وحدت نیوز (آرٹیکل) وطن عزیزپاکستان مسائل کے بھنور میں ایسا پھنسا ہوا ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔اگر چہ ضرب عضب اپریشن نے ملکی استحکام میں بہتری پیدا کی ہے اور مزید بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔پاکستان میں امن ہونا پاکستانیوںکی فلاح کی ضمانت ہے اور پاکستانیوں کے حالات اس وقت ہی بہتر ہو سکتے ہیں جب ملک میں دہشت گردی نہ ہو لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں ،لوگوں کا روزگار بہتر ہو لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں جس طرح ایک فالج کے مریض کو صحت مندکرنے کے لئے علاج کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اسی طرح مملکت خداداد پاکستان کی ترقی مختلف شعبہ جات میں استحکام کی وجہ سے نصیب ہوسکتی ہے۔
دہشتگردی اگرچہ سب سے بڑا ناسور ہے اور یہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے اس لئے قومی ایکشن پلان اور ضرب عضب موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں لیکن یہاں میں ایک بات کی نشاندہی بھی کرنا چاہتا ہوںاُمید ہے میرے قارئین میری بات کو اہمیت دیں گے اور اگر یہ بات سچ ہوئی اور ویسے ہی ہوئی جیسے میں کہوں گا تو مجھے اُمید ہے اس پر ڈسکشن کا راستہ کھولا جائے گا اور ہر فورم پر اس بات کو موضوع بنایا جائے گا ۔
بات دراصل یہ ہے کہ میرے نزدیک دہشت گردی صرف یہ نہیں کہ بم پھوڑ دیا جائے اور بے گناہ معصوم لوگوں کو قتل کردیاجائے،یا پھر گولیوں سے لوگوں کو بھون دیا جائے یہ دہشت گردی کی ایک قسم ہے یہ اتنی خطرناک قسم ہے کہ اس نے عرضِ وطن کا ہر چپہ لہولہان کردیا اس کے فروغ میں جہاں ہمارے دوسرے اداروں کی سستی ہے وہاں سب سے بڑی ذمہ داری سیکورٹی ایجنسیز سیکورٹی اداروں اور عدلیہ کی تھی جس میں تساہل سستی کرپشن پسند نا پسند اور ایک مخصوص سوچ کے حامل افراد کی سرپرستی اور ان کو اپنے عزائم میں استعمال کرنا شامل رہا جس کے باعث دہشتگردوں اور دہشتگردی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔
میں جنرل راحیل شریف اور تمام سیکورٹی اداروں کا ممنون ہوں کہ انہوں نے دہشت گردی کی گردن دبوچ لی اور آج سسکیاں لیتی دہشت گردی افواج پاکستان کی عظیم کامیابی ہے لیکن یہ کامیابی دائمی ہوگی یا نہیں اس پر ابھی سوالیہ نشان باقی ہے ۔کچھ ایسے بھی محسوس ہورہا ہے کہ دہشت گرد مناسب وقت تک انتظار کریں گے اور پھر دہشت گردانہ کاروائیاں شروع ہوں گی اس کی تفصیل میں بس یہی کہوں گا کہ عام پبلک کی یہ رائے ہے اصل دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ نہیں ہو رہابلکہ کسی نہ کسی سہولت کار کی مدد سے وہ محفوظ بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ کچھ لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ۔
اب میں وہ بات کرنے جارہا ہوں جس کے لئے یہ ساری باتیں کیں تاکہ مجھے بات کرنے میں آسانی رہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ بات سچ ہے کہ دہشتگرد مناسب وقت کا انتظار کریں گے اور پھرسر اٹھائیں گے تو پاکستان مسائل کے بھنور سے کیسے نکلے گا ،جبکہ ہم نے دہشت گردوں کے ساتھ انصاف کی گردن بھی دبوچ لی ہے اور انصاف بھی سسکیاں لے رہا ہے میں اپنی تمام عدلیہ کا اخترام کرتا ہوں اور میری یہ بات عدلیہ کے لئے ہے یہی نہیں کیونکہ عدلیہ کے بھی کچھ مسائل ہیں کہ آج ہمارے چیف جسٹس محترم جناب انور ظہیر جمالی ملک کی ابتر حالت پر صرف یہ کہہ پاتے ہیں کہ اب عوام کو باہر نکل آنا چاہئیے یعنی یہاں بادشاہی نظام ہے جناب والا !آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس ہیں کوئی سوموٹو ایکشن لیں، اور عوام کے ساتھ جوجو زیادتی کررہا ہے اس ملک کو جو جولوٹ رہا ہے اس کی نہ صرف نشاندہی کریں بلکہ اس کو تختہ دار پر لٹکائیں ، یہ بے کس، نا اُمید، خوف زدہ، بے سہارا، عوام آپ کو بہت دعائیں دے۔یہ کبھی سڑکوں پر نہیں آئے کیونکہ ایک طرف تو ان کے مقدر میں غربت ہے اور دوسری طرف اداروں کا خوف جو بادشاہ اپنی رعایا کے لئے کرتے ہیں وہ ہو رہا ہے۔
اس ظلم سے آپ ہی ہمیں نجات دلا سکتے ہیں لیکن ایک اور قابل توجہ چیز جس پر غور فکر کرنے کے لئے تمام محب وطن اداروں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بے گناہ معصوم لوگوں کو دہشت گردوں کی صف میں کھڑا کیا جا رہا ہے نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب کو ناکام کرنے کے لئے بے گناہ افراد پر FIR'S ہو رہی ہیں فورتھ شیڈول میں ڈالا جا رہا ہے تین تین ماہ جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ذکر نواسہ رسول کرنا مشکل ہو رہا ہے ذکر مصطفےٰ کے جلوسوں کو روکنے کی پیش بندیاں ہورہی ہیں یہ ریاستی دہشت گردی اور نا انصافی کی بدترین مثال ہے لہذا آج اگر ہم ملک عزیز پاکستان سے مخلص ہیں تو ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہوگا ۔جو مجرم ہے اسے سزا دی جائے جو بے گناہ ہیں ان کو تحفظ دیا جائے میری دانش میں پاکستان کو ایک سیکولرسٹیٹ کی طرف لے جایا جارہا ہے جس پر کم ازکم مجھے کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اس ملک کے مذہبی طبقات نے مایوسیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا لیکن نیک دیندار صالح وطن پرست مخلص اتحاد بین المسلمین کے داعی اس ملک کی خدمت کرنے والے لوگوں کو ملک دشمن نہ بنایا جائے ،ان کی شہریت معطل نہ کی جائے، وہ پاکستانی ہیں ،دل وجان سے پاکستان کو چاہتے ہیں اس نا انصافی سے کہیں پھر کوئی نئی دہشت گردی وجود میں نہ آئے، اگر امن کی خواہش ہے، تو انصاف کرو! انصاف کرو! انصاف کرو!۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی