ہماری تنزلی کا سبب

10 دسمبر 2016

وحدت نیوز (آرٹیکل) دسمبر کا مہنیہ تھا حسب معمول میں کراچی شاہ فیصل کالونی میں واقعہ سپیریئرکالج کے لئے روانہ ہوا ، کالج پہنچنے کے بعد کوئی دس گیارہ بجے کے قریب اور شائد تیسری کلاس ابھی شروع ہوئی تھی، پروفیسر صاحب نے اپنے درس کا آغاز کیا ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ دس بارہ اوباش نوجوان لڑکے کسی کی اجازت لئے بغیر کلاس میں داخل ہوئے اور پروفیسر کو اشارہ سے کلاس چھوڑنے کا حکم دیا، استاد بھی کراچی کے حالات سے واقف تھے لہذا خاموشی سے سرجھکا کر نکل گئے۔ کلاس میں سناٹا چھا یا ہوا تھا چالیس لڑکوں کی موجودگی کے باوجود ایسا محسوس ہو رہا تھا کی کوئی زندہ انسان موجود نہ ہو اتنے میں اُن آنے والے لڑکوں نے جن کا تعلق سیاسی تنظیم سے تھا گرجدار آواز میں پوچھا کہ فلاں پارٹی کے حمایت میں کالج کے اندر وال چاکنگ کس نے کی ہے اس پارٹی کے حمایتی کتنے لوگ موجود ہیں؟ اس کے بعد ایک ایک کر کے تمام لڑکوں سے ان کے نام اور رہائش کا پوچھنے لگے، جس کے اوپر شک ہوا اس کو باہر نکالتے گئے، کالج کے اندر تین کمروں پر مشتمل سیاسی پارٹی کے اسٹوڈنٹس ونگ کا دفتر تھا جہاں وہ اپنے نظریہ کے مخالف لڑکوں کو لے جاتے تھے اور ڈرانے دھمکانے کے علاوہ ذردو کوب بھی کرتے تھے لیکن پرنسپل سمیت کالج کے اسٹاف میں سے کسی کی مجال نہیں کہ وہ کچھ کہیں، بے چارے پروفیسرز روز آتے تھے اور اپنی اپنی کلاس ٹائمینگ پر کلاس لیتے مگر تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے بجائے سیاسی کام زیادہ ہوتے تھے ، استاد و طلبہ کسی تعلیمی استفادہ کے بغیرہی گھر واپس چلے جاتے، یہ تو ایک کالج کا آنکھوں دیکھا حال ہے جس کا تذکرہ میں نے کیا ہے۔

ہمارا موجودہ تعلیمی نظام چھ حصوں میں تقسیم ہے، کے جی اسکول، پرائمری، مڈل، ہائی اسکول، انٹرمیڈیٹ، ہائیر سکینڈری سرٹیفکیٹ یعنی یونی ورسٹی کی تعلیم، پاکستان میں ہر سال تقریبا445000 اسٹو ڈنٹس یونی ورسٹیوں سے گریجویٹ کی ڈگری حاصل کر تا ہے، پھر بھی ہم دیگر ممالک کی نسبت تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں اور نائجیریا کے بعد دوسرے نمبر پر ہمارے بچے اسکولوں سے محروم ہیں، جی ڈی پی کا بہت کم فیصد ہماری تعلیم پر خرچ ہوتاہے ، جو اسکول بنتے ہیں وہ یا تو کبھی سیاسی آفس بن جاتے ہیں یاپھر کبھی بم دھماکوں سے اڑا دیے جا تے ہیں ۔ہم نے کبھی تعلیم کو اپنے اور معاشرے کی اصلاح کیلئے حاصل ہی نہیں کیااور نہ ہی ایسا کوئی رواج ہے، والدین کا بچوں کو تعلیم حاصل کرانے کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر نوکری کرے اور پیسا کمائے اسی لئے ابھی تک پڑھا لکھا انسانیت کا درد رکھنے والا کوئی حکمران نہیں آیا، بلکہ ہر پڑھالکھا نوجوان کسی غیر تعلیم یافتہ کا نوکر بن جاتا ہے۔بعض افراد ہمارے تعلیمی نظام کو پورانا اور فرسودہ قرار دیتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ ابھی اس وقت جو ہمارا تعلیمی نظام موجود ہے اگر اسی کو دیانت داری اورقوم کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح معنوں میں چلایا جائے تو ہم ایک تعلیم یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔

میں سوچ رہا تھا کہ ایسا تعلیمی نظام صرف کراچی میں ہوگا مگر مجھے اسلام آباد کے اسلام آباد ماڈل اسکول اینڈ کالج فار بوائز بارہ کہو میںیہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ چھٹی ساتویں کلاس کے طالب علم ریڈنگ تک صحیح سے نہیں کر سکتے تھے، لیکن یہ بچے کیسے صحیح تعلیم حاصل کرتے، ہر کلاس میں ساٹھ سے ستر بچے موجود ہوتے ہیں ،کچھ استاد دیانت داری سے پڑھانا توچاہتے ہیں مگر وہ بچوں کی اتنی بڑی تعداد کو صحیح طرح سے پڑھا ہی نہیں پاتے، بعض اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل بھی ہیں، یہ بچے سارے نالائق ہیں پڑھنے والے نہیں ہیں کہہ کر حاضری کی حد تک محدود رہتے ہیں، اگر ہم پرائیویٹ اسکولوں کی طرف دیکھیں تو بعض کے علاہ ہر محلہ گلی کا اسکول صرف کاروبار کی حد تک ہے جہاں پر بچوں کو تعلیم یافتہ نہیں رٹہ یافتہ بنایا جاتا ہے ،پھر یہ بچے نقل کر کے پیسے کھلا کر جیسے تیسے کر کے میٹرک پاس کرتے ہیں اور اکثر نوکری کے چکر میں لگ جاتے ہیں کچھ گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے پڑھ نہیں پاتے باقی جب کالجوں میں پہنچتے ہیں تو کالج کے غیر تعلیمی ماحول (یہاں پر اکثریت کی بات ہو رہی ہے) اور سیاسی و دیگر سرگرمیاں ان کو مزید نالائق بنا دیتی ہیں،بچے کالج کم ٹیویشن اور کوچنگ سنٹر میں زیادہ جاتے ہیں شہر میں اتنے ریڑی والے نہیں ہونگے جتنے جگہ جگہ کارباری تعلیمی مراکز موجود ہیں۔بلا آخر کچھ فیصد بچے یونی ورسٹیوں میں پہنچتے ہیں تو اس میں بھی سفارش اور پیسے شامل ہوتے ہیں اُوپر سے ڈگری بھی بگتی ہے جتنا پیسا اتنی اعلیٰ ڈگری جس فیلڈ میں چاہو دستیا ب ہے، بحر حال خلا صہ یہ کہ جب تعلیم حاصل کرنے کا مقصد صرف اچھی نوکری حاصل کرنا ہو اورعلم کے حصول کو کاروبار بنادیا جائے تو ہم ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرتے رہیں گے۔

 کبھی ہم پر بم و بارود کی بارش ہوتی ہے تو کبھی کرپٹ ، دین اور ملک کے سوداگرہم پر حکمرانی کرتے ہیں، جن کی ڈگری جعلی ہوتی ہے وہ بے خوف خطر ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں، جن کو الحمد، بلکہ قومی ترانہ تک نہیں آتا وہ ہمارے سینٹ اور پالیمنٹ میں موجود ہیں تو کیسے یہ ملک ترقی کرے گا؟ کس طرح جی ڈی پی میں تعلیم کیلئے ضرورت کے حساب سے فنڈ مختص کریں گے؟کس طرح دہشت گردی، کرپشن سے ہم مقابلہ کریں گے؟کیسے ہم اپنے ملک کے مستقبل کی اصلاح کریں گے؟اس زمانے میں ترقی کا واحد حل تعلیم ہے، جب سے ہم نے اپنے آباو اجداد کی رسم کو چھوڑا ہے تب سے ہم تنزلی کا شکار ہوہے ہیں ایک زمانہ وہ تھا کہ کیمیا دان ، ریاضی سے لیکر طب تک کے ماہر مسلمان تھے علم کا مرکز بغداد تھا ، جب سے مسلمانوں نے علم سے دوری اختیار کی ہے تب سے ہم کمتر اور حقیر ہو کر رہ گئے ہیں، ہر دور میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ان پڑھ جاہل ہم پر مسلط ہوئے ہیں جس کا تسلسل آج تک جاری ہے اور جہاں جہاں جس جس نے علم کے دامن کو تھوڑا تھامے رکھا ہے وہ آج بھی دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں، علامہ اقبال نے ایسے ہی تو نہی کہا تھا

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا

کسی قوم یا شخص کے لئے سب سے مشکل وقت وہ ہے جب وہ اندر سے کھوکھلا کر دیا جائے اس کے اندر کچھ نہ ہو اس کو دشمن کی سازش کا علم نہ ہو،جب انسان علم کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے تو اس کو کوئی زیر نہیں کرسکتا بے شک وہ غریب ہی کیوں نہ ہو وہ دشمن کی ہر سازش کو آرام سے سمجھ سکتا ہے اپنے آپ کو نقصان سے بچا سکتا ہے لیکن علم کی قیمت اچھی نوکر ی حاصل کرنے کی حد تک ہو تو پھر 69 سال گزرنے کے باوجود نوکر ہی رہتا ہے اور نااہل لوگ حکمران بن کر سروں پر مسلط ہو جاتے ہیں، اور اشرف المخلوقات کو بھیڑ بکریوں کی طرح چن سکوں کے عوض اپنا قیدی بنالیتے ہیں ۔اس موقع پر صاحبان علم پر فرض ہے کہ وہ علم کی شمع کو بجنے نہ دیں اور معاشرے میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کریں اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے اپنی توانائیوں کو بروکار لائیں تاکہ اس امت کو اندھرے سے نکالا جا سکے۔


تحریر۔۔۔۔ ناصر رینگچن



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree