اگر جج کو دینے کیلئے مرغی ہو تو۔۔۔۔۔

08 مئی 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک دفعہ ایک شخص مرغی فروش کے پاس گیا اور ایک مرغی ذبح کرنے کو کہا مرغی فروش کے پاس آخری مرغی بچی تھی اور اُس نے مرغی ذبح کی ، خریدار نے قیمت ادا کرنے بعد کہا تم اس کی بوٹیاں بنا دو مجھے کچھ کام ہے میں وہ نمٹا کر آتاہوں یہ کہ کر وہ شخص چلا گیا، مرغی فروش نے ابھی مرغی بوٹی کر کے رکھا ہی تھا شہر کا قاضی وہاں آن پہنچا اور کہنے لگا کہ ایک مرغی ذبح کرو ، مرغی فروش نے جواب دیا جناب قاضی صاحب مرغی ختم ہو چکی ہے لہذا میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں قاضی کی نظر تیار شدہ گوشت پر پڑی اور کہنے لگا پھر یہ گوشت مجھے دے دو مرغی فروش نے کہ جناب یہ ایک شخص کی امانت ہے وہ اس کی قیمت ادا کر چکا ہے ابھی وہ اسے لینے آتا ہی ہوگا۔ قاضی کچھ غصے میں کہنے لگا تم مجھے نہیں جانتے میں شہر کا قاضی ہوں ،مرغی فروش نے کہا جناب میں آپ کو جانتا ہوں مگر میں اُس شخص کو کیا جواب دوں گا؟ قاضی کہنے لگا اُسے کہنا تمہاری مرغی اڑ گئی ہے۔ مرغی اڑ گئی ہے !، مرغی فروش کافی تعجب سے کہنے لگا، جناب میں نے اُس کے سامنے مرغی ذبح کر کے بوٹی کرنے لگا تھا بھلا ایک مردہ مرغی کیسے اڑ سکتی ہے؟ قاضی نے کہا یہ تم مجھ پر چھوڑو اور بس تم اُس سے یہی کہو زیادہ سے زیادہ وہ تم سے جھگڑا کرے گا اور آخر عدالت کے لئے میرے پاس ہی آنا ہے، تم بے فکر رہو اور گوشت مجھے دے دو قاضی کے حکم کے آگے مرغی فروش بے بس تھا اور نا چاہتے ہوئے گوشت قاضی کے سپرد کر دیا قاضی گوشت لے کر چل پڑا اِدھر مرغی فروش پریشانی کے عالم میں سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔ابھی کچھ دیر گزرا تھا خریدار مرغی فروش کے پاس آیا اور گوشت کا تقاضا کرنے لگا مرغی فروش نے کچھ سہمے انداز میں کہا کہ مرغی اڑ گئی ہے، خریدار نے حیرت سے کہا مرغی اڑگئی ؟ لیکن میں نے تو ذبح کے بعد بوٹی کر نے دیا تھا بھلا پھر کیسے اڑ سکتی ہے؟! مرغی فروش نے کہا کہ میں بوٹی ہی کر رہا تھا اچانک گوشت مرغی میں تبدیل ہوا اور اڑ گئی بالآخر لڑائی جھگڑے کے بعد قاضی کے پاس جانے کا فیصلہ ہوا اور لوگ دونوں کو لیکر قاضی کے پاس جارہے تھے کہ راستے میں ایک یہودی اور مسلمان آپس میں لڑ رہے تھے یہ دیکھ کر یہ لوگ بھی بیچ بچاو کے لئے کود پڑے اتنے میں مرغی فروش کا ہاتھ یہودی کے آنکھ پر لگا اور ایک آنکھ ضائع ہوگئی، مرغی فروش جو ابھی ایک دلدل سے نکلا نہیں تھا دوسرے دلدل میں پھنس چکا تھا اور لوگ اس کو پکڑ کر قاضی کے پاس لے جا رہے تھے راستے میں ایک مسجد کے پاس پہنچا اور اس نے موقع پاکر جان بچانے کی غرض سے مسجد کی طرف بھاگا اور مسجد کے مینار پر چڑھ گئے لوگ بھی اس کا پیچھا کرتے مینار تک پہنچ گئے۔ مرغی فروش نے لوگوں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر مینار سے چھلانگ لگا دی اور بد قسمتی سے وہ کسی ضعیف اور ناتواں شخص کے اوپر گرا اور وہ شخص وہی مر گیا اس شخص کا جوان بیٹا وہی کھڑا تھا اس نے انتقام کی نیت سے خون خوار آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھنے لگا مگر لوگوں نے پکڑ کر قاضی کے پاس پہنچا دیا۔ قاضی نے جب مرغی فروش کو دیکھا تو ہنسنے لگا قاضی کے دماغ میں صرف وہی گوشت والی بات تھی اور باقی واقعات سے وہ بے خبر تھا جب قاضی کو تمام حالات کا پتہ چلا تو کافی پریشان ہوئے اور ماتھے پر بل پڑنے لگے لیکن کچھ دیر بعد قاضی اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہنے لگا میں ایک ایک کر کے تینوں فیصلے سنا دوں گا لہذا سب سے پہلے مرغی کا مسئلہ حل کروں گا اس کے بعد مرغ کے خریدار اور مرغی فروش کی بات سنی، جب دونوں نے اپنی باتیں مکمل کی تو قاضی نے خریدار سے سوال کیا کہ کیا تمہیں خدا کی قدرت پر بھروسہ ہے؟ کیا اس بات پر ایمان ہے کہ خدا زندوں کو مردہ اور مردوں کو زندہ کرتا ہے؟ خدا کے پاس یہ قدرت ہے کہ وہ جب جس کو چاہے مردہ اور زندہ کرے؟ کیا قرآن میں پرندوں اور اور عیسیٰ علیہ اسلام کو دیے گئے معجزہ کو نہیں مانتے ہو؟ خریدار نے توقع سے ہٹ کر جب یہ باتیں سنی تو کہنے لگا قاضی صاحب میں خدا کی قدرت پر پورا بھروسا ہے اور ایمان ہے لیکن۔۔۔ قاضی کہنے لگا لیکن ویکن کچھ نہیں تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خدا ذبح شدہ مرغی کو کیسے زندہ کر سکتا ہے مطلب تمہیں شک ہے؟ خریدار کہنے لگا قاضی صاحب میرا یہ مطلب نہیں۔۔ قاضی صاحب نے سوال کیا کیا خدا مرغی کو زندہ کر سکتا ہے یا نہیں ہاں میں یا نہیں میں جواب دو؟ خریدار ہاں، قاضی بس فیصلہ مرغی فروش کے حق میں دیا جاتا ہے۔دوسرا کیس شروع یہودی کو بلایا گیا اور یہودی اور مرغی فروش کی ساری داستان سنے کے بعد کہا کہ میں مرغی فروش کو حکم دیتا ہوں کی یہودی کی دوسری آنکھ بھی پھوڑا جائے۔ یہ سن کر یہودی رونے لگا جناب یہ کیساانصاف ہے میں پہلے سے ہی ایک آنکھ سے محروم ہوچکا ہوں آپ دوسری آنکھ سے بھی مجھے محروم کرنا چاہتے ہیں؟ قاضی نے کہا آنکھ کا بدلہ آنکھ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تم یہودی ہو اور یہ مسلمان، کافر مسلمان پر آدھا دیا لے سکتا ہے اب ایک آنکھ کا آدھا تو ہو نہیں سکتا لہذا تمھاری دنوں آنکھ جب خراب ہوگی تو تم اس کے ایک آنکھ کو پھوڑ سکتے ہو قاضی کا جواب سن کر یہودی چکرانے لگا اور سوچنے کے بعد کہنے لگا جناب میں نے اس کو معاف کر دیا اس کا ہاتھ غلطی سے لگا تھا۔۔ آخر میں جوان لڑکا کھڑا ہوا اور اپنے باپ کی مرغی فروش کے ہاتھوں موت کا واقع سنا ڈالا۔ واقعہ سنے کے بعد قاضی نے کہا میں جائے واقع کا جائزہ لینا چاہتا ہوں ، اس کے بعد قاضی تمام لوگوں کے ساتھ مسجد کے مینار کے پاس پہنچ گئے اور لڑکے نے کہا جناب میرا باپ اس مقام پر کھڑا تھا کہ یہ مر غی فروش اوپر سے کودا اور سیدھا میرے باپ پر جا لگا اور میرا باپ مر گیا ۔ قاضی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد مرغی فروش سے کہا تم یہاں کھڑے ہوجاو اور لڑکے سے کہا تم اپنے باپ کے قتل کا بدلا لو ، تم مینار پر چڑھ جاو اور سیدھا اس مرغی فروش کے اوپر کود جانا، لڑکے نے جب یہ فیصلہ سنا تو دنگ رہ گیا اور کہنے لگا قاضی صاحب اگر یہ اپنی جگہ سے دائیں بائیں ہوا تو میں تو مر جاؤں گا؟ قاضی نے کہا یہ میرا مسئلہ نہیں ہے تمھارے باپ بھی تو اس کو دیکھ رہا تھا وہ دائیں بائیں کیوں نہیں ہوا؟لڑکے کو اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگی اور روتے ہوئے کہنے لگا جناب میں اپنے باپ کے خون کو معاف کرنا چاہتا ہوں آپ مہربانی کر کے اس کیس کو خارج کر دیجئے۔۔ خلاصہ یہ کہ" اگر آپ کے پاس قاضی کو دینے کے لئے مرغی ہو تو پھر قاضی ہر کیس کا فیصلہ آپ کے حق میں دے سکتا ہے"۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن، آیان علی ، ڈاکٹر عاصم کا کیس ہو یا پاناما پیپرز کا ہماری عدالت کے اعلی ججزز اور اعلی بیجزنے کبھی کوئی اچھا اور حق کا فیصلہ نہیں دیا۔ ہمیشہ یا تو مرغی کی ٹانگ منہ میں دبا کر فیصلہ سنایا ہے یا ڈنڈا دیکھ کر۔کسی بھی معاشرے کی امن امان و خوشحالی اور ترقی کا اسی فیصد آزاد خودمختار اور عادل عدلیہ پر انحصار کرتی ہے۔ اگر عدلیہ آزاد اور مضبوط بلکہ عادل ہوں تو پھر اس معاشرے کی ترقی میں دیر نہیں لگتی، ایک چور بار بار چوری اسی لئے کرتا ہے کہ اُس کو چوری اور فائدہ کا نشہ چڑ گیا ہے لیکن اُس کو دو دفعہ چوری کی سزا مل جائے تو پھر وہ دوبارہ چوری کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچے گا کہ کہیں پھر عدالت سے کوئی سخت سزا نہ مل جائے، کوئی ظلم کرے تو مظلوموں اور غریبوں کی دلوں میں آخری امید عدلیہ پر ہوتی ہے کہ کہی سے ملے یا نہ ملے عدالت سے تو حق کا فیصلہ ہی آئے گا اور اگر ایک ظالم جابر ڈاکو کو سزا مل جائے تو پھر کسان مزدور غریب اور مظلوموںؤ کا حوصلہ بلند ہوتا ہے اس طرح معاشرے میں اچھائی ٰکی ابتدا اور برائی کی تنزلی شروع ہوتی ہے جس کا براہ راست فائدہ عوام اور ملک کو پہنچتا ہے اور وہ علاقے یا ملک خوشحالی کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ہمارے ملک سے عوام اور رعایا ، امیر اور غریب کا بڑھتا فاصلہ اگر کم کرنا ہے تو عدلیہ کو ٹھیک کرنا ہوگا، ملک سے بیروز گاری، کرپشن، بد امنی ، فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے تو ہمیں اصول اور قوانین پر عمل کرنا ہوگا اور عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں کیسوں کی فائلوں کو تاریخ پہ تاریخ ، رشوت، مرغی اور سفارش کے بغیر حق پر فیصلہ کرنا ہوگا۔ جس دن عدلیہ نے حق گوئی اور پوری دیانت داری سے کام شروع کر دیا تو پھر اس ملک کو خوشحالی ترقی اور امن کی فضا قائم کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

تحریر۔۔۔۔۔ناصر رینگچن



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree