جی بی میں عوام پر جاری ناروا سلوک کے حوالے سے تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر آرمی چیف کو خط لکھوں گا، آغا علی رضوی

15 جنوری 2018

وحدت نیوز (انٹرویو) جی بی کے معروف عالم دین اور نامور عوامی لیڈر آغا علی رضوی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر نئی صف بندی ہوچکی ہے۔ اس نئی عالمی معاشی اور سیاسی صف بندی میں پاکستان کو سوچ سمجھ کر کردار ادا کرنیکی ضرورت ہے۔ معاشی طور پر ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان بلوغت کیطرف جا رہا ہے اور اس نے عالمی استکباری طاقتوں کے چنگل سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تاہم سیاسی طور پر بھی ان نام نہاد اتحادی ممالک سے الگ ہونیکی ضرورت ہے جنہوں نے ستر سالوں میں پاکستان میں ناامنی اور قرضے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ پاکستان کی معیشت کو سود کی دلدل میں دھکیل دیا، پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں جھلسا دیا، پاکستان کو بدنام کرکے رکھ دیا۔ اب ان آقاوں سے نجات حاصل کرنیکی کوشش ہے اور مقدسات کے نام پر بھی پاکستان نے بڑے نقصان اٹھائے ہیں۔ افغان وار اور طالبان مقدسات کے ہاتھوں یرغمال ہونیکا نتیجہ ہے۔ ریاستی اداروں کو اب پاکستان کے مفادات کیمطابق سابقہ تجربات کی روشنی میں واضح خارجہ پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنیکی ضرورت ہے۔
 
حجت الاسلام آغا سید علی رضوی کا تعلق اسکردو نیورنگاہ سے ہے۔ وہ حوزہ علمیہ قم اور مشہد کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ گلگت بلتستان میں انقلابی تحریکوں کے سرخیل رہے ہیں۔ انجمن امامیہ بلتستان میں تبلیغات کے مسئول کے طور بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انقلابی فکر کے حامل جوانوں اور عوام میں ان کی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ انہیں پورے خطے میں مقاومت و شجاعت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تمام ملی اور قومی بحرانوں میں عوام کی نطریں ان پر ہوتی ہیں۔ سابقہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ گرفتار بھی ہوئے، تاہم حکومت عوامی ردعمل کے سبب فوری طور پر رہا کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ جی بی میں گندم سبسڈی کے خاتمے کیخلاف عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک میں بنیادی اور مرکزی شخصیت انکی ذات تھی اور انہوں نے حکومت کو عوامی تائید سے بارہ روزہ تاریخی دھرنے کے بعد سبسڈی بحال کرنے پر مجبور کیا۔ حالیہ دنوں میں انجمن تاجران کیجانب سے غیر قانونی ٹیکس کے خلاف سولہ روزہ دھرنے میں بھی وہ صف اول کا کردار ادا کرتے رہے اور اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ عوامی حقوق کیلئے ہمہ وقت اور ہر حال میں میدان میں رہنے کے سبب خطے کے عوام انکے معترف ہیں۔ اسوقت عوامی ایکشن کمیٹی بلتستان سمیت مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کی مسئولیت بھی انکے کندھوں پر ہے۔ مقبول عوامی لیڈر آغا علی رضوی سے غیر ملکی خبررساں ادارےنے ملکی اور علاقائی صورتحال پر ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

سوال: سب سے پہلے دسمبر اور جنوری کی سخت ترین سردی میں ٹیکس کیخلاف 16 روزہ تحریک کی کامیابی پر آپکو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور جاننا چاہتا ہوں کہ اس کامیابی کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
آغا علی رضوی: آپ کا شکریہ، میں سمجھتا ہوں کہ اس تحریک کی کامیابی پر مبارکباد کے مستحق انجمن تاجران کے سربراہ غلام حسین اطہر اور عوامی ایکشن کمیٹی جی بی کے سربراہ مولانا سلطان رئیس ہیں۔ انکی شجاعت، بہادری، حکمت عملی اور جہد مسلسل کے نتیجے میں یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ان کے بعد گلگت بلتستان کے عوام مبارکباد کے مستحق ہیں، جنہوں نے علاقائیت، لسانیت، فرقہ واریت اور دیگر حکومتی سازشوں کا مقابلہ کرکے اسے کامیاب کیا۔ جہاں تک اس تحریک کی کامیابی کا سوال ہے تو ٹیکس کی معطلی کو میں جزوی کامیابی قرار دیتا ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور منسوخی کو معطلی بنا دیا۔ ساتھ ہی حکومت کے ساتھ تین نکاتی ایجنڈے پہ معاہدہ ہونے کے بعد لانگ مارچ کو ختم کیا تھا۔ اس میں سے ایک نکتہ آئندہ جی بی کے عوام پر کسی قسم کا ٹیکس نہ لگانے کی حامی بھرنے کے ساتھ ساتھ نیشنل اور انٹرنیشنل کمپنیوں پر ٹیکس عائد کرنے کے اختیارات کو جی بی اسمبلی کو دینا طے پایا تھا، لیکن حکومت اس میں سنجیدہ نہیں لگتی۔

سوال: ذرائع کیمطابق حکومت نئے ٹیکس ایکٹ کے تحت گلگت بلتستان کے عوام پر ٹیکس لگانیکی کوششوں میں ہے، آپکا کیا لائحہ عمل ہوگا۔؟
آغا علی رضوی: وفاقی حکومت کی کوشش ہوگی کہ جی بی کے حقوق سے محروم غریب عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالے، لیکن ہم عوامی طاقت سے ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں اربوں روپے جی بی کے عوام پہلے ہی وفاق کو دے رہے ہیں، ستر سالہ محرومی کے بعد ٹیکس کا نفاذ بہت بڑا ظلم ہے۔ یہاں پر موجود عوام کا معیار زندگی انتہائی پست ہے اور وہ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق بھی میسر نہیں۔ ایسے میں عوام ٹیکس کیسے برداشت کرے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ پورے گلگت بلتستان میں ایک معیاری ہسپتال نہیں، ایک بین الاقوامی معیار کے مطابق یونیورسٹی نہیں، ایک میڈیکل کالج نہیں، ایک انجینئرنگ کالج نہیں، انفرا اسٹریکچر تباہ حال ہے، سڑکیں خستہ حال ہیں، جس خطے میں ایک لاکھ میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کے مواقع ہوں، وہاں لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ اس جنت نظیر وسائل سے بھرپور خطے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کے ایماء پر بھرتیوں میں من مانیاں اور ٹھیکوں میں بندر بانٹ یہاں تک کہ منصوبوں کی تقسیم میں نا انصافیاں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں آپ عوام سے کس طرح ٹیکس لینے کی بات کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے کونسے بڑے عوامی منصوبے تیار کئے ہیں، جو عوام کا معیار زندگی بلند ہونے میں ممد و معاون ثابت ہوئے ہوں۔ وفاقی جماعتوں کا کام دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ریاستی طاقت استعمال کرکے الیکشن کو ہائی جیک کرنا اور بعد میں ریاستی طاقت و فورتھ شیڈول کے ذریعے مخالف جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے علاوہ کیا رہ گیا ہے۔ ستر سالوں میں اس خطے کے عوام کو اپنے پاوں پہ کھڑا کرنے کے لئے کونسا کام کیا گیا ہے۔

سوال: آپ مسلم لیگ نون کی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہیں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بلتستان یونیورسٹی دی اور گلگت اسکردو روڈ دیا، کیا یہ بڑے کام نہیں۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! مسلم لیگ نون کی ہم مخالفت برائے مخالفت نہیں کرتے۔ یہ چیز واضح کر دوں کہ کسی بھی جماعت سے مخالفت کرنا ہمارا جمہوری حق ہے اور دشمنی کسی سے نہیں، اگر وہ ریاست کے دشمن نہ ہوں۔ یہ الگ بات کہ مسلم لیگ نون کی حکومت ہمارے ساتھ دشمنوں سے بدتر سلوک کرتی ہے۔ اس جماعت سے اختلافات نظریاتی اور عملی دونوں بنیادوں پر ہے۔ نظریاتی طور پر آپ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کی تربیت ایسے آمر نے کی، جس نے ملک میں فرقہ واریت کا آغاز کیا، جس نے طالبان جیسے ناسور کی بنیاد رکھی، جس نے پاکستان آرمی کے اسٹریٹیجی کو تبدیل کرکے امریکہ کی نیاتی جنگ افغانستان میں لڑی، جس کے نتائج آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ یہی نواز شریف اس وقت غالباً پنجاب کا وزیر قانون اور بعد میں ضیاءالحق کے دست راست کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اسی دور میں فرقہ واریت کو ہوا ملی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ اس فرقہ واریت کی لعنت میں وطن عزیز کے کتنے سرمایہ کار، کتنے ڈاکٹرز، کتنے پروفیسرز، کتنے جج جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، آپ جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ جانتے ہیں کہ اس جماعت کے رہنماوں کے ساتھ انڈیا کے براہ راست رابطے ہیں۔ یہ الزام دوسروں پہ لگاتے ہیں جبکہ یہ خود انڈیا کے تجارتی شراکت دار ہیں۔ ان کی ملوں میں انڈیا کے ملازمین ہیں، مودی کو گھروں میں بلانے والے ہیں۔ گویا پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے یہ امین نہیں رہے۔ پانامہ کی کہانیاں الگ سے ہیں، ملک پہ قرضوں کا بوجھ الگ کہانی ہے۔

جی بی کے حوالے سے خصوصی طور پر مجھے جو دکھ ہے، وہ یہ ہے کہ معرکہ کرگل میں ہمارے شیر دل جوان ان سرحدوں کو واپس لائے، جو 71ء کی جنگ میں ہم نے گنوا دیئے تھے، اس کے علاوہ کرگل کے ٹائیگر ہل اور کافر پہاڑ تک سبز ہلالی پرچم لہرایا۔ دوسرے الفاظ میں کرگل پر بھی قبضہ جمایا تھا اور دشمن فوج کو دھول چٹا دی تھی۔ اچانک اسی نواز شریف کے ساتھ انڈیا کے سربراہ کے مذاکرات ہوتے ہیں اور یہ ہماری فورسز کو واپس بلانے پر راضی ہو جاتا ہے۔ میں آج بھی جاننے سے قاصر ہوں کہ معرکہ کرگل کے جوانوں کا خون کس قیمت پہ بیچ دیا گیا۔ ہمیں بتایا جائے کہ ان مذاکرات میں کیا معاملات طے پائے تھے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے، جب اس عظیم فتح کے نتائج کچھ نظر نہیں آتے۔ یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے اس جماعت سے اختلافات ہیں اور یہ بھی عرض کردوں کی انکے سیاسی آقا کے دور میں ہی جی بی میں باقاعدہ لشکر کشی ہوئی، ادارے تماشائی بن کر بیٹھے رہے، جسے سانحہ 88 کہا جاتا ہے، اس لشکر کشی پر آج تک ایف آئی آر نہیں ہوسکی۔ ذمہ داران کا تعین نہیں ہوسکا۔ قوم کو بتایا جانا ضروری ہے کہ اس دن سے حالیہ دنوں تک شاہراہ قراقرم بے گناہوں کے خون سے رنگین ہوتی رہی۔ یہاں پر فرقہ واریت کو ترویج ملی، جبکہ جی بی میں تمام مسالک ایک دوسرے سے محبت کرتے اور صدیوں سے محبت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

جہاں تک گلگت بلتستان کا تعلق ہے تو آپ مجھے بتا دیجئے کیا سابقہ الیکشن میں گلگت اسکردو روڈ اور بلتستان یونیورسٹی انکے الیکشن کے منشور میں تھی کہ نہیں۔ دوسرے الفاظ میں عوامی مینڈیٹ ہی انہی منصوبوں کے ذریعے حاصل کیا تھا۔ عوام نے انہیں جتوایا ہی اسی منشور کے سبب تھا تو ان کا کون سا احسان ہے۔ اقتدار پہ پہنچایا ہی اسی کام کے لئے تھا تو کرنا انکی مجبوری تھی۔ رہی بات گلگت اسکردو روڈ پر بھی تحفظات اپنی جگہ قائم ہے۔ اس کے لئے تخمینہ شدہ بجٹ میں کئی ارب روپے کم کئے گئے، میری اطلاعات کے مطابق اس پرانے نقشے کو بھی تبدیل کیا گیا ہے۔ اس بات کی تصدیق کسی حکمران جماعت کے رکن اسمبلی نے برملا کی ہے۔ اس وقت صوبائی حکومت خود گلگت اسکردو روڈ کی جزوی تفصیلات بتانے سے قاصر ہے، اسکا معیار کیا ہوگا اور تکمیل کب ہوگی، یہ الگ سوال ہے۔ دوسری بات آپ یونیورسٹی کے حوالے سے پوچھ رہے تھے تو میں عرض کروں کہ کہاں کی یونیورسٹی کی بات کر رہے ہیں آپ۔ قراقرم یونیورسٹی کے کیمپس کا نام تبدیل کرنا کونسا بڑا کارنامہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کے آئی یو کا کیمپس قائم رہتے اور نئے سرے سے ایک معیاری یونیورسٹی قائم کرتے، مگر اس میں بھی خطے کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
 
سوال: ایک معاملہ اٹھا تھا کہ حکمران جماعت اور اراکین اسمبلی کی طرف سے آپ کو مختلف نمبرز سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں، کیا وہ نمبرز ٹریس ہوئے کہ نہیں۔؟
آغا علی رضوی: (مسکراتے ہوئے) یہ چیزیں عوامی تحریک کا حصہ ہے اور ان چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ہم اپنی توانائیاں ان چیزوں پر صرف نہیں کرسکتے۔ ہمیں کرنے کے بہت کام نہیں۔ جی بی کے عوام کے ساتھ بڑے مسائل ہیں۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں، اسے میں آسانی سے نمٹ سکتا ہوں۔ اور یقیناً حکومت کی طرف سے کوششیں ضرور ہوتی ہیں۔ وہ بھی نون لیگ جیسی حکومت ہو جسکے پاس کوئی اقدار نہیں ہوتا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ جب عوامی حقوق کے لیے نکلے ہیں تو ظالموں سے مقابلہ کسی بھی صورت ہونا ہے۔ ظالم قوتیں اپنی پوری کوشش کریں گی کہ انکی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئے لیکن جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے ہیں جب تک زندگی رہے گی ہر چھوٹے سے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ظلم کے سامنے ڈٹتا رہوں گا۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں عوامی جدوجہد اور انصاف کی بالادستی کے لیے کوشش کرنے سے نہیں روک سکتی۔ البتہ جن نمبروں سے مسیجز موصول ہوئے ہیں ان کی نقاب کشائی کی جائے گی، خطے کے امن اور میرے دوست احباب کے جذبات کے پیش نظر ظاہر ہے معاملات کو بہتر انداز میں حل کرنا ہوگا۔ میں اداروں تک بھی تفصیلات پہنچا دوں گا اور اس سلسلے میں واضح ہو رہا ہے کہ کون کون مزموم عزائم رکھتے ہیں۔
 
سوال:کیا یہ بات درست ہے کہ آپ کی جماعت کو سی پیک پر تحفظات ہے۔؟
آغا علی رضوی: سی پیک پاکستان کے معاشی استحکام کا ضامن ہے۔ اس کی تعمیر کسی بھی قیمت پر ہونا ضروری ہے، البتہ پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے۔ ہمیں سی پیک پر کسی قسم کے تحفظات نہیں۔ اسے پاکستان کے لیے ناگزیر سجھتے ہیں تاہم اس کی تقسیم میں حکومتوں نے بڑی خیانتیں کی ہیں۔ ہمیں تحفظات ہیں تو اس بڑے منصوبے کو خراب کرنے اور اس کے ثمرات کو عوام تک نہ پہنچانے کے سلسلے میں موجود رکاوٹوں پر تحفظات ہیں۔ دیکھیں! سی پیک جیسا بڑا منصوبہ یہاں سے گزرتا ہے لیکن اس میں جی بی کی تعمیر و ترقی کا کوئی منصوبہ نہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ سی پیک میں جی بی کو بڑا حصہ ہے، لیکن منصوبے کے نقشوں اور تفصیلات جو میرے پاس ہیں کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ کاغذات سے ہٹ کر بھی اگر کام ہوتا ہو تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس سلسلے میں حکمرانون سے بھی پوچھا گیا تو ان کے پاس بھی کوئی تفصیلات نہیں ہیں۔ صرف یہی کہتے ہیں کہ جی بی کو حصہ ہے۔ اس معاملے پر جب آواز بلند کی جاتی ہے تو فوری طور پر اس آواز کو سی پیک کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کرنے کی خیانت کی جاتی ہے۔

وہ تمام منصوبے جو پاکستان کے معاشی استحکام کا باعث ہو ہم ان میں مددگار ہیں۔ لیکن یہ کوئی منطق نہیں کہ پنجاب میں اربوں کے منصوبے اسی پیک کے ذریعے ہو جیسے اورینج ٹرین منصوبے پر عمل ہو اور جی بی میں کچھ بھی نہ ہو۔ میرا مطالبہ ہے کہ سی پیک میں تمام صوبوں کو برابر حصہ دیا جائے اور جو صوبے زیادہ مستضعف ہو ان کو دوسروں سے فوقیت دی جائے۔ یہ کسی صورت انصاف نہیں کہ سارے منصوبے تخت لاہور میں انڈیل دیں۔ اصل میں پاکستان کا استحکام ہی اسی میں ہے تمام خطے مستحکم ہوں اور کسی بھی خطے میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ مشرقی پاکستان کی علحیدگی ہی نااہل حکمرانوں کی غلط پالیسی اور احساس محرومی کا نتیجہ تھا۔ اس سلسلے میں عوامی مہم بھی چلائیں گے اور مقتدر حلقوں سے بھی گزارش کریں گے۔ ساتھ ہم ساری جماعتوں کو اعتماد میں لے کر سی پیک اور دیگر علاقائی حوالے سے آرمی چیف کے نام ایک کھلا خط بھی بھیج دیں گے۔ اس میں واضح طور پر لکھ دیں گے کہ وطن کے حقیقی محبین کو معتصب قوتین کس طرح غدار بناکر پیش کر رہی ہیں اور ہمارے ساتھ کس طرح کے ناروا سلوک جاری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سی پیک کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو ان قوتوں سے پہنچ سکتا ہے جو اپنے اقتدار کی خاطر اس خطے میں بے چینی پھیلا رہی ہیں اور عوام جو کہ خطے کا محافظ ہے، کو غیروں کا ایجنٹ بنا کر پیش کر رہی ہیں۔
 
 
سوال:گندم سبسڈی تحریک کے بعد حالیہ ٹیکس مخالف تحریک میں آپ نے کیا کھویا اور کیا پایا۔؟
آغا علی رضوی: حالیہ ٹیکس مخالف تحریک سخت ترین موسم میں شروع کی گئی تھی۔ موسمی حالات کے پیش نظر میں ذاتی طور پر فکر مند بھی تھا کہ منفی پندرہ سینٹی گریڈ کی سردی میں عوام کو کیسے گھروں سے نکالیں۔ اس کا آغاز انجمن تاجران نے کیا تھا اور انکے ساتھ میدان میں عوامی ایکشن کمیٹی سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں موجود تھیں۔ جب عوام پر جاری ظلم کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا تو عوام نے جس طرح کی استقامت کا مظاہرہ کیا اس کی مثال ستر سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس ٹہٹھرتی سردی میں جس طرح عوام کا سمندر امڈ آیا ناقابل یقین تھا۔ میں اپنے عوام کو داد دیتا ہوں اور سلام پیش کرتا ہوں۔ لانگ مارچ کا فیصلہ ہوا تو اس دوران ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ڈیزل اور پیٹرول پمپس بھی بند کر دئیے تھے، اس کے باجود عوام کا سمندر آیا، ساری ساری رات جاگ کے گزارے، اس سخت سردی میں کھلی گاڑیوں کی چھت پر بیٹھ کر سفر کیے۔ میں جب جوانوں کے جذبات اور جذبہ فداکاری دیکھتا ہوں تو شرمندہ ہوتا ہوں۔ اس تحریک میں کھویا کچھ بھی نہیں البتہ بہت کچھ پایا۔ لوگوں میں قربانی کا جذبہ پیدا ہوا، شعور پیدا ہوا، لوگوں نے فرقہ واریت کی بت کو توڑ دیا، عوام نے علاقائیت کے طوق کو گردن سے اتارا، لوگوں نے محبت عام کی۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ عوام نے یہ بات تسلیم کرلی کہ اگر عوام متحد ہو کر میدان میں آجائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔
 
سوال:گلگت بلتستان کے وہ کونسے مسائل ہیں جو سب سے اہم ہیں اور آپ کسی بھی قیمت پر خاموش نہیں رہ سکتے۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! میں نے پہلے عرض کیا کہ ہم کسی بھی ظلم پہ خاموش نہیں رہ سکتے۔ یہ ہمارے جماعت کے لیے طرہ امتیاز ہے کہ ہم ہر ظلم کے خلاف میدان میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چاہے وہ ظلم چھوٹا ہو یا بڑا۔ ہم ہر مظلوم کے حامی اور ظالم کے مخالف ہیں۔ اگر جی بی کی بات کی جائے تو گندم سبسڈی، ٹیکس کے علاوہ خالصہ سرکار کے نام پر عوامی اراضی پر قبضہ بڑا ظلم ہے۔ یہاں کے وسائل کو لوٹنا ظلم ہے۔ یہاں پر میرٹ کی دھجیاں اڑانا ظلم ہے۔ سب سے بڑا ظلم اور دہشتگردی تو تعلیمی اداروں کو خراب کرنا، معیار تعلیم کو گرانا ہے۔ ان تمام مظالم پر ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی بھی سطح تک جا سکتے ہیں اور جائیں گے۔
 
سوال: دفاعی اہمیت کے حامل خطہ ہونے کے ناطے آرمی کی جی بی میں فعالیت کو آپ جمہوری اقدار کی راہ میں رکاوٹ نہیں تسلیم کرتے اور یہ کہ آپ اپنے خطاب کے دوران اکثر آرمی سے مطالبہ کرتے ہیں اس طرح آپ اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کرتے ۔؟
آغا علی رضوی: میری خواہش ہے کہ ریاست کے تمام ادارے مضبوط ہوں۔ عدلیہ انصاف کی بالادستی کسی قیمت پر قائم رکھے، مقننہ اپنی سرگرمیاں مثبت انداز میں سرانجام دیں، اسی طرح مجریہ بھی اپنے دائرے میں کام کرے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مقننہ میں قومی مفاد کو فرد کے مفادات پر قربان کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی حکومتوں نے اثر نفوذ قائم کر کے ریاستی اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ انتظامیہ ریاست سے زیادہ حکومت کی وفاداریاں نبھاتی ہیں۔ پولیس حکومت کی فورس بن جاتی ہے۔ اس میں واحد آرمی ہے جو حکومتی فورس نہیں بلکہ ریاست کی فورس ہے اور ہونی چاہے۔ اگرچہ آرمی سے بھی مختلف موضوعات پہ شکایت ہوسکتی ہے اور ہے۔ ماضی کے کچھ فیصلوں پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اسوقت آپ دیکھتے ہیں کہ وہ فورس جس نے آپ کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنی تھی آج آپ کی سڑکوں کی حفاظت کے لیے بھی پہنچی ہوئی ہے۔ سیلاب آئے تو فوج، زلزلہ آئے تو فوج، دھرنا کنٹرول کرنا ہو تو فوج یعنی آپ ہر جگہ اپنی نالائقی چھپانے کے لیے فو ج کو استعمال کرتی ہے اور بعد میں جمہوریت کا رونا بھی روتے ہیں باوجودیکہ نامساعد حالات میں آپ کا آئین ان چیزوں کی اجازت دے دیتا ہے۔

جہاں تک گلگت بلتستان کا تعلق ہے تو آپ جانتے ہیں کہ یہاں پر اگر کوئی معیاری تعلیمی ادارہ ہے تو فوج کا، ہسپتال ہے تو فوج کا، کوئی اہم کالج ہے تو فوج کا گویا، اکلوتی یونیورسٹی فوجی حکمران کے دور میں بنی، سدپارہ ڈیم فوجی حکمران کا منصوبہ، ابھی گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر فوج کے پاس، گویا انکی فعالیت ہر میدان میں سب سے زیادہ ہے۔ میں جمہوری اقدار اور حکومت پر یقین رکھتا ہوں لیکن بتائیں اس خطے کو آپ کے جمہوری حکمرانوں نے کیا دیا۔ جب تک فوج کردار ادا نہ کرے آپ کے جمہوری حکمران عوام سے مذاکرات کے لیے ٹیبل پر آنے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔ یہ ہے آپکی جمہوریت کا رویہ اور انداز۔ لہٰذا اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جی بی کی تعمیر و ترقی میں پاک فو ج کا بنیادی کردار رہا ہے۔ اور امید ہے آئندہ بھی اس سے بڑھ کر کرار ادا کرے گی۔ ان سے مطالبات کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے تو ظاہر ہے سب سے زیادہ بااختیار اور موثر ادارہ فوج ہی ہے۔ ان سے مطالبات کرنا کوئی جرم نہیں۔ حکومتوں سے مطالبات کرنا موجودہ حالات میں حماقت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ جی بی کی حکومت کے اپنے ہاتھ میں کچھ نہ ہو اور وفاقی آقاوں سے سامنے ہاتھ ملتے رہنے اور انکی تعریف کرنے کے علاوہ کوئی اختیار نہ ہو تو آپ ان سے کیا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ رہی فوج سے مطالبات کرنے کے نتیجے میں مشکلات کا ذکر تو کبھی ہم نے ذاتی مفادات کے حوالے سے مطالبہ نہیں کیا۔ ہم نے خطے کی تعمیر و ترقی، خطے کے استحکام، خطے میں امن و امان کی بالادستی، خطے میں عوامی فلاح و بہبود کے لیے آواز بلند کی ہے اور کرتا رہوں گا۔ یہ خطہ، یہ عوام اور اسکی ترقی و خوشحالی ہی تو پاکستان کی خوشحالی ہے۔
 
سوال:اس وقت عالمی حالات میں کیا تبدیلیاں آرہی ہے اور اس کا پاکستان بلخصوص گلگت بلتستان پر اثرات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس میں آپ کیا کردار ادا کریں گے۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! بہت اہم سوال آپ نے کیا۔ عالمی طور پر سماجی، اقتصادی اور سیاسی سطح پر بہت بڑی مثبت تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہیں۔ اگر سماجی طور پر دیکھیں تو اقوام عالم کے افکار کو غلط رخ دینے کی جو کوششیں کی گئی ہیں وہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔ بلخصوص اسلام جو کہ دین فطرت ہے اسکے آفاقی اور کامل ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، تاہم جن ادیان کو اسلام سے خطرہ تھا انہوں نے کئی عشروں پر محیط کوششوں کے بعد اسلام کی غلط تعبیر کی کوشش کی۔ اس کے لیے اسلامی مکاتب فکر کے اختلافات کو ہوا دینا، دہشتگرد جماعتوں کو بنانا، اسلامی ممالک میں اثر نفوذ پیدا کرکے اس کے اقدار کو ختم کرنا اور فساد پھیلانا شامل ہے۔ لیکن اقوام عالم جان چکی ہیں کہ اسلام کی اصل تعلیمات کیا ہیں، اسلام کیسا معاشرہ چاہتا ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کے سرمایے اب ضائع ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اور سخت کوشش ہوگی، بلخصوص پاکستان کے معاشرہ میں موجود اقدار و تہذیب کو خراب کرنے کی کوشش ہوگی۔ اس کے علاوہ اقتصادی اور سیاسی طور پر دیکھیں تو دنیا نئے سیاسی عمل میں داخل ہوچکی ہے۔ یک قطبی یا دو قطبی طاقت زمانہ گزر چکا ہے۔ دنیا کے جو سپر طاقتیں تھیں معاشی و سیاسی طاقتیں تھیں اور دنیا میں ایک پتہ بھی انکی مرضی سے نہیں ہلتا تھا اب چھوٹے سے چھوٹا ملک جیسے کیوبا ہے کوریا ہے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگا ہے۔

عالمی سطح پر نئی صف بندی ہو چکی ہے۔ اس عالمی نئی معاشی اور سیاسی صف بندی میں پاکستان کو سوچ سمجھ کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی طور پر ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان بلوغت کی طرف جا رہا ہے اور عالمی استکباری طاقتوں کے چنگل سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تاہم سیاسی طور پر بھی ان نام نہاد اتحادی ممالک سے الگ ہونے کی ضرورت ہے جنہوں نے ستر سالوں میں پاکستان میں ناامنی اور قرضے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ پاکستان کی معیشت کو سود کی دلدل میں دھکیل دیا، پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں جھلسا دیا، پاکستان کو بدنام کر کے رکھ دیا۔ اب ان آقاوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش ہے اور مقدسات کے نام پر بھی پاکستان نے بڑے نقصان اٹھائے ہیں۔ افغان وار اور طالبان مقدسات کے ہاتھوں یرغمال ہونے کا نتیجہ ہے۔ ریاستی اداروں کو اب پاکستان کے مفادات کے مطابق سابقہ تجربات کی روشنی میں واضح خارجہ پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

مختصر طور پر گلگت بلتستان کے حوالے سے عرض کروں تو میں سمجھتا ہوں کہ جی بی اس وقت دنیا کا حساس ترین علاقہ بن چکا ہے۔ سماجی طور پر بھی یہاں پر تبدیلی لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں یہاں اثر نفوذ بڑھا چکی ہیں۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے حساس ادارے خواب خرگوش سو رہے ہیں اور امریکہ ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ پیسوں کی وسیع تر سرمایہ گزاری ہو چکی ہے اور میں ثبوت بھی پیش کر سکتا ہوں کہ آپ کے قانون ساز اداروں تک انہوں نے غیر معمولی جگہ بنالی ہے اور عوام میں بھی اثر نفوذ پیدا کر لیے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو نجات دہندہ بشیرت ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر واقعی وہ پاکستان کا دوست ہے تو ستر سالہ دوستی کے نتیجے میں پاکستان پہلے سے کمزور کیوں ہوا انکی مدد سے طاقتور ہونا چاہیے تھا۔ ان کے علاوہ یورپی طاقتوں کی سرگرمیاں بھی یہاں تیز ہو گئی ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق یہاں دہشتگرد جماعتوں کو منظم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کیونکہ جی بی اس وقت اکنامکل ہب بننے جا رہا ہے۔ پاکستان کے معاشی مستقبل اس خطے کے امن و امان پر منحصر ہے۔ اس سلسلے میں گلگت بلتستان میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لیے، بھائی چارگی اور اخوت کی فضاء قائم کرنے کے لیے ہم پہلے سے میدان میں ہے اور اب بھی رہیں گے۔

سی پیک کے حوالے سے جیسا کہ عرض کیا گیا جی بی کو برابر حقوق نہیں ملے ہیں، میں نے جب اس سلسلے میں مشاہد حسین سید سے بات کی تو انہوں نے بھی کہا کہ آپ کے وزیراعلٰی کو بولنا چاہیے۔ چنانچہ ہم مقتدر حلقوں سے مطالبہ کرتے ہیں اس منصوبے کے گزرنے کے بعد جہاں پاکستان کو معاشی استحکام ملے ایسے منصوبے شامل کریں جس سے اس حساس اور پاکستان کے لیے قابل فخر خطے کے غریب و محروم عوام کی خوشحالی کا باعث ہو۔ اگر سی پیک میں بلتستان کی اہم شاہراہ، تمام اضلاع کے ہسپتال، ہائیڈرل پاور پراجیکٹس اور چند تعلیمی ادارے شامل کیا جائے تو اس خطے کے عوام پر بڑا احسان ہوگا۔ ایک اہم بات آپ کو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سی پیک منصوبے کے بعد امریکہ، انڈیا سمیت یورپی ممالک کی نگاہیں جی بی پر جم گئی ہیں۔ اس سلسلے میں عوام کو بھی ہشیار رہنے کی ضرورت ہے اور اداروں کو چاہیے کہ منفی طاقتوں کو پنپنے کا موقع نہ دیں۔ اس خطے میں ناامنی پھیلنے کا موقع نہ دیں۔ منفی طاقتیں ہی مسائل کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ اگر سیاسی جدوجہد کو غداری کا نام دے، ایکشن پلان کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کرے، مخالفت جماعت کو دیوار سے لگانے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کرے یا خطے میں عوام دشمن پالیساں بنائیں، سکیورٹی کے نام پر بنیادی انسانی حقوق بلخصوص آزادی رائے سلب کرے تو یہ سب دشمن کے عزائم کو تقویت پہنچانے کا باعث ہوگا۔ عوام کو انکے حقوق دیں، شفاف سیاسی عمل جاری رکھیں، جمہوری اقدام کی پاسداری کریں، مخالف جماعتوں کو برداشت کریں، عوامی حقوق سلب نہ کریں، قومی سرمایے کا غلط استعمال نہ کرے، میرٹ کو بحال کرے تو سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جس معاشرے میں انصاف ختم ہو جائے وہاں کا معاشرہ متزلزل ہونا فطری امر ہے اور اس معاشرے کو ٹھیک طاقت اور جیلوں کے ذریعے نہیں بلکہ انصاف کی بالادستی کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے ریاستی ادارے ان باتوں کو گہرائی میں لیں گے اور حقوق سے محروم اس عوام کی خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
 
سوال: آپ گلگت بلتستان کے عوام کو مختصر طور کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
آغا علی رضوی: میں عوام سے گزارش کروں گا کہ اتحاد کو قائم و دائم رکھیں، باشعور رہیں، قربانی کا جذبہ پیدا کریں، ظلم کے خلاف اٹھنے کی ہمت پیدا کریں، وفاقی حکومتوں کے دلاسوں پر یقین کیے بغیر خود انحصاری کے طرف بڑھیں، تعلیم پر خصوصی توجہ دیں، لسانیت اور فرقہ واریت کے بت کو پاش پاش کریں، وطن عزیز پاکستان کے استحکام و سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں، کسی بھی شر پسند کو اس خطے کے امن کو خراب کرنے نہ دیں۔ متحد رہ کر جدوجہد جاری رکھیں تو وہ دن دور نہیں ہوگا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا مضبوط ترین اور مستحکم ترین خطہ بنے گا۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree