وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک آواز،ایک پکار،ایک ندا اب بھی فضا میں گونج رہی ہے اوروہ آواز ہے ایک ایسی ہستی کا جس نے انسانیت کو عدل کا تعارف کرایا۔وہ ہستی جس نے عدل کے موضوع کو جلا بخشی،وہ ہستی جس نے عدل کے حقیقی مفہوم کو مجسم کر کے سب کو سمجھا دیا ،وہ ہستی جس نے ظالم کے ظلم کرنے سے پہلے اسے ظالم نہیں کہا،وہ ہستی جس کے شہید ہونے کی وجہ سے شاعر نے اس طرح بیان کی: قتل فی محرابہ لشدۃ عدلہ ۔ آپ اپنے انتہائی عدل کی وجہ سے محراب میں شہید کر دئے گئے۔
یہ آواز اب بھی فضاوں میں گونج رہی ہے ۔یہ آواز انیس رمضان المبارک کو مسجد کوفہ سے بلند ہوئی اورآج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ گونج رہی ہے۔وہ آواز یہ تھی فزت و رب الکعبہ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا۔یہ اس سورما کے الفاظ ہیں جس نے بدر و احد میں لشکر اسلام کو فتح سے ہمکنار کیا ،جس نے جنگ خندق کے دن کل ایمان کی شکل میں کل کفر عمرو بن عبدود کو واصل جہنم کر کے اسلام کو ایک اورفتح سے سرفراز کیا،جس نے در خیبر کو اکھاڑا اورمرحب و عنتر کو خاک وخون میں ملا کر فتح خیبر کی زرین تاریخ رقم کی،جس کی تلوار نے ہر معرکہ میں دین حق کی وہ لاج رکھی کہ اس کا ثانی کوئی نہیں بن سکا۔لیکن عجیب بات ہے کہ کہیں اس نے یہ جملہ نہیں کہا اور یہ منفرد نعرہ نہیں لگایا جو آج اپنے ہی خون میں غلطاں ہونے پر لگا رہا ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس کی نظر میں حقیقی کامیابی صراط مستقیم پر حاصل ہونے والی موت ہے نہ کہ فتوحات اور ملک گیری۔
ہاں یہ اس کی آواز ہے جس کا زچہ خانہ کعبہ بنا اوریہ ولادت اس مولود اور اس کے والدین کی طہارت و پاکیزگی کی دلیل بنی۔وہ اب ایک دفعہ پھر خدا کے گھر میں اس کا مہمان ٹھہرا ہے تا کہ واپسی کاسفر بھی اللہ کے گھر سے ہی شروع کرے۔آج علی ابن ابی طالب علیہ السلام اپنے اس حسن ختام پر کامیابی کا نعرہ لگا رہے ہیں اورپوری انسانیت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو حقیقی کامیابی کا معیار راہ حق میں مرنا ہے۔یہاں ہم انسان کامل علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی فضیلت بیان اور رقم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اسے ہم جیسے ناقص انسان بیان اوررقم نہیں کر سکتے ۔
کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست
کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم
یعنی فضائل علی ابن ابی طالب کی صفحہ شماری کے لئے انگی تر کرتے کرتے سمندر ختم ہو سکتے ہیں لیکن علی کی فضیلت ختم نہیں ہو سکتی۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام انسان کامل ہیں ۔علی جب دنیا میں تشریف لائے تو مدینۃ العلم نے اس نومولود کو اپنی زبان مبارک چوسائی اور اسے باب العلم قرار دیا ۔رسول خدا نے فرمایا: انا مدینۃ العلم و علی بابہا ،نیز فرمایا: یا علی انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی، اے علی آپ کو مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو موسی سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔علی ابن طالب علیہ السلام نے پیغمبر خدا کے حکم پر دعوت ذوا لعشیرہ میں سب سے پہلے لبیک کہی تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی ،وزیر اور خلیفہ قرار دیا لیکن آپ نے فزت اور کامیابی کا نعرہ نہیں لگایا۔اسی طرح ایسے ایسے واقعات پیش آئے جو اسلام کو سرے سے ختم کر سکتے تھے لیکن علی نے نہایت بہادری سے نہ صرف رسول خدا کو بلکہ اسلام کو بچا لیا اور سفینہ اسلام کو ساحل تک پہنچا دیا لیکن پھرکبھی کامیابی کا دعوی نہیں کیا۔جب واقعہ مواخات میں رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی بنایا اس وقت بھی آپ نے کامیابی کا دعوی نہیں کیا اسی طرح جب وسیع و عریض اسلامی مملکت کا قتدار آپ کے ہاتھوں آیا اورخلیفۃ المسلمین کہلائے تب بھی آپ نےکامیابی کا دعوی نہیں کیا لیکن جب انیس رمضان المبارک کو ابن ملجم کے ہاتھوں جان لیوا ضربت کھائے تب علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے کامیاب ہونے کی قسم کھائی۔
ایک غیر مسلم دانشور کے بقول: علی ابن ابی طالب واقعی مظلوم ہیں کیونکہ ان کے فضائل ان کے دوستوں اور دشمنوں دونوں نے چھپا رکھیں۔دوستوں نے دشمنوں کے خوف سےجب کہ دشمنوں نے حسد اور کینہ کے باعث۔
علی ابن ابی طالب کی پرورش خاتم الرسل نے خود کی تھی ۔رسول خدا آپ کو ہمیشہ اپنے پاس رکھتے اپنے سینے سے لگاتے اور اپنے منہ سے غذا چپا کر لقمے کھلاتے تھے۔ہر روز ان کو علم کا ایک نیا باب سکھاتے اورعلی ابن ابی طالب ان پر عمل کرتے تھے۔
عرب کے اس ماحول میں جہاں انسانیت اورشرافت نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور بھائی بھائی کا گلہ کاٹتا تھا،ایک آواز ابھری ۔یہ ہمارے نبی کی آواز تھی ۔وہ لوگوں کو بت پرستی چھوڑنے اوراسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔جاہل اوراحمق عربوں نےا پنے دل کے کان بند کر رکھے تھے لیکن یہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی اور سب سے پہلے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔
کفار قریش نے جب شب ہجرت شمع رسالت کو گل کرنے کی ناکام کوشش کی تو فرزند ابو طالب ہی تھے جنہوں نے جان خطرے میں ڈال کر شمع رسالت کو بچا لیا۔یہ جان نثاری خالق الہی کو اتنی پسند آئی کہ آپ کی شان میں یہ آیت نازل کی: و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ۔۔۔۔ یعنی کچھ لوگ ایسے بھی ہے جو خدا کی خشنودی کے لئے اپنی جان بھی قربان کرتے ہیں ۔آپ کی صرف ایک وار کے متعلق رسول خدا نے فرمایا تھا: خندق کے دن علی کی ایک وار تمام جن و انس کی عبادت سے بہتر ہے۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام اگرچہ اپنے عدل کی وجہ سے شہید کئے گئے لیکن آج وہ اپنے عدل کی ہی وجہ سے زندہ و پائندہ ہے ۔جب تک دنیا میں عدل و انصاف کا نام رہے گا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ذکر بھی تابندہ رہے گا۔ایک دفعہ کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کنے لگے: آپ بڑے لوگوں کو بیت المال سے بڑا حصہ دیا کریں اگر ایسا نہ ہوا تو وہ آپ کے دشمنوں سے جاملیں گے۔ آپ نے فرمایا: ہمیں چاہئے کہ ہم حق و انصاف کا ساتھ دیں اورلوگوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اپنااطرف دار نہ بنائیں ۔یہ بات تھی کہ رسول خدا نے فرمایا :علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ۔حق و انصاف کے اسوہ کامل کا یہ جملہ عدل علی کی تصویر کشی کے لئے کافی ہے:اگر تم کہو کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں اور اس کے بدلے سارے دنیا میری قدموں میں ڈال دو تب بھی میں ایسا کرنے سے انکار کر دوں گا۔
محمدبن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا:ابوبکر ،عمر، عثمان ،طلحہ اور زبیر ۔ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے ۔ اس کے بعد آیت مباہلہ کی تلاوت کی اس کے بعد کہا:پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کےمانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبد اللہ نےاپنےباپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کےبارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ اس نے جواب دیا :ابو بکر ،عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتےہیں ۔عبد اللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا سکتا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں پر برتری رکھتاہے ۔{ ان زوجک خیر امتی اقدمہ اسلاما و اکثرہم علما و افضلہم حلما}اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلا م پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ۔
جابر بن عبد اللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:{ انہ اولکم ایمانا معی ، واوفاکم بعہد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیۃ و اقسمکم بالسویۃ و اعظمکم عند الله فریۃ}حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتاہے اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیا دہ برتر ہے ۔جابر اس کے بعد کہتےہیں کہ آیت شریفہ{إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئک ہُمْ خَيرْ الْبرَيَّۃ}حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے {قد جاءخیر البریۃ}۔
حق اورعدل و انصاف کے معاملہ میں آپ کی سخت گیری کے سبب سے جاہل،تنگ نظراورمفاد پرست لوگ آپ کے دشمن بن گئے۔جہل و عناد اورتنگ نظری کی شیطانی تلوار انیس رمضان المبارک چالیس ہجری کو نیام سے نکلی۔تنگ نظر دہشت گرد نے لا حکم لالا للہ کا نعرہ لگا کر مسجد کوفہ کو نفس رسول خدا کے خون سے رنگین کر دیا۔یہ دہشت گرد بھی علی ابن ابی طالب کو مسجد میں اورحالت سجدہ میں مار کر خدا کی رضا مندی مول لینا چاہتا تھا ۔عجیب بات ہے کہ آج کے دہشت گرد اورتکفیری گروہ بھی اسی روش پر چل رہے ہیں جس کی ابتدا ابن ملجم نے چالیس ہجری میں کی تھی۔وہ علی جس ایک ضربت بقول رسول خدا ثقلین کی عبادت سے بہتر تھی آج اشقی الاولین و الاخرین کی زہر آلود تلوار کی ضربت سے لہولہاں تھے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب کل ایمان کی زبان سے یہ نعرہ بلند ہوا فزت و رب الکعبہ۔۔۔
پورے کوفہ میں اس حملے کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔وہ علی جس کی زندگی کا ہر لمحہ کافروں اور منافقوں کا مقابلہ کرنے اوراسلام کا پرچم سر بلند رکھنے میں گزرا تھا اب لمزور جسم لیکن روح کی طاقت کے ساتھ بستر شہادت پر آرام کر رہے تھے۔اصحاب علی بے چین تھے لیکن علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر سکون۔آپ لوگوں کو نصیحت کر رہے تھے: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو، سنت رسول خدا پر عمل کرو اورامر بالمعروف اورنہی از منکر کو ترک نہ کرو ورنہ ظالم لوگ تم پر مسلط ہو جائیں گے۔اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: قاتل پر صرف ایک وار کرنا۔جب آپ کے لئے دودھ لایا گیا تو اسے قاتل کو پلانے کا حکم دیا۔
امام کی شہادت کے بعد عدی بن حاتم نے آپ کی اس طرح سے تعریف کی: علی بڑے دانا،بینا،بہت طاقتور اورنڈر تھے۔وہ حق بات کہتے اورصحیح فیصلہ دیتے تھے۔وہ حق و دانائی کا سر چشمہ تھے،وہ دنیا کی رنگینیوں سے دور رہتے تھے،وہ راتوں کو جاگتے اور تنہائی میں اپنا محاسبہ کرتے تھے۔وہ سادہ زندگی کو پسند کرتے تھے وہ ہمارے درمیان ہماری طرح رہتے لیکن اس کے دبدبے کا عالم یہ تھا کہ ہم ان سے انکھ نہیں ملا سکتے تھے۔جب وہ مسکراتے تھے تو ان کی
دانت موتی کی طرح چمکتے تھے ۔وہ دیانت داروں اور پرہیزگاروں کی عزت کرتے،محتاجوں ، غریبوں اور یتیموں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے تھے۔نہ طاقتور کو ان کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا ،اورنہ کمزور ان کے انصاف سے نامید ہوتے تھے۔
علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی منزلت کا ذکر اس شخص کی زبانی سنے جس نے امیر شام کی خصوصی فرمایش پر اپنی جان کی امان لے کر علی کی فضائل بیان کئے۔یہ ضرار نامی شخص ہے جو امیر شام اوردرباریوں کے سامنے کہتا ہے : علی ایسا شخص تھا جس کے ارادے بلند ، قوی اور مضبوط تھے۔اس کی پہلووں سے علم کے چشمے پھوٹتے تھے۔اس کی زبان پر حکمت کا پہرہ تھا۔وہ دنیا اور اس کی بہاروں اورلذتوں سے غیر مانوس تھے۔خوف خدا سے آنسو بہاتے تھے۔ضرارکہتا ہے خدا کی قسم میں نے بعض حالات میں دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی میں علی محراب عبادت میں اپنی ریش کو پکڑتے ہوئے سانپ کے ڈسے ہوئے کی مانند تڑپ رہے ہیں اور اس طرح رو رہے ہیں جس طرح کوئی غم کا مارا۔ضرار فضائل بیان کرتا گیا یہاں تک کہ امیر شام سمیت تمام دربار اس حقیقت بیانی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اوران کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔
علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو کھو کر دنیا ایک فقیہ،ایک حکیم،ایک فلسفی،ایک منطقی،ایک خطیب،ایک عالم ،ایک مومن، ایک مفتی،ایک عادل ،ایک قاضی ،ایک صف شکن،ایک زاہد،ایک عابد،ایک انسان مجسم اور ایک انسانیت کے عدیم المثال قائد سے محروم ہوگئ۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی