دہشت گردی ۔۔۔۔یہ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پہ گذر گئی

27 فروری 2017

وحدت نیوز(آرٹیکل) جب بھی دہشت گردی کی کوئی وارادت، بم دھماکہ یا خود کش حملہ ہوتا ہے تو ہمارے قومی میڈیا،سوشل میڈیا میں پرانی بحث نئے انداز سے شروع ہو جاتی ہے کہ اس کا تدارک کیا ہونا چاہیئے،کیا ہوا،یہ ہوا،وہ ہوا،یہ کیوں نہیں ہوا،،حکومت کی غفلت،دہشت گردوں کی اس قدر قوت،اور طاقت،دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا کردار،اور جوبے گناہ شہید کر دیئے گئے ان کی مالی امداد،زخمیوں کا علاج و سہولیات ،اور اس سے مربوط وہ ساری باتیں جو ہر دھماکے اور دہشت گردی کے واردات کے بعد سامنے لائی جاتی ہیں اور جن پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے،دہشت گردی کی حالیہ لہر جو خاصی سنگین واقع ہوئی ہے اس کے بعد بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ قومی میڈیا اور حکومتی ایوانوں سے لیکر اپوزیشن جماعتوں ،مذہبی سیاست مداروں او سول سوسائٹی میں اس سے پہلے گذرے کسی بھی بڑے واقعہ کے بعد سامنے آنے والی باتوں ،تجزیوں،تجاویز،احساسات،نقصانات،اور تدبیرات کا تکرار واضح ہے ،دہشت گردی کا یہ فیز در اصل پاراچنار میں ہونے والے بدترین دھماکے سے شروع ہوا،پاراچنار سبزی منڈی میں مورخہ 21جنوری کو صبح سویرے ایک خود کش حملہ کیا گیا ،جس میں تیس کے قریب لوگ شہید ہو گئے ،اب اس کے بعد دھماکوں کی سیریز چلی ہے جس کا تسلسل ابھی بھی جاری ہے اور لوگ پاراچنار کو بھول گئے ہیں، اس کے بعد لاہور مال روڑ پہ بد ترین سانحہ پیش آیا اس کے بعد سیہون میں شدید دھماکہ سے نوے کے قریب شہید اور تین سو تک زخمی ہوئے جس سے خوف و ہراس اور غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی،دو دن پہلے ہی چار سدہ میں کچہری میں دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا اس پہ سب شکر ادا کر رہے ہیںکہ بہت بڑا نقصان نہیں ہوا،حالانکہ سات لوگ شہید ہو گئے پچیس تک زخمی ہو ئے،اب روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی ہو رہی ہے کوئی دن ہی شائد خالی جاتا ہو،یہ تحریر لکھی جا رہی تھی کہ لاہور کے ڈیفنس میں ایک بم دھماکے کی خبر نے ہلا کے رکھ دیا ،ڈیفنس لاہور کا پوش ایریا ہے جہاں ایک زیر تعمیر بلڈنگ  کے سامنے دھماکہ ہوا جس میں ابتدائی طور پہ سات لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ پچیس تک کے زخمی ہونے کی اطلاع آئی ہے ،ایک خوف ہراس کی فضا نے اہل لاہور پہ چھائی ہوئی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ جس کا نقصان ہوتا ہے اسے ہی پتہ ہوتا ہے کہ کیا ہوا ہے،اس پہ جو گذرتی ہے اس کا اندازہ صرف اسے ہی ہوتا ہے جس کا نقصان ہوتا ہے،جس کا سہاگ اجڑتا ہے،جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ چھن جاتا ہے،جس کی امید دم توڑ جاتی ہے،جس کی جوانی لٹ جاتی ہے یا جس کے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا جاتا ہے۔۔۔


یہ  میں  ہی  جانتا  ہوں  جو  مجھ  پہ  گذر  گئی
دنیا  تو  لطف  لے  گی  میرے  واقعات  سے

 
لاہور،پشاور،سیہون،مہمند،شب قدر،کراچی،کوئٹہ اور پاراچنار میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کو مختلف ناموں سے بھی تسلیم کیا گیا ہے اور کئی ایک واقعات کو صرف جماعت الاحرار کے نام سے تسلیم کیا گیا ہے،لشکر جھنگوی العالمی کے نام سے بھی دہشت گرد اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔دہشت گرد کتنے سنجیدہ ہیں اور حکمران کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ ان کے اقدامات سے لگایا جا سکتا ہے۔
 دہشت گردی ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے ،اس کا کوئی بھی نام ہو سکتا ہے،یہ نام تبدیل بھی ہو جاتا ہے مگر ہدف اور مقصد وہی رہتا ہے،جو لوگ پاکستان میں کل تک داعش کے وجود سے انکاری تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ ہم داعش کا سایہ بھی پاکستان پر نہیں پڑنے دینگے اب اس کے خلاف آپریشن ردالفساد کرنے جا رہے ہیں جبکہ ہم کئی برسوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ داعش،طالبان،جماعت الاحرار ،جند اللہ،لشکر جھنگوی،سب ایک ہی فکر و سوچ کی حامل ایک ہی چھتری تلے کام کرنے والی دہشت گرد تنظیمیں ہیں،مگر ہماری کون سنتا ہے ،اتنے لوگ مروا کے،اتنے بے گناہ لوگ اور خاندان اجاڑ کے اب یہ خیال آیا ہے کہ پنجاب میں بھی ان کے خلاف کاروائی کی ضرورت ہ ے ۔داعش جسے عراق و شام میں نام نہاد خلافت بنا کے قائم رکھنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا وہاں کی باغیرت حکومتوں اور عوام کے عزم کے سامنے یہ کرائے کے ٹٹو اب اپنے بلوں میں گھستے دکھائی دے رہے ہیں تو ان کا خطرہ ہر سو محسوس کیا جا رہا ہے اب تو کھل کے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں اگر داعش کو شکست دینی ہے اور اس کا راستہ پاکستان میں روکنا ہے تو افغان طالبان کا ساتھ دینا ہو گا،داعش ہی ہے جو افغانستان اور پاکستان سمیت علاقے کے دیگر ممالک اور ریاستوں کیلئے چیلنج بن کے سامنے آ رہی ہے،ہماری وفاقی حکومت ہو یا پنجاب و سندھ کی حکومتیں ہمیشہ سے اس سفاک تنظیم کے وجود سے انکار کرتی آئی ہیں جبکہ گزشتہ تین چاربرس سے مسلسل اس حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بنتی آ رہی ہیں،داعش کے بارے ہم اس سے قبل بھی قارئین کو بتاچکے ہیں کہ اس کے وجود کا اظہار بنوں،میانوالی،اور کراچی و کوئٹہ میں وال چاکنگ کے بعد سامنے آیا تھا،بنوں جو وزیرستان سے منسلک اور جڑا ہوا ہے یہاں ابوبکر بغدادی کی بیعت کے اعلان پر مشتمل وال چاکنگ کی گئی اگرچہ داعش تمام تر سفاکیت،اسلام دشمنی،اور اسرائیلی مفادات کی نگران ہونے کی واضح حکمت عملیوں اور کاروائیوں کے باوجود سپاہ صحابہ اور طالبانی فکر سے منسلک سوشل میڈیا اکائونٹس سے مسلسل اس تنظیم کو خوش آمدید کہا جا رہاتھا،حد تو یہ کہ داعش کو اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کے پیارے ملائوں نے گرم جوشی سے خوش آمدید کہا اور ابوبکر بغدادی سے مدد طلب کی گئی اس کی ویڈیو ریلیز کی گئی، مگر مجال ہے اس بات کا کسی نے نوٹس لیا ہو کوئی ایجنسی حرکت میں آئی ہو کسی پر ایف آئی آر کاٹی گئی ہو جبکہ اس کے مقابل ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر کوئی ناپسندیدہ کام کرنے کی پاداش میں ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص سینکڑوں پرچے شیعہ نوجوانوں پر کاٹے گئے سخت دفعات لگا کر انہیں جیلوں میں پھینکا گیا۔کل تک پنجابی طالبان کے وجود کا انکار کرنے والی نون لیگ کی پنجاب حکومت داعش کے وجود کی بھی انکاری رہی اور ادھر ملک بھر میں اس تنظیم کی چاکنگ سامنے آ تی رہی اور مقامی انتظامیہ اپنی جان چھڑوانے کیلئے لوکل میڈیا کو اس حوالے سے خبریں بلیک آئوٹ کرنے کی منت سماجت کرتی ،دیواروں پر چونا پھروا دیاجاتااور یہ تاثر دیا جاتا کہ داعش کا وجود نہیں ہے یہ بھی کہا جاتا کہ یہ کسی کے ذاتی جذبات ہو سکتے ہیں مگر دانا کہتے ہیں ریت میں سر چھپانے سے حقیقت کہاں چھپ سکتی ہے حکمران جتنا بھی بات کرنے سے گریزاں رہیں یہ سفاک تنظیم ہوا میں تحلیل نہیں ہو سکتی تھی،سیانے کہتے ہیں کہ قالین کے نیچے گرد چھپانے سے حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے جو بہرحال سامنے آجاتا ہے۔اب جماعت الاحرار جو طالبان سے جدا ہوئی اور پہلے پہل جماعت الاحرار ہند کے نام سے سامنے آئی بعد ازاں اس کے کمانڈرز نے داعش کا پرچم تھام لیا اورپاکستان میں کاروائیاں تسلیم کرنے لگے اب لاہور میں ہونے والے دھماکے کو تسلیم کر کے دنیا بھر کی توجہ حاصل کر لی ہے ۔


    یہ بات بہت ہی عجیب ہے کہ دہشت گردوں کی اندرونی خبریں عالمی میڈیا ہی نشر کرنے میں سبقت رکھتا ہے،ہمارے ملک کے وہ ایریاز جہاں ہمارے صحافی جانء میں دشواری محسوس کرتے ہیں وہاں کی خبریں بھی عالمی میڈیا کے ذریعے ہی سامنے آتی ہیں،اس حوالے سے ہمیں یاد ہے کہ عالمی میڈیا نے ہی سب سے پہلے یہ خبردی کہ داعش کرم ایجنسی اور ہنگو کے ایریاز میں بھرتی کر رہی ہے اور اس نے بڑی تعداد میں تربیت یافتہ لوگ بھرتی کر لیئے ہیں،اس دوران تحریک طالبان سے وابستہ اہم ترین کمانڈرز نے بھی ملاں عمر سے الگ ہونے اور ابوبکر بغدادی کی بیعت کرنے کا اعلان کیا ایک ویڈیو پیغام میں  ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان شاہد اللہ شاہد، خالد خراسانی اور حافظ سعید سابق کمانڈر و ترجمان نے طالبان سے الگ اپنا نیا دھڑا داعش کے نام سے بنانے کا اعلان کیاادھر گوانتا نامو بے میں امریکیوں کے پاس کئی سال تک قید رہنے والے ملا عبدالرئوف نے افغانستان میں داعش کا پرچم لہرایا اور ہلمند میں افغان طالبان سے اس کی جھڑپیں بھی ہوئیں،،کئی اہم علاقوں پر داعش نے افغانستان میں قبضہ بھی کیا جبکہ پاکستان میں حافظ سعید جس کا تعلق اورکزئی سے بتایا جاتا ہے کو پاکستان و افغانستان کیلئے امیرکے طور پر سامنے لایا گیا ویڈیو میں کئی اہم افغان کمانڈرز کو بھی دکھایا گیا کہ وہ بیعت کر رہے ہیں شائد اس طرح اپنی طاقت و قوت کا اظہار کرنا تھا ۔داعش نے افغانستان کے شمالی صوبے ننگرہار اور ہلمند میں اپنی قوت کو مضبوط کیا ۔[حافظ سعید کے بارے بعد ازاں خبر آئی کہ اسے افغانستان میں ننگر ہار کے یریا میں ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا ہے] یہ خبر بھی میڈیا میں گردش کرتی رہی ہے کہ افغانستان و پاکستان کیلئے داعش نے ابو محمد العدنی کو کمانڈر مقرر کیا ہے،اس سے بھی قبل پاکستان میں داعش کے سربراہ کے حوالے سے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے خبر دی تھی کہ یوسف السلفی پاکستان میں اس کا سربراہ ہے جو یہاں بھرتیا ں کر رہا ہے،بعد ازاں لاہور کے نواحی ایریا سے یوسف السلفی کو دو دیگر ساتھیوںسمیت گرفتا ر بھی کر لیا گیا تھا معلوم نہیں اس کا کیا بنا سے کہاں رکھا گیا ہے،سانحہ صفورا میں پکڑے جانے والے دہشت گرد عبداللہ منصوری کا تفتیشی افسران کویہ کہنا تھا کہ عبداللہ یوسف عرف ثاقب داعش کا سربراہ ہے جو شام سے پاکستان نیٹ ورک چلانے کیلئے آیا وہ لوگ ان کے ساتھ رابطے میں تھے جبکہ یہ خبر بھی آئی کہ کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق زبیر الکویتی نامی بندہ اپنے سات دیگر ساتھیوں سمیت افغانستان کے راستے پاکستان آئے ہیں ان میں ایک انڈین سعید الاسلام بھی ہے جو داعش کے مالیات کو دیکھتا ہے،ان لوگوں نے کالعدم لشکر جھنگوی،اہل سنت والجماعت،طالبان ،جماعت الاحرار اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے روابط کر کے تنظیم کو مضبوط کرنے اور سفاکانہ کاروائیاں کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔یہ خبر بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہندوستان کے کرناٹک ایریا سے بنگلور سے تعلق رکھنے والا ایک آدمی 2014میں گرفتار کیا گیا تھا ،یہ شخص داعش کا ٹویٹر اکائونٹ چلا تا تھا اور اہم خبریں انگریزی میں نشر کرتا تھا،اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اس خطے میں اس منحوس ،سفاک و دہشت پسند گروہ کا وجود بہت پہلے سے ہی تھا،یہ الگ بات کہ ہمارے حکمران اب بھی اس کا انکار ہی کرتے نظر آئے اب جس ویب سائٹ سے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے اس کا آئی پی ایڈریس بھی ہندوستان سے بتایا جا رہا ہے،جس کا واضح طور یہی مطلب لیا جا رہا ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کے پس پشت ہندوستان ہے جو افغانستان میں کافی موثر ہے اور دہشت گردی کے نیٹ ورکس چلانے کیلئے اس کی خفیہ ایجنسی وہاں ڈیرہ لگا چکی ہے۔

حکومت کی سنجیدگی؛
اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہے کہ انڈیا پاکستان کا ازلی دشمن ہے ،کسی بھی دشمن سے دشمنی کی ہی توقع رکھی جاتی ہے مگر جو لوگ پاکستان کے دوست ہونے کے دعویدار ہیں ان سے دشمن کے ساتھ کھڑے ہونے کی خبر ہلا کے رکھ دیتی ہے،عرب ممالک،سعودیہ،قطر،متحدہ عرب امارات  سے جسطرح ان پاکستان دشمن قوتوں کی مدد کی جا رہی ہے اور ان کے ویزوں سے لیکر فنڈز کا لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے اس پہ ہمارے حکمران اور ذمہ دار ادارے خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیںہمارے خیال میں اگر نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیاجاتا اور ان کی فنڈنگ روک لی جاتی،مدارس کے نام پر دہشت گردی کے ہزاروں مراکز کو کنٹرول کیا جاتا تو آج نوبت یہان تک نہ آتی مگر ہم کیا کریں ان عرب بدوئوں کے سامنے ہمارے حکمرانوں کی حالت ایسے ہی ہے جیسے ہم ان کے غلام اور خریدے گئے ہیں،اگر حکمرانوں نے اب یہ ٹھان لی ہے کہ اس شر اور فساد کا خاتمہ کرنا ہے تو ہر صورت میں مدارس کے نام پر ،تحفظ حرمین کے عنوان سے ریالوں اور پیٹرو ڈالرز کی جھنکار کو روکنا ہو گا،اس بات کو سیکیورٹی ادارے بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کو پاکستان کے کن مدار س سے آپریٹ کیا جاتا ہے اور کون کون غیرملکی فنڈنگ کے تحت اس ملک کو غیر مستحکم کر رہا ہے،افسوس کہ یہاں بے گناہوں کو تو بہت ہی معمولی باتوں پر غائب کر لیا جاتا ہے جبکہ دہشت گرد کھلے عام گھوم رہے ہیں ان کے سہولت کار بھی سب کے سامنے پھر رہے ہیں ،اب جب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں رینجر کو محدود اختیارات کے تحت دہشت گردی کے خلاف میدان میں لایا جا چکا ہے تو ان کی کاروائیوں کے زاویوں سے حکمرانوں کا خلوص جانچا جا سکے گا جس  حکومت کے وزرا دہشت گرد و کالعدم گروہوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور شروع سے ان پہ انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں آیا ان گروہوں اور ان کے اصلی سہولت کاروں کے خلاف بھی کوئی اقدام سامنے آئے گا ،ایک ملک کا وزیر دفاع ایک عالمی کانفرنس مین جب یہ تسلیمکرتا ہے کہ حافظ سعید کو ایک ایسے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جو شر و فساد پھیلانے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے تو ایسے شریروں کے خلاف مستقل بنیادوں پر کیوں قانون حرکت میں نہیں آتا،ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نام بدل کے کام کرنے والے کالعدم گروہ جن سے پنجاب حکومت کے وزرا کے قریبی تعلقات ہیں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو یہ کہا جا سکے گا کہ حکمران دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیںاور اگر معروف کالعدم گروہ جو تمام دہشت گردوں کو پنیری فراہم کرنے کا کام کرر ہا ہے پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی تو پھر اس آپریشن رد الفساد پر بھی اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی نیشنل ایکشن پلان کی طرح فاتحہ پڑھ لیں،آپریشن رد الفساد کا آغاز ایسے وقت میں ہوا ہے جب قومی سطح پر فوجی عدالتوں کے قیام میں تاخیر کی جا رہی ہے اور بہت سے دہشت گردوں کو سزا ینے کا عمل رکاہوا ہے ،اب یہ سزا شائد پولیس مقابلوں کی شکل میں دی جا رہی ہے، ،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree