ایک فلسطین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں بھی ہے

09 مارچ 2016

وحدت نیوز (آرٹیکل) فلسطین مظلومیت اور استقامت کی علامت ہے۔فلسطین کی طرح ایک مظلوم منطقہ پاکستان میں بھی ہے۔ گلگت  و بلتستان کا شمار جہاں ملک کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے  وہیں بدقسمت ترین مناطق میں بھی ہوتا ہے۔ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے اور بلندترین انسانی بستیوں کی تہذیب و تمدن سے آشنا ہونے کیلئے ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاح اس علاقے کا رخ کرتے  ہیں۔

 گلگت بلتستان بلند و بالا پہاڑوں ، سرسبزو شاداب وادیوں اور صاف شفاف پانی کے ندی نالوں، جھیلوں اور آبشاروں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے انتہائی پر کشش خطہ ہے۔ اسکردو کے سرد صحرا اور جھیلیں، استور کے سرسبز پہاڑ اور دیوسائی کا پھولوں سے بھرا وسیع ترین میدان کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کیلئے سہولیات نہ ہونےکے باوجود سیاح جوق در جوق یہاں آتے ہیں۔ گلگت بلتستان صرف اپنے برف پوش پہاڑوں، وادیوں اور خوبصورت جھیلوں کی ہی وجہ سے پر کشش نہیں ہے بلکہ بلندترین انسانی تہذیب و تمدن اور ثقافتی تہواروں کی وجہ سے بھی دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے کشش رکھتا ہے۔ ان پہاڑی بستیوں میں بسنے والے انسان صدیوں پرانی تہذیب کے امین ہے۔
 
یہاں کی آبادی 20  لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں کے اکثر لوگ دیہاتوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ جس طرح  یہ خطہ قدرتی طور پر صاف و شفاف ہے آلودگی یہاں پر نہ ہونے کے برابر ہے اسی طرح اس جنت نظیر خطے میں رہنے والے لوگ بھی کردار کے غازی، دل کے صاف و شفاف، محب وطن، مہمان نواز اور اپنے دین و مذہب سے بے حد پیار کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ بلند و بالا، آسمان کو چھونے والے برف پوش پہاڑوں کے درمیان قدرت کی بنائی ہوئی خوبصورت اور سرسبز وادیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کے لوگ محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ محب علم ہیں۔ خطے میں سکول کالجز نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کسی دیہات میں سکول ہے بھی تو وہ بھی پرائمری اور بعض دیہاتوں میں تو سرے سے سکول ہی نہیں چونکہ یہاں کے لوگ تعلیم سے محبت کرتے ہیں اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح سکول بھیج دیتے ہیں۔ یا تو بچے کو روزانہ ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے پیدل چل کر سکول جانا ہوتا ہے یا پھر سکول والے دیہات میں اگر کوئی رشتہ دار ہے تو اس کے ہاں تعلیم کی خاطر رہنا پڑتا ہے۔ جسکی وجہ سے بچے کو بہت ہی چھوٹی عمر میں اپنے والدین سے جدا ہونا پڑتا ہے۔
 
پچھلے 68 سالوں سے اس خطے کے عوام ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ جسکی وجہ سے یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ تعلیم یافتہ بلکہ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود زمینداری اور کشاورزی کرنے پر مجبور ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان پہاڑی علاقہ ہے یہاں پر کاشت کرنے کےلیے ہموار زمینیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہموار میدان موجود ہیں  بھی تو حکومتی اداروں کی عدم توجہ کی وجہ سے بنجر ہیں اور اگر عوام اپنی مدد آپ کے تحت ان کو آباد کرنا چاہیے تو حکومت کوئی نہ کو ایشو بنا کر اس پہ ناجائز قبضہ کر لیتی ہے جسکی زندہ مثال حراموش مقپون داس اور تھک داس دیامر ہیں۔ رات کی تاریکی میں پولیس، رینجرز اور فوج کا گلگت سکردو روڈ سیل کراکے حراموش مقپون داس میں پوری تیاری کے ساتھ آنا اور بلڈوزروں کے ذریعے مکانوں کو بڑی بے رحمی سے مسمار کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔ بلڈوزروں سے مکانات کو تباہ و برباد کر نا یہ تو اسرائیلی فوج کا سٹائل ہے جو کہ وہ فلسطین میں کئی سالوں سے کرتا آرہا ہے۔ اسرائیل تو ایک یہودی اسٹیٹ ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے وہ تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ملک خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان جسکی بنیاد لا الہ الا الله، محمد الرسول الله ہے،  اس کے اندر اپنے ہی لوگوں کے مکانات کو تباہ و برباد کروانا یہ نہ فقط اسلامی اقدار کے خلاف ہے بلکہ انسانی اقدار کے خلاف ہے۔ اور قابل ذکر بات یہاں پر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلمان ریاستی فورسز نے مسجد جوکہ خدا گھر اور قرآن کریم جو اللہ کی کتاب ہے غیر مسلم بھی ان کا احترام کرتا ہے، ان کی حرمت کا خیال نہیں رکھا اور گھروں سمیت مسجد کو بھی شھید کر دیا اور  گھروں سے قرآن مجید گھروں کو تباہ کرنے سے پہلے نہیں اٹھایا اور ابھی تک قرآن مجید گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
 
گلگت بلتستان کے اخبارات میں صوبائی وزیر اطلاعات کا یہ بیان کہ گلگت بلتستان کی انتظامیہ اور خاص طور پر وزیر اعلٰی حفیظ الرحمن صاحب کو پتہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی گھروں کو تباہ کیا گیا ہے بہت مضحکہ خیز ہے۔ جناب وزیر اطلاعات جھوٹ بولنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اگر وزیر اعلٰی حفیظ الرحمن صاحب کو پتہ نہیں ہے تو  پھر پولیس، رینجرز اور  آرمی کس کے حکم پر وہاں آئی ہوئی تھی۔ اور یہ کہنا کہ گھروں کو تباہ نہیں کیا گیا، بہت عجیب ہے۔ زیادہ دیر سفید جھوٹ نہیں چھپتا اب تو سب کچھ واضح ہو چکا ہے مزید جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔ مقپون داس میں تباہ شدہ 120گھروں اور مسجد کے کھنڈرات اور ملبے تلے دبے ہوئے قرآن مجید چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ نواز حکومت کروا رہی ہے۔
 
 حراموش  کے غیرت مند لوگوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں جن کے حوصلے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پست نہیں ہوئے ۔ان پر پتھر برسائے گئے، ان پر گولیاں چلائی گئیں ،ان پر پولیس لاٹھی چارج ہوا، ان کے گھر تباہ و برباد کر دیے گئے ان پر دہشت گردی کی دفعہ لگا کر جیل بھیج دیا گیا۔ تین دن سے بچوں اور خواتین سمیت حکومتی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف دھرنا دے کر اس سردی کے موسم میں روڈ پر بیٹھے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومت کوئی نوٹس لے! الٹا بیانات دے رہے ہیں کہ انتظامیہ کو پتہ نہیں ہے اور کوئی گھر تباہ نہیں کئے گئے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوگ اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں گے ،تھک جائیں گے، ڈر جائیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ نہ یہ کسی سے ڈرتے ہیں،نہ یہ لوگ تھک جائیں گے اور نہ ہی یہ لوگ کسی صورت میں اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں گے چونکہ یہ لوگ جانتے ہیں۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اور خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاشق حسین آئی آر



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree