بدعت قرآن و سنت کی روشنی میں

29 جون 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) بدعت کا لغوی معنی کسی نئے اوربےسابقہ کام کو انجام دیناہے اور عام طور پر بدعت ہر اس نئے کام کو کہا جاتا ہےجو فاعل کے حسن و کمال پر دلالت کرتا ہے۔اگر خدا  کے لئے لفظ بدیع استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ خدا وند متعال نے کائنات کو آلات و  وسا یل  اور کسی سابقہ چیز کو دیکھے بغیرخلق کیا ہے ۔ بدیع کبھی اسم فاعل {مبدِع}اور کبھی اسم مفعول {مبدَع}کے معنی میں استعمال ہوتاہے  اور آیۃ کریمہ { قُلْ مَا کُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُل}کہہ دیجئے : میں رسولوں میں انوکھا {رسول} نہیں ہوں،میں ہر دو معنی کا احتمال دیا گیا ہے ۔

روایات میں لفظ بدعت شریعت وسنت کےمقابلے میں استعمال ہواہے اور اس سے مراد اسلام اور سنت نبوی  کے خلاف کوئی کام کرنا ہے۔حضرت علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:{انما الناس رجلان متبع شرعۃ و مبتدع بدعۃ}لوگ دوقسم کے ہوتےہیں یاوہ جو شریعت کی پیروی کرتےہیں یا وہ جو بدعتوں کو ایجاد کرتے ہیں۔ آپ ؑایک اور مقام پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بارے میں فرماتے ہیں:{اظہر بہ الشرائع المجعولۃ و اقمع بہ البدع المدخولۃ}آپ  ؐ کےذریعے غیر معروف شریعتوں کو ظاہر کیاہےاور مہمل بدعتوں کا قلع و قمع کر دیاہے ۔اسی طرح آپ ؑفرماتے ہیں :{ و ما احدث بدعۃ الا ترک بہ سنۃ}کوئی بدعت اس وقت تک ایجاد نہیں ہوتی جب تک کوئی سنت ترک نہ ہوجائے۔

فقہاء و محدثین نےبدعت کی مختلف عبارتوں میں تعریف کی ہے یہاں ہم چند نمونے ذکر کر تے ہیں :
{البدعۃ مااحدث مما لا اصل لہ فی الشریعۃ یدل علیہ واما ما کان لہ اصل من الشرع یدل علیہ وفلیس  ببدعۃ شرعا و ان کان بدعۃلغۃ}بدعت وہ چیزہےجس کے جواز میں کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو اگر شریعت میں اس کے لئے کوئی دلیل موجود ہو تو وہ شرعا بدعت نہیں ہےاگرچہ لغت میں اسے بدعت کہا جاتا ہے ۔
{البدعۃ مااحدث و لیس لہ اصل فی الشرع،وما کان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس بدعۃ}بدعت وہ چیزہےجو{پیغمبر اسلام کےبعد} ایجاد ہوئی ہواور اس کے جواز میں کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو اور جس چیز کا دین میں کوئی اصل موجود نہ ہو ۔

{البدعۃزیادۃفی الدین او نقصان منہ من اسناد الی الدین}بدعت شریعت میں دین کےنام پر کمی یابیشی کرنا ہے ۔
{البدعۃ،الحدث فی الدین و ما لیس لہ اصل فی کتاب ولاسنۃ}بدعت سےمراددینمیںکسی چیز کا اضافہ کرناہے جس  کے جواز پر کتاب وسنت میں کوئی دلیل موجود نہ ہو ۔

{البدعۃ فی الشرع ماحدث بعد الرسول و لم یرد فیہ نص علی الخصوص و لایکون داخلا فی بعض العمومات أو ورد نہی خصوصا أو عموما}شریعت میں بدعت وہ چیز ہےجو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےبعد ایجاد ہوئی ہو اوراس کے جواز میں کوئی خاص یاعام دلیل شرعی موجود نہ ہو۔

علماء کی اصطلاح میں بدعت سےمراد دین میں کسی حکم  کا زیادہ یا کم کرنا ہے ۔یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانے میں غیر موجودکسی حکم کودین میں شامل کرنا جبکہ اس کےجوازپر کوئی خاص یا عام دلیل شرعی موجود نہ ہو۔ لہذا جب بھی کوئی حکم سابقا موجودنہ ہو لیکن کتاب و سنت سےاستنباط کیا ہو تو وہ بدعت نہیں ہے اگرچہ کتاب وسنت سے استنباط کرنےمیں غلطی ہونا ممکن ہے لیکن اجتہاد کرتے ہوئے کوئی غلطی سرزد ہوجائےتو اس پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہے ۔

دین میں بدعت گذاری گناہان کبیرہ میں سے ہے ۔کتاب و سنت ،عقل اور اجماع  مسلمین اس کی حرمت  پر دلالت کرتی ہے ۔ عقلی اعتبارسے قانون گزاری کا حق صرف خدا کو حاصل ہے  اور خدا کے اذن و مشئیت کےبغیر کسی کو دین میں قانون گزاری کا حق حاصل نہیں ہے  ۔قرآن کریم یہودیوں کی سرزنش کرتا ہے کیونکہ وہ دینی علماء کی بےچون وچرااطاعت کرتے تھےاور انہیں  ارباب قرار دیتے تھے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ اتخَّذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ الله}انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماءاور راہبوں کواپنا رب بنا لیا ہے۔”یہودی علماءلوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت نہیں دیتے تھے بلکہ یہ لوگ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال قرار دیتے تھے اور لوگ بے چوں و چرا ان کی اطاعت کرتے تھے گویا یہ افراد حقیقت میں  ان کی پرستش کرتے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعت کےبارے میں فرماتے ہیں:{کل بدعۃ ضلالۃوکل ضلالۃ فی النار}ر بدعت گمراہی ہےاور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔حضرت علی علیہ السلامبدعت گزاروں کو خدا کےنزدیک مبغوض ترین افراد میں سےقرار دیتےہیں جنہیں خدا نے اپنی حالت پر چھوڑدیا ہے۔ یہ لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو گئے ہیں اور دین میں بدعت ایجاد کر کے لوگو ں کو گمراہی کی طرف دعوت دیتے ہیں چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :{إن أبغض الخلائق إلی الله رجلان:رجل وکلہ الله الی نفسہ فہو جائر عن قصدالسبیل،مشغوف بکلام بدعۃودعاء ضلالۃ}بےشک پروردگار کی نگاہ میں بد ترین خلائق دو طرح کے افراد ہیں: ایک وہ شخص جسے پروردگار نے اسی  کےرحم و کرم پر چھوڑ دیا ہو اور وہ درمیانی راستے سےہٹ گیا ہے ۔جوصرف بدعت کا دلداہ اور گمراہی کی دعوت پر فریفتہ ہے۔اس قسم کے افراد اپنے برے اعمال کی سزا پانے  کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد{جنہیں گمراہ  کیا ہے} کا بھی بوجھ اٹھانے والے ہیں۔
 حضرت علی علیہ السلام بدعت ایجاد کرنےکو فتنوں کی ابتدا قرار دیتے ہوئے فرماتےہیں :{انما بدءوقوع الفتن احکام تبتدع و اہواءتتبع،یخالف فیہا کتاب الله ویتولی فیہارجال رجالا علی غیردین الله}فتنوں کی ابتداء ان خواہشات سےہوتی ہےجن کی پیروی کی جاتی ہے اوران جدیدترین احکام  سےہوتی ہے جو گڑھ لئے جاتے ہیں اور کتاب خدا کےبالکل خلاف ہوتے ہیں۔اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور دین خدا سےالگ ہوجاتے ہیں ۔

بدعت اجتماعی زندگی میں نمایاں ہونےوالے گناہوں میں شمار ہوتی ہے جو معاشرے کو گمراہی ا ور فساد کی طرف دھکیل دیتی ہے  لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نہی عن المنکر کرتےہوئے بدعت گزاروں کے ساتھ مقابلہ کریں۔ اگرچہ علماء پر اس حوالے سےسنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔اسلامی روایتوں میں اس سلسلے میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے :

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :{من أتی ذا بدعۃ فعظمہ فانما یسعی فی ه  ہدم الاسلام}اگر کوئی صاحب بدعت کےپاس آئے اوراس کی بزرگی کا اقرار کرے تو اس نے اسلام کو تباہ کرنےکی کوشش کی ہے۔آپؐ ایک اور حدیث میں فرماتےہیں:{اذا رایتم اہل الریب و البدع من بعدی فاظہروا البراءۃ منہم}جب تم میرے بعد اہل شک و اہل بدعت کو دیکھو تو ان سےبرائت کا اظہار کرو ۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :{لا تصحبوا اہل البدع ولاتجالسوہم}اہل بدعت کےساتھ نہ تعلقات رکھو اور نہ  ہی ان کےپاس بیٹھو۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اور حدیث میں  فرماتے ہیں:{اذاظہرت البدعۃ فی امتی فلیظہرالعالم علمہ فمن لم یفعل فعلیہ لعنۃالله}جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہوں توعالم دین کو چاہیے کہ وہ اپنےعلم کا اظہار کرے اورجوایسا نہ کرے تو اس پر خدا کی لعنت ہے  ۔

بدعت کے مصادیق کی پہچان سب سے اہم مسئلہ ہے کیونکہ تاریخ اسلام میں مختلف مذاہب  کے پیروکار ایک دوسرے کو بدعت گذار قرار دیتے تھے ۔بدعت سے مرادکسی حکم کو دین کی طرف منسوب کرنا جبکہ اس پر دلالت کرنے کے لئے کتاب و سنت اور عقل سے کوئی دلیل [عام و خاص ،مقید و مطلق}موجود نہ ہو لیکن اگر کوئی ان منابع پراستناد کرتا ہواکسی چیز کے بارے میں حکم دے تواسےبدعت نہیں کہہ سکتےاگرچہ دوسروں  کے نزدیک یہ حکم غلط ہی کیوں نہ ہو ۔ اس دور میں وہابیت اور تکفیری گروہ مسلمانوں کو بدعت گزار قرار دیتےہیں ۔ان کی نظر میں مسلمانوں  کےاکثر اعمال بدعت اور حرام ہیں جیسے اذان و اقامت  کےدرمیان یا اذان و اقامت سےپہلےیا بعد میں پڑھنے والے اذکار ،میناروں پر بلند آواز سے قرآن پڑھنا ،اذان کے بعد اور شب جمعہ کو پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوات بھیجنا،رمضان المبارک کی راتوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا ،عید میلا النبی منانا،بلند آواز میں نعت رسول مقبول پڑھنا ،تشیع جنازہ کے وقت بلند آواز سے اکٹھے لا الہ الا اللہ پڑھنا۔

مذکورہ موارد میں سے کوئی ایک بھی بدعت شمار نہیں ہوتا بلکہ یہ سب مستحبات شرعیہ ہیں اور ان مستحبی اذکار کا ہر وقت پڑھنا ایک نیک عمل ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کےمیلاد کےدن جشن و سرور کی محفلوں کا انعقادکرنا اور ان کی شہادت کے ایام میں مجالس عزا کا انعقاد کرنایہ سب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کےاہل بیت سے اظہار محبت ہے جو شریعت کی رو سے ممدوح اور پسندیدہ ہے ۔قرآن کریم اہلبیت علیہم السلام کی مودت کے بارے میں فرماتاہے: کہہ دیجیے: کہ میں اس {تبلیغ رسالت}پر تم سےکوئی اجرت نہیں مانگتا سوائےقریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےانصار کی عورتوں کو اپنےشہیدوں پر گریہ و زاری کرنےسے منع نہیں فرمایا بلکہ آپؐ نے حضرت حمزہ علیہ السلام پر گریہ و زاری نہ کرنےپر ان سے نارضگی کا اظہار فرمایا :{ولکن حمزۃ لابواکی}لیکن کوئی حمزہ پرگریہ نہیں کرتا ہے۔جب انصار نے یہ احساس کیا کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنےچچا  کے لئے مجلس عزا منعقد کرنے کے خواہاں ہیں تو انہوں نے مجلس عزاء برپا کر کےحضرت حمزہ علیہ اسلا م پر گریہ وزاری کیں۔رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےان کے اس عمل کا شکریہ ادا کیا اوران کے حق میں دعا کی اور فرمایا:{رحم الله الانصار}خدا انصار پررحمت نازل فرمائے۔

حوالہ جات:
1.    احقاف،9۔
2.    مفرادات راغب ،کلمہ بدع۔
3.    نہج البلاغۃ،خطبہ 161۔
4.    ایضاً،خطبہ161۔
5.    ایضاً،خطبہ145۔
6.    ابن رجب ،الحنبلی ،جامع العلوم الحکم،ص 160۔
7.    ابن حجرعسقلانی ،فتح الباری ،ج17،ص9۔
8.    الشریف المرتضی ،الرسائل ،ج2،ص264۔
9.    الطریحی ،مجمع البحرین ،ج1،کلمہ بدع۔
10.    علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج74،ص203۔
11.     توبہ،31۔
12.    اصول کافی ،ج2،باب الشرک،حدیث 3،تفسیرطبری،ج10،ص81۔
13.    اصول کافی ،ج 1،باب البدع،حدیث12۔ابن اثیر ،جامع الاصول،ج5 ،حدیث 3974۔
14.    نہج البلاغۃ،خطبہ،17۔
15.    ایضاً،خطبہ 50۔
16.    اصول کافی ،ج1،باب البدع ،حدیث 3۔
17.    ایضاً،ج2،باب مجالسۃ اہل المعاصی،حدیث 4۔
18.    ایضاً،ج2،باب مجالسۃ اہل المعاصی،حدیث 3۔
19.    اصول کافی ،ج1،باب البدع ،حدیث 4۔
20.    شوری ،23۔
21.    سیرت ابن ہشام، ج1،ص99۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree