وحدت نیوز (آرٹیکل) انقلابیوں کو انقلاب ھرگز برا نہیں لگتا لیکن ناسمجھ ، جذباتی اور دو نمبر انقلابی بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ آج جن دہشتگردوں نے عراق وشام کو تباہ کیا سب کے سب انقلاب کے دعویدار تھے۔ امام کعبہ کی برکتوں سے بھی انقلابی لوگ میدان میں از سر نو فعال ہوئے ہیں ۔ اور شیخ صبحی طفیلی مزاج سپر انقلابی بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں ۔جو اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے انقلاب اور رھبران انقلاب وبانیان حکومت جمھوری اسلامی کے فرامین واقوال اور مواقف واقدامات کی تاویلیں اور توجیہات اپنی مرضی سے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اور دوسری طرف دشمنان مقاومت وبیداری اور استعماری واستکباری طاقتیں بیرونی واندرونی محاذوں پر حملہ آور ہیں۔ انقلاب ومقاومت کے دشمن کم علم اور نا آگاہ عوام ، بالخصوص جذباتی نوجوانوں کے ذریعے ہمارے راھبران مقاومت وانقلاب اور انقلابی شخصیات کی کردار کشی پر پوری توانائی صرف کر رہے ہیں۔ اور اسی طرح ایم آئی 6 کے ایجنٹ ہوں یا سی آئی اے کے آلہ کار یا موساد و را کے تنخواہ دار ان سب کا بھی ہدف اور نشانہ فقط اور فقط پیروان ولایت وخط مقاومت وبیداری ہیں۔اس لئے خط ولایت ومقاومت وانقلاب کے پیروکاروں کو یہ حساس مسائل بڑی حکمت ودانشمندی کے ساتھ بیان کرنے ، ایک دوسرے کی تحقیر وتذلیل اور کردار کشی کی بجائے ایک دوسرے کو سمجھنے ، مشترکہ زبان تلاش کرنے اور افہام وتفہیم سے مسائل کو سلجھانے اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔
کوئی بھی انقلابی اور رہبر کا پیرو نظام ولایت سے نہیں گھبراتا بلکہ وہ تو ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے۔ لیکن اختلاف اسلوب اور موقف کو سمجھنے میں ہے۔ اور رھبریت کی براہِ راست راھنمائی سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرے کے متعلق شائستہ زبان اور مہذبانہ تعبیرات ہی ہمیں قریب رکھ سکتی ہیں۔ اور احترام متبادل افہام وتفہیم ایجاد کرنے کا پہلا زینہ ہے۔ جتنا بھی اختلاف نظر ہو اور فکری فاصلے پیدا ہو جائیں تب بھی مشترکہ راھیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اور شبھات کا ازالۃ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن تہمت اور الزام تراشی ہمیشہ بند گلی کی طرف لے جانے والے راستے ہیں۔آئیے کچھ دیر کے لئے سوچتے ہیں کہ ہم پاکستان میں کس طرح کی تبدیلی اور انقلاب چاہتے ہیں۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ یہ بحث اپنی جگہ پر قائم ہے کہ پاکستان کا نظام کہ جس کے دستور میں واضح بیان ہے کہ اسکے تمام تر قوانین قرآن وسنت کے مطابق ہو نگے یا مخالف نہیں ہو نگے تو کیا ایسے نظام کو مطلقاً طاغوتی کہنا درست ہے یا نہیں ؟یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان اور شیعان پاکستان کے وجود کے دشمن جو تاسیس پاکستان کی تحریک سے لیکر آج تک تکفیریت کا پرچار کرنے والے ہیں اور سیاسی لبادے میں انکے سہولت کار جو پاکستان دشمن قوتوں کے ھاتھوں میں کھیل بھی رھے ہیں اور دوسری جانب اس نظام کے اسٹیک ہولڈرز بھی بنے ہوئے ہیں نیز ہمیں ہمیشہ غیر کا ایجنٹ ، غیر پرست ، پراکسی وار کا حصہ اور دشمن نظام ثابت کرنے کی کوشش کرتے رھتے ھیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جب ہم پاکستان کے نظام کو طاغوتی نظام کہتے ہیں تو دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور لوگوں کو تبدیلی اور حقیقی انقلاب سے مایوس کرکے پاکستان کی دشمنی پر ابھار رہے ہوتے ہیں۔
عام طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ موجودہ فاسد اور طاغوتی نظام کا حصہ بننا ملت پاکستان بالخصوص مظلوم ملت تشیع کے لئے راہ نجات ہے یا نہیں ؟اصل سوال یہ نہیں بنتا کہ ہمیں موجودہ نظام کا حصہ بننا چاھیے یا نہیں بلکہ یہ ایک روشن سچائی ہے کہ جس نظام کو طاغوتی اور فاسد کہا جارہا ہے وہ تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور پورے ملک کے باشندے چاھتے ہوئے یا نہ چاھتے ہوئے اس کے تحت اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ کوئی نظام مصطفی کی بات کر رہا ہے اور کوئی شریعت کا نظام لانا چاہتا ہے اور کوئی خلافت قائم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ چنانچہ سوچنا یہ چاہیے کہ موجودہ صورتحال میں ہمارے لئے نجات کا راستہ کیا ہے؟1-آیا ہم شیعیانِ حیدر کرار اس موجودہ فاسد نظام کو ہی مضبوط کریں؟ج - کوئی ہوشمند اور عاقل شیعہ ، ظلم وفساد کے نظام کی تقویت نہیں چاھتا۔ البتہ چند ایک نکات پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصا جس ملک میں شیعہ مسلمان (نظام امامت وولایت پر ایمان رکھنے والے) نسبتا اقلیت میں ہوں اور شیعہ مخالف مسلمان (جو نظام خلافت پر ایمان رکھتے ہوں) اور انکی اکثریت ہو تو کیا عوام نظام خلافت چاہیں گے یا نظام امامت وولایت ؟نظام امامت و ولایت پر اعتقاد اور یقین رکھنا تو ضروریات دین میں سےہے لیکن عملی طور پر یہ نظام ولایت و امامت موجودہ صورتحال میں کیسے نافذ ہو گا۔ ؟اس نظام کے نفاذ کا کا روڈ میپ کیا ہو گا ؟ اقلیت کیسے اپنی مرضی کا نظام قائم کرے گی؟ یا پھر زبردستی اور طاقت کے ذریعے یا کوئی اور معجزہ نما راستہ موجود ہے؟ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ ہمارے مذہب میں اور ہمارے مراجع کرام کے نزدیک اپنے عقیدے کا نظام قائم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال جائز بھی ہے یا نہیں۔ ؟
یہ بھی قابلِ غور نکتہ ہے کہ اس ملک میں لوگوں کو نظام امامت کے لئے زبردستی کرنے کے لئے اکسانا در اصل نظام خلافت کے حامیوں کو شہ دینے اور ابھارنے کے مترادف تو نہیں!؟۔اسی طرح یہ بھی شوچنا چاہیے کہ کیا اکثریت کو اخلاقاً اور شرعاً یہ حق نہیں کہ وہ نظام خلافت قائم کرے۔؟پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا متروک شدہ نظام خلافت سے بہتر نہیں کہ ایک جمھوری اسلامی نظام قائم کیا جائے۔ ؟مندرجہ بالا سوالوں اور اس ضمن میں ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے دیگر سوالوں کے مدلل اور عام فہم جوابات تفصیل کے ساتھ بیان کرنے اور اصلح نظام کے لئے عوام کو آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔2-دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم شیعیان پاکستان اس نظام کا مکمل بائیکاٹ کریں ، سول نافرمانی کریں ، مثلا ٹیکس ادا نہ کریں،قوانین کو ماننے سے انکار کر دیں، نوکریوں کو چھوڑ دیں، عدالتی فیصلے قبول نہ کریں، اس نظام کے تحت اسکولوں اور کالجوں یونیورسٹیوں میں اپنے بچے نہ بھیجیں،وغیرہ وغیرہاس میدان میں اترنے کے بھی دو طریقے ہو سکتے ہیںا- مسلح جدوجہد کریں۔ اور اس نظام کے سقوط تک جہاد کریں۔ اور زمام اپنے ھاتھ میں لے لیں۔ 2- پر امن عوامی جدوجہد کریں اور اس نظام کو کمزور کریں تاکہ ظلم وفساد سے نجات حاصل ہواور اکثریتی عوامی حمایت سے اس کومرحلہ وار بدلنے پر کام کریں اور نعم البدل لائیں۔یعنی عوامی انقلاب لا کر یکسر نظام بدل دیں۔3-اب پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ جب تک عوامی انقلاب لانے کا مرحلہ طے نہیں ہوتا تو کیا اس وقت تک معاشرے وعوام اور نظام سے کٹ جائیں ؟ ۔ یا اس سوسائٹی کے اندر رہتے ہوئے اپنے آپ کو اجتماعی ومعاشی وفرھنگی وسیاسی لحاظ سے طاقتور بنائیں۔ ؟
تحریر۔۔۔۔حجۃ الاسلام ڈاکٹر سید شفقت شیراز ی