شام کے بحران کا رخ کس جانب ہورہاہے ؟ٹکراو یا مفاہمت۔۔

22 اپریل 2017

وحدت نیوز (نقطہ نظر) کوئی آپشن نہیں بچا شام کے بحران میں تین اہم واقعات (پلمیرا میں اسرائیلی حملہ ،خان شیخون کاکیمکل پروپگنڈہ،اور الشعیرات ائیربیس پر امریکی میزائل حملہ )علاقائی و عالمی سطح پر انتہائی اہمیت کے حامل واقعات ہیںخاص طور پر عسکری اور خطے میں طاقت کے توازن کے اعتبار اس کے اثرات بے حددرجہ اہمیت کے حامل نظر آتے ہیں ۔

شام میں موجود بحران کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل بیانات پر توجہ دی جائے ۔

الف:روسی وزیر خارجہ لاروف:دنیا کا مستقبل شام کے بحران سے جڑاہو ہے ،نئی دنیا کی مرکزیت اور طاقت کا توازن ،ٹوتے بگڑتے اتحاد کا انحصار اس پہلو پر ہے کہ جس پہلو جاکر شام کا بحران ختم ہوجاتاہے ۔

ب:ہیلری کلنٹن :اسرائیل کو تین پہلو سے خطرات ہیں :ڈیموگرافک(جغرافیائی)،ٹیکنالوجکل ،آئیڈیالوجکل یعنی،فلسطین میں بڑھتی ہوئی آبادی ،۔۔مقاومت کے وہ راکٹ اور میزائل جو دن بہ دن بڑھتے اور بہتر ہوتے جارہے ہیں ۔۔مزاحمت(مقاومت) کا نظریہ جو صیہونیت اور امریکاکیخلاف پنپتا جارہا ہے ۔

ج:سینیٹر جان مکین:یہ خطہ(مشرق وسطی) ہمارے ہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے ،اگر ہم سنجیدہ نہ ہوئےتو ہمارے اتحادیوں کا مستقبل خطرے سے دوچار ہوگا ،امریکی اتحادیوں کو اس وقت مشرق وسطی میںآئیڈیالوجکل اور ٹیکنالوجکلی طورپر اپنے وجود کی بقا کےخطرات لاحق ہیں ،واشنگٹن کو چاہیے کہ براہ راست مداخلت کرے اور انہیں نجات دے ۔

د:جان کیری سابق امریکی وزیر خارجہ :ہم سب داعش کے پھیلاو کو دیکھ رہے تھے لیکن ہم نے نظریں چرالیں کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ اسد پر دباو بڑھے تاکہ وہ ہماری مرضی کے مذاکرات پر راضی ہو ،ہم چاہتے تھے کہ اسد کے ساتھ مذاکرات کے وقت اس لسٹ کو پہلے نمبر پر رکھیں گے جسے سن 2003میں کولن پاول نے حافظ اسد کے آگے رکھا تھا اور اس لسٹ میں اہم ترین مطالبہ ’’(فلسطینی )مقاومتی تحریکوں کو شام سے بھگانا ،ایران سے دوری اختیار کرنا شامل تھا ۔

گذشتہ پانچ سال سے مسلسل ہر قسم کی کوشش کے باوجود امریکہ اسرائیل اور خطے میں اس کے عرب اتحادی بشمول ترکی کے کسی ایک ایجنڈے کو بھی شام میں عملی شکل دینے میں ناکام رہے ۔

ٹرمپ جو کہ اپنی انتخابی مہم میں مشرق وسطی کے بارے میں قدرے مختلف خیالات کا اظہار کررہا تھا جیسے وہ شام میں حکومت گرانے اور شدت پسندوں کو ٹول کے طور پر استعمال کرنےکے بجائے داعش کیخلاف جنگ کی بات کررہا تھا ،عرب بادشاہوں خاص کر سعودی عرب کو شدت پسند وھابی ازم کا مرکز قرار دے رہا تھا لیکن جوں ہی نے ٹرمپ نے اقتدار کی کرسی سنبھالی اسے یقین ہو چلاکہ امریکی سامراجیتی ایجنڈےاور مفادات اس کی حکمت عملی سے بالکل بھی ہم آہنگ نہیں ہیں دوسری جانب انتخابی عمل میں ٹرمپ اور غیر ملکی طاقتوں کے درمیان تعلقات کے اسکینڈل نے بھی سے شدید دباو کا شکار کیا اوریوں اس کا فائدہ ان امریکی ادراوں نے بھر پور انداز سے اٹھایا جو امریکی امپریالزم یا سامراجی ایجنڈوں کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہیں ۔

ظاہر ہے کہ اس وقت خود ٹرمپ کی کیفیت اس صدر کی جیسی ہے’’ جس کے سامنے اس موضوع پر کسی قسم کی کوئی حکمت عملی موجود نہیں ہے‘‘اور وہ پوری طرح امریکی اداروں کے ایجنڈے کو فالو کرنے پر مجبور ہے ۔

لیکن دوسری جانب سامراجیت کا امریکی پلان مشرق وسطی میں لبنان سے لیکر عراق اور پھر فلسطین تک بری طرح ناکامی سے دوچارہے تو خطے میں نئے نئے چلینجز میں بھی مزید اضافہ ہورہا ہے  ۔

صیہونی غاصب ریاست اسرائیل جو پورے مشرق وسطی میں مکمل قبضے کے لئے شام کو ایک کوریڈور کے طور پر استعمال کرنے کا خواب دیکھ رہی تھی سخت پریشانی کا شکار ہے ۔

شام میں کبھی کبھی اس کے طیاروں کی جانب سے حملے اس کی اسی جھنجلاہٹ کو عیاں کرتی ہے لیکن پلمیرا حملے میں شام کی جانب سے جوابی کاروائی اور دو طیاروں کے نقصان کے بعد شائد اس کے لئے کھلے معنوں اپنی جھنجلاہٹ کا اظہار اب آسان بھی نہیں رہا ۔

امریکیوں نے شام کے الشعیرات ائربیس پر میزائل مارنے کی ناکام کوشش کے زریعے خطے میں اپنے وجود کی مضبوطی کا اظہار کرنا چاہالیکن اس حملے کے حقائق نے انہیں کف افسوس ملنے پر مجبورکردیا ۔

سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ نے شام کے الشعیرات ائر بیس پر حملے کے لئے طیارے استعمال کیوں نہیں کئے ؟جبکہ اس کے ائربیس شام کے اطراف موجود اکثر ممالک میں موجود ہیں ۔

الف:امریکہ شام کی جانب سے حملہ آور اسرائیلی طیاروں کیخلاف جوابی کاروائی سے واقف تھا اور وہ جانتا تھا کہ شام ایسا ڈیفنس سسٹم رکھتا ہے جو امریکی طیاروں کو نشانہ بناسکتے ہیں ۔

ب:امریکہ نے الشعیرات پر حملے کے لئے لبنانی فضا کا استعمال کیا تاکہ شام کے ساحلی علاقوں میں پھیلے روسی دفاعی سسٹم سے بچاجاسکے لیکن اس کے باوجود صرف 23میزائل ہی ائربیس تک پہنچ پائے جبکہ باقی میزائل اپنے ہدف سے ہی منحرف کردیے گئے ،جبکہ بعض زرائع کا کہنا ہے کہ صرف تین میزائل ایسے تھے جو ہدف تک پہنچ پائے تھے جن میں سے ایک نے ایئر ڈیفنس پلیٹ فارم کو نقصان پہنچایا تھا۔

ج:اگر شام کی زمین پر امریکی طیارہ مارگرایا جاتا اور پائلٹ قیدی بنایا جاتا تو اس صورت میں کیا امریکہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہ انہیں ریسکیوکر پاتا ؟کیا اس کے لئے ایسا ممکن تھا کہ فوجی آپریشن کے زریعے انہیں چھڑا لیتا ۔؟

د:امریکہ اپنی جاسوسی کی ٹیکنالوجی (SpywareTechnology)کو لیکر بہت اتراتا ہےتو اب تک اس نے الشعیرات ائربیس کے بارے میں کسی قسم کا کوئی سٹیلائیٹ یا وڈیوپروف سامنے کیوں نہیں لایا جوکم ازکم یہ ظاہر کرے کہ کتنے میزائل ائربیس پر آلگے تھے ؟تاکہ پینٹاگون کے اس دعوئے کو مان لیا جائے کہ 59میں سے 58میزائلوں نے ائربیس کو نشانہ بنایا اور وہ ہدف تک رسائی حاصل کرسکے تھے ۔

کیا افغانستان کی پہاڑوں پر مدربم گرانے اور شمالی کوریا کیخلاف دھمکیوں کا مقصد شام میں ناکام میزائل حملے کے شور کو دبانا تھا ؟اور اب جبکہ شمالی کوریا کیخلاف حملے کے شورکی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے تو اس کے پاس اگلا آپشن کیا ہوگا ؟کیا پھر سے کسی بحران زدہ غریب ملک کی پہاڑوں پر کوئی بم گرایا جائے گا جیسے یمن پر۔۔۔؟
افغانستان میں گرائے گئے بم کے بارے کہا گیا کہ وہ داعش کے ٹھکانوں پر گرایا گیا تھا جبکہ تمام تر شواہد بتارہے ہیں کہ یہ بم ان پہاڑوں کے اپر گرایا گیا تھا جن کے نزدیک طالبان عسکریت پسند موجود تھے ۔

امریکی ادارے جانتے ہیں کہ مشرق وسطی سے لیکر دیگر خطوں تک اب ان کے آگے دروازے اس طرح کھلے نہیں رہے کہ جب وہ چاہیں اپنے لشکر کے ساتھ داخل ہوجائیں وہ جانتے ہیں کہ ان کا پلان بری طرح ناکام ہوچکا ہے اور امپریالزم اور سامراجیت کا خواب چکنا چور ہونے جارہا ہے اور وہ اسے بچانے کی بھی پوزیشن میں نہیں ۔
اس کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو سامراجی عزائم کو ترک کرے یا پھر ایک وسیع جنگ کے لئے تیار ہوجائے جس کے نتائج کے بارے کم ازکم اسے یقین ہے کہ اس کے حق میں نہیں نکلے گے ۔

 

تجزیہ وتحلیل۔۔۔حیدر قلی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree