آغاجان۔۔۔آپ ایسے ہی تھے

21 اکتوبر 2015

وحدت نیوز (آرٹیکل) موت ایک ایسا موعظہ ہے جو کبھی پرانانہیں ہوتا۔ دنیا کی محبت کو کم کرنے اور مٹانے کا ایک بہترین طریقہ موت کو یاد کرناہے،مرنے والا جتنا عظیم ،آفاقی اور پاکیزہ نفس ہوتاہے،اس کی موت اسی قدر شدّت سے دلوں کی تطہیر کرتی ہے۔ کسی کی موت پر صرف اس کے گھر اور محلّے والے اشک بہاتے ہیں اور کسی کی موت سے پورے عالم میں ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے۔حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین گزشتہ دنوں جب  کربلاسے واپس  ایران آئے  اور پھر پاکستان جانے لگے تو ہمارے اصرار پر انہوں نے  ہماری دعوت قبول کی اور پاکستان جانے سے صرف ایک دن پہلےہم  چند دوست  ان کے اردگرد بیٹھ گئے۔

ہماری  جو آخری نشست ان کے ساتھ ہوئی اس میں انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی کہ ایک طالب علم کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کیا پڑھے اور کس سے پڑھے۔یعنی اپنے نصاب اور استاد کاانتخاب سوچ سمجھ کرکرے۔ان کا کہنا تھا کہ تبدیلی کی ضرورت صرف نصاب میں نہیں ہے بلکہ استاد میں بھی ہے۔ یعنی پورے نظامِ تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ہمارے درسی متون میں بہت ساری چیزوں کے حذف و اضافے کی بات کی اور باتوں باتوں میں سوال و جواب کا سلسلہ چل نکلا۔

ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ ہماری آخری ملاقات تھی،البتہ آغاصاحب نے جاتے جاتے ہمیں یہ پیغام دیدیاتھا کہ حقیقی طالب علم بنو!

ان کے ایک قریبی دوست حجۃ الاسلام والمسلمین آقای تقی شیرازی کے بقول  قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ کے بعدقم المقدس ایران میں اچھے اور نظریاتی دوستوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے سلسلے میں جتنی بھی کاوشیں ہوئیں ان کے اصلی محرّک حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین تھے اور انہی کی فکر بعد میں ایم ڈبلیو ایم پاکستان کی صورت میں مجسّم ہوکر سامنے آئی۔

یہ حسنِ اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ روز ایم ڈبلیو ایم قم کے قائم مقام سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام گلزار احمد جعفری  کے ہمراہ مجھے

حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی[1]  سے ملاقات کا موقع ملا ۔

حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی  ان کے ستاد ہیں،ان کا کہنا تھا کہ انہیں دس سالوں سے زیادہ کا عرصہ ہوگیاہے کہ وہ  حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین کو قریب سے جانتے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر حجّۃ الاسلام ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین کی کچھ خصوصیات کا ذکر کیا ،جو اس وقت نذر قارئین ہیں:

۱۔تعلیمی سرگرمیوں میں صفِ اوّل میں شمار ہوتے تھے

ان کے استادِ بزرگوار کاکہنا تھا کہ وہ اپنی پڑھائی میں ہمیشہ آگے آگے رہے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے فرصت یامہلت مانگی ہو۔اس لحاظ سے وہ دوسروں کے لئے نمونہ عمل تھے۔

۲۔حقیقی مبلغِ اسلام تھے۔

ان کے استاد گرامی کے بقول وہ تبلیغ ِاسلام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر محنت کرتے تھے اور ہزاروں مبلغین کے درمیان ممتاز تھے۔

۳۔ترجمہ وتالیف

وہ ترجمے اور تالیف کے کاموں کو بھی عین عباد ت اور اوّلین فریضہ سمجھ کرخلوص کے ساتھ انجام دیتے تھے۔

۴۔ادب و احترام

ادب و احترام ان کی  ایک ایسی صفت ہے جس کا اعتراف شہید کے تمام جاننے والوں اور استادوں نے کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی   نے  بھی کہا کہ جیسے جیسے ان کے علمی مدارج طے ہوتے گئے وہ اخلاقی طور پر بھی نکھرتے چلے گئے۔

۵۔ظاہری آراستگی اور خوبصورتی

انہوں نے کہا کہ شہید انتہائی منظم اور لطیف مزاج تھے۔چانچہ ظاہری طور پر بھی ہمیشہ خوبصورت لباس زیبِ تن کرتے اور بن سنور کررہتے۔

۶۔نیک ا ولاد کی تربیّت

بہت سارے لوگ اپنی ذات تک محدود رہتے ہیں اور یا پھر اجتماعی کاموں میں اپنی اولاد کی تربیّت سے غافل ہوجاتے ہیں۔لیکن شہید نے نیک اور بہترین اولاد کی تربیّت کی ہے۔

۷۔عطیہ خداوندی

ان کے استادِ بزرگوار کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ آلِ سعود کے ظلم کا نشانہ بنے ہیں اور ہمیں اس بات پر افسوس ہے لیکن وہ روئے زمین پر سب سے مقدس مقام مِنیٰ میں مقدس ترین لباس میں اور مقدس ترین دن شہید ہوئے ہیں،جس سے پتہ چلتاہے کہ وہ اللہ کے خالص بندوں اور اولیائے الٰہی میں سے ہیں۔

آخر میں، میں بھی بس اتنا  ہی کہوں گا کہ جس شخص کا مقام اپنے استادوں کی نگاہ میں اتنا بلند ہو کہ استاد اس پر رشک کریں،جو اپنے دوستوں کے درمیان اتنا محبوب ہو کہ دوست اس پر فخر کریں،جو اپنے شاگردوں کے اتنے قریب ہو کہ شاگر داسے اپنا روحانی باپ سمجھیں۔۔۔اور سب سے بڑھ کر جواسلامِ حقیقی اور ولایتِ فقیہ کا حقیقی مبلّغ ہو اس کے راستے  کو علمی و عملی طور پر آگے بڑھانا ،اس کے چھوٹ جانے والے کاموں کو مکمل کرنا ہر اس شخص پر لازم ہے ،جو موت کو اپنے لئے ایک موعظہ سمجھتاہے اور جسے یقین ہے کہ  زندگی ایک مختصر سی فرصت ہے۔

آقا فخرالدّین واقعتا ایسے ہی تھے،انہوں نے زندگی کے لمحات سے صحیح فائدہ اٹھا یا اور جولوگ زندگی کے لمحات کو صحیح استعمال کرتے ہیں،استاد ان پررشک کرتے ہیں،دوست ان پر فخر کرتے ہیں اور زمانہ ان کااحترام کرتاہے۔


[1] حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی،ایران کی ایک نامی گرامی علمی شخصیت ہیں اور ان دنوں قم المقدس میں مدرسہ عالی امام خمینی میں مدرسہ عالی  قرآن و حدیث  ،دانشگاہِ مجازی المصطفیٰؑ  سمیت  متعدد تعلیمی  و تحقیقی اداروں کی سرپرستی کررہے ہیں۔


تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree