وحدت نیوز(آرٹیکل) کشتی سمندر کے وسط میں تھی، صرف ایک ملاح اور ایک مسافر سوار تھا، تاریک رات میں بارش شروع ہوگئی، ملاح بالکل کیمونسٹ اور کافرتھا، مسافر مومن تھا، ملاح تیراکی میں ماہر تھا، مسافر تیراکی سے بے خبر تھا، طوفان کی لہروں نے ابھر کر کشتی الٹ دی، اگلے روز سمندر کے ساحل پر اخبار چھپے، ہر اخبار میں بہادر ملاح کے قصے تھے کہ اس نے بڑی ہمت سے کام لیا ، طوفان کا مقابلہ کیا، سمندر کی خوفناک موجوں کو چیرتا ہوا ساحل تک پہنچ گیا۔
اس کے اعزاز میں پارٹیاں دی گئیں، پروگرام منعقد کئے گئے لیکن ڈوب جانے والے مرد مومن کے حصے میں فقط چند آنسو آئے۔
یہ قانون قدرت ہے کہ ہر شعبے میں ، وہی ساحل تک پہنچتاہے، اور اسی کی عزت ہوتی ہے جسے اس شعبے کا شعور ہوتا ہے۔جو فن تیراکی جانتا ہے وہی سمندر کی لہروں کو چیر کر ساحل تک جاسکتا ہے چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو اور جو فن تیراکی نہیں جانتا وہ ڈوب جائے گا خواہ مومن ہی کیوں نہ ہو۔
یہی حال جمہوریت کا بھی ہے، اگر لوگوں کو جمہوریت کا شعور ہوگا تو وہ اس سے استفادہ کریں گے خواہ کافر ہی کیوں نہ ہوں لیکن اگر عوام کو جمہوریت کا شعور نہیں ہوگا تو عوام جمہوری حکومتوں میں اٹھنے والے طوفانوں کے سامنے بے بس ہو جائیں گے۔
آپ صرف اپنی موجودہ جمہوری حکومت کے کارناموں پر نگاہ ڈالیے:
۱۔ اس وقت جہان اسلام کے تین بڑے دشمن ہیں، بھارت، امریکہ اور اسرائیل۔ مسلم دنیا کو دبانے کے لئے ان تینوں نے سعودی عرب کو قابو کیا ہوا ہے اور سعودی عرب نے پاکستان اور دیگر خلیجی ریاستوں کو جکڑا ہوا ہے۔ سعودی عرب، مسلمانوں کو فلسطین اور کشمیر تو آزاد کرواکر نہیں دے سکتا لیکن اس نے پوری عرب دنیا کو فلسطین کاز اور پاکستان کو کشمیر کاز سے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
قائد اعظم نے تو کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا ، لیکن اب پاکستان کے عوام کو کچھ خبر نہیں کہ کشمیر کے ساتھ کیا ہو رہاہے۔ چنانچہ سجن جندل اور نواز شریف کی خفیہ ملاقات ہوجاتی ہے اور عوام دیکھتی رہ جاتی ہے۔ یہ ہے ہمارے ہاں کی جمہوری حکومت!
کشمیر کاز کی اہم شخصیت ، بھارتی مطالبے اور سعودی دباو کے باعث ،حافظ سعید چودہ ماہ سے نظر بند ہیں! عوام کو پتہ ہی نہیں کہ انہیں کیوں نظر بند کیا گیا ہے؟اس نظر بندی کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے اور نقصان کسے!؟عوام کو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ نظر بندی کس کو خوش کرنے کے لئے لگائی گئی ہے؟ یہ ہے ہمارے عوام کا جمہوری شعور!
۲۔ جنرل (ر) راحیل شریف کو عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لئے بغیر سعودی عرب کی نوکری کے لئے بھیج دیا گیا اور اب ہماری نوّے فی صد عوام کو پتہ ہی نہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے!؟
سوچنے کی بات ہے کہ کیا یمن کوئی کافر ملک ہے جس پر سعودی عرب نے جنگ مسلط کر رکھی ہے اور کیا قطر کوئی غیر مسلم ملک ہے کہ جس کے عوام کا رمضان المبارک میں بھی محاصرہ کیا گیا ہے!؟
یہ ہے بادشاہوں کے ٹکڑوں پر پلنے والی ہماری موجودہ جمہوری حکومت، جہاں عوام کو پتہ ہی نہیں کہ ان حالات میں ان کے جمہوری اختیارات کیا ہیں!؟
۳۔ عمران خان صاحب نے حکومت کی کرپشن کے خلاف مقدمہ لڑا تو عدالت سے فیصلے کے بجائے جے آئی ٹی برآمد ہوئی۔ یہ ہمارے ہاں کی جمہوری حکومتوں میں اعلی اداروں کی کارکردگی ہے ، جبکہ دوسری طرف فیس بک پیجز چلانے پر لوگوں کو اغوا کرنے اور پھانسیاں دی جانے کی خبریں گشت کررہی ہیں۔
اس بادشاہت زدہ اور بادشاہت نواز جمہوری حکومت میں عوامی حقوق کا یہ حال ہے کہ فیس بک کے پیجز کی وجہ سے لوگوں کو پھانسیاں ہو جاتی ہیں اور دوسری طرف ملک کے معروف ترین ائیر پورٹ پر خواتین کی پٹائی کی جاتی ہے اور اس کے بدلے میں سزا یہ دی جاتی ہے کہ صرف ایک کانسٹیبل کو معطل کیا جاتاہے۔!یہ ہے اس حکومت کے نزدیک عوام کے جان و مال کی اوقات!
آپ کو یاد ہوگا، یہ ابھی ابھی کی بات ہے کہ کسی مدرسے میں نہیں بلکہ ایک یونیورسٹی میں، مشال خان جیسے قومی سرمائے کو قتل کردیا جاتا ہے ، اور سرکاری ادارے اسے تحفظ نہیں دے پاتے، اور اس کے قتل میں اپنے آپ کو جمہوری اور سیاسی کہنے والے لوگ ملوث پائے جاتے ہیں۔
یہ ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر ڈگڈگی بجانے والا چند لوگوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کرلیتا ہے اور پھر مشال خان جیسے لوگوں کو قتل کر کے یہ تاثر دیتا ہے کہ اسے عوام نے قتل کیا ہے۔
مشال کے قتل سے عوام اور جمہوریت کی بدنامی ہوئی لیکن عوام کوئی رد عمل نہیں دکھا سکے چونکہ قاتلوں میں جمہوری لوگ ، سیاسی عناصر اور کونسلر بھی شامل ہیں۔
یقینا یہ جمہوریت کے نام پر ڈھونگ ہے، ہمارے ہاں نام جمہوریت کا استعمال ہورہاہے لیکن عملا سعودی عرب کی طرح کی بادشاہت ہی ہے۔
اگر آپ آٹے کے اوپر چینی لکھ کر اسے چینی چینی کہتے رہیں تو کیا آٹا میٹھا ہو جائے گا!؟
ہماری موجودہ حکومت کشمیر اور فلسطین کاز سمیت تمام شعبوں میں سعودی عرب کی ہدایات پر عمل کر رہی ہے۔
ہمیں آٹےکو چینی کہنے کے بجائے لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے۔
موجودہ حکومت نے فیس بک سے لے کر کشمیر کاز تک عوام کو سعودی عرب کی طرح فرقوں، مسلکوں، مسجدوں، مدرسوں،مولویوں، وڈیروں، قوموں، قبیلوں، صوبوں اور علاقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، سب کو الگ الگ کر کے ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔
ہسپتالوں میں لوگوں کو جعلی سٹنٹ ڈالے جاتے ہیں، لوگوں کے گردے نکال کر بیچ دئیے جاتے ہیں، جعلی دوائیاں فروخت کی جاتی ہیں، راجپوتانہ جیسے ہسپتال میں مریضہ چیخ چیخ کر دم توڑ دیتی ہے لیکن ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کرتے، مرحومہ کے لواحقین احتجاج کرتے ہیں تو ان کو یہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے کہ یہ ڈاکٹروں کو بلیک میل کر رہے ہیں۔
یہ سب پاکستان کی جمہوریت نہیں سعودی عرب کی بادشاہت ہے، جہاں عوام کو چاہوتو فیس بک کی آڑ میں پھانسی دے دو، قوم کے غیور جوانوں کو چاہوتو یونیورسٹیوں میں قتل کروا دو ، مریض لوگوں کے ہسپتالوں کے اعضا بیچ دو ، کرپٹ ڈاکٹروں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی صدائے احتجاج کو مختلف حربوں سے دبا دو۔ ہر با شعور آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ آمریت ہے جمہوریت نہیں۔
۱۹۴۷ میں ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر بنایا تھا، آج پھر ہم سب کو اسلام کے نام پر جمع ہوکر، اس ملک میں، انسانیت کی توہین، اخلاقی اقدار کی پامالی، دوسرے ممالک کی غلامی اور مخصوص سیاسی خاندانوں کی آمریت کو روکنا ہوگا۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.