امیر المومنین حضرت علی ؑ کی علمی بصیرت

05 مئی 2015

وحدت نیوز (آرٹیکل) امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ رسول اکرم ؐ کے چچا زاد بھائی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے آپ ککی دعوت پر لبجیک کہا اور آپ نے دین کو گلے لگایا اور آپ نے حضور اکرم کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ ؑ نے رسول خدا ؐ کی زیارت کی اور آنحضرت نے سب سے پہلے آپ کے منہ میں اپنی زبان مبارک دی۔ اور مولا علی ؑ چوستے رہے۔ بچپن ہی سے آپ کی تربیت دربار نبوت میں ہوئی وہی پلے وہی جوان ہوئے۔ اور دربار نبوی سے ہی آپ کو باب العلم کا خطاب ہوا۔ جہاں تک کہ آپ ؑ کی وسعت علم کی بات ہے تو خود آپ ؑ کا اپنا قول ہے کہ مجھے رسول خدا نے ہزاروں باب علم کی تعلیم دی جس کے ہر باب سے ہزار باب کھلتے ہیں۔ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ تیرے علم کی تیرے چچا زاد بھائی علیؑ سے کیا نسبت ہے۔ تو اس نے کہا جو بارش کے قطرے کی وسیع سمندر سے ہوتی ہے ۔ حضرت علی ؑ نے خود ارشاد فرمایا کہ اگر میرے لیے مسند علم بچھائی جاتی تو میں بسم اللہ کی اس قدر تفسیر بیان کرتا کہ تحریری صورت میں وہ ایک اونٹ کا بار ہو جاتی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اگر میرے لیے مسند علم بچھائی جائے تو اہل تورات کے درمیان توریت سے اہل انجیل کے درمیان انجیل سے اہل ذبور کے درمیان ذبور سے قرآن کے مطابق فیصلے کروں گا۔ اور میں کتاب اللہ کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کب اور کس کے بارے میں نازل ہوئی ۔ مولائے کائنات کی علمی بصیرت کو سامنے رکھتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا کہ میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ آنحضرت کے حدیث مبارک کے رو سے شہر علم میں وہی داخل ہو سکتاہے جو پہلے باب علم سے استفادہ کر سکے برصغیر کے مشہور عالم اہلسنت علامہ مشرقی سے پوچھا گیا کہ حضرت جبرئیل تیئس سالہ نبوت میں آنحضرت کی خدمت میں کتنی مرتبہ وہی لے کر آئے تو آپ نے کہا کہ 12000 مرتبہ جبرئیل کو شہر علم میں آمد ہوئی اور باب العلم کی زیارت 24000مرتبہ کی ۔ بارہ ہزارمرتبہ آنے میں اور بارہ ہزار مرتبہ جانے میں یہی وجہ تھی کہ حضرت علی مرتضیٰ ؑ کو جبرئیل جیسا مقبرب فرشتہ اپنا استاد مانتے تھے۔ سرکار دو عالم ؐ نے فرمایا کہ میں شہر حکمت ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے۔ نیز یہ بھی فرمان نبوی ؐ ہے کہ علی ؑ فیصلہ کرنے والوں میں بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔مذکورہ تمام پہلو قابل ذکر حقائق ہیں جن پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ حصول علم کی بنیادیں تعلیمات رسول ؐ کی روشنی میں حضرت علی ؑ ہی نے اہل دنیا کو فراہم کیے حضرت علی ؑ نے سرکار دو عالم ؐ کے عہد میں تمام معلومات تحریری دستاویزات اور دیگر خطوط آپ ؑ ہی تحریر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ معاہدہ صلح حدیبیہ جو تاریخ اسلام میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس معاہدے کے اہم نکات حضرت علی ؑ نے ہی تحریر کیے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضرت علی ؑ کیا یا علیؑ علم و دولت میں کونسی شے بہتر ہے تو آپ ؑ نے فرمایا علم دنیا کے مال سے بہتر ہے کیونکہ علم تیرا نگہبان ہے۔لیکن دولت کی حفاظت تجھے خود کرنی ہوگی ۔ دنیا کا مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اس کے برعکس عقل و علم کو جس قدر استعمال کیا جائے بڑھتی جاتی ہے۔ پھر آپ ؑ نے فرمایا کہ علم و دانش اگر مُشرق ہی سے کیوں نہ ملے حاصل کرو ۔ ایک مرتبہ حضرت علی ؑ نے ارشاد فرمایا انسان علم سے بہتر کوئی ترکہ نہیں چھوڑتا ۔

 

حضرت علی ؑ کے علم و فصل کا چرچا پورے عرب میں تھا آپ کے در پہ اپنے مسائل سننے والے صرف مسلمان ہی تشریف نہیں لاتے تھے بلکہ یہودی عیسائی نصرانی اور دیگر مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی آپ سے اپنے مسائل سے رجو ع کرتے تھے۔ اور علم کے سمندر مولائے کائنات انہیں جواب دیتے تھے ۔ حضرت علی ؑ نے ایک ایسا فیصلہ سنایا تھا جس کا تعلق علم ریاضی سے ہے۔ ایک مرتبہ آپ مکہ مکرمہ کی گلی سے گھوڑے کی رکاب تھامے گزر رہے تھے کہ ایک عربی عورت نے آپ ؑ کو آواز دیکر کہا یا امیر المومنین ؑ میر ا بھائی چھ سو درہم چھوڑ کر مر ا ہے جس سے میرے حصے میں صرف ایک درہم آیا ہے حضرت علی ؑ نے دریافت فرمایا کہ تیرے بھائی کی کتنی اولادہے اس نے کہا کہ دو بیٹیاں۔ آپ ؑ نے فرمایا اس میں سے 2/3 حصہ یعنی چار سو درہم اس کی اولاد کے لیے ہیں پھر دریافت فرمایا کہ اس کی ماں بھی زندہ ہے؟ عورت نے کہا کہ اس کی ماں بھی زندہ ہے ۔ حضرت علی ؑ نے فرمایا 1/6 حصہ یعنی سو درہم اس کے ہوئے 1/8 حصہ یعنی 75 درہم اس کی زوجہ کے ہیں پھر دریافت فرمایا کہ تیرے کتنے بھائی ہیں اس عورت نے کہا کہ مولا میرے بارہ بھائی ہیں۔ حضرت علی ؑ نے فرمایا کہ بارہ درہم فی کس کے حساب سے تجھے جو ایک درہم ملا ہے وہ ٹھیک ہے اس میں سے تیر ا اتنا ہی حصہ بنتا ہے۔ایک مرتبہ حضرت علی ؑ منبر کوفہ میں خطبہ دے رہے تھے کہ سامعین میں سے کسی نے علم ریاضی کیا ایک سوال کیا کہ مولا اس عدد کا نام بتائیے جو ایک سے لے کر نو تک تمام ہندسے اس کو پورا تقسیم کر سکے اور کوئی کسر باقی نہ بچے ۔ حضرت علی ؑ نے فرمایا کہ اس عدد کو حاصل کرنے کے لیے ہفتے کے دنوں سے سال کے دنوں کو ضرب دیں دو جو عدد کا مجموعہ آئی گا وہ ایک سے لے کر نو تک پورے اعداد اس کو پورا پورا تقسیم کر سکیں گے اور بعد میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔ 360x7=2520یہ وہی عدد ہے جسے ایک سے لے کر نو تک تمام اعداد پور ا پورا تقسیم کر سکتے ہیں۔

 

حضرت علی ؑ علم دین اور دیگر علوم کے علاوہ علم غیب پر بھی فوقیت رکھتے تھے۔ لیکن ان کے مخالفین اور دشمن اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ علیؑ علم غیب کیسے جانتے ہیں۔ چنانچہ آپ ؑ کے عہد خلافت میں ہی ایک ایسا واقع رونما ہوا اپ ؑ کے مخالفین سے چند لوگوں نے ایک منصوبہ بنایا اور وہ ایک عورت کے پاس گئے جس کا ایک ہی بیٹا تھا انہوں نے اس عورت کو لالچ دیا اور کہا ہم تیرے بیٹے کو بظاہر مردہ کی شکل میں علی ؑ کے پاس لے جائیں گے اور علی ؑ سے کہیں گے اس کی نماز جنازہ پڑھائی جاء۔ علی نماز جنازہ پڑھائیں گے تو ان کی یہ بات غلط ثابت ہو جائے گی۔ کہ وہ علم غیب بھی جانتے ہیں۔ چنانچہ اس گرو نے اس لڑکے کو بظاہر مردہ بنا کر جنازے کی صورت میں حضر ت علی ؑ کے پاس لے گئے اور عرض کیا کہ امیر المومنین ؑ اس کا نماز جنازہ پڑھایا جائے آپ ؑ نے فرمایا کیا اس کو کوئی وارث ہے۔ تو اس عورت کو سامنے لایا گیا۔ عورت نے فرمایا یا علی ؑ میرا ایک ہی فرزندتھاآج اس کا انتقال ہوگا۔ میں آپ ؑ کو اجازت دیتی ہوں کہ آپ ؑ اس کا جنازہ پڑھائیں۔حضرت علی ؑ نے تین بار اجازت لے کر نماز جنازہ پڑھائی ۔ نماز جنازہ ختم ہونے کے بعد لوگوں نے دعویٰ بول دیا کہ آپ ؑ نے زندہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور یہ دعویٰ کرتے ہو کہ میں علم غیب جانتاہوں ۔ مولا علی ؑ نے فرمایا ذرا اس کو اٹھا کر تو دیکھو ۔ جب اس سے چادر اٹھائی گئی تو وہ کب کا مردہ ہو چکا تھا۔ یہ عالم دیکھ کر وہ عورت گھبرا گئی اور انتہائی شرمندگی کے عالم میں سارا واقعہ بیان کیااور حضرت علی ؑ سے معافی مانگنے لگی اور عرض کیا یا علی ؑ میرا یک ہی فرزند ہے جو میرا واحد سہارا ہے۔ حضرت علی ؑ کو اس عورت پر رحم آیا اور مردہ کے پاس جاکر کہا قسم بِاذن اللہ ۔ پس وہ خدا کے حکم سے دوبارہ زندہ ہوگیا۔اور دشمن انتہائی شرمندہ ہوئے۔

 

آپ نے لوگوں کو منبرِ کوفہ سے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا مجھ سے جس چیز کے بارے میں چاہو سوال کرو قبل اس کے کہ میں تم پر نہ رہوں۔ میں زمین سے زیادہ آسمان کے راستوں کو زیادہ جانتا ہوں۔ مگر افسوس اس زمانے کے لوگوں میں سے کسی نے بھی علی ؑ سے ایسا سوال نہیں کیا کہ اگر اس وقت علی ؑ کے آسمان کے ستاروں ،سورج،نظام شمسی اور کائنات کی گردش کے بارے میں سوال کرتے اور قیامت کے ہونے والے واقعات کے متعلق سوال کرتے تو آج سائنسدانوں کو مریخ میں پہنچنے تک اتنی دشوری پیش نہ آتی اور اتنا تو معلوم ہوتا کہ سیاروں اور ستاروں میں کیا کوئی ایسا راز ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس وسیع و عریض کائنات میں لامتناہی اربوں کے حساب سے خلق کیا ۔ پھر حضرت علی ؑ نے فرمایا تھا کہ اگر تم چاہو تو سمندر کی گہرائیوں تک بتا دوں اور اس گرتی ہوئی آبشار سے تمہارے لیے روشنی پیدا کردوں تو اس وقت کے لوگ تعجب سے پوچھتے تھے یا علی ؑ یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔کہ پانی سے روشنی پیدا کی جائے اب اس سے آپ خود اندازہ لگائیے کہ مولائے کائنات کو کیا زمانہ نصیب ہوا اور اس زمانے کے لوگ اس عظیم درسگاہ اور خزانے کی قدر نہ کرسکے کاش علی ؑ آج کے دور میں ہوتے تو یہ دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی اور وسعت کائنا ت کس قدر آگے جاتی۔

 

حضر ت علی ؑ خلفائے ثلاثہ کے دور میں شہر کے قاضی اور مجلس شوریٰ کے اہم رکن تھے ۔ مشکل سے مشکل مسئلے کا حل اور فیصلے حضرت علی ؑ ہی سناتے تھے۔ اور مملکت اسلامیہ کو وسیع کرنے اور ترقی دینے میں سابقہ تینوں خلفاء کو اہم مشورے بھی یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کہا کہ اے فرزند ابوطالب آپ ؑ ہرمومن مرد اور عورت کے آقا و مولا ہوگئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ علی ؑ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔ نیز فرمایا کہ میں کسی مشکل مسئلہ کے لیے زندہ رہوں نہ رہوں کہ جس کے لیے علی ؑ موجود نہ ہو مذید کہا کہ کہ جب علی ؑ سے والہانہ عقیدت کا حضرت عمرؓ کے اس قول سے لگایاجا سکتا ہے کہ کہ آپؓ نے کہا کہ خدا مجھے فرزند ابوطالب کے بعد زندہ نہ رکھے۔پھر فرمایا کہ علی ؑ ہم سب سے بڑے قاضی ہیں۔ خدا مجھے کسی مشکل مسئلے کے لیے باقی نہ رکھے۔ جس کے حل کے ابوالحسن موجود نہ ہوں اور حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ اگر علی ؑ نہ ہوتے تو عثمان ہلاک ہو جاتے۔

 

حضرت علی کے دور خلافت میں ایک شخص نے پوچھا یا علی ؑ کیا وجہ ہے کہ سابقہ خلفاء کے دور میں اتنا انتشار نہیں تھاجتنا آج کے دو ر میں ہے۔ اس وقت مولا علی ؑ نے فرمایا کہ سابقہ خلفا ء مجھ جیسے لوگوں پر حکومت کرتے تھے اور آج میں تم جیسے لوگوں پر حکومت کرتا ہوں۔ اس معقول جواب کے بعد وہ دشمن خاموش ہو گیا۔ علی ؑ کی وسعت علم وسعت فکر کا اندازہ لگائیے کہ آپ ؑ ہر مسئلے کا حل اور ہر بیماری کی دوا اور ہر سوال کا جواب خوب جانتے تھے۔آپ ؑ نے علم کی اہمیت کواجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ علم زندگی ہے اور جہالت موت ۔ نیز آپ ؑ کا فرمان مبارک ہے کہ علم قوموں کو عروج اور جہالت قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے۔استاد کے ادب و احترام کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ جس نے مجھے ایک حرف سکھایا وہ میرا آقا ہے میں اس کا غلام ہوں ۔ آخر میں آنحضرت ؐ کی حدیث کے ساتھ حرف آخر ادا کرتا ہوں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ تمہاری نسبت مجھ سے ایسی ہے جیسا کہ موسی ؑ کو ہارون ؑ سے تھی۔ تاہم میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

 

 
تحریری۔۔۔۔۔۔شکور علی زاہدی



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree