دہشتگردوں کا علاج ممکن ہے

17 فروری 2017

وحدت نیوز (آرٹیکل) جب بھی کوئی انسان بیمار ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ بیماری کی نوعیت دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر یہ بیماری دوائی کے بغیر احتیاط اور پرہیز سے ٹھیک ہونے والی ہو تو وہ ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع نہیں کرتالیکن اگر بیماری بڑھ جائے یا کوئی سخت تکلیف میں مبتلا ہو تو فورا متعلقہ ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے ، ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرتا ہے اوراپنی پسند کی لذیذ غذاوں سے وہ ڈاکٹر کے کہنے پر اجتناب کرتا ہے اور کڑوی گولی کھانے پر راضی ہوجاتا ہے، لیکن اگر خدانخواستہ کسی کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو یا اُس کے جسم کا کوئی عضو خراب ہوجائے جو اس کے جسم کے دیگر صحت مند اعضاء کے لئے خطرہ ہو تو اس عضو کو جسم سے جدا کرنے میں دیر نہیں لگتا مثلا اگر کسی کا ایک گردہ کام کرنا چھوڑ دے اور اس کو جسم سے نکالنا لاذمی ہو تو پھر مریض کسی چیز کی پرواہ کئے بغیرجلد سے جلد ڈاکٹر کی ہدایت پر اپنی صحت یابی کیلئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے چاہیے اُس کے لئے کتنے ہی پاپڑ کیوں نہ بیلنا پڑے، مریض اپنی صحت یابی اور اس بیمار حصے کو جسم سے دور کرنے کے لئے اپنی تمام جمع پونجی کو دواء پر لگا نے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مریض کے لئے یہ سب کرناآسان ہوتا ہے؟کیا اس کو آپریشن کے عمل سے گزرنا نہیں پڑتا؟اس کے جسم کو ڈاکٹر چیر پھاڑ نہیں دیتے؟ کیا وہ علاج کی خاطر امیر سے فقیر نہیں بن جاتا؟آخر وہ یہ سب کیوں کرتا ہے؟ایک اعضوکے خراب ہونے سے کیا ہوگا، باقی جسم تو سالم ہے؟ لیکن نہیں کوئی بھی صاحب عقل اپنی بیماری کا علاج کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھتاکیونکہ وہ جانتا ہے کہ کسی بھی بیماری کا علاج اگر بروقت نہیں کیا گیا تو کوئی بڑا نقصان ہوسکتا ہے یا پھر وہ جلد موت کے منہ میں پہنچ سکتا ہے۔

میرے ملک میں ہر سانحے کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے ،چار نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوتاہے اوراس پر عمل در آمد کی یقین دہانی کے ساتھ اجلاس اپنے اختتام کو پہنچ جاتاہے ، یہ سلسلہ تا شروع سے چلتا آرہا ہے یہاں تک کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کادل خراج سانحہ رونما ہوتاہے۔ یہاں پہنچ کر ایک لمحے کو محسوس ہونے لگا تھاکہ اب کوئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر آگیا ہے جوشاید تحقیقاتی ٹیم کو میدان عمل میں لے آئے گا۔ لیکن جس قدر عوام کو توقع تھی ایسا نہیں ہوا آپریشن ضرب عضب مخصوص علاقوں میں شروع ہوا اور کامیاب بھی رہامگر اس ناسور کی جڑ تک نہیں پہنچ سکاتو دوسری طرف نیشنل ایکشن پلان کو ترتیب دیا گیا اور ہمیشہ کی طرح یہ بھی اپنے اصل ہدف سے ہٹ کر سیاسی و دیگر مقاصد کے لئے استعمال ہونے لگا یہاں تک کی لاہور میں ایک دفعہ پھراس کا جنازہ نکل گیا ۔اب تو بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا گراف اس بلند ہوگیا ہے کہ شمارہ ممکن نہیں ، نئے سال کے دو مہنوں میں اتنے سانحات رونما ہوئے ہیں کہ ایسا لگاتا ہے قانون نافظ کرنے والے ادارے اور دیگر ذمہ داران بے بس ہو گئے ہیں، سانحہ پاراچنار کے بعد دوسرا بڑا واقعہ لاہور میں پیش آیا جس میں ڈی آئی جی ٹریفک لاہور کپیٹن(ر) سید احمد مبین زیدی سمیت تیرہ افراد شہید اور 83 زخمی ہوئے ۔سانحہ کے بعد وزیر اعظم اورآرمی چیف شہید ڈی آئی جی کے گھر پہنچ گئے اور لواحقین سے تعزیت کی جو کہ نہایت خوش آئین بات ہے کہ خود وزیر اعظم اور آرمی چیف نے متاثرین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیااور لواحقین کی حوصلہ افزائی کی اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے دشمن کے حوصلے پست اور متاثرین کے حوصلے بلند ہوئے ہونگے۔لیکن میری نظر میں یہ کافی نہیں یہ بلکل ایسا ہی ہے جس طرح کسی زخم کو دیکھے بغیر اس پر دوائی کے بجائے پٹی باندھ دی جائے۔ حکمرانوں اورسیکورٹی اداروں کو چاہئے کہ مرہم پٹی کے بجائے حقیقی معنوں میں اس وطن عزیز کو دشمنوں سے پاک کریں،جس طرح پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کو کامیاب بنایا اور رینجرز نے کراچی آپریشن کو، اِسی طرح ملک کے جس کونے میں بھی دہشت گرد موجود ہوں یا ان کے سہولت کار موجود ہوں تو بلا تفریق ان کے خلاف آپریشن کر نا ہوگا۔ کیونکہ ایک حقیقی نگہبان کبھی بھی اپنے عزیز وں کو نقصان پہنچتے اور بے گناہوں کو خون میں غلطان ہوتے نہیں دیکھ سکتا لیکن افسوس کہ یہاں سب نیم حکیم بنے پھرتے ہیں۔

دارلخلافہ میں کالعدم جماعتیں حکومتی اجازت سے جلسے کرتی ہیں تو دوسری طرف سیاسی تنظیموں پر جلسے کی پابندی لگا دی جاتی ہے، فیس بک آئی ڈیز کی بیس پر نامور بلاگرز اور انسانیت کے لئے درد رکھنے والے دن دھڑے غائب ہو جاتے ہیں لیکن بارودی مواد سے لیس ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے والوں کو سیکورٹی ہائی الرٹ ہونے کے باوجود بھی قانون کی گرفت میں نہیں لیاجاسکتا،اور نہ ہی سوشل میڈیا کی وہ سائٹس اور فون کال ٹریس ہوتی ہیں جہاں سے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے اور بڑے فخر سے پیغامات کے ساتھ ویڈیوز نشر کی جاتی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کواپنی مرضی سے جس کے خلاف چاہئے استعمال کرتے ہیں لیکن جس مقصد کے لئے بنایا گیا ہے اُس پر کبھی عمل نہیں ہوتا۔ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل میں زمین و آسمان کا فرق ہے وہ ظاہری طور پرکچھ کہتے ہیں اور اندر سے کچھ کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں اب ملک میں دہشت گردوں اور ان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والوں کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں پھرانہی دہشت گردوں کے سرپرستوں اور ان کے سہولت کار وں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ صاحب کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ ملاقات کے لئے آنے والے کون تھے پھر ہمیشہ کی طرح پریس کانفرنس ، اخباری بیان اور تمام شد۔

آج جماعت الحرار نے لاہور حملے کی زمہ داری قبول کی ہے وہ کوئی نئی جماعت نہیں ہے افراد وہی ہے بس نام تبدیل کرتے ہیں لیکن انہوں نے جس طرح اپنے اِس ظلم و بربریت کو "آپریشن غازی" کا نام دیاہے یہ غور طلب ہے۔ ملک کے دشمن اور را کے ایجنڈ پھر ایک منظم سازش کے تحت میدان میں اترے ہیں، دہشت گردوں کو غازی کا نام دے کر نیا فتنہ کھڑا کررہے ہیں ، لال مسجد کی طرف سے تردیدی بیان تو آیا ہے لیکن ان کے ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے لہذا سیکورٹی اداروں کو بدلتے عالمی حالات اور وطن عزیز پر پڑنے والے اثرات سے غافل نہیں رہنا چاہے،وطن کی سالمیت اور شہریوں کی تحفظ کے لئے گوڈ بیڈ ، کم زیاد ، سندھ پنجاب کا کوئی فارمولا نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری طرف ہمارے سیاسی قائدین کو بھی اب سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا، دس ووٹ کے لئے کالعدم دہشت گردتنظیموں کے جلسوں میں جانا اور مصلحت کے نام پر اِن کے لئے نرم گوشہ رکھنا عوام اور ملک سے پہلے خود ان کے سیاسی کیریئر کے لئے خطرہ ہے۔اگر وطن عزیز کو عالمی سازشوں سے بچانا ہے اور ملکی سالمیت اولین ترجیح ہے تو دہشت گردی کی اصل جڑوں کو کاٹنا ہوگا، پتے اور شاخوں کو کاٹنے سے درخت کمزور نہیں ہوتا بلکہ وہ مزید طاقت ور ہوکر اُبھرتاہے یقیناًاس میں ہمیں سخت مشکلات کا سامنا ہو گالیکن ذمہ داران تیار ہوں تو عوام تیار ہے کہ وہ آج ہی اس فتنہ کی جڑ کو ختم کردیں کیوں کی اگر آج نہیں تو کل ہمیں اِسے زیادہ قربانیاں دینی پڑی گی اور ہوسکتا ہے اُس وقت اس مرض کا علاج کرنا ہماری بس میں بھی نہ ہوں۔ آخر میں سید مبین زیدی کی سوشل میڈیا پر پوسٹ کردہ غزل سے ایک بند آپ قارئیں کی نظر کرتا چلوں۔

میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا
میں حد سے بڑھ گیا ہوں مجھے مار دیجئے


تحریر۔۔۔۔ناصر رینگچن



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree