وحدت نیوز (آرٹیکل) ویژنری شخصیات کا اکھٹ دھرنوں سے لیکر سیاست تک نئے پاکستان کے نعرے اور عزم کے ساتھ کامیابی ہونے والی جماعت پی ٹی آئی وزارت عظمی کے لئے نامزد امیدوار عمران خان سے ملاقات کے لئےامریکہ کے علاوہ بہت سے قابل الذکرممالک کے سفیر وں نے ملاقات کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔بات صرف سفیر کی نہیں بلکہ اس وقت امریکی اسٹیٹ ڈیپارنمنٹ کا رویہ بھی روکھا سا ہے تو عالمی بینک سے پاکستان کے لئے ممکنہ قرضے کو لیکر پہلے سے ہی امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پیمپیو نے تحفظات دیکھانے شروع کردیے ہیں ۔بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ کی عمران خان یا پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی ذاتی مخاصمت تو نہیں ہے جو کچھ ہے وہ اس خطے کے بارے میں امریکی نئی پالیسی اور پاکستان بعنوان ریاست کے اس پالیسی کواپنے قومی مفاد کے خلاف سمجھنا ہے ۔لیکن گذشتہ دو جماعتوں کے بارے میں اس بات کا امکان موجود تھا کہ وہ کسی نہ کسی لیول پر امریکہ کے ساتھ کمپرومائز کرسکتیں تھیں جو اب ختم ہوچکا ہے ۔عمران خان کاسلوگن پاکستان کا استحکام اور بیرونی مداخلتوں کو قبول نہ کرنا ہے جسے وہ نیا پاکستان کے نام دے دہا ہے یقینا یہ نیا پاکستان کسی بھی اعتبار سے خطے اور خاص کر افغانستان و پاکستان کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کے بالکل مد مقابل کھڑا ہے ۔
کہا جاسکتا ہے کہ خان کی نوخیز حکومت امریکہ کے ساتھ بچ بچاو کی پالیسی کو ترجیح دے گی نہ تو وہ مزید خلش پیدا کرنا چاہے گی اور نہ ہی امریکہ کے قریب جانا چاہے گی کیونکہ دونوں صورتوں میں نئے پاکستان کی تشکیل کا بنیادی ہدف متاثر ہوسکتا ہے ۔عمران خان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ بہت سی قیادتی خامیوں کے باوجود وہ ایک ویژنری لیڈر ہیں اور اپنے مقصد کا پچھا کرنے کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں گرچہ ان میں افراد شناسی کو لیکر بڑی خامیاں پائی جاتیں ہیں جس کا تجربہ شائد وہ اپنی نجی زندگی میں بھی کرچکے ہیں ۔خان کے ساتھ پارلیمان سے ہٹ کر دو اور دینی ایسی قیادتیں موجود رہی ہیں جو بہت سے ایشوزمیں ان کی اچھی اتحادی شمار ہوتی ہیں اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ یہ دونوں قیادتیں ملک کے مستقبل کے بارے میں ایک ویژن رکھتی ہیں ۔علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری دو الگ مسلکوں سے تعلق رکھنے والی وہ شخصیات ہیںجو خاص مسلک کی نمایندگی رکھنے کے باوجودان کا ویژن وسیع اور ہمہ گیر ہے ۔
ان شخصیات کو دھرنے کے دوران بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جو عمران خان کے ساتھ کھڑ ی تھیں اور شنید یہ بھی ہے کہ اس دھرنے کی درست مینجمنٹ اور بھونڈے اختتام سے بچانے میں ان سے ایک شخصیت کا انتہائی اہم کردار رہا ہے کہ جس کی دور رس نگاہیں کہتی تھی کہ اس کا نتیجہ سیاسی خودکشی کی شکل میں نکل آئے گا ۔علامہ قادری کے حالیہ انتخابات میں عدم شرکت اور زیادہ تر وقت بیرون ملک گذارنے کے سبب ہوسکتا ہے کہ کوئی بہت زیادہ کردار نئے پاکستان کی تشکیل میں دیکھائی نہ دے۔علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کہنے کو تو ایک مذہبی رہنما ہیں لیکن مذہبی رہنماوں کے بارے میں جو عام تاثر پایا جاتاہے اس سے بالکل الگ تھلگ ان کی شخصیت ہے ۔قرآن و سنت کے علوم پر وسیع اور گہری عمیق دسترس رکھنے کے علاوہ ایک دانشور اور مفکر ہیں کہ جن کی نگاہ ہمیشہ آنے والے حالات کو وقت سے پہلے پرکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ نہ صرف اس خطے کے حالات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ عالمی حالات پر بھی ان کہ گہری نگاہ ہواکرتی ہے ۔ان کا وسیع تر مطالعہ اور چار اہم زبانوں انگلش ،عربی فارسی اور اردو سے واقفیت کے ساتھ ساتھ پولیٹکل سائنس پر گرفت تو دوسری جانب تقریبا دس سالوں سے اپنی جماعت کی قیادت اور مختلف بحرانوں کے کنٹرول کی صلاحیت نے ان کی شخصیت کے کئی پہلو نمایاں کردیے ہیں ۔
ان کے بارے میں مشاہدات کچھ یوں ہیں کہ وہ سوچتے ہیں تو ایک پائے کے دانشور لگتے ہیں ،بحرانوں میں ایک زبردست لیڈر دیکھائی دیتے ہیں دینی حلقوں میں ایک زبردست عالم دین اور استاد و معلم جبکہ عام سماجی تعلقات میں ایک اچھے دوست ۔اس کی جماعت کے عام کارکن انہیں مرد قلندر اور خاک نشین کہتے ہیں کیونکہ وہ تمام تر پروٹوکولز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے کارکنوں میں جلد گل مل جاتے ہیں ۔گذشتہ روز دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہونے والی حمایت مظلومین کانفرنس میں جو کچھ ان اس خطےخاص کر پاکستان کے حالات کے بارے میں انہوں نے کہا وہ انتہائی قابل توجہ ہے ان کا کہنا تھاکہ جس سیاسی لیڈرشب کا پیسہ بیرون ممالک میں ہے اور ان کے مفادات ان ملکوں سے وابستہ ہیں وہ ان کی پالیسیوں کے آگے جھکنے پر مجبور ہونگے ۔’’ان کا پیسہ وہاں پر ہے یہ لوگ عالمی قوتوں کے آگے دبتے ہیں کیونکہ ان کی کمزوریاں ان کے پاس ہیں ۔ان کی کرپشن کی فائلیں ان کے پاس ہیں ،ان کے اربوں روپےوہاں پر ہیں ۔ لہذا یہ عالمی قوتوں کےnationals interest قومی مفاد کے لئے کام کرتے ہیں اور اپنے ملک کے قومی مفادات کے ساتھ سودے بازی کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان بحرانوں کا شکار ہے ‘‘پاکستان کے بارے میں جو کچھ انہوں نے کہا وہ موجود صورتحال میں انتہائی توجہ طلب ہے ’’پاکستان ایشیا کا دل ہے پانچ ارب انسان کےcollectiviti اکھٹ کا مرکز ہے ،پانچ ارب انسانوں کو آپس میں ملاتا ہے جہاں انرجی کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں اور جہاں deficiencyاور ضرورت ہے اور جہاں یہ چیز آپس میں ملتی ہے۔
ایشیا دنیا کا سب سے بڑابراعظم ہے ،وسائل کے اعتبار سے بھی آبادی کے اعتبار سے بھی تہذیبی اعتبار سے بھی ،لیبر بھی سستی ہے ۔ اہم مہارتوں کے اعتبار سے بھی اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی ایشیا میں ہیں ۔اور دنیا کے تمام بڑے مذاہب کا مرکز بھی ایشیا ہے ،یہودیت یہاں پیدا ہوئی، عیسائیت یہاں پیدا ہوئی اسلام یہاں پیدا ہوا ،ہندوازم ،بدھ ازم ،سیکھ ازم ،حتی کہ کیمونزم بھی ایشیا سے تعلق رکھتا ہے۔ ایشیا بہت امیر خطہ ہے ، طول تاریخ میں پاور ایشیا اور یورپ کے درمیان شفٹ ہوتی رہی ہے۔ اس وقت پاور کا سرکل ایشیا کی طرف آرہا ہے ۔امریکہ یورپ اور اس کے حامی اس طاقت کی منتقلی کو روکنا چاہتے ہیں۔ سست کرنا چاہتے ہیں اور اپنے غلبے کو باقی رکھنا چاہتے ہیں ۔اسی بنیاد پر ایشیا کے جو اہم حصے ہیں ان کو destabilize غیر مستحکم کررہے ہیں اور گریٹر میڈل ایسیٹ بنارہے ہیں ۔توجہ چاہتا ہوںمیں ان دنوں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں a peace to end all peaceیعنی امن پورے امن کے خاتمے کے لئے یہ David Fromkin کی کتاب ہے جو امریکی ہے جس نے 1914سے لیکر 1922تک پہلی عالمی جنگ کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے ۔جس میں وہ لکھتا ہے یورپین یہ کہتے تھے کہ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں ماڈرن میڈل ایسٹ پیدا ہوگا اور وہ افریقی ممالک سے لیکر افغانستان اور وسطی ایشیا تک تھا جو دوسری جنگ عظیم میں اسرائیل بنے پر مکمل ہوا اور مسلمان ممالک چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم ہوگئے ۔
آپ دیکھ لیں افریقہ کے مسلمان ممالک سے لیکر وسطی ایشیا کے مسلمان ممالک یہ آبای آپس میں جڑی ہوئی ہے اور اس مسلمانوں کی طاقت کو توڑ دیا گیا ۔ان کے اندر کیمونسٹ مومنٹس شروع کی گئیں نیشنلسٹ مومنٹس شروع کیں گئی تاکہ اسلامی سوچ مرجائے اور یہ الگ الگ ہوجائیں ۔کوئی ایرانی نیشنلسٹ کوئی عراقی نیشنسلٹ کوئی ترک نیشنلسٹ کوئی عرب نیشنلسٹ ۔۔کیا کیا بن جائے دوستو اب جو گریٹر میڈل ایسٹ کی بات ہورہی ہے تو بالکل وہی علاقہ ہے جو پہلے ماڈرن میڈل ایسٹ کہلایا تھا یعنی مراکش سے لیکر افغانستان اور سنٹرل ایشیا تک اس کو reshapeتشکیل نو کرناچاہتے ہیں اور اگر وہ reshape اس کی دوبارہ تشکیل نہ کرسکے تو امریکہ ٹوٹ جائے گا ،یورپ بھی ایسے نہیں رہے گا ‘‘۔اب اہم سوال یہ ہے عمران خان نئے پاکستان کے سامنے موجود ان مشکلات کا مقابلہ کرنےکے لئے کس قسم کی ٹیم کو لیکر میدان میں اترتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ جس وقت انہوں نے ولڈکپ جیتا تھا تو ٹیم انہوں نے خود تشکیل دی تھی اور اسے ایسے کھلاڑی میسر آئے تھے کہ جنہوںنے فتح دلانے میں کردار ادا کیا تھا تو کیا اس بار میدان سیاست میں بھی وہ ایک ایسی ٹیم تشکیل دے پاینگے ؟اور کیا اس وقت ان کے پاس اس قسم کی ٹیم موجود ہے ؟اگلے چھ ماہ ہی ہمیں عملی طور پر ان سوالات کا جواب فراہم کرینگے ۔۔۔ہمیں ایک بات یاد رکھنی ہوگی کہ نیا پاکستان کسی ایک شخص یا جماعت کی بس کی بات نہیں بلکہ پوری قوم کے مل جانے سے ممکن ہوگا اسی طرح عالمی طاقتوں کی پاکستان کو لیکر مزید دباو بڑھانے اور مشکلات میں اضافہ کرنے کی کوشش بھی کسی ایک شخص یا جماعت کے سبب نہیں بلکہ ریاست پاکستان کیخلاف ہے لہذا پوری ریاست ہی ان موجودہ و ممکنہ بحرانوں کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔
تحریروتحقیق: حسین عابد