غریب مریض اور سرکاری ہسپتال

09 مارچ 2017

وحدت نیوز (آرٹیکل) کچھ دنوں پہلے ایک قریبی عزیز کے ساتھ اسلام آباد کے ہسپتالوں کا چکر لگانے کا موقع ملا اور جو حالات و واقعات پیش آئے اس حقیقت سے چشم پوشی نہ کر سکا کیونکہ یہ واقعات میرے دیس کے ہر عام شہری کے ساتھ روزانہ پیش آتے ہیں،ہوا کچھ یوں کہ میرے عزیز کو  پیٹ میں تکلف ہوئی جس کی وجہ سے ہم اُسے اسلام آباد کے ایک کلینک میں لے گئے  تو وہاں موجود ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مریض کو فوری ڈرپ چڑھانے کی ضرورت ہے بحرحال شام تقریبا چھ سات بجے سے لیکر رات ۱۱ بجے تک ڈاکٹر صاحب ڈرپ پہ ڈرپ چڑھاتے رہے مگر درد کی شدت میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوتا گیا، مریض کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر سے بیماری کا دریافت کیا تو کہنے لگے جناب ابھی تو میں چیک کر رہا ہوں کہ درد کی وجہ کیاہے جب ڈاکٹر صاحب کے اِس جواب کو سنا تو ایک لمحے کے لئے دل چاہا کہ ڈاکٹر صاحب کو بیڈ پر لیٹا کر جتنے ڈرپ اور انجیکشن مریض کو چڑھائے ہیں اُسی کو کو چڑھا دوں مگر اپنی بے بسی پر خاموش رہا تھوڑی دیر میں نرس صاحبہ آئی اور کہنے لگی، ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے بیماری کا وجہ معلوم نہیں ہو سکا لہٰذا آپ اپنا  پیمینٹ کر کے فوری طور پر پی آئی ایم ایس یا پولی کلینک لے جائیں ۔بیماری سے مجبور ڈاکٹر کی فیس، ڈرپ دوائیوں کے پیسے ادا کرکے ہم پولی کلینک گئے وہاں پر بھی پہنچتے ہی درد کم کرنے کے انجکشن کے ساتھ ڈرپ لگادیئے گئے اور صبح ڈاکٹر کے پاس آنے کا کہا گیا۔

ہم اگلے روز جب بتائے گئے ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو پتہ چلا یہاں تو پرچی لینے کے لئے لوگ صبح چھے بجے سے آئے ہوئے ہیںاللہ اللہ کر کے جب ہمیں موقع ملا تو ڈاکٹر صاحب نے کچھ پوچھنے کی زحمت نہیں کی اور ساتھ بیٹھے میڈیکل ریپ نے کہنا شروع کیا آپ فلاں دوائی فلاں کمپنی کی لے لیں انشااللہ خدا جلد شفا دے گا ساتھ ہی ڈاکٹر نے ہاں میں ہاں ملایا اور وہی دوائی لکھ کر دے دی۔نہ چاہتے ہوئے پرچی لی اور گھر کو آگئے، ایک دن تو دوائی نے اپنا اثر دیکھا یا مگر اگلے دن پھر وہی درد، لہٰذاہم پھر ڈاکٹر کے پاس گئے ۔ڈاکٹر کے سیکریٹری نے ہمیں پریشانی کی حالت میں دیکھا تو کہنے لگے صاحب اس طرح تو آپ کی بیماری کا علاج نہیں ہوگا اور اگر ہو بھی گیا تو کم از کم مہینہ آپ کو ہسپتال کا چکر کاٹنا ہوگا ۔آپ فوری علاج چاہتے ہیں تو میں ایڈریس دیتا ہوں ڈاکٹر صاحب فلاں نجی ہسپتال میں اِس ٹائم بیٹھتے ہیں فیس تھوڑا زیادہ ہے مگر پریشانی کے بغیرعلاج ممکن ہے ہم بھی بیماری سے پریشان تھے فوراََ ہامی بھر لی اور ایڈریس لیکر اسلام آباد کے ایک مشہور پرائیوٹ ہسپتال پہنچے اور فیس ادا کر کے ڈاکٹر صاحب سے ملے اور اُس کو یاد دہانی کرایا کہ ایک دن قبل سرکاری ہسپتال میں آپ نے یہ دوائیاں دی تھی ابھی ہم اپنی بات مکمل نہیں کرپائے تھے، ڈاکٹرصاحب بڑے ہی شفیقانہ انداز میں کہنے لگے رہنے دیجئے اُس پرچی اور دوائی کو ،وہ سرکاری اداراہ تھا ابھی آپ یہ دوائیاں استعمال کریں انشااللہ ٹھیک ہوجائے گا ۔

یقین جانئے ہم یہ رویہ دیکھ کر پریشان ہوگے ۔ایک ہی ڈاکٹر، ایک ہی مریض اور ایک ہی بیماری مگر الگ رویہ الگ دوائی اور الگ ہمدردی۔۔۔ ہمارے ملک کے تقریبا تمام سرکاری ہسپتالوں کے حالات زارکچھ ایسے ہی ہیں جس ہسپتال میں جائیں تو ہر جگہ کچرے کا ڈھیر، مریضوں کی لمبی قطاریں، ڈاکٹرز اول تو ڈیوٹی پر موجود نہیں ہوں گے اگر خدانخواستہ موجود ہوں تو ہڑتال یااحتجاج کے نام پر گھپے مارتے چائے بسکٹ کے مزے لیتے نظر آئیں گے اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو مریضوں سے ایسے برتائو کرتے نظر آئیں گے کہ جیسے ملزم پولیس کے ہتھے چڑ گیا ہو۔ جس طرح پولیس تفتیش کرتی ہے ،اسی طرح  مریض سے سوالات کرتے ہیں ، پھر لمبی چوڑی ایف آئی آر یعنی نسخے لکھتے ہیں۔ اب پولیس والے تو رشوت کے چکر میں لگ جاتے ہیں اور ڈاکٹرمیڈیسن کمپنیوں کی جانب سے گاڑی ، دبئی کی سیراور میڈیکل ریپ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مریض کو ایسے ہی چکر لگواتے ہیں جیسے ملزم کو عدالت کا، آخر میں نہ ملزم کے کیس کی سماعت ہوتی ہے اور نہ ہی مریض کا مرض ٹھیک ہوتا ہے۔مریض اگلے مرحلے میں سسکتے ہوئے پرائیوٹ ہسپتالوں کا روخ کرتے ہیں جہاں سے علاج تو ستر فیصد ہو جاتا ہے مگر مریض خاندان سمیت روڑ پر زندگی گزانے پر مجبور ہوجاتاہے ۔ دوسری طرف سیاست دان چھینک بھی آئے تو باہر ممالک میں چیک اپ کے لئے جاتے ہیں۔آخر عوام اور رعایا کے درمیاں اس قدر فاصلے کیوں؟ کیا عام شہری کو ان سہولیات کا حق نہیں ہیں، کیا غریبوں کے جانوں کی کوئی حیثیت نہیں ؟ آخر ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟کیا سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر مفت میں کام کرتے ہیں؟ کیا ایک میڈیکل کا اسٹوڈنٹس سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں کی جانوں سے کھیل کر ڈاکٹر نہیں بنتا؟کیا یہ پیشہ انتہائی اہم اور ذمہ دارانا نہیں ؟ کیا ڈاکٹر ز کی زرا سی غفلت سے مریضوں کی جان نہیں چلی جاتی؟ دنیا کی لالچ میں مریضوں کو ایسی دوائیاں دی جاتی ہے جو محض پیسے بنانے کے سوا کچھ نہیں۔آخر اس میں غلطی کس کی ہے کیا ہمارے ملک میں کوئی نظم و ضبط اور قانون نامی کوئی چیز نہیں ہے؟

 جی ہاں!قانون تو ہر جگہ بنے ہوئے ہیںمگر عمل کرنے والا کوئی نہیں ۔ دیکھا جائے تو غلطی ہماری ہی ہے ،کسی بھی قانون پر عمل درآمد کروانے میں عوام پربھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم غلاموں کی طرح ہر ایک کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں اور تھوڑے پیسوں کے عوض بک جاتے ہیں۔ہم کبھی معاشرے میں ہونے والی برائیوں پر اپنے لب نہیں ہلاتے ہم اُس وقت تک خطرہ کا نوٹس نہیں لیتے جب تک کہ اپنے دامن کو آگ نہ پکڑ لے،ہم کرپشن کے خلاف اُس وقت تک آواز بلند نہیں کرتے جب تک ہماری جیب سے پیسے نہ نکلیں، ہم اتنے بے وقوف ہیں کہ بار بار اُسی شخص کو ووٹ دیتے ہیں اوراُسی کو سپورٹ کرتے ہیں جس نے ہر دفعہ جھوٹے وعدوں اورکھوکھلے  نعروں کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ ہم رنگ زبان سرحد اور مذہب کے چکر میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ۔ ہم کسی بھی برائی کو اُس وقت تک برا نہیں سمجھتے جب تک اُس برائی کا اثر ہمارے اپنے گھر تک نہ پہنچ جائے ۔ہم اپنے بچوں کے اسکول ایڈمیشن سے لیکر نوکری تک سفارش رشوت کا سہارا لیتے ہیں پھریہ بھی امید لگا تے ہیں کہ باقی سب کے بچے میرٹ پر سلیکٹ ہوں۔ ہم ہمیشہ اپنی کمی اور کوتاہی کو ماننے کے بجائے فوراََ دوسروں کے اچھے کاموں اور دوسروں کی قابلیت میں خامیاں تلاش کرتے ہیں تو معاشرے میں تبدیلی کیسے ممکن ہوگی؟ ہر کام کی ابتدا اپنی ذات سے شروع ہوتی ہیں سب سے پہلے ہمیں اپنی ذات کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ جب ہم کسی دوسرے کوکچھ بولیں تو اس بات میں اثر ہوں۔

ایک اور ہماری سب سے بُری عادت یہ ہے کہ ہم ہر کام دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیںاور اپنی ذمہ داریوں سے بری ذمہ ہونا چاہتے ہیں۔کسی بھی معاشرے کی بہتری کے لئے تعلیم اتحاد، بھائی چارگی اور صبر کا ہونا ضروری ہے ۔ ہماری سوچ اور فکر وسیع ہونی چائیے تاکہ ہم لانگ ٹرم پالیسی پر عمل کر سکیں ۔ راستے کے بیج کسی کانٹے کو دیکھیں تو فورا اسے کنار کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے نہ کہ یہ سوچ کر گزر جائے کہ لوگوں کو آنکھیں کھول کر راہ چلنا چاہیے۔نہیں جناب ہم سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا ہمیں آنکھیں کھول کر اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کا خیال رکھنا ہوگا ، ظاہری فائدے کو چھوڑکر ابدی فائدے کو دیکھنا ہوگا۔جب تک عوام کے بنیادی حقوق کا خیال نہیں رکھا جائے گا وہ معاشرہ ترقی کی منزلوں کی طرف نہیں بڑھ سکے گا۔لیکن ہر چیز کے لئے اس کا طلب ہونا بھی ضروری ہے جس دن ہم میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا حقیقی معنوں میں جستجو پیدا ہوجائے اور ہمیں عوامی طاقت کا اندازہ ہو جائے تو ہمیں اس ملک سے غربت ، دہشت گردی اورکرپشن کو ختم کرنے میں دیر نہیں لگے گی ۔


تحریر۔۔۔۔ناصر رینگچن



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree