شاید دیدا رنصیب ہو جائے!

11 مئی 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) سینکڑوں برس ہوچلے ہیں کروڑوں انسان اس آرزو کو لیئے منتظر پھر رہے ہیں کہ آپؑ تشریف لے آئیں۔ باپ بیٹوں کو ان کی آمد کا مژدہ سناتے چلے گئے،مائیں آج بھی بچوں کو ان کے انتظار کی گھٹی پلا کر جوان کرتی ہیں ،خواتین، مرد، بچے ،بوڑھے ،جوان ہر مذہب، مسلک ،مکتب اور خطہء ارضی وسماوی کی مخلوقات اور آدم زاد ان کی آمد کی حسرت دل میں لیئے زندگی کے سفر کو طے کرتے ہیں ۔۔۔۔۔پھول ،کلیاں،گلستان، خوشبو بکھیرتے ہیں ،شمع آپؑ کے فراق کو برداشت نہیں کرپاتی اور لاکھوں اشک بہاکر آپؑ سے التفات کا اظہار کرتی ہیں ،بُلبل اپنی زبان میں آپؑ کی تڑپ میں غزل سرا رہتا ہے ،عاشقان خون کے آنسو بہا کر آپؑ کی یاد میں مارے مارے پھرتے ہیں ،ہر ایک آپؑ کے دیدار کامشتاق ہے، ہر ایک آپؑ سے ارتباط کا خواہش مند ہے، ہر ایک آپؑ کی زیارت کیلئے تڑپتا ہے۔۔۔۔۔یہ تڑپ ،یہ بے قراری، یہ آرزوئے ملاقات، یہ خواہش دیدار۔۔۔۔۔وقت گذرنے کے ساتھ مایوسی نہیں پھیلاتے بلکہ ۔۔۔۔۔آتش عشق و آرزوئے وصال میں شدت پیدا کر رہے ہیں لہٰذا دعائیں کی جاتی ہیں کہ دیدار نصیب ہو ۔۔۔۔۔مناجات و ورد کیا جاتا ہے کہ آپؑ کی زیارت ہو،آنسو بہائے جاتے ہیں کہ مولاؑ تشریف لے آئیں اور دنیا کو ظالموں سے آزاد کروائیں ،کیسی کیسی اُمیدیں ہیں جو آپ ؑ کے ظہورتک موقوف ہیں ۔۔۔۔۔کتنے فیصلے ہیں جو صرف آپؑ کی آمد کے اعلان کے ساتھ مربوط ہیں۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ! وہ لوگ جو انتظار کر رہے ہیں ،جنہیں آپؑ کا منتظر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جو آپؑ کے فراق میں تڑپتے ہیں اور وصال کیلئے آتش عشق کو جلائے ہوئے ہیں اس دنیا کے خوش نصیب ترین لوگ ہیں ۔۔۔۔۔15 شعبان المعظم آپ ؑ کے میلاد پاک کا مبارک دن ہے ،اس روز پوری دنیا میں عاشقان مہدی ؑ، آپؑ کی یاد سے محافل گرماتے ہیں، آپؑ کے ذکر سے لذت دیدار و تڑپ ،انتظار کے لطف اُٹھاتے ہیں ،حقیقت تو یہ ہے کہ سچے اور کھرے عاشقان ہر دم و ہر لحظہ اسی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں  سچے اور کھرے عشق کا تقاضا بھی یہی ہے۔

 آپ کا فرمان ہے کہ " میں خاتم الاوصیاء ہوں، اللہ عزوجل میرے وسیلہ سے میرے خاندان اور میرے شیعوں کے مصائب ومشکلات ٹال دے گا" اور آپؑ کا یہ فرمانا کس قدر خوبصورت ہے کہ " میری غیبت کے زمانہ میں مجھ سے عوام کو اس طرح فائدہ پہنچے گا جس طرح سورج بادلوں کی اوٹ میں چلا جائے تو اس کے فوائد زمین والوں کو حاصل ہورہے ہوتے ہیں"۔

آج ہم پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص جن مشکلات سے دوچار ہیں ان کو سوچ اور سمجھ کر کئی ایک بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑی تباہی آنے والی ہے اور ناگہانی آفات گھیرنے والی ہیں،مشکلات اور مصائب پہاڑ بن کر سامنے آجاتے ہیں اور نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ہوتی کہ ۔۔۔۔۔یکایک مشکلات ٹل جاتی ہیں ،مصائب اور پریشانیاں کافور ہوجاتی ہیں ،غالب دکھائی دینے والا دشمن مغلوب ہوجاتا ہے ،کسی کے وہم و گمان اور سوچ و فکر میں بھی نہیں ہوتا کہ یوں مشکلات سے جان چھوٹ جائے گی مگر ایسا ہوتا ہے اور ایک بار نہیں بار بار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔یہی وہ فائدہ ہوتا ہے جو بادلوں کی اوٹ سے سورج پہنچا رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اور اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ہم (اہل تشیع) بغیر صاحبؑ( سرپرست وولی ) کے نہیں ہیں ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ہم اس کا ادراک کریں یا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ایسے الطاف و کرم پر آپؑ کی طرف متوجہ ہوں یا نہ ہوں ۔۔۔۔ان کا لطف و کرم جاری رہتا ہے،ان کے کرم کے سایہ کی چھت ہمیشہ تنی رہتی ہے۔۔

دوستان و عاشقان حضرت صاحب الامر والزمان ؑ کی صف میں شمار ہونا یقینا ایسی سعادت و عبادت ہے جس کا شاید کوئی تقابل نہ ہو مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس مقام و مرتبہ کو پانے کیلئے جس پاکیزگی قلب ،طہارت روح و نظر انسانیت سے محبت ،درد مند دل، اور تقویٰ و پرہیز گاری کی ضرورت ہے وہ ہم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔۔۔۔۔ہمیں اس روز (15 شعبان ) کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ،اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ،اپنے روز مرہ معمولات پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم اپنا احتساب کررہے ہوں تو حقیقی منتظر کہلانے کے حق دار ہونگے۔

دوستان و خواہران محترم ! آج کے دن اس بات کا جائزہ ضرور لیں کہ ہم جس امام ؑ کا انتظار کر رہے ہیں ان کی آمد کے بعد معاشرے میں کونسی تبدیلیاں پیدا ہونگی، اگر ہم ان تبدیلیوں کیلئے آج سے ہی کوشش شروع کردیں تو یہ زمینہ سازی آپؑ کی خوشنودی کا باعث بن جائے گی ۔۔۔۔۔اگر امامؑ کی آمد پر مستضعفین مستکبروں پر غالب آنے والے ہیں اور کمزور قرار دیئے گئے ،لوگ غالب قرار پائیں گے ،عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا تو اس کا م کیلئے آج ہی سے کوششیں کیوں نہ شروع کی جائیں ۔ دردمندوں اور زخم خوردوں کیلئے مرہم کیوں نہ فراہم کیا جائے،اگر ہمارے دل مظلوموں و ستم رسیدوں کیلئے تڑپنے سے قاصر رہتے ہیں،ہماری نگاہیں اپنے سامنے ظلمہوتا دیکھتی ہیں اور لا تعلق ہو جاتی ہیں تو معاملہ درست نہیں ہے،اگر ہمارے آس پاس،ہماریے شہروں،ہمارے دیہاتوں اور ہمارے محلوں میں ظلم ہو رہا ہو،اسے روکنے کی جرات نا کی جائے اور مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جائے یا لاتعلقی کا مظاہرہ کیا جائے تو کیسے امامؑ کی ہمرکابی میں ظالموں کے خلاف میدان سجایا جائے گا ۔ عدل کی حکومت تمام عالم پر قائم کرنے کیلئے آج سے ہی تبدیلی کی تحریک کیوں نہ شروع کی جائے ۔یاد رکھیں معاشرے میں تبدیلی ذات میں تبدیلی سے مشروط ہے ۔ معاشرہ سازی کا عمل خود سازی کے راستہ سے ہوکر گذرتا ہے۔

حدیث پاک ہے کہ " جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرا وہ جاہلیت کی موت مرا"

امام العصرؑ کی معرفت کے زینے طے کرنے کیلئے میدان عمل میں رہنا ضروری ہے او ر جو دوست و خواہران میدان عمل میں رہتے ہیں انہیںخود احتسابی کی عادت ضرور ڈالنی چاہیئے ۔ ہر عمل کا جائزہ لیں کہ یہ خدا کی طرف پرواز اور قربت کا باعث ہے یا دشمنان خدا سے تعلق کی مضبوطی کا ذریعہ ہے اگر سفر بہ خدا ہے تو یقینا ہم زما نے کے امام ؑ کی خوشنودی حاصل کر نے میں کامیاب ہوں گے۔ یوم میلاد امام زمانہؑ کے دن خود احتسابی و جائزہ اعمال کے طور پر منائیں۔ اُمید ہے کہ اگر ہم نے احتساب و جائزہ اعمال کیا تو ،ہماری بے قراری ،ہماری دعائیں ،ہماری مناجات، ہماری خواہش دیدار و ملاقات اور آرزوئے وصال معرفت امامؑ کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور ہم حقیقی منتظر کہلا سکیں گے۔

ایک دوست نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ امام حکم ربی سے غائب ہیں اور امر ربی سے ہی ظہور فرمائیں گے،اس صورت میں ہمیں دعائیں مانگنے،گڑگڑانے اور آنسوئوں کیساتھ مناجات اور ظہور کی دعائیں کرنے کی کیا ضرورت ہے وہ امر ربی سے ظاہر ہونگے ،ہماری دعائیں انہیں کیسے ظہور پر مجبور کر سکتی ہیں،،بندہ حقیر نے عرض کیا کوئی شک نہیںکہ امام کی غیبت امر ربی سے ہوئی،اور ان کا ظہور بھی امر ربی سے ہی ہو گا،اس لیئے کہ امر ربی کے سامنے کسی کو بھی سرتابی کی جرات نہیں ،چاہے کوئی بھی ہو،اس لیئے آپ کا ظہور پر نور امر ربی سے ہو گا اللہ جب چاہے گا انہیں ظہور کا اذن فرمائیں گے،مگر بقیۃ اللہ اعظم خود انتظار فرما رہے ہیں اپنے ظہور کا اسی لیئے آپ متظِر بھی ہیں اور منتظر بھی،جب وہ بھی منتظِر ہیں کہ ظاہر ہو کر ظلم کا خاتمہ کر دیں تو ان کا بیقراری میں فرمانا ہے کہ میرے جلد ظہور کی دعا کرو،یہ بہت بڑی عبادت کہی گئی ہے،آپ کی غیبت بلا شک و شبہ ایک الہی راز اور سر ہے ،اس راز سے آئمہ طاہرین نے بھی پردہ نہیں اٹھایا ،ہم بھی نہیں اٹھاتے بس انتظار کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اپنی آخری حجت کو جلد اذن ظہور دے ،ہمارا جلد ظہور کی دعا کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ہم مایوس نہیں ،ہم ان سے امید لگائے بیٹھے ہیں،ہم ان سے محبت اور عشق و عقیدت رکھتے ہیں ،ہم تیاری کر رہے ہیں کہ ظالموں کو نابود کر دیں اور اس راہ کو ہموار کر رہے ہیں ،زمینہ سازی کر رہے ہیں،زمینہ سازی یعنی ظہور کی راہیں ہموار کرنا،اس میں طہارت و پاکیزگی نفس سب سے پہلے ہے،تہذیب نفس سے ہی معاشرہ سازی کی طرف قدم اٹھائے جاتے ہیں،ہمیں اس مقصد کیلئے دو رنگی کو چھوڑناہو گا،دورنگی امام کے سپاہیوں میں نہیں چلتی،یہ کیسے ممکن ہے کہ لشکر حسین میں شامل ہوں اور عملی طور پر شمر ،خولی،یزید،عمر ابن العاص،امیر شام کے کردار و عمل کے نمونے پیش کرو جبکہ امام کے سپاہیوں کو ابوذر،عمار،مالک اشتر،میثم تمار بننا ہو گا،اب دیکھیں کہ کون کتنے پانی میں ہے ،آیا ہم اس قابل ہیں کہ خود کو ان مثالی لوگوں سپاہیان امام کے ساتھ کھڑا کر سکنے کی جرا ت کریں؟ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت نے گھر کیا ہو اور ہم امام کے سپاہی بن جائیں یہ ممکن نہیں،کوئی اس دھوکہ و فریب میں نا رہے کہ وہ سچی بیقراری کے بغیر امام کا سپاہی بن جائے گا اور امام کی قربت اسے حاصل ہوجائے گی،ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ کوئی عدل نافذ کر دے اور ہم آمادہ و تیار ہی نا ہوں۔ذرا جائزہ لیںکہ ہماری محبت اور تڑپ علی ابن مہزیار جتنی ہے،جس نے کتنے ہی حج اس امید اور تڑپ کے ساتھ انجام دیئے کہ دیدا ر نصیب ہوجائے،اور بالآخر اسے یہ سعادت نصیب ہو گئی ،ملاقات ہو گئی،محفل یاران میں بیٹھے کا اذن نصیب ہوا۔ہمیں جائزہ لینا ہے،ہمیں احتساب کرنا ہے ،ہمیں دنیا کی آلائشوں اور فساد سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔

تحریر ۔۔۔۔ارشادحسین ناصر



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree