پیکر وفا

01 مئی 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) جب بھی زبانوں اور کانوں میں لفظ وفا آتا ہے ایک ہی لمحے میں ذہن ایک پیکر وفا کی طرف جاتا ہے ،جس نے صحیح معنوں میں وفا کے مفہوم کودنیا والوں کو سمجھا دیا۔وہ پیکر وفا جس نے وفا کا اصلی روپ دکھایا وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا بہادر اور شیر دل فرزند عباس ہے ۔ حضرت عباس علیہ السلام کی قدر و منزلت اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ  روز قیامت تمام شہداء حضرت عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر رشک کریں گے۔عباس اگرچہ امامت کے درجے پر فائز نہیں تھے لیکن مقام و منزلت میں اتنے کم بھی نہیں تھے ،عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر فرشتے قیامت کے دن رشک کر ینگے۔

عباس بن علی بن ابی طالب، کنیت ابو الفضل امام حسن اور حسین علیہما السلام کے بھائی چار شعبان سن ۲۶ ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۶۱ ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال تھی۔چودہ سال اپنے بدر بزرگوار امیر المومنین علیہ السلام کے زیر سایہ، نو سال اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام اور گیارہ سال امام حسین علیہ السلام  کے زیر تربیت گزارے۔ آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت حزام نسل بنی کلاب سے ہیں جن کی کنیت ام البنین ہے۔

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کو دس برس ہوچکے تھےایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا {کہ جو نسب شناسی میں ماہر تھے } اور کہا: ہمارے لیے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کرو جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ہو تا کہ اس خاتون سے ایک بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو۔جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین علیہ السلام کو پہچان کروائی کہ جس کا نام بھی فاطمہ تھاجس کے آباؤواجداد عرب کے شجاع اور بہادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھی۔ اسے فاطمہ کلابیہ کہا جاتا تھا۔ اور بعد میں ام البنین کے نام سے شہرت پاگئی۔ جناب عقیل رشتہ کے لیے اس کے باپ کے پاس گئے اس نے بڑے ہی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ فاطمہ کلابیہ نہایت ہی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعدآپ امیر المومنین علیہ السلام کے گھر  تشریف لائی اور بچوں  کی دیکھ بال  اور ان کی خدمت شروع کی۔جب انہیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کہتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو کبھی تمہارے لیے تمہاری ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ہوجائے۔ میں تمہاری خادمہ ہوں۔

اللہ نے  آپ کوچار بیٹوں سے نوازا: عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان اور یہ چاروں بھائی کربلا میں شہید ہو گئے۔ ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دی جب واقعہ کربلا درپیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام  پر قربان ہونے خاص تاکید کی اور ہمیشہ جولوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آرہے تھے ان سے سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کےبارے میں سوال کرتی تھیں۔
امام سجاد علیہ السلام اپنے چچا عباس علیہ السلام کو اس طرح توصیف کرتے ہیں:{رَحِمَ اللَہُ عَمِیَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلی وفَدی أَخاہُ بِنَفْسِہ حَتَّی قُطِعَتْ يَداہُ فاَبْدَلَہُ اللَّہُ عَزَّوَجَلَّ مِنہُما جِناحَيْن يَطيرُ بِہِما مَعَ الْمَلائِکَۃِ فی الْجَنَّۃِ کَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبی طالِبْ عليہ السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّہِ تَبارَکَ وَتَعالی مَنْزِلَۃٌ يَغبِطَہُ بہا  جَميعَ الشُّہدَاءِ يَوْمَ القِيامَۃِ}

خدا میرے چچا عباس کو رحمت کرے کہ جنہوں نے ایثار و فداکاری کی اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا اور اپنے بھائی پر فدا ہو گئے۔   یہاں تک کہ ان کے دونوں بازوں قلم ہو گئے پس خدا نے انہیں دو پر دیے جن کے ذریعے وہ جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں جیسا کہ جناب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو دو پر دئے۔ عباس کا اللہ کے نزدیک ایسا رفیع مقام ہے جس پر دوسرے شہداء قیامت کے دن رشک کریں گے۔

امام صادق علیہ السلام جناب عباس علیہ السلام کی توصیف میں فرماتے ہیں:{کانَ عَمُّنَا الْعَبَّاسَ نافِذَ البَصيرَۃِ، صَلْبَ الْأيمانِ، جاہَدَ مَعَ أَبی عَبْدِاللَّہِ عليہ السلام وَأَبْلی بَلاءً حَسَناً وَمَضی شَہيدا}ہمارے چچا عباس علیہ السلام اہل بصیرت تھے مستحکم ایمان کے مالک تھے ابا عبد اللہ علیہ السلام کے رکاب میں جہاد کیا اور اس امتحان میں کامیاب ہوئے اور آخر کار مقام شہادت پر فائز ہوئے۔

جناب عباس علیہ السلام کے بچپنے کے بارے میں تاریخ کے اندر زیادہ معلومات نظر نہیں آتی۔صرف اتنا نقل ہوا ہے کہ ایک دن اپنے بابا امیر المومنین کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: بیٹا کہو ایک۔ حضرت عباس نے کہا ایک۔ پھر آنحضرت نے کہا: کہو دو۔ عرض کیا: جس زبان سے ایک کہا اس سے دو کہتے ہوئے شرم آتی ہیں۔

آپ کی دوران جوانی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آپ جنگ صفین میں موجود تھے ۔بعض نے ابوالشعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے قتل کی آپ کی طرف نسبت دی ہے۔ خوارزمی نے لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جب کریب نامی ایک شخص امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے آیا تو آپ نے جناب عباس کا جنگی لباس پہنا اور اس کے ساتھ جنگ کی۔

حضرت علی علیہ السلام کو ایک ایسے بہادر فرزند کی تمنا تھی جو اپنے بعد اسلام کی حفاظت کر سکے اور حسین بن علی علیہ السلام  کے لئے مددگار بنے۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی دعا عباس کی شکل میں پوری ہوئی،حسین علیہ السلام کے محافظ نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عقیل کے ذریعے عرب کے بہادر قبیلے کی بہادرخاتون ام البنین کے ساتھ عقد کیا۔ام البنین سیرت و کردار میں نہایت باکردار خاتون تھیں۔ یوں علی ابن ابی طالب کے نامور فرزند عباس کی شکل میں دنیا میں تشریف لائے جس نے ایک دفعہ پھر جنگوں میں اپنے بابا کی یاد تازہ کر دی ۔

عباس شجاعت کے دو سمندروں کے آپس میں عجین ہونے کا نام ہے عباس وہ ذات ہے جسے باپ کی طرف سے بنی ہاشم کی شجاعت ملی اور ماں کی طرف سے بنی کلاب کی شجاعت ملی۔ صفین کی جنگ کے دوران، ایک نوجوان امیر المومنین علیہ السلام کے لشکر سے میدان میں نکلا کہ جس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی جس کی ہیبت اور جلوہ سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور دور سے جاکر تماشا دیکھنے لگے۔ معاویہ کو غصہ آیا اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی( ابن شعثاء) کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا : اے امیر لوگ مجھے دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں آپ کیسے حکم دے رہے ہیں کہ میں اس نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے جاؤں؟معاویہ نے کہا: پس کیا کروں؟ شعثاء نے کہا میرے سات بیٹے ہیں ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں تاکہ اس کا کام تمام کر دے۔ معاویہ نے کہا: بھیج دو۔ اس نے ایک کو بھیجا۔ اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔ دوسرے کو بھیجا وہ بھی قتل ہو گیا تیسرے کو بھیجا چھوتے کو یہاں تک کہ ساتوں بیٹے اس نوجوان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو گئے۔

معاویہ کی فوج میں زلزلہ آگیا۔ آخر کار خود ابن شعثاء میدان میں آیا یہ رجز پڑھتا ہوا : اے جوان تو نے میرے تمام بیٹوں کو قتل کیا ہے خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تمہاری عزا میں بٹھاؤں گا۔ اس نے تیزی سے حملہ کیا تلواریں بجلی کی طرح چمکنے لگیں آخر کار اس نو جوان نے ایک کاری ضربت سے ابن شعثاء کو بھی زمین بوس کر دیا۔ سب کے سب مبہوت رہ گئے امیر المومنین علی علیہ السلام نے اسے واپس بلا لیا اورنقاب کو ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا۔ یہ قمر بنی ہاشم شیر خدا کا فرزندتھا۔

قمر بنی ہاشم ہمیشہ  امام حسین علیہ السلام کے شانہ بہ شانہ رہے۔ جوانی کو امام کی خدمت میں گذار دیا۔ بنی ہاشم کے درمیان آپ کا خاص رعب اور دبدبہ تھا۔ جناب عباس بنی ہاشم کے تیس جوانوں کا حلقہ بنا کر ہمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔ جو ہمیشہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ ساتھ رہتے اور ہر وقت ان کا دفاع کرنے کو تیار رہتے تھے۔ اور اس رات بھی جب ولید نے معاویہ کے مرنے کے بعد یزید کی بیعت کے لیے امام کو دار الخلافہ بلایا  اس وقت بھی جناب عباس تیس جوانوں کو لے کر امام کےساتھ دار الخلافہ تک جاتے ہیں اور امام کے حکم کے مطابق حکم جہاد کا انتظار کرتے ہیں۔ تا کہ اگر ضرورت پڑے تو فورا امام کا دفاع کرنے کو حاضر ہو جائیں۔

حضرت عباس علیہ السلام عرب کے عظیم بہادروں میں شمار ہوتے تھے کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا لیکن ایک مقام پر جب اسلام کوخطرے میں دیکھا،نانا محمد[ص] کے دین کو سرے سے نابود ہوتے دیکھا، تو عباس سے برداشت نہ ہوسکا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا عظیم  فرزند حسین علیہ السلام اور علی کی شیر دل بیٹیاں یزیدی فوجیوں کا سامنا کریں اس لئے عباس[ع] نے حسین علیہ السلام کی فوج سے اسلام کا علم بلندکیا وہی علم جسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے خیبر میں علی علیہ السلام کے سپرد کیا تھا اسی علم کو حسین بن علی علیہ السلام نے کربلا میں حضرت عباس کو عطا کیا.
مجھے جب حکم ملا عنوان وفا لکھنے کا
میں نے عباس لکھا اور قلم توڑ دیا

تعداد میں بہتر جان نثاروں کے سپہ سالار اور جرنیل  تھےعباس علمدار  لیکن یہی بہترافراد یزیدی افواج  سے مقام و منزلت میں بالا درجوں پر فائز تھے۔حضرت عباس[ع] نے اس مشکل وقت میں اسلام کو بچانے کے لئے جان کی پروا نہ کی اور دنیا والوں کو وفائے عباس دکھا دی ۔یزیدی فوجوں نے عباس کو امان نامہ پیش کر کے راہ مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کی تا کہ قمر بنی ہاشم حسین علیہ السلام کا ساتھ نہ دیں اور وہ اکیلے میدان میں رہ جائیں لیکن قمر بن ہاشم نے ایسا عملی نمونہ پیش کیا جو قیامت تک کے لئے اسوہ بن گیا۔
عباس کبریا کا عجب انتخاب تھا
طفلی میں بھی علی کا مکمل شباب تھا

حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک باب الحوائج ہے اور آپ کا یہ لقب آشناترین اور مشہورترین القاب میں سے ہے۔ حضرت عباس علمدارعلیہ السلام کو دو جہت سے باب الحوائج کہا جاتا ہے ایک یہ کہ آپ واقعہ کربلا میں اہل بیت اطہار کی ہر مشکل گھڑی میں ان کا سہارا تھا اور ہر ایک کی حاجت روائی فرماتے تھے۔ دوسری علت یہ ہے کہ آپ کا روضہ آج بھی لوگوں کی مشکلات اور حاجت روائی کا مرجع ہے جہاں سے ہزاروں لاکھوں حاجت مند آپ کے روضے سے اپنی مرادیں پوری کرکے واپس ہوئے ہیں اس بنا پر بھی آپ کو باب الحوائج یعنی مرادیں پوری کرنے والا در کہا جاتا ہے۔

سلام ہو اس عظیم غازی پر ،حسین[ع] کے علمدار پر،سقائے سکینہ پر ،جس نے فرات کے پانی پر حوض کوثر کے پانی کو ترجیح دی اور نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بابا علی مرتضی علیہ السلام کے ہاتھوں سیراب ہونے کے لئے اسلام پر قربان ہوئے ۔عباس علمدا رنہ صرف حسینی فوج کےعلمدار تھے بلکہ سقائے سکینہ بھی تھے اس لئے مشک اٹھا کر علقمہ کا رخ کرتے ہیں ۔یزیدی فوج فرزند علی علیہ السلام سے بخوبی واقف تھے کہ کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اس لئے عباس کو گھیرے میں لینے کا حکم ہوا اور یوں عباس اشقیاء کے گھیرے میں آگئے۔
شجاعت کا صدف مینارہ الماس کہتے ہیں
غریبوں کا سہارا بے کسوں کی آس کہتے ہیں
یزیدی سازشیں جس کے علم کی چھاوں سے لرزیں
اسے  ارض و سماء  والے  سخی  عباس کہتے  ہیں

عباس علیہ السلام جو سکینہ سے پانی لانے کا وعدہ کر کے آئےتھے اس لئے مشک پانی سے بھر کر جلدی سے خیمے کا رخ کرتے ہیں۔ یزیدی افواج کو یہ بات ناگوار گزری کہ خیمے کے اندر پانی پہنچ جائے اور حسین علیہ السلام کی معصوم بچیاں سیراب ہوں ،اس لئے ہر طرف سے تیروں کی بارش شروع کردی لیکن عباس علیہ السلام نےامام وقت کی دفاع کرتے ہوئے فرمایا:
وَاللَّہِ إِنْ قَطَعْتُمُ يَمينی
إنّی أُحامِی أبَداً عَنْ دينی
وَعَنْ إمامٍ صادِقِ الْيَقينِ
نَجْلِ النَّبیِّ الْطَّاہِرالا مين

خدا کی قسم اگر میرا دائیں ہاتھ قلم کیا جائے تب بھی میں دین کا دفاع کرتا رہوں گا اور اپنے سچے امام کی حمایت کروں گا جو پاک اور امین نبی کا فرزند ہے۔پیکر وفا نے اپنے دونوں ہاتھ اوراپنی  قیمتی جان اسلام اور وقت کے امام پرقربان کیا ۔
جنہیں بھی حق نے بنایا تھا کربلا کے لئے
وہ سب کے سب ہی نمونہ تھے دوسروں کے لئے
مگر یقین ہے قائم کہ حضرت عباس
بطور خاص بنائے گئے وفاء کے لئے

امام  جعفرصادق علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اَلسَّلامُ عَلَيْکَ اَيُّہَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للہِ وَلِرَسُولِہِ وَلاَِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّی اللہ عَلَيْہِمْ وَسَلَّمَ  ۔سلام ہو آپ پر اے خدا کے نیک بندے اے اللہ، اس کے رسول، امیرالمؤمنین اور حسن و حسین علیہم السلام، کے اطاعت گزار و فرمانبردار۔

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف شہدائے کربلا کو سلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"السلام علی ابی الفضل العباس بن أمير المؤمنين، المواسي أخاہ بنفسہ، الآخذ لغدہ من أمسہ، الفادي لہ، الواقي الساعي إليہ بمائہ المقطوعۃ يداہ ۔ سلام ہو ابوالفضل العباس بن امیرالمؤمنین پر، جنہوں نے اپنے بھائی پر اپنی جان نچھاور کردی، دنیا کو اپنی آخرت کا ذریعہ قرار دیا وہ جو محافظ تھے اور لب تشنگانِ حرم تک پانی پہنچانے کی بہت
کوشش کی اور ان کے دونوں ہاتھ قلم ہوئے۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree