وحدت نیوز(آرٹیکل) پیغمبر اکرم ؐ کے بہت سارے معجزات نقل ہوئے ہیں جیسے آپ کے سر مبارک پر بادل کا سایہ کرنا،آپ کے دست مبارک پر کنکریوں کا تسبیح کہنا غزوہ تبوک سے واپسی پر آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی کا پھوٹنا اور بہت سارے اصحاب کا سیراب ہونا،چاند کے دو ٹکڑے ہو جانا اور واقعہ معراج وغیرہ۔ان تمام معجزوں میں سے قرآن کریم پیغمبر اکرم کا اہم ترین معجزہ ہے۔خداوند متعال نے ان لوگوں کے سوال کے جواب میں جو کہتے تھے کہ پیغمبر اکرم ّ کیوں معجزہ نہیں رکھتے ،قرآن مجید کو پیغمبر اکرم ّ کا معجزہ قرار دیا ۔{اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کہ آخر ان پر پروردگار کی طرف سے آیت کیوں نہیں نازل ہوتی ہیں تو آپ کہ دیجئے کہ آیات سب اللہ کے پاس ہیں اور میں تو صرف واضح طور پر عذاب الہی سے ڈرانے والاہوں ۔کیا ان کے یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس کی ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے اور یقینا اس میں رحمت اور ایماندار قوم کے لئے یاد دہانی کا سامان موجود ہے ۔
اعجاز قرآن کی خصوصیات
زمان بعثت کے رایج فنون کے مطابق :
انبیاء الہی کے معجزات غالبا اسی عصر کے فنون اور علوم کے ساتھ ہماہنگ تھے ۔دانشمند ان ان معجزات کے مطالعے کے بعد ان کے خارق العادہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں ۔جیسے حضرت موسی[ع] کے زمانے میں جادو بہت عروج پر تھا اس لئے آپ جادو سے مشابہ ایک معجزہ لے کر آئے اور جب ساحران فرعون نے عصا کو سانپ ہوتے دیکھ لیا تو اس عمل کو خارق العادہ قرار دیے اوراسی وقت حضرت موسی ؑ پر ایمان لےآئے ۔{ اور ہم نے موسی کواشارہ کیا کہ اب تم بھی اپنا عصا ڈال دو وہ ان کے تمام جادو کے سانپوں کو نگل جائے گا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ حق ثابت ہوگیا اوران کاکاروبار باطل ہوااور سب مغلوب و ذلیل ہو کر واپس چلے گئے اور جادوگر سب کے سب سجدے میں گرپڑے ۔]
حضرت عیسی ؑکے زمانےمیں شام اور فلسطین میں طب یونان رایج تھا اور اس زمانےکے معالج مختلف بیماروں کےعلاج کےذریعے سے لوگوں کو حیران کرتے تھے اور لوگ اس پر تعجب کرتے تھے اس زمانے میں حضرت عیسی [ع]نےمردوں کو زندہ کر کے اور ناقابل علاج مریضوں کا معالجہ کر کےثابت کر دیا کہ ان کا رابطہ کسی ماورائی طبیعت سے ہے ۔پیغمبر اکرم ّ کے زمانےمیں فصاحت و بلاغت اپنےعروج پر تھیں اور اعراب شعر و شاعری میں مشہور تھے اور کوئی بھی ان کےفصاحت و بلاغت کے معیارتک نہیں پہنچ پاتاتھا ۔اس زمانے میں خدا وند متعال نےقرآن کریم کو فصاحت و بلاغت کے بالاترین مرتبے کے ساتھ نازل کیا تاکہ کوئی قرآن کےمعجز ہ ہونے کےبارےمیں شک نہ کرے ۔
ابن سکیت اس بارے میں امام رضا ٰ {ع} سے نقل کرتا ہے[میں نےان سےپوچھا کہ خدا وند متعال نےکیوں حضرت موسی ؑکو عصاو ید بیضا اور جادو ختم کرنے والا معجزہ اور حضرت عیسی ؑکو طبابت اور حضرت محمد ّکو قرآن و کلام الہی کے ساتھ بھیج دیا ؟آپ نے فرمایا :جب خدا وند متعال نے حضرت موسی ؑکو مبعوث کیا تو اس زمانے میں معاشرے میں سحر و جادو کا غلبہ تھا اس وقت حضرت موسی ؑ آئے اور سحر و جادو کو ختم کر دیا اور لوگوں پر اس طرح حجت تمام کی اور حضرت عیسیؑ کو اس زمانےمیں مبعوث کیا کہ فالج کی بیماری زیادہ ہو چکی تھی اور لوگ اسی بیماری کے علاج کی طرف محتاج تھے اس لئے حضرت عیسی [ع] اپنےپروردگار کی طرف سےایسی بےمثال چیز لےکر آئےاور وہ خد اکی اجازت سے مردوں کو زندہ کرتے ،نابیناوں کو بینائی دیتے اور جذام جیسی سخت بیماری سےنجات دیتے ۔انہوں نےاس طرح لوگوں پر حجت تمام کی اور حضرت محمد ّ کو ایسے زمانےمیں مبعوث کیا کہ خطابت او رشاعری زیادہ رایج ہو چکی تھیں اس وقت حضرت محمد ّ خدا کی طرف سے ایسے دستورات اور نصایح لے کر آئے کہ اعراب کی خطابت و شاعری کو ختم کر کے رکھ دیا اور اس طرح آپ نے لوگوں پر حجت تمام کی۔میں نےعرض کیا خدا کی قسم کسی کو بھی آپ کی طرح نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔]
جاودانگی :
اسلام آخری دین آسمانی اور پیغمبر اسلام آخری پیغمبر ّ ہیں قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے [محمد تم میں سے کسی کا باپ نہیں ہیں لیکن وہ رسول خدا اورخاتم الرسل ہیں اور خداوند متعال تما م چیزوں کا علم رکھتا ہے ] قرآن کریم قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے رسالت پیغمبر برھان و دلیل ہے ۔امام رضا[ع]قرآن کریم کی جاودانگی کے بارے میں فرماتے ہیں :قرآن کریم کسی خاص زمانے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہےبلکہ یہ تمام انسانوں پر حجت و برہان ہے ،باطل کے لئےاس میں کوئی گنجائش نہیں اور یہ خدا وند کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔اس حدیث شریف میں جاودانگی قرآن کے راز کو دو نکات میں خلاصہ کیا گیا ہے۔پہلا: یہ کہ قرآن خداوند متعال کی طرف سے نازل ہوا ہے اور باطل کی اس تک رسائی ممکن نہیں اور یہ ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے۔دوسرا:انسان ہمیشہ دین آسمانی کی طرف محتاج ہے اور دین اسلام آخری دین آسمانی ہے اس لئے کسی پائیدار معجزے کی ضرورت ہے۔
اعجاز بیانی یا لفظی قرآن کریم
اعجاز قرآن کی ایک صورت اعجاز لفظی و بیانی قرآن ہے اور یہ اعجاز متکلمین و مفسرین کے درمیان بہت مشہور ہے عرب صدر اسلام میں فصاحت و بلاغت میں بہت مہارت رکھتے تھے اور اعجاز لفظی و بیانی قرآن کو صحیح طریقے سے تشخیص دے سکتے تھےلیکن اس بات کو مد نظر رکھنا چائیے کہ تنہااعجاز لفظی و بیانی معجزہ ٴ قر آن نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اسلام تمام لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔{اور پیغمبر ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے صرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ اس حقیقت سے باخبر نہیں ہیں ] اسی طرح قرآن کریم بھی ایک آسمانی کتاب ہے جو تمام انسانوں کے لئے نازل ہوئی ہے ۔[۔۔اور میری طرف سے اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کےذریعے میں تمھیں اور جہاں تک یہ پیغام پہنچے ،سب کو ڈراوں ۔۔۔۔۔۔۔]اسی لئے قرآن مجید مختلف جہات سے معجزہ ہے تاکہ تمام لوگ اعجاز قرآن سےفائدہ لے سکیں ۔
انس و جن کے لئے قران نے جو چیلنج کیا ہے اس سے بھی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اگر اعجاز قرآن صرف لفظی اور بیانی ہو تو تحدی قرآن عرب کے فصحاء و بلغاء کے ساتھ مختص ہو جاتا ہےاور دوسرے لوگوں کے لئے قرآن کا چیلنج بے معنی ہو کررہ جاتا ۔۱۲ اکثر مفسرین و متکلمین قرآن مجید کو از لحاظ الفاظ و معانی معجزہ قرار دیتے ہیں ۔
فصحای عرب کے اعترافات :
فصحای عرب میں سے ایک گروہ کا نام جو اعجاز قرآن کے معترف تھا تاریخ میں ثبت ہو چکا ہے ۔ان میں سے بعض افراداعجاز قرآن کی شناخت کے بعد پیغمبر اکرم ّ پر ایمان لے آئےلیکن بعض افراد نے اپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے اعجاز قرآن سے انکار کیا ۔
ولید بن مغیرہ جو بزرگان عرب میں سےتھا اور شعراء اپنے اشعار کو اس کے سامنے پڑھ لیا کرتے تھے تاکہ وہ بہترین اشعار کا انتخاب کرے۔ایک دن اس نے پیغمبر اکرم ّ سے قرآن پڑھنے کی درخواست کی ۔پیغمبر اکرم ّ نے سورۃ فصلت کی تلاوت فرمائی اور جب تیرھویں آیت پر پہنچے تو ولید لرزنے لگا اور اپنے گھر کی طرف گیا اور دوبارہ قریش کی طرف نہیں آیا ۔قریش جب اس موضوع سے آگاہ ہوا تو ابوجہل کو یہ خبر دی کہ ولید بن مغیرہ دین محمد ؐکے گرویدہ ہو چکاہے ۔ابو جہل اس کے پاس گیا اور اس کی سرزنش کی ۔ولید نے کہا میں دین اسلام کا گرویدہ نہیں ہو چکا ہوں بلکہ ایسا کلام سن چکاہوں جو انسان کو لرزاتا ہے۔ابوجہل پوچھتا ہے یہ کلام شعر تھا یا خطابت ؟ولید کہتا ہے نہ شعر تھا اور نہ خطابت چونکہ میں اشعار اور خطابت کی پہچان رکھتا ہوں۔ابوجہل کہتا ہے پس کیا کرے ؟ ولید نے کہا مجھے کل تک مہلت دو تاکہ اچھےطریقے سے اس کے بارے میں سوچ سکوں ۔ایک دن بعد اس نے قریش سے کہا کہ قرآن جادو ہے ۔لہذا خداوند متعال نے سورہ مدثر کی گیارویں آیت سے اکتیسوں آیت تک اس بارے میں نازل کی ہے ۔
ہشام بن حکم کہتا ہے : حج کے ایام میں ابن ابی العوجاء،ابوشاکر دیصانی ،عبد الملک بصری اور ابن مقفع خانہ کعبہ کےاطراف میں جمع ہو گئے اور حجاج کی توہین اور قرآن کو لعن و طعن کرنے لگے ۔ان میں سے ہر ایک نے ارادہ کیا کہ ایک چوتھائی قرآن کا مقابلہ کرے اور آیندہ سال حج کے ایام میں وہ کلام پیش کرے۔اور جب حج کا موسم شروع ہو ا توابن ابی العوجا ء کہتاہے: میں اسی وقت اس آیت کے بارے میں سوچنے لگا [اور جب وہ لوگ یوسف کی طرف سے مایوس ہو گئے تو الگ جا کر مشورہ کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔}لیکن اس آیت کی فصاحت و بلاغت کے ساتھ کوئی چیز بھی اضافہ نہ کر سکا اور اسی آیت نے مجھے دوسری آیتوں کے بارے میں سوچنےسے روک دیا ۔
عبد الملک کہتاہے :میں اس آیت کے بارےمیں سوچنے لگا[انسان تمہارے لئے ایک مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے لہذا اسے غور سے سنو ۔یہ لوگ جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر آواز دیتے ہو یہ سب مل بھی جائیں تو ایک مکھی نہیں پیدا کر سکتے اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اس سےچھڑا بھی نہیں سکتے کہ طالب و مطلوب دونوں بہت ہی کمزور ہیں ۔]
ابو شاکر کہتا ہے : میں اسی زمانےمیں اس آیت کے بارےمیں فکر کرنے لگا[یاد رکھو اگر زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ اور کوئی خدا ہوتا توزمین و آسمان دونوں برباد ہو جاتے عرش کامالک پروردگار ان کی باتوں سےبالکل پاک و پاکیزہ ہے ۔]
ابن مقفع کہتاہے :اے دوستو: یہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں ہو سکتا،میں بھی اس آیت کے بارے میں سوچتے سوچتے رہ گیا[اورقدرت کا حکم ہوا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اوراے آسمان اپنے پانی کو روک لے اور پھر پانی گھٹ گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اورآواز آئی کہ ہلاکت قوم ظالمین کے لئے ہے ۔]۲۴ لیکن اس کی حقیقی شناخت نہ ہو سکی اور اس طرح کے کلام پیش کرنے سے عاجز آگیا ۔ہشام کہتاہے جب امام صادق[ع]ان کے پاس سے گزرے اور آپ نےاس آیت کی تلاوت کی[آپ کہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کی طرح کوئی کلام لےآئیں تو کبھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کےمددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ بن جائیں۔]وہ لوگ تعجب سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اورکہنےلگے کہ اگراسلام حقیقت ہے توصرف جعفر ابن محمد ہی محمد ؐ کا حقیقی جانشین ہو سکتاہے ،خدا کی قسم ہر گز ان لوگوں کو نہیں دیکھامگر سب ان کی ہیبت سے لرزنےلگے اوراپنی ناتوانی کا اعتراف کرتے ہوئے پراگندہ ہو گئے۔
اعجاز قرآن بہ لحاظ محتوی ومعارف:
اعجاز قرآن کریم کا ایک جہت محتوی و معارف قرآن ہے ۔بہت سارےمتکلمین اور مفسرین نے اس جہت کی تصریح کی ہے۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے محتوی و معارف قرآن کریم کی جہت کو اہم ترین وجہ قرار دی ہے ۔
خداوند متعال قرآن کریم کی اس طرح توصیف کرتا ہے:[اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گذاروں کے لئے ہدایت ،رحمت اور بشارت ہے ۔ یعنی قرآن کریم ہدایت ہے اور تمام حقایق اور معارف کو جو انسان کی سعادت کے لئے ضروری ہیں بیان کرتا ہے ۔قرآن کریم منکرین رسالت کے بارے میں فرماتاہے ۔[تو آپ کہ دیجئے کہ اچھا تم پرودرگار کی طرف سے کوئی کتاب لے آو ٴجو دونوں سے زیادہ صحیح ہو اور میں اس کا اتباع کر لوں اگر تم اپنی بات میں سچے ہو۔]یہ آیت قرآن کریم کے محتوی اور معارف کے ذریعے سے چیلنج کرتی ہے نہ فصاحت و بلاغت کے ذریعے سے ،کیونکہ ہدایت میں جو چیز نقش رکھتی ہے وہ محتوی ومعارف قرآن ہے ۔
تحریر۔۔۔۔ محمد لطیف مطہری کچوروی
حوالہ جات:
1. عنکبوت ،50،51۔ترجمہ علامہ ذیشان جوادی ۔
2. اعراف،۱۱۷،۱۲۰۔
3. ابوبکر باقلانی ،الانصاف ص۶۱۔ابوالحسن ماودی ،اعلام النبوۃ،ص۱۳۶۔عبد الرازاق لاہیجی،گوہر مراد،ص۳۸۵۔
4. محمد بن یعقوب کلینی ،اصول کافی ،ج۱،کتاب العقل و الجھل ،ج۲۰
5. احزاب ،۴۰۔
6. ابو القاسم خوئی ،البیان ،ص ۵۴۔البوا لحسن ماوردی،اعلام النبوۃ۔
7. الامام رضا،مسند، ج۱ کتاب التفسیر،باب فضل القرآن ،ص ۳۰۹،ح ۱۳۔
8. عبد اللہ جواد آملی،علی بن موسی الرضا و القران الکریم ،ص۱۲،۱۳۔
9. روح اللہ خمینی ،تبیان آثار موضوعی ،ص ۶۱۔
10. سباء،۲۸۔
11. انعام ،۱۹۔
12. محمد حسین طباطبائی ۔المیزان ،ج۱۰،ص ۱۶۳،ج۱،ص۵۸۔
13. یوسف،۸۰
14. حج،۷۳۔
15. انبیاء،۲۲۔
16. ہود،۴۴۔
17. اسراء،۸۸۔
18. احمد بن علی طبرسی،الاحتجاج ،ج۲،ص ۱۴۲۔
19. محسن فیض کاشانی ،علم القین ،ج۱،ص۴۸۶۔
20. نمل،۸۹۔
21. محمد حسین طباطبائی ،المیزان ،ج۱۲،ص۳۲۴۔
22. قصص،۴۹۔
23. عبد اللہ جواد آملی،تفسیر موضوعی قرآن کریم ،ج۱،ص۱۳۸۔ابوالحسن شعرانی ،شرح تجرید،ص۵۰۱۔
24. ہود،۴۹،یوسف۱۰۲،آل عمران۴۴۔
25. بقرۃ،۷۶۔
26. آل عمران،۷۲۔
27. قصص،۸۵۔
28. محمد باقر مجلسی ،حیوۃالقلوب،ج۲،ص۱۵۹۔
29. محمد حسین طباطبائی ،المیزان ،ج۱۶،ص۸۶،۸۸۔
30. روم،۲،۴۔
31. ابوا لقاسم خوئی ،البیان ،ص۸۳۔محمد حسین طباطبائی ،المیزان،ج۱،ص۶۵۔