور اب شہید ان کے اکلوتے بیٹے تھے۔ شہید کے والدین نے آپ کی تربیت کی خاطر بہت زیادہ  زحمات اور مشکلات برداشت کیں۔ شہید کی والدہ  یعنی ہماری دادی کہتی ہیں  کہ میں نے شہید کو دوران شیرخوارگی بغیر وضو دودھ نہیں پلایا تھا۔ شہید نے پانچ  سال کی عمر میں قرآن سیکھنا شروع کیا، قرآن سیکھنے کے علاوہ اسی عمر میں علوم اسلامی و معارف از جملہ احکام(توضیح المسائل) و عقائد کی کا بھی علم حاصل کیااور اسی طرح عقائد ابتدائی اپنے علاقے کے ایک معروف استاد اخوند احمد فلسفی سے سیکھے۔

دس سال کی عمر میں  پاقاعدہ پانچ وقت نماز پڑھنا شروع کی اور  دیگرمسائل دینی کو ذوق و شوق سے سیکھنا شروع کردیا ۔بچپن کے دوران بالغ ہونے سے تین ،چار سال قبل روز رکھنا چاہا،لیکن والدین اس راہ میں حائل ہوئے ۔ اسی عمر میں دروس اسلامی کے ساتھ ساتھ اسکول کی تعلیم بھی اپنے آبائی گاوں کے ایک اسکول سے شروع کی اور مدرسے میں اپنے استاد سے مختلف کتابیں جیسے بوستان  و گلستان سعدی۔۔۔ وغیرہ پڑھنا شروع کردیں۔

شہید کوبچپن سے ہی خطابت اور تقریر کا بہت شوق تھا۔ شہید کی والدہ کہتی ہیں کہ بچپن میں ان کا کھیل منبر و فن خطابت تھا اور دوستوں کو اپنے اردگرد جمع کرتے اور خود ایک کپڑے کو عمامہ بنا کر اپنے سر پر باندھ لیتے اورمصائب پڑھنا شروع کردیتےاور اسی طرح قرآن کی تلاوت سے بھی ان کو بچپن سے ہی محبت تھی۔

الحمدللہ !ان کی  آواز بھی بہت اچھی تھی اور بچپن میں ہی حلال و حرام کی تمیز کرتے تھے ۔نجس اور پاک چیزوں کے حوالے سے بھی بہت دقیق تھے ۔جب مڈل سکول میں جشن وغیرہ کی محافل ہوتی تو بہت شوق سے شرکت کرتے چنانچہ انہوں نے  اسی دوران فن خطابت بھی سیکھ لیااور اس دور میں بھی اپنے خطاب میں تاریخ اسلام کے مختلف پہلو لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے  تھے۔اسی طرح گھر کے اندر  بھی تمام خاندان کو جمع کرتے اور ان میں تاریخ اسلام پڑھتے تھے۔کالج کے دوران میں آپ علاقے کے مشہور خطیب کے نام سے جانے جاتے تھے اور امام بارگاہوں میں مجالس سے خطاب کرتے تھے ۔

محرم الحرام کے ایام میں مسلسل خطاب کرتے تھے اور اس دوران نماز شب بھی پڑھتے تھے بعد ازاں دروس اسلامی اور کالج کے دروس جاری رکھنے کے لئے آپ نے  اسکردو شہر کا رخ کیا ۔آپ  ہمیشہ کالج اور اسکول میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتے تھے ۔

مطالعہ کرنے  سے آپ کو خاص لگاوتھا،اکثر اوقات نہج البلاغہ ،حیات القلوب اور حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے ۔سیاسی کتابوں کے حوالے سے تحریرو  تحقیق  میں مصروف رہتےتھے ۔آپ انقلاب اسلامی ،حضرت امام خمینی ،رھبر معظم واستاد شہید مطہری سے متعلق دلی لگاو رکھتے تھے ،انقلاب اسلامی سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کرتے اور انقلاب اسلامی کو اپنے لئے اسوہ قرار دیتے تھے ،آپ اکثر اوقات بزرگ علماءاور اہل علم کے  حضرات کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے ،اسی وجہ سے سکول کے دوران سے ہی سکول اور کل بلتستان میں ”آخوند محمد “ کے نام سے معروف ہوئے۔

 اسی دوران کالج میں (آئی ایس او ۔۔امامیہ اسٹوڈٹنس آرگنائزیشن پاکستان ) جوکہ امامیہ طلبہ تنظیم ہے اس میں شہید نے اپنی فعالیتوں کا آغاز کیا۔شہید کے آئی ایس او میں فعالیت کرنے سے بہت سے لوگ مخالف تھے آپ نے ان سب کی پروا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا،اوراسی دوران آپ آئی ایس اوکے مسئول بھی بن گئے ،اور اسی وجہ سے آپ کو ان فعالیتوں کی بنیاد پر پر گرفتار کرلیا گیا اور سات دن جیل میں قید کرکے رکھا۔آپ نے جیل سے رہا ہوتے ہی فعالیتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور بلتستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔کالج کی پڑھائی ختم ہونے کے بعد آپ کی شادی اپنے استاد کی بیٹی سے قرار پائی 1990 - ۱۹۹۱ میں آئی ایس او پاکستان بلتستان ڈویژن کے صدر منتخب ہوگئے ۔

آپکے ساتھ کالج میں مختلف مکاتب فکر کے طلبا پڑھتے تھے، آپ ان سے مذاہب اور ادیان کے حوالے سے گفتگو کرتے ،اور دوستوں کے ساتھ اہل سنت کے مختلف علماءسے ملاقاتیں کیا کرتے تھے ۔

سال ۱۹۹۱ میں جب قائد بلتستان علامہ شیخ محمد علی الغروی کی قیادت میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیاتو آپ بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے اور بلتستان کے تمام لوگوں کو آگاہ کیا ،اس دوران آپ آئی ایس او بلتستان کے  بے مثل خطیب اور ڈویژنل صدر تھےاور اپنی فصیح و بلیغ  گفتگو سے لوگوں کو انتخابات کےبائیکاٹ کرنے کا اصلی ہدف سمجھاتے رہے۔

یونیورسٹی میں  ااپ نے علوم انسانی میں داخلہ لیا اور تعلیم جاری رکھی،پڑھائی کے دوران مختلف لوگوں کے ساتھ گروہی شکل میں مختلف شہروں کا دورہ کرتے تھے۔سیاسی فعالیتوں کو جاری رکھنے کی خاطر آپ نے موضوع کو تبدیل کر کے اقتصاد یعنی اکنامکس میں داخلہ لیااور اسی شعبے میں ”ایم اے“ کی ڈگری حاصل کی،اسی دوران ۳۲ سال کی عمر میں آپ کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی ۔”ایم اے “ کرنے کے بعد آپ نے مذہبی اور سیاسی فعالیتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور پچیس سال کی عمر میں علوم اسلامی و معارف اہلیبت ؑ سے دلی وابستگی کی بنیاد پر حوزہ علمیہ قم (ایران )کا رخ کیا۔

علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین  نے حوزہ  علمیہ میں آمد کے بعد بزرگ اساتید کے سامنے زانوتلمذ تہہ کئے اور متعدد علوم سے مستفید ہوئے از جملہ استاد ۔۔ حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی ،حضرت آیت اللہ وحید خراسانی ،آیت اللہ غلام عباس رئیسی اور حجة الاسلام و المسلمین سید حامد رضوی حفظ اللہ سے کسب علوم محمد و آل محمد کیا۔

شہید تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی اور سیاسی فعالیت بھی کرتے رہے ۔حوزہ علمیہ میں مختلف پروگراموں میں مختلف مناسبتوں کے عنوان سے لیکچرزدیاکرتے تھے اور مجالس پڑھا کرتے تھے اس کے ساتھ ساتھ مختلف تنظیموں  اوراداروں کی سرپرستی  بھی کیاکرتے تھے اور ایک بہترین جامع مجلہ بنام ” بصیرت “ آپ کی زیر سرپرستی میں شائع ہوتا تھا۔

کالج کے دور میں جب تحریک جعفریہ عروج پر تھی تو اس وقت آپ تحریک جعفریہ بلتستان کے سیکرٹری جنرل ،اور امام جمعہ شیخ حسن جعفری کے خزانچی تھے اور جب سے مجلس وحدت بنی تب سے آخر عمر تک مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما اور پچھلے دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کے سیکرٹری جنرل تھے ۔

شہید اپنے اہلِ خانہ کے درمیان

انسان کے حقیقی اخلاق کا پتہ اس کے اہلِ خانہ سے چلتاہے۔ ہمارےوالدمحترم ہمیشہ گھر میں ہمارے ساتھ بہت محبت کے ساتھ پیش آتے تھے ۔ حتیٰ کہ سب سے چھوٹے بچے کے ساتھ بھی آپ کھیلتے تھے ،اور ہمارے ساتھ ہنسی  مذاق کیا کرتے تھے اور اگر ہم میں سے کسی سے غلطی ہوجاتی تو نہایت ملائم انداز میں تھوڑا بہت خفگی کا اظہار کرتے تھے اور جلدہی  یہ نارضگی ختم ہوجاتی تھی اور اگر کبھی ہم میں سے کوئی  ناراض ہوجائے تو فوراً مذاق کرکے ہمیں منا لیتے تھے ۔

اکثر اوقات گھر میں مہمانوں کا آنا جانا رہتا تھا، بابا شہید  بڑے جوش اور خوش اخلاقی سے مہمانوں کی پذیرائی کرتے تھے ۔ہمیں یاد ہے کبھی بھی دوسروں کے سامنے ہمیں نہیں ڈانٹا ۔۔اگر ہم کسی مہمان کے ہوتے ہوئے اشتباہ کرتے تو مہمانوں کے جاتے ہی ہمیں ہمارے اشتباہات کی طرف اشارہ کرتے اور ہم متوجہ ہوجاتے تھے ۔

بابا شہید اپنی ان گنت مصروفیات کے باوجود  بہت ہی ہنس مکھ تھے۔ گھر کے اندر  فُل ٹائم قاری قرآن تھے ،بعض اوقات ہمیں شوق دلانے کی  خاطر قرآن مجید کی  تلاوت کرتے تھے اور ہم بھی بہت شوق سے سنتے تھے ۔بابا شہید مداح ِ اہل بیتؑ بھی تھے اور مختلف مناسبتوں کے حوالے سے گھر میں قصیدے اور منقبت  وغیرہ پڑھتے تھے ۔

شہید بابا اپنے والدین کے حوالے سے  بھی بہت احترام کے قائل تھے ،اپنی والدہ محترمہ سے ایک پل بھی جدا ہونے کے لئے آمادہ نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ  خود جب بھی تبلیغ کے لئے پاکستان جاتے اپنی والدہ کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔وہ اپنی  والدہ کی خوشی اور ناراضگی کا حد سے زیادہ  خیال رکھتے تھے ۔اسی طرح ہمارے بابا شہید ہماری والدہ  گرامی یعنی اپنی ہمسرکے  ساتھ بھی ایک مہربان دوست کی رح نرمی اور شفقت سے پیش آتے تھے،المختصر یہ کہ بابا کی موجودگی میں ہمارے گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔

 شہید کی نصیحتیں :

بابا شہید ہمیشہ تحصیل علم میں موفقیت کی خاطر کوشش محنت ۔۔ کرنے کی تلقین کرتے اور ہمیشہ اہداف و مقاصد کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتے ۔ٹائم پہ نماز پڑھنے کے حوالے سے بہت ہی حساس تھے اور ہمیں وقت پر نماز پڑھنے کے لئے تشویق دلاتے ،حلال و حرام کے معاملے میں بھی بہت حساس تھے ۔ہمیشہ کہتے تھے کہ دنیا میں کس حد تک مال و ثروت ہونی چائیے اورکس طرح کیسے زندگی کزاری جائے، مہم یہ نہیں ہے کہ ہم دینا میں مال ثروت جمع کریں ،بلکہ مہم یہ ہے کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے آخرت کے لئے کتنا اور کیا جمع کیاہے ۔

ہم ہمیشہ کہتے تھے کہ بابا ہمیں شہادت کا بہت شوق ہے، تو بابا کہتے تھے کہ شہادت آسانی کے ساتھ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اس کے لئے بھی شرائط اور لیاقت چاہیے ۔بابا شہید کہتے تھے کہ میرے نزدیک ایک مبلغ شائستہ وہ نہیں کہ اپنی پوری زندگی فقط دروس وغیرہ میں صرف کرے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ  تبلیغ بھی مہم ہے۔

بابا شہید کہتے تھے کہ انسان جب اس دنیا سے ناگہان طور پر چلا جاتا ہے تو یہ مہم ہے کہ کیسے جاتا ہے اور کیا سعادت ہے کہ کوئی اس دنیا سے شہادت کی صورت مرجائے ۔شہید پدر ہمیشہ تواضع اور فروتنی کے ساتھ نصیحت کرتے تھے کہ غرور و تکبر وہ خطا ہے جسکی وجہ سے شیطان کو درگاہ خداوندی سے نکالا گیا،کہاکرتے تھےکہ انسان کی زندگی کا سرمایہ معرفت خدا  اور شناخت ہستی ہے ،اگر انسان کو معرفت خدا حاصل ہوجائے وہ اپنے لئے راہ ڈھونڈنکالتا ہے ،کہتے تھے اگر موت اور قیامت سے ڈرتے ہو تو اپنے اعمال کی فوراً تصحیح کرو ،بابا شہید کہتے تھے موت ہر انسان کا حق ہے جس سے دستبرداری ممکن نہیں ۔وہ  ہمیں ہمیشہ مذہبی  و دینی محافل میں شرکت کے لئے نصیحت کرتے اور وعظ و نصیحت سننے حتیٰ ٹیلی ویژن کے ذریعے سے سننے کی تلقین کرتے ،اکثرہمارے ساتھ ولایت فقیہ کی اہمیت کے حوالے سے بات کرتے اور ہمیشہ ولایت فقیہ کی پیروی کرنے کی  نصیحت کرتے ۔آپ جمعے کی نماز میں شرکت کے حوالے سے بہت پابند تھے ۔

آپ نے انتہائی سادہ زندگی گزاری اور ہمیں بھی ہمیشہ سادگی کی نصیحت کی ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ایک دفعہ گھر کے لئے ہم نے صوفے  خریدے  تو بابا اتنے اداس ہوگئے کہ  ہم نے خود ہی  صوفے گھر سے اٹھوا دئیے۔

 بابا شہید ہمیشہ فرماتے تھے کہ  اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہت ہو تو نماز شب پڑھا کرو،آپ خود  بھی تمام مستحبات انجام دیتے تھے ، حتّیٰ کہ  نیند کے اوقات کے مستحبّات بھی انجام دے کرسوتے تھے ۔

شہید کی اپنے اہلِ خانہ کو آخری نصیحت:

اس سال حج کے ایّام نزدیک اانے لگے تو ہمارے گھر والوں نے  متعدد موقعوں پر بابا سے  کہا کہ اس سال سعودی عرب  کے حالات مناسب نہیں  ہیں،اگر ہو سکے تو آپ نہ جائیں ۔۔بابا  نے کہا  ہر دفعہ نہایت اطمینان سے یہی جواب دیا کہ انسان ہر وقت موت کا منتظر ہے ،میں کیسے موت کے تبلیغِ دین کے فریضے کو چھوڑ کر موت کے ڈر سے گھر میں چھپ کر بیٹھ جاوں۔

بابا شہید نے اس مرتبہ  پاکستان جانے سے پہلے امّی کو کچھ نصیحتیں کیں ،تمام چیزیں امّی کی سپرد کیں  اور امّی سے کہا کہ بچوں کے ساتھ مہربانی کے ساتھ پیش آنا اور ہم سب کو دل لگاکر پڑھنے کی نصیحت کی۔

؎            پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

 

 

بشکریہ:۔ ابراہیم بلتی

پیشکش :۔ مجلس وحدت مسلمین قم میڈیا سیل



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree