عراقی الیکشن اور مرجعیت کا موقف

14 مئی 2018

وحدت نیوز (آرٹیکل)  عراق قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور تقریبا دو تھائی آبادی شیعوں پر مشتمل ہے. اور یہاں کا حوزہ علمیہ تاریخ شیعہ کا قدیم ترین حوزہ علمیہ ہے. مرجعیت اور حوزہ علمیہ کا اس ملک میں ایک خاص مقام ہے. جب ماضی میں حوزہ علمیہ اور مرجعیت نے اجتماعی اور سیاسی میدان سے خود کو لا تعلق کیا اور میدان دوسروں کے لئے چھوڑ دیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیمونسٹ بعث پارٹی نے اقتدار سنبھال کر اور 35 سال تک حکومت کی اور پھر عراقی شیعوں کر 24 سال صدام جیسے ظالم وجابر ڈکٹیٹر کے اقتدار کو برداشت کرنا پڑاکہ جس کے انسانیت سوز جرائم ، قتل وشکنجوں اور مقدسات اسلام واھل بیت علیہم السلام کی بیحرمتی کی ایک لمبی داستان ہے.جب 2003 میں صدام کی حکومت کا خاتمہ ھوا اور امریکہ اس ملک پر اپنے وائسرائے بول بریمر کے ذریعے قابض ہوا تو مرجعیت رشیدہ نے بیداری کا ثبوت دیتے ہوا ملک وعوام کے وسیع تر مفادات کی خاطر اقوام متحدہ اور ناجائز قابض انتظامیہ پر زور ڈالا کہ عراق کے مستقبل کا فیصلہ فقط اور فقط عراقیوں کو کرنے دیا جائے اور جلد از جلد انتخابات کرائے جائیںتاکہ عوام کے منتخب نمائندے اس ملک کا نظم ونظام از سر نو ترتیب دے سکیں اور اس طرح ڈکٹیٹرشپ کا راستہ آئین اور جمہوری نظام کے ذریعے روکا جاسکے اور فقط انتخابات اور عوامی نمائندگان کے ذریعے حکومت چلانے کی بات ہی نہیں کی بلکہ عملی طور پر گذشتہ انتخابات میں نجف اشرف کے بزرگ مراجع عظام خود بھی ووٹ ڈالنے کیلئے لئے انتخابی مراکز پر تشریف لائے ہیں. جن کی تصاویر میڈیا نشر ہوئیں تھیںاور ہر مشکل گھڑی میں مرجعیت ہمیں میدان میں نظر آئی ہےاور اس نے اس ملک کے قائدین اور عوام کی بروقت راھنمائی کی ہے اور اس ملک کو بڑے بڑے بحرانوں سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے.جب داعش کو عراق پر مسلط کیا گیا اور موصل پر قبضے کے بعد یہ تیزی سے بغداد ،نجف اشرف ، کربلا معلی اور دیگر علاقوں کی طرف بڑھ رہے تھے . تو اس وقت اسی مرجعیت کے تاریخی فتوے سے ملک عراق ، عراقی عوام اور مقدسات کے دفاع کے لئے عراقی عوام پر مشتمل ایک حشد الشعبی کے نام سے ایک فورس بنی ، جس نے اس تکفیری فتنے سے سرزمین عراق کو پاک کرنے میں بنیادی کردار ادا کیااور آج جب داعشی فکر کے حامل عناصر کو سیاسی لباس پہنا کر پارلیمنت جیسے اعلی اختیاراتی ادارے میں داخل کرنے کی کوشش کی جاری ہے. مرجعیت نے عراقی عوام اور سیاستدانوں کو اپنے حکیمانہ بیان سے خبردار کیا ہے اور انتخابی سیاست کے سنہری اصول بھی بتائے ہیں. اس بیان کا مکمل ترجمہ پیش خدمت ہے.

عراقی پارلیمانی الیکشن سے متعلق دفتر آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی (دام ظلہ) کا بیان

 بسم اللہ الرحمن الرحیم الیکشن کی تاریخ نزدیک آنے پر بڑی تعداد میں عراقی شہری مرجعیت کا موقف جاننا چاہتے ہیں. کیونکہ یہ ایک اہم سیاسی اقدام ہے اس لئے ضروری ہے کہ تیں امور کو یہاں بیان کیا جائے.

1- انتخابات کا راستہ ہی حال اور مستقبل میں صحیح اور مناسب ترین راستہ ہے.

ظالمانہ نظام کے سقوط سے ہی مرجعیت نے کوشش کی کہ اس فاسد نظان کی جگہ ایک متعدد اقطاب سیاسی نظام اسکی جگہ حاصل کر لے. اور انتخابی صنادیق اور ووٹنگ کے ذریعے پر امن سسٹم کو چلایا جائے اور شفاف انتخابات اپنے طے شدہ وقت پر ہوں. اور اس ایمان ویقین کے ساتھ کہ یہی وہ تنہا راستہ ہے کہ جس میں عوام کی حریت وآزادی ، عزت وکرامت اور ترقی وخوشحالی کی ضمانت ہے . اور اسی کے ذریعے ہی اعلی اقدار اور عالی مفادات کی حفاظت ہو سکتی ہے.اسی لئے تو دینی مرجعیت نے ناجائز قابض نظام اور اقوام متحدہ پر زور دیا تھا کہ جلد از جلد انتخابات کروا کر عراقیوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے. تاکہ وہ اپنے نمائندگان کو منتخب کر سکیں جن کے پاس مستقل دستور بنانے اور حکومت کرنے کے لئے نمائندگان اختیار کرنے کا اختیار ہو.آج 15 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مرجعیت اپنی رائے پر قائم ہےکہ بنیادی اور اصولی طور پر یہ اسلوب اور راستہ ،یعنی انتخابات کا راستہ ہی حال اور مستقبل میں صحیح اور مناسب راستہ ہےاور ضروری ہے کہ انفرادی اور استبدادی اقتدار کا راستہ روکا جائے خواہ اسکا جو بھی بہانہ اور عنوان وہ  تلاش کریںاور یہ بھی واضح رہے کہ انتخابی راستہ اس وقت تک مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا جبتک اس میں یہ مندرجہ ذیل شرائط نہ پائی جائیں ۔

* انتخابی دستور اور قانون عادلانہ ہو. جس میں ووٹ کا احترام کیا جائے. اور نتائج میں ھیرا پھیری کا راستہ روکا جائے.

 * انتخابی الائنسسز کے مابین اقتصادی ومعاشی ، تعلیمی اور خدمات کے عناوین کے تحت مقابلہ ہونا چاہیے اور قومی و طائفی حساسیت اور منفی پروپیگنڈے سے بچا جائے.

 * انتخابی امور میں ہر قسم کی بیرونی مداخلت خواہ وہ مالی سپورٹ ہو یا کوئی اور اسکو روکا جائے. اور خلاف ورزی پر سخت سزائیں رکھی  جائیں.
 
* لوگوں کو بھی اپنے ووٹ کی قیمت کی قدر کرنی چاہیئے. اور ملک کے مستقبل میں اس ووٹ کے کردار کا انہیں شعور ہونا چاہیئے. نا اھل لوگوں کو سستے داموں ، اپنی نفسانی خواھشات وجذبات ، ذاتی و انفرادی مفادات اور قبیلے کے تعصب کی بنیاد پر ووٹ نہ دیں.

ماضی کے انتخابات میں جو کمزوریاں اور خامیاں نظر آئیں اس کا سبب منتخب افراد اور جو حکومتی اعلی مراتب پر فائز ہوئے وہ تھے انھوں نے اپنے اختیارات اور مناصب وعہدوں کا ناجائز استعمال کیا  تھا. انھیں کی وجہ سے کرپشن پھیلی اور اموال عامہ کو ضائع کیا گیا جس کی ماضی میں بھی مثال نہیں ملتی. اپنے لئے بہت زیادہ تنخواہیں مقرر کی گئيں اور اپنے منصبی واجبات کی ادائیگی اور عوام کی خدمت میں نا کام رہےاور
انہیں باعزت زندگی گزارے کا حق نہ دے سکےاور اس سبب ضروری شرائط کا فقدان تھا اور گذشتہ انتخابات میں کافی حد تک اس کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور اس موجودہ انتخابات میں بھی اس کا کسی نہ کسی طریقے انہیں شرائط کا فقدان اسی تسلسل سے نظر آ رہا ھے. لیکن امید کی جاتی ہے کہ راستہ درست کر لیا جائے گا . اور غیرتمند فرزندان وطن کی محنت اور کوشش سے حکومتی اداروں میں اصلاحات کی جائیں گی . اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہر ممکنہ آئینی راستہ اختیار کیا جائے گا۔

 .2-  انتخابات میں شرکت کی اہمیت

ا نتخابات میں شرکت کرنا ہر اس شہری کا حق ہے جس میں قانون کے مطابق ساری شرائط پائی جائیں. اور اس حق کے استعمال میں اسے کوئی مجبور بھی نہیں کر سکتا. ماسوائے یہ کہ وہ خود اپنے وطن کی عوام اور اپنے ملک کے بلند اور عالی مصلحتوں اور مفادات کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا قائل ہو. اور اسے اس بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ اگر وہ اپنا یہ حق استعمال نہیں کرے گا ، تو وہ پھر ان لوگوں کو پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا موقع فراہم کرے گا جنکی توجہ ملک وعوام کے مفادات اور اعلی مصلحتوں  سے بہت دور ہو. لیکن پھر بھی شرکت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار تنہا اسی ووٹر کے پاس ہے.اور وہ ہی اس کا زمہ دار ہے. اور اسے چاہیئے کہ وہ مکمل ہوشمندی اور اپنے ملک اور اسکی عوام کے وسیع تر مفادات کو نہایت حد تک ملحوظ خاطر رکھے.

3-  مرجعیت دینی سب امیدواروں کے ساتھ برابر فاصلے پر ہے.

مرجعیت دینی اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ وہ سب امیدواروں کے ساتھ برابر فاصلے پر ہے.اور اسی طرح سب انتخابی الائنسوں کے لئے بھی یہی موقف ہے. اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی خاص شخص ، گروہ یا الائنس کو سپورٹ نہیں کرتی. اور ووٹ دینے والوں کی صوابدید پر ہے. کہ پوری دقت کے ساتھ کس کو ووٹ ڈالتے ہیں. ووٹرز کسی شخص اور پارٹی کو اپنے انتخابی مقاصد  کے حصول کے لئے مرجعیت یا کسی اور مقدس عنوان سے سو استفادہ نہ کرنے دیں جس کا ساری عراقی عوام کے دلوں میں احترام ہے . تاکید اور یادھانی کرائی جاتی ہے کہ امیدوار کی اھلیت وصلاحیت ، بےبداغ ماضی ، اقدار و اصولوں کی پاسداری اور بیرونی ایجنڈوں سے دوری جیسے اصولوں کا خیال رکھا جائے. اور جس امیدوار میں وطن اور عوام کی خدمت کی خاطر قربانی کا جذبہ ، پروگراموں کے اجراء کی صلاحیت اور قدیمی مشکلات اور بحرانون سے نکالنے کی صلاحیت ہو اسے منتخب کیا جائےاور مزید تاکید یہ ہے کہ ووٹرز کو  امیدواروں اور الائنسوں کے سربراھان کی سیاسی جہت اور اھداف کا علم ہونا چاہیئے . بالخصوص انکا جو پہلے سابقہ انتخابات میں زمہ دار رہ چکے ہیں. تاکہ دھوکہ باز ، کرپٹ اور ناکام افراد کے پھندوں اور جال سے بچا جا سکے، جنہیں پہلے آزمایا جا چکا ہے یا نہیں. اللہ تعالیٰ العلی القدیر سے دعا گو ہیں کہ جس میں ملک کی بہتری اور عوام کی بھلائی ہے اس میں سب کی مدد کرے .
 "انه ولي ذلك وھو ارحم الراحمین"

مکتب السید سیستانی (دام ظلہ)
النجف الاشرف.

 17 شعبان 1439 ھ بمطابق  4/5/2018 ء


تحریر وترجمہ:  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز / اقبال ریسرچ سینٹر



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree