وحدت نیوز(آرٹیکل)1- خود پرستی اور انانیت (( افمن کان علی بینۃ من ربہ کمن زین لہ سوء عملہ واتبعوا اھواءھم)) القران / محمد /14
جب انسان اپنی ذات کو ہی جامع الصفات سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور اس کے لا شعور میں یہ بات داخل ہو جاتی ہے کہ وہ ہی تجربہ کار ، مخلص ، صحیح ادراک کرنے والا اور درست معلومات رکھنے والا شخص ہے اور وہ نہ کبھی خطا کا ارتکاب کر سکتا ہے اور نہ منحرف ہو سکتا ہے. تو درحقیقت اسکا معبود ہوا نفس اور اسکی ذات بن جاتی ہے.اور اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ شیطان نے اسے مکمل طور پر ورغلا لیا ہے اور وہ اس کے نرغے میں پھنس چکا ہے. اس مرض میں مبتلا فعال لوگ بھی ہو جاتے ہیں اور غیر فعال بھی. اور اسی طرح اسکا شکار بڑے مسؤولین اور زمہ دار افراد بھی ہوتے ہیں اور نچلے اور متوسط درجے کے مسؤولین اور زمہ دار بھی. اور ہر ایک آیات کریمہ ، احادیث شریفہ ، اقوال عظماء ومعصومین اور ضرب المثل کو اپنی قناعت اور سوچ کی تقویت کے لئے استعمال کرتا ہے۔
مثال کے طور پر عبداللہ بن عمر نے کربلا اور حضرت امام حسین علیہ السلام سے اس لئے دوری اختیار کی کہ یہ سلاطین کی جنگ ہے. اور شریح القاضی نے امام حسین علیہ السلام کے قیام کو زمانے کے امام کےخلاف خروج قرار دیا. کیونکہ وہ یزید اور ابن زیاد کو شرعی اور قانون لحاظ سے زمانے کا امام سمجھتا تھا۔
انفرادی انانیت سے آغاز ہوتا ہے جو کہ بعد میں اجتماعی انانیت کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔
البتہ دشمن کے مقابلے میں اپنے حسب ونسب ،ایمان وعمل اور بہادری اور اچھے اقدامات پر افتخار کرنے کی مثال ہمیں سیرت معصومین میں ملتی ہیں. جو ہدف کے حصول میں مددگار اور تقویت کا باعث ہوتی ہیں. جیسے دربارِ یزید میں امام سجاد علیہ السلام کا خطبہ اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے بعض خطبے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ
(( لابد للمؤمن من حمیۃ یدافع بھا عن دینہ ))
"ضروری ہے کہ ایک مومن کے اندر اپنے دین کے دفاع کا جذبہ ہونا چاہیئے "
اور مومن کو عزیز النفس ہونا چاہیئے۔
نتیجہ:
فقط کریم ،شریف ، بہادر اور عزیز النفس لوگ ہی قوموں کی آبرو ، عزت ، شرف وکرامت کے امین ہو سکتے ہیں.
اور ہمیشہ ذلیل ، پست، بزدل اور خود غرض افراد قوموں کو ذلت اور رسوائی کا سبب بنتے ہیں.
2: خود غرضی اور مفاد.پرستی:
مذکورہ صفات کے لوگ:
1- ایسے افراد پر اصلی ھدف اور مشن واضح نہیں ہوتا۔
2- اور یہ لوگ اپنے موقف پر ثابت قدم نہیں رہتے۔
3- نفسیاتی مسائل اور امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔
اور ان صفات کے پائے جانے کا اصل سبب یہ ہے کہ انکا الہی تنظیم اور اس اسلامی مشن کے ساتھ تعلق سچائی اور صداقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا. اس لئے جب بھی واضح موقف اختیار کرنے کا مرحلہ آتا ہے وہ کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں. اور جہاں انہیں فائدہ نظر آئے وہاں پیش پیش ہوتے ہیں. اور اختلافات کا موجب بنتے ہیں. جب طاغوتی طاقتوں کے خلاف قیام کی بات ہوگی یہ لوگ سرے سے غائب ہونگے. بلکہ ایسا موقف اختیار کریں گے کہ نہ پتہ چلے کہ وہ حق کے ساتھ ہیں یا باطل کے طرفدار ہیں۔
ایسے لوگ اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں. اور ہمیشہ دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں. ہر محفل اور مجلس کے مطابق رنگ اختیار کر لیتے ہیں. خدا وند تعالی نے قران مجید میں اس طرح انہیں پیش کیا ہے.
(( يخادعون الله والذين امنوا وما يخدعون الا انفسهم )) القران / البقرة / 9
" اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں. حقیقت میں وہ فقط اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں. "
حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں ۔
(( اعلموا ان الله يبغض من خلقه المتلون فلا تزولوا عن الحق واهله ))
" جان لو الله تعالى اپنی مخلوق میں مختلف رنگ اختیار کرنے والے سے نفرت کرتا ہے. حق اور اہل حق کا ساتھ کبھی نہ چھوڑو. "
3- شکست خوردہ ، منفی سوچ کے حامل اور ناکام لوگ:
جب فعالیت ہوتی ہے تو اسکے مثبت اور منفی دونوں نتائج سامنے آتے ہیں. اور جتنا فعالیت کا دائرہ کار وسیع ہو گا اتنے ہی رواسب اور منفی اثار بھی نمودار ہونگے۔
جب بعض افراد کے پاس فعالیت اور کارکردگی کے تقاضے پورے کرنے کی اہلیت وصلاحیت اور کام کرنے کا ارادہ نہیں ہو گا تو وہ منفی سوچ والے ناکام اور شکست خوردہ لوگ اپنی اس حقیقت کو چھپائیں گے. تو یہیں سے اختلافات اور دوریوں کا آغاز ہو گا۔
1- وہ الزام تراشی کا راستہ اختیار کریں گے. لوگوں کی نیت اور اخلاص کو مشکوک انداز میں پیش کریں گے۔
2- حوصلہ شکنی کریں اور فقط کمزوریوں اور خامیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں گے۔
3- فعال اور میدان میں حاضر افراد کی کردار کشی کریں گے۔
4- اپنی ذات کی تعریف کرتے ہوئے اپنے موقف کو مخلصانہ ، عاقلانہ ، دانشمندانہ ، متوازن ، اجتماعی مصلحت اور جذبہ دفاع جیسی صفات کے طور پر بیان کریں گے۔
5- فعالیت کے سبب پیدا ہونے والی بعض سلبیات کو دوسروں کے سر تھونپیں گے. اور انھیں تمام تر آفات، پریشانیوں اور ناکامیوں کا موجب قرار دیں گے۔
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں۔
(( ومن عشق شيئاً اعشى بصره وامرض قلبه... فهو ينظر بعين غير صحيحة ،ويسمع باذن غير سمعية ، قد خرقت الشهوات عقله ، واماتت الدنيا قلبه... ))
"اور جب انسان کسی سے عشق کرتا ہے تو پھر اسے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا. اسکا دل بیمار ہو جاتا ہے ، اور صحیح آنکھ سے نہیں دیکھتا ، اور سننے والے کان سے نہیں سنتا ، شہوت اسکے دماغ میں گھس جاتی ہے ، اور دنیا اسکے دل کو مردہ کر دیتی ہے."
جاری ہے۔
تحریر۔۔۔علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی