وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک)حجة الاسلام مولانا سید باقر عباس زیدی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری فلاح و بہبود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ مدرسہ المہدی و جامعہ امامیہ کراچی کے پرنسپل اور ہئیت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں، جبکہ وہ مسجد المصطفٰی (ص) گلشن معمار کراچی میں امامت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ وہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کے رکن ذیلی نظارت بھی رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مولانا سید باقر عباس زیدی کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک اور شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کی 28 ویں برسی کی مناسبت سے ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے 7 اگست کو اسلام آباد میں منعقد کی جانے والی تحفظ پاکستان کانفرنس کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک کے پس منظر، محرکات اور اب تک حاصل ہونے والے فوائد کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا سید باقر عباس زیدی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی تحریک کے کئی محرکات ہیں، شیعہ ٹارگٹ کلنگ، گلگت بلتستان میں زمینوں پر قبضے ہیں، ملک میں خصوصاً پنجاب میں عزاداری کے خلاف سازشیں، بانیان مجالس، عزاداروں، ذاکرین کے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آریں کاٹنا، جس کے ذریعے عزاداری سیدالشہداؑ کو محدود کیا جائے، عوام کو عزاداری سے دور کیا جائے، مجموعی طور پر اگر ہم کہیں تو شیعہ حقوق کی بات ہے، اس کے علاوہ بھی کئی محرکات ہے، مثلاً لاہور ہائیکورٹ میں شیعہ ججوں کے ساتھ مسائل تھے، ایک اطلاع کے مطابق انہیں فارغ کرنا تھا، لیکن انہیں ایم ڈبلیو ایم کی اسی احتجاجی تحریک کی وجہ سے بحال کیا گیا ہے، بہرحال جو سیاست آمر جنرل ضیاء نے شروع کی تھی کہ ریاستی اداروں میں وہابیت کو داخل کیا جائے، اہم عہدوں، مقامات، جگہوں سے شیعیان حیدر کرار کو ہٹایا جائے، انہیں یہاں پہنچنے سے روکا جائے، یہاں تک کہ پاک فوج سے نعرہ حیدری تک کو ختم کر دیا گیا، ضیاء دور میں ریاستی و ملکی اداروں میں شیعہ حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے فرقہ پرست پالیسیاں داخل کی گئیں، آج جتنے بھی ادارے موجود ہیں، چاہے وہ تعلیمی ادارے ہوں، چاہے عسکری ادارے ہوں، پولیس کے ادارے ہوں یا دیگر مختلف ریاستی و ملکی ادارے ہوں، وہاں وہابی تکفیری فکر کے لوگ بٹھائے گئے ہیں، جو تشیع کے حوالے سے انتہائی تعصب رکھتے ہیں، ایسی ضیاء طرز تفکر کے مسائل ابھی بھی موجود ہیں، آل سعود نے پاکستانی ریاستی اداروں میں اپنا اثر و نفوذ مزید بڑھانے کیلئے دوبارہ فنڈنگ کی، پیسے دیئے، مزید کام شروع کیا ہوا ہے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ان تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے شیعہ حقوق اور ملکی سالمیت و بقاء کی جنگ لڑی ہے۔
بہت سے لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم شیعہ حقوق کی جنگ عدالت میں جا کر قانونی طور پر لڑیں گے، لیکن کیا پاکستان میں عدلیہ کسی چیز کا حل ہے، پاکستانی عدلیہ ہر اعتبار سے بک جاتی ہے، اس میں بااثر عناصر اپنی مرضی کا جو فیصلہ کرا لیں، لہٰذا ضروری ہے کہ شیعہ مسلمان پاکستان میں اپنا وزن بڑھائیں، ہم بھی ملک میں اول درجے کے پاکستانی ہیں، ہمیں بھی یکساں حقوق حاصل ہیں، جن کی حفاظت ہونی چاہیئے، ہم نے پاکستان بنایا ہے، ہم ہی پاکستان بچائیں گے، ہم نے قیام پاکستان کیلئے بھی خون دیا، آج بھی ہم اپنا خون دیکر ملک کو بچا رہے ہیں، ہمارے خون ہی کی تاثیر ہے جو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہونے بچا ہوا ہے، ورنہ تکفیری وہابی عناصر جن کے تانے بانے امریکا اسرائیل سے ملتے ہیں، یہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرچکے ہوتے، اسی تناظر میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک نے جو سب سے اہم کام کیا ہے، وہ آمر جنرل ضیاء کے طرز تفکر، تکفیری وہابی عناصر، امریکی اسرائیلی نمک خوار ایجنٹوں کی ناپاک سازشوں و ارادوں کے آگے رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ہیں، شیعہ حقوق کو غضب کرنے کے سلسلے کے آگے رکاوٹ بن گئے، بڑھتی ہوئی شیعہ کلنگ کے سامنے رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے، جس ملت تشیع کو پاکستان میں تیسرے درجے پر دھکیلنے کی سازش کی گئی، جسے ملک میں تنہا کر دینے کی سازش کی گئی تھی، آج علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک نے اسی ملت تشیع کو قومی دھارے کے مرکز میں کھڑا کر دیا ہے، ملت تشیع کے خلاف تمام سازشوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کے کھڑے ہوگئے ہیں، کیونکہ ہم قائداعظم و اقبال کا پاکستان چاہتے ہیں، جو ظلم و زیادتی سے پاک ہو۔
قائد مسائل کو جانتا ہے، مختلف رازوں کو پہچانتا ہے، لیکن بعض اوقات اسے از خود اقدامات کرنے پڑتے ہیں، اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری میں یہ قائدانہ خصوصیات ہیں، جس سے انہوں نے نہایت خوبصورت، مدبرانہ، قائدانہ انداز میں استفادہ کیا، اقدام کیا، احتجاجی بھوک ہڑتال کا آغاز کیا، آج جس ملت تشیع کو سیاسی دھارے سے نکالنے کی سازش ہو رہی تھی، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے قائدانہ اقدام کے باعث تمام برجستہ سیاسی و مذہبی جماعتیں اور شخصیات احتجاجی کیمپ پر آئیں، راجہ صاحب اور ملت تشیع سے اظہار یکجہتی کیا، ہمارت مطالبات کی غیر مشروط حمایت کی، سب نے اس بات کا اقرار کیا، تائید کی کہ ہمارے مطالبات پاکستان کے آئین و دستور و قانون کے مطابق جائز ہیں، ان پر عمل درآمد ہونا چاہیئے۔ ہمارے مطالبات میں دہشتگرد عناصر کے خلاف آپریشن کرنا بھی شامل ہے، جیسا کہ کئی مقامات پر شروع ہوچکا ہے، کہیں پر شروع ہونے والا ہے، پارا چنار میں اہل تشیع پر فائرنگ کا واقعہ تھا، اس احتجاجی بھوک ہڑتال کے نتیجے میں وہاں جرگہ بیٹھا، اس نے فیصلہ کیا، ہمارے بزرگ عالم دین علامہ عابد حسین الحسینی نے اس کے نتیجے کو قبول کیا، خیبر پختونخوا حکومت اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہمارے بہت سارے مطالبات و مسائل کو قبول کیا، ان سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے، انہوں نے ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، انہوں نے ہماری تجاویز بھی مانی ہیں، ان تمام پر ایک حد تک عمل درآمد شروع بھی ہوگیا ہے، یہی عمل درآمد ہم پنجاب میں بھی چاہتے ہیں، اس حوالے سے نواز حکومت سے ایک دو بار مذاکرات بھی ہوئے ہیں، لیکن ڈیڈ لاک باقی ہے، لیکن امید ہے کہ ان شاء اللہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے تن تنہا جس احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، اس کے نتیجے میں پنجاب سے بھی جلد مثبت خبریں آنا شروع ہوجائیں گی۔
اسلام ٹائمز: کیا ملت تشیع قومیات کے حوالے سے مایوس ہے، جسکے خاتمے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے یا پھر قومی دھارے کا حصہ بن رہی ہے، جس میں مزید اضافے کی ضرورت ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
مولانا سید باقر عباس زیدی: شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کے دور میں پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی، شہید قائد کے پیچھے تھی، اگرچہ شہید قائدؒ کو بہت زحمت اٹھانی پڑی، لیکن اس کے نتیجے میں لوگوں نے ان کا بڑا ساتھ دیا اور شیعہ حقوق کیلئے قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئی، ناصرف شیعہ حقوق بلکہ اسلام کی سربلندی و وطن عزیز کی بقاء و سالمیت کی خاطر لوگ انکے ساتھ جمع ہوگئے، شہید عارفؒ کے بعد سے ایک خلا پایا جاتا ہے، شیعہ حقوق کی جنگ کے حوالے سے، ان کے بعد آنے والی قیادت میں وہ صلاحیت و اہلیت نہیں تھی، شہید عارفؒ کے بعد آنے والی قیادت نے شیعہ حقوق کیلئے اور تشیع کے دفاع و ترقی کیلئے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا، اس صورتحال کے پیش نظر شہید قائدؒ کے ساتھیوں نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی بناد رکھی، لہٰذا آج ایم ڈبلیو ایم پاکستان میں شیعہ حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے، ملت تشیع کا کردار مجموعی طور پر بہت اچھا اور مثبت ہے، عوام آہستہ آہستہ جب آگاہ ہوتی ہے تو ساتھ دیتی ہے، عوام کی ایک بڑی تعداد ابھی بھی آگاہ ہے، وہ ایم ڈبلیو ایم کے مطالبات سے بھی آگاہ ہیں، عوام نے مجلس کا ساتھ بھی دیا ہے۔ دراصل ماضی میں عوام کئی بار دھوکہ کھا چکی ہے، لہٰذا عوام بہت حساس ہوچکی ہے، لیکن اب جب قائدین اور علماء کرام یہ ثابت کرینگے کہ وہ میدان میں ثابت قدم ہیں، بھاگنے والے نہیں ہیں، تو عوام جو ایک حد تک میدان میں وارد ہوچکی ہے، مزید وارد ہوگئی، اور وہ دن دور نہیں ہے کہ جب قائد اور عوام میں مطلوبہ ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی، عوام اپنے قائد سے جدا، پیچھے اور دور نہیں ہوگی ان شاء اللہ۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، جس کے انتہائی مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں، اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ اسے مزید اچھی طرح پہچانے اور سمجھے، کیونکہ قائد جتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو لیکن اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک عوام ساتھ نہ دے، اس تحریک میں بھی عوام نے ایک حد تک ساتھ دیا ہے، پورے ملک سے لوگ آئے ہیں، لوگ احتجاج، علامتی دھرنوں، ریلیوں، مظاہروں میں بھی شریک ہوئے۔ بعض اوقات قائد صورتحال کی سنگینی اور حساسیت کو دیکھ رہا ہوتا ہے، لیکن عوام اس سطح پر معاملات کو نہیں دیکھ پا رہی ہوتی، لہٰذا آہستہ آہستہ ایم ڈبلیو ایم کی کوشش ہے کہ عوام بھی اپنے حقیقی قائد کے ساتھ اسکی فکر کے مطابق قیام کریں، ملک میں اپنے خلاف ہونے والے مظالم کیخلاف اور اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے آواز حق بھی بلند کریں، ساتھ دیں۔ بہرحال علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی پرخلوص احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک جاری ہے اور ہم ہر طرح سے ان کے ساتھ ہیں اور ان شاء اللہ شیعہ حقوق کی اس جنگ میں ہم ہمیشہ میدان میں رہیں گے، ہم ہر ظلم کے خلاف آواز حق بلند کرتے رہیں گے، یہی کربلا کا پیغام ہے۔
اسلام ٹائمز: شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کی 28 ویں برسی کی مناسبت سے ایم ڈبلیو ایم پاکستان 7 اگست کو اسلام آباد میں تحفظ پاکستان کانفرنس کا انعقاد کرنے جا رہی ہے، اسکے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔؟
مولانا سید باقر عباس زیدی: شہید قائد عارف حسین الحسینیؒ نے پاکستان میں شیعہ حقوق کیلئے جو جدوجہد کی، دراصل اس سے عہد و پیمان کرنا ہے، تجدید عہد کرنا ہے، اس کا احیا کرنا ہے، شہید قائدؒ نے جو جدوجہد کی، اسے اسی مقام پر دوبارہ لانے کیلئے آج ہم میدان میں کھڑے ہیں، اتحاد بین المسلمین، اسلام کی سربلندی، وطن عزیز کی سالمیت و بقا و ترقی، شیعہ حقوق، پاکستان کی آزاد خارجہ و داخلی پالیسی جو شہید قائدؒ کی جدوجہد کے بنیادی نکات تھے، ہم بھی آج انہیں نکات کے تحت جدوجہد کر رہے ہیں، کرتے رہینگے، یہ پہلے بھی ہماری ذمہ دار تھی اور رہے گی، اسی لئے ہم ہر سال شہید قائدؒ کا یوم شہادت مناتے ہیں، تاکہ شہید کے افکار و جدوجہد پر گفتگو ہو، ان سے سبق حاصل کریں، اس حوالے سے مجلس وحدت مسلمین شہید قائدؒ کی 28 ویں برسی کے موقع پر 7 اگست کو اسلام آباد میں تحفظ پاکستان کانفرنس کا انعقاد کر رہی ہے، اس تاریخی قومی اجتماع کے ذریعے ہم پاکستان میں ملت تشیع کیخلاف سازشوں میں مصروف امریکی اسرائیلی گماشتوں اور نمک خواروں کو یہ پیغام دینگے کہ وہ ملت تشیع کو دبانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہونگے، ملت تشیع کے سر کو جھکانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے، وہ ناکام و نامراد ہونگے ان شاء اللہ۔ ہم ان شاء اللہ 7 اگست کے تاریخی قومی اجتماع کے ذریعے اپنی احتجاجی تحریک کو مزید مؤثر بنائیں گے، پُرامن احتجاج ریکارڈ کرائیں گے، اپنے مطالبات پر عمل درآمد کروائیں گے ان شاء اللہ۔
اسلام ٹائمز: مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔؟
مولانا سید باقر عباس زیدی: اگر نواز حکومت ہمارے مطالبات پر عمل درآمد شروع کر دیتی ہے تو احتجاجی بھوک ہڑتال بھی ختم ہو جائیگی، ہم پھر سے یکسوئی کے ساتھ ملت کی تربیت، تعمیر و ترقی، فلاح و بہبود، سیاسی، تعلیمی، صنعتی، معاشی، تجارتی و دیگر تمام میدانوں میں ملت کی ترقی کیلئے اپنے امور کو انجام دینگے، جس کی ہمارے پاس منصوبہ بندی بھی موجود ہے، الحمد اللہ ابھی بھی ان امور پر کام جاری و ساری ہے، لیکن مزید یکسوئی و بہترین انداز میں امور کو انجام دینگے۔ بہرحال راجہ صاحب کی اس احتجاجی بھوک ہڑتال و تحریک کے نتیجے میں حکومت نے کافی حد تک بہت سی باتوں کو مانا ہے، گلگت بلتستان میں زمینوں پر قبضوں کے مسئلے کو بھی حکومت نے کہا ہے کہ اگر کوئی قبضہ ہوگیا ہے تو وہ چھڑا کر دینگے، خیبر پختونخوا کے حوالے سے میں پہلے عرض کرچکا ہوں، پنجاب کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے بات چیت جاری ہے، کچھ باتوں پر ڈیڈ لاک باقی ہے، ان شاء اللہ اس حوالے سے بھی اچھی خبریں آئیں گی، بہرحال ہمارا کام ہے اپنی ذمہ داری ادا کرنا، میدان میں حاضر رہنا، اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا، یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں ترقی کرنا ہے، ہمیں دشمن کا راستہ روکنا ہے، یا ہمیں نقصان کو کم سے کم کرنا ہے، ان تمام حوالوں سے ہم میدان میں کھڑے ہیں اور ہمیشہ کھڑے رہینگے، پاکستان میں تشیع زندہ تھی، ہے اور رہیگی، عزاداری اور حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی تمام کوششوں کو ان شاء اللہ ناکام بناتے رہینگے، پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے ذریعے تکفیریت و وہابیت کو رائج کرنے کی سازشوں کو ناکام بناتے رہینگے۔