وحدت نیوز (انٹرویو)علامہ راجہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے چوتھی مرتبہ بھاری اکثریت سے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے ہیں۔ راولپنڈی سے تعلق ہے۔حوزہ علمیہ قم المقدس ایران سے دینی علوم حاصل کرنے کے بعد پاکستان تشریف لائے اورملک وملت کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ اس دوران ملت جعفریہ میں لیڈرشپ کے بحران پرعلمائے کرام اور عمائدین ملت کے مطالبے پر مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے وہ مسلسل نبھا رہے ہیں۔ ملت جعفریہ پاکستان کو سیاسی شعور دینے میں بھی علامہ ناصر عباس جعفری کا کردار نمایاں ہے۔ شیعہ سنی یونٹی کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اتحاد امت کے داعی ہیں۔ تکفیریت اور دہشتگردی کیخلاف طویل جدوجہد کی ہے۔ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارےنے ان سے موجودہ ملکی حالات پر تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔
سوال: شاہ محمود قریشی کی وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران سے پہلے کی پریس کانفرنس اور الزامات کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصرعباس جعفری: شاہ محمود کی وزیراعظم کے دورہ ایران سے دو دن پہلے کی پریس کانفرنس انتہائی نامناسب تھی، اگر پاکستان کے کچھ تحفظات تھے بھی تو عمران خان وہاں جا کر بات کرسکتے تھے اور گفتگو ہوسکتی تھی، یہ ایک قسم کی اپنے ہی وزیراعظم کی پشت میں خنجر گھوبنے والی بات ہے اور اسکا کچھ فائدہ بھی نہیں، پاکستان کے قومی مفاد کو سویلین نقصان پہنچا رہے ہیں، یہ وہ لائن ہے جسکا فائدہ پاکستان کی دشمن قوتوں کو ہوگا اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایسا کچھ ہو، تاکہ پاکستان کے اپنے ہمسائے ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شاہ محمود قریشی پاکستان کی لائن نہیں لے رہے بلکہ انکی لائن لے رہے ہیں، جو ہمیں آگاہانہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ شاہ محمود قریشی صاحب کس کا وزیر خارجہ ہے؟ اور کس کی زبان بول رہا ہے، کس کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے اور جب عمران خان ایران جا رہے ہیں تو یہ جاپان چلا گیا، اس اہم دورے کے موقع پر کہیں جانا پاکستان کو نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ ان لوگوں نے پاکستان کی خدمت نہیں کی۔
سوال: عمران خان کے دورہ ایران کو ان الزامات کے بعد کیسا دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصرعباس جعفری: عمران خان کا یہ دورہ ایران اسٹریٹیجک لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے، جب امریکا کی طرف سے جمہوری اسلامی کو الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور اسے دہشتگرد قرار دیا جا رہا تھا، ان حالات میں عمران خان کا پاکستان سے ایران جانا بہت اہمیت کا حامل ہے، یقیناً آل سعود اور امریکا اس سے خوش نہیں ہیں، یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، پاکستان کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، عمران خان کے دورے کو نقصان پہنچانا درحقیقت پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے، پاکستان کو دہشتگرد قرار دینے کیلئے مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں۔
سوال: کابینہ کی تبدیلی کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان اقتصادی لحاظ سے مشکل صورتحال میں پھنسا ہوا ہے، 98 ارب ڈالر کا قرضہ چڑھا ہوا ہے، ادائیگیوں اور خسارے میں فرق بہت زیادہ ہے، ان مشکل حالات میں اسد عمر صاحب کو وزیر خزانہ لگایا گیا، جب بہت مشکل صورتحال تھی، وہ کوشش کرتا رہا تھا کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے ملک کو بچایا جا سکے، میرے خیال میں جو راستہ اپنایا گیا اور جس طرح سے پاکستان کو ایک خاص سمت میں دھکیلا گیا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی مشکلات حل کرانے کی کوشش کی گئی، جو اس ریجن میں امریکی کاز کو سپورٹ کرتے ہیں اور انکی طرف لے جایا گیا، اس کے نتیجے میں پاکستان کی مشکلات ناصرف بڑھیں بلکہ اہمیت بھی کم ہوئی اور پاکستان آئی ایم کے چنگل میں پھنستا چلا گیا۔
میرے خیال میں اسد عمر مزاحمت کر رہا تھا اور کوشش کر رہا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے بچیں، لیکن وہ شائد مختلف قوتوں کو قابل قبول نہیں تھا، جس کے نتیجے میں اسے ہٹنا پڑا، آپ جانتے ہیں کہ عالمی بینک میں کام کرنے والے پاکستانی کو جب اسٹیٹ بینک یا وزرات خزانہ میں ذمہ داری دی جاتی ہے تو وہ پاکستان سے زیادہ ان (آئی ایم ایف) کے مقاصد کو اہمیت دیتا ہے، یہ لوگ پہلے بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور کام کرتے رہے ہیں، یہ اقتصادی حالت گذشتہ پالیسیوں کا نتیجہ ہی تو ہے۔ میرے خیال میں پاکستان اقتصادی دباو میں آکر ایسے فیصلے کر رہا ہے اور ایسے فیصلے کئے جا رہے ہیں یا کرائے جا رہے ہیں، جن کا پاکستان کو فائدہ نہیں ہوگا۔
سوال: بلوچستان میں پیش آنیوالے دہشتگردی کے حالیہ واقعات پر کیا کہتے ہیں۔ آپ خود بھی کوئٹہ گئے تھے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: آپ جانتے ہیں کہ جب سے پارلیمنٹ میں وزیراعظم نے اعلان کیا کہ میں ایران جاوں گا تو اس کے بعد کوئٹہ شہر کے اندر دہشتگردی کی کارروائی کا ہو جانا اور وہ بھی اہل تشیع جو ہزارہ ہیں انکے خلاف ہوئی، یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے، ہزار گنجی میں اس وقت دھماکہ ہوا، جب اکثر لوگ بس میں ہی سوار تھے، اگر وہ اترے ہوتے تو بہت بڑا نقصان ہونا تھا۔ جو لوگ ہزارہ ٹاون سے سبزی منڈی جاتے ہیں، یہ کانوائے کی شکل میں جاتے ہیں۔ اس کارروائی کا مقصد بھی پاک ایران تعلقات کو خراب کرنا تھا، بعض قوتیں چاہتی تھیں کہ عمران خان کا دورہ ایران نہ ہو۔ امید ہے کہ دورہ ایران کے بعد عمران خان پر واضح ہوگیا ہوگا کہ ایرانی لیڈر شپ کتنا پاکستان سے پیار کرتی ہے۔ آقا خامنہ ای سے ملاقات میں ان کو شعور ملا ہوگا، کیوںکہ ہمارے رہبر شعور بانٹتے ہیں۔ عالمی طاقتیں اس خطے کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔
سوال: لاپتہ افراد کا تاحال مسئلہ برقرار ہے، انکی رہائی کیلئے کیا اقدامات ہو رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں، ویسے بہت بڑی تعداد لوگوں کی چھوڑ دی گئی ہے اور کچھ ابھی رہ گئے ہیں، یہ جو کراچی میں حالیہ واقعہ ہوا اور اسی کو بہانہ بنا کر بہت سے لوگوں کو اٹھایا گیا ہے، یہ پاکستان میں ایک عجیب سا سلسلہ چل رہا ہے، راولپنڈی کا واقعہ ہوا تو اس فتنے کو بہانہ بناکر یہ ہمارے گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے رہے، دشمنی کی اور بے گناہ جوانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، ان پر تشدد کیا گیا، اب جاکر ثابت ہوا کہ یہ مکمل طور پر پاکستان کے دشمنوں کی کارروائی تھی، جو لوگ استعمال ہوئے انہی کے اپنے تھے، مسجد میں آگ لگانے والے اور قتل کرنے والے بھی ان کے اپنے ہی تھے۔ پاکستان میں شیعہ سنی مسائل پیدا کرکے دوریاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، جس میں یہ لوگ ناکام ہوگئے ہیں، اسی طرح سے کراچی میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔
ایک واقعہ ہوتا ہے، اسکے بعد یہ شیعوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، نوجوانوں کو اٹھا لیتے ہیں، اغوا اور غائب کر دیتے ہیں۔ ان کے اقدامات کا واحد مقصد ہے کہ دنیا پر واضح کیا جائے کہ اہل تشیع بھی دہشتگرد ہیں۔ تکفیر کے فتوے انہوں نے دیئے، قتل و قتال انہوں نے کیا، لشکر انہوں نے بنائے۔ پھر انہی لشکروں کو خود ہی مارا۔ پھر خود سکیورٹی اداروں کو کافر کہا گیا اور تکفیر کی گئی۔ کراچی میں جاری کارروائیوں اور عزداری سید الشہداء کے خلاف سازشوں کو روکنا ہوگا، آنے والے دنوں میں ایک اہم پریس کانفرنس کرنے جا رہا ہوں۔ اس پر ہم آواز اٹھائیں گے، ہمارے علماء کو شیڈول فور میں ڈالا جا رہا ہے، بےجا پابندی لگائی جا رہی ہیں۔ یہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔؟ اس وقت مسنگ پرسنز میں بیس سے پچیس لوگ رہ گئے ہیں، ہم ان کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ یہ ہمارا فریضہ ہے اور ذمہ داری بھی۔ قانون شکنی کسی صورت قبول نہیں، کسی نے کوئی ملکی قانون توڑا ہے تو اسے عدالت میں پیش کریں۔
سوال: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ان مشکلات سے نمٹنے کیلئے اتحاد بین المومنین وقت کی اشدت ضرورت ہے، مزید کیا اقدامات ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں، مجلس وحدت مسلمین جب سے وجود میں آئی ہے، اس نے الحمداللہ داخلی طور پر کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ مومنین کے اختلافات کو ہوا ملی ہو یا تقسیم ہوئے ہوں، اپنے شیعوں کے تمام طبقات سے اچھے تعلقات ہیں، چاہیے علماء ہوں یا غیر علماء یا خود بانیان مجالس اور ذاکرین عظام سب سے بہترین تعلقات ہیں۔ ہماری اب تک یہی کوشش رہی ہے کہ ان سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں۔ اس کے علاوہ بزرگ علماء سے ملتے رہے ہیں، کم از کم پہلا مرحلہ یہ تھا کہ اختلافات میں شدت پیدا نہ ہو اور اس کو روکا جائے، الحمد اللہ تمام بزرگان سے ملتے رہے ہیں اور ملتے بھی رہیں گے۔ اتفاق و اتحاد کے حوالے سے باقاعدہ ان سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔ اس نقطے پر بھی بات ہوتی ہے کہ ملی مشترکات جیسے، عزاداری، مسنگ پرنسز، تکفیر جیسے مسائل ہیں، ان سے ملکر نمٹا جائے۔ اسی طرح شہیدوں کے قاتلوں کو سزا دلوانا، دہشتگردی جیسے مسائل پر مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔