The Latest
وحدت نیوز! اسلامی دہشتگردوں کے ذریعے اگلا انقلاب شام میں برپا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ شام کا ڈرامہ آخری مراحل میں ہے۔ او آئی سی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے اور میں دعا کر رہا ہوں کہ اے اللہ! مسلمانوں کی خیر اور ساتھ ہی سوچ رہا ہوں کہ اس مرتبہ اسلامی کانفرنس کا نشانہ صرف شام کے مسلمان ہوں گے یا پاکستان، بنگلہ دیش، یمن اور افریقہ میں ساحل کے ممالک، سب اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
تحریر: نذیر ناجی
اب آپ کو یاد کرنا پڑے گا کہ ایک اسلامی کانفرنس ہوا کرتی تھی، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس تنظیم نے کبھی بھی مسلمانوں کی کسی ریاست یا کسی گروہ کے مفادات کیلئے کبھی کچھ نہیں کیا۔ یہ ہمیشہ اس وقت حرکت میں آتی ہے، جب امریکہ اور اس کے حواریوں کو اسلام کا نام استعمال کرکے اپنے اسٹریٹجک مقاصد کو آگے بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مجھے اسکا جو سب سے پہلا اور بڑا کارنامہ یاد ہے، وہ اسرائیل کیساتھ معاہدہ امن کرنے کے بعد مصر کی نام نہاد مسلم امہ میں واپسی کا ڈرامہ ہے۔
انور سادات نے جب کیمپ ڈیوڈ میں یہودیوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے تو فطری طور پر لازم تھا کہ عرب عوام میں بالخصوص اور مسلمانوں میں بالعموم اس پر شدید ردعمل پیدا ہوتا، لیکن مسلمان حکمرانوں کو اس معاہدے سے پہلے اعتماد میں لیا جاچکا تھا اور جو ہوا ان کی مرضی سے ہوا۔ انہوں نے صرف عوامی غم و غصے اور بغاوتوں کے خوف سے اس معاہدے کی مخالفت کی اور مصر کو اپنی نام نہاد برادری سے نکال دیا۔ مگر جب عوام کا غصہ قدرے ٹھنڈا ہوا تو مصر کو واپس مسلم امہ کا حصہ بنانے کے لئے اسلامی کانفرنس کا مردہ زندہ کیا گیا۔ اس کا ایک اجلاس منعقد ہوا، ہمارے مرد مومن مرد حق ضیاالحق کی ڈیوٹی لگی کہ وہ مسلم امہ کے ناراض حکمرانوں کو اس بات کا قائل کریں کہ مصر، مسلم امہ کا ایک بہت بڑا اثاثہ ہے اور اسلامی کانفرنس میں اس کی واپسی بہت ضروری ہے۔
اس مقصد کے لئے او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس) کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا گیا۔ جنرل صاحب اپنی اسلامی شان و شوکت کے ساتھ اسٹیج پر تشریف لائے اور پورا زور خطابت صرف کرتے ہوئے پہلے ہی سے قائل اسلامی حکومتوں کے نمائندوں کو مزید قائل کیا۔ کافروں کو مکے دکھائے، اسرائیلیوں کے خلاف شعلے اگلے۔ اسلامی تاریخ کے سنہرے ادوار کو یاد کیا اور پھر اسلامی کانفرنس کی طرف سے مصر کے ہجر کی درد بھری کہانی دہرائی اور پھر بتایا کہ مصر کی اسلامی کانفرنس میں واپسی کیوں ضروری ہے۔
یہ ساری المیہ کہانی دہراتے ہوئے وہ کبھی ہنسے، کبھی غضبناک ہوئے، کبھی آنسو بہائے، کبھی ہچکیاں لے کر روئے، پہلے سے تیار اسلامی حکومتوں کے نمائندوں نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے اور اس جذباتی فضا میں مصر کو اسلامی کانفرنس میں واپس لینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ امریکہ اور اسرائیل جو کام اپنی سفارتی طاقت اور اثر و رسوخ کے ذریعے کرنے میں دقت محسوس کر رہے تھے، اسلامی کانفرنس نے وہ کر دکھایا۔ واشنگٹن اور تل ابیب میں شادیانے بجائے گئے، مصری حکمرانوں نے عرب عوام سے جو غداری کی تھی، اسے سند قبولیت حاصل ہوگئی اور اس کے بعد کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ وہ او آئی سی کہاں گئی اور کیا کرتی رہی۔
البتہ اس کا سیکرٹریٹ جوں کا توں قائم رہا۔ اسے پیٹرو ڈالر ملتے رہے اور مختلف مسلمان ملکوں کے امریکہ نواز لیڈر اس تنظیم کے عہدیدار بن کر عیش و آرام کے مزے لوٹتے رہے۔ مصر اور پاکستان کے کئی لیڈر اس چشمہ فیض سے خوب سیراب ہوئے، لیکن اسلامی بلاک کی سطح پر یہ تنظیم کہیں نظر نہ آئی۔ میں ان تمام تنازعات اور خونریزیوں کا ذکر نہیں کروں گا، جن سے متعدد ملکوں کے مسلمان دوچار ہوتے رہے۔ خود مسلمانوں نے مسلمانوں کو مارا، لیکن اسلامی کانفرنس کبھی کوئی نتیجہ خیز قدم نہ اٹھا سکی۔
افغانستان میں بادشاہت کے خلاف مقامی قوم پرستوں نے جب بغاوت کرکے جمہوری حکومت قائم کی تو امریکیوں نے اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں اور انہیں اتنا مجبور کر دیا کہ ببرک کارمل کو سوویت یونین سے مدد مانگنا پڑی اور جب امریکی سازش اور خواہش کے عین مطابق روسی فوجیں اپنی حمایت یافتہ مقامی حکومت کی مدد کے لئے اسی کی درخواست پر افغانستان میں داخل ہوئیں، تو اسلامی کانفرنس انگڑائی لے کر اٹھی اور پھر جب تک روسی افواج افغانستان سے واپس نہ چلی گئیں، اس کے پے در پے اجلاس ہوئے۔
امریکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اڈے بنا کر افغانستان کے اندر مداخلت کے جو مراکز قائم کئے، اسلامی کانفرنس، عالمی رائے عامہ کو اس کے حق میں ہموار کرنے کے لئے مسلسل سرگرم رہی۔ افغان جنگ کے دوران او آئی سی کے جتنے اجلاس منعقد ہوئے، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ شمار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جیسے ہی افغانستان سے سوویت افواج واپس گئیں، او آئی سی لاپتہ ہوگئی۔ پچیس چھبیس سال لاپتہ رہنے کے بعد اچانک اس کا اجلاس طلب کرنے کی خبر آئی ہے اور میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ اب مسلمانوں کو کہاں پر اور کیسا گھا لگانے کی تیاریاں ہیں۔
امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملوں کے بعد جنگ کے جو نئے طریقے ایجاد کئے ہیں، وہ بہت انوکھے اور منفرد ہیں۔ پہلے دونوں ملکوں میں باقاعدہ فوجیں اتار کے میدانی جنگیں لڑی گئیں۔ جن میں فضائیہ کا بے رحمانہ استعمال ہوا۔ ان جنگوں کے دوران امریکہ نے اسلام کے نام پر دہشتگرد گروہوں کے ساتھ اپنے رابطے بڑھائے اور حیرت انگیز طور پر جس دہشتگردی کے خلاف اس نے عالمی جنگ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، انہی دہشتگردوں کو مسلمانوں کے خلاف اپنی جنگ میں آلہ کار بنانا شروع کر دیا۔
اس کا پہلا تجربہ تو پاکستان میں ہوا، جہاں امریکہ نے پاکستان ہی کے تیار کردہ مجاہدین کو اسی کے خلاف استعمال کرنے کا تجربہ کیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک گروہ کو ہماری مسلح افواج کے خلاف میدان میں اتارا گیا۔ وہ اب ہمارے پورے ملک میں دہشتگردی کر رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک گروہ سوات میں فضل اللہ کی زیرقیادت میدان جنگ میں اتارا گیا، جو اتنی تیزی سے فتوحات حاصل کرنے لگا کہ مغربی میڈیا نے اسلام آباد پر ان کے قبضے کے خطرات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو خطرہ محسوس ہوا کہ دہشتگردوں کی یہ لہر ہمارے ایٹمی اثاثوں کی طرف بڑھنے والی ہے۔ چنانچہ فوج کو میدان میں اتارا گیا اور دہشتگردوں کو اپنی طاقت کا مرکز افغانستان میں منتقل کرنا پڑا، لیکن سوات پر ان دہشتگردوں کے قبضے کے دوران ہمارے میڈیا کے کچھ عناصر نے جیسے بڑھ چڑھ کر ان کی حمایت کی، اس سے پتہ چلا کہ دہشتگرد صرف مقامی نہیں، ان کی ڈوریاں بیرون ملک سے ہل رہی ہیں اور بیرونی طاقتوں کے زیراثر کام کرنے عناصر والے ہمارے ملک میں بیٹھ کر جذباتی فضا کو ان کے حق میں ہموار کر رہے ہیں۔
کرزئی حکومت بظاہر سیکولر ہے۔ وہ اور امریکہ دونوں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ لیکن پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے مذہبی انتہا پسندوں کو ان دونوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ کھیل جو ہمارے ملک سے شروع ہوا تھا، بہت دور تک پھیلنے لگا اور افغانستان میں لڑنے والے جن دہشتگردوں کے ساتھ امریکہ نے رابطے کئے، اچانک وہ لیبیا کا رخ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ پاکستان نے پشاور سے پکڑے گئے جو دہشتگرد امریکہ کے حوالے کئے تھے اور جنہیں گوانتاناموبے میں قید کیا گیا تھا، وہاں سے رہائی پا کر لیبیا پہنچے اور قذافی کے خلاف بغاوت منظم ک۔
آپ کو یاد ہوگا کہ بغاوت کے آغاز میں صدر قذافی نے شدید تکلیف کے عالم میں کہا تھا کہ جن نام نہاد مجاہدین کو اس نے اپنے ملک میں پناہ دی، وہی اس کی جان کے دشمن ہوگئے ہیں۔ صدر قذافی کو جس ہجوم نے گھیر کے ہلاک کیا، اس کی قیادت بھی القاعدہ کے وہ لوگ کر رہے تھے جو پاکستان اور افغانستان سے لیبیا گئے تھے اور جس نوجوان نے صدر قذافی پر ہلاکت خیز وار کئے، وہ بھی پاکستان میں رہ کر لیبیا گیا تھا۔
اسلامی دہشتگردوں کے ذریعے اگلا انقلاب شام میں برپا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ شام کا ڈرامہ آخری مراحل میں ہے۔ او آئی سی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے اور میں دعا کر رہا ہوں کہ اے اللہ! مسلمانوں کی خیر اور ساتھ ہی سوچ رہا ہوں کہ اس مرتبہ اسلامی کانفرنس کا نشانہ صرف شام کے مسلمان ہوں گے یا پاکستان، بنگلہ دیش، یمن اور افریقہ میں ساحل کے ممالک، سب اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
"بشکریہ روزنامہ جنگ"
اگر قرآن و سنت کانفرنس کی آٹھ گھنٹے کی کارروائی کو سیکنڈز میں تقسیم کریں تو یہ تقریبا 0.0024 سیکنڈز بنتے ہیں، کانفرنس میں شریک ہونے والے 2 لاکھ سے زیادہ مومنین میں سے ہر ایک نے فقظ 0.0024 سیکنڈز میں اپنے اندر ایسا جذبہ اور ولولہ محسوس کیا جس کی کوئی قیمت نہیں۔ اگر کانفرنس میں شریک ہونے والی شخصیات کئی سالوں تک Door To Door جا کر کانفرنس کے شرکا کی خدمت میں حاضر ہوتیں تب بھی یہ خاص جوش اور ولولہ مومنین میں منتقل کرنا ممکن نہیں تھا۔ وہ جذبہ اور کانفرنس کا پیغام فقط اس بات سے عبارت تھا کہ ہمارا مورال بہت بلند ہوا ہے کہ جیسے ہر ایک کو نئی زندگی ملی ہو۔ہر ایک کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ جب ہمارے علما، ذاکرین، واعظین، تنظیمی احباب، عزادار، مدارس کے ذمہ دار اور عوام تمام ایک پرچم کے نیچے جمع ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے مومنین گردن تان کر یہ کہہ رہے تھے کہ تمام طبقات کی نمائندہ شخصیات کو یک زبان دیکھ کر ہمارا حوصلہ بہت بلند ہوا ہے۔ آج ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ ہمارے شہدا کا خون رائیگان نہیں جائے گا، اور یہ بھی بعید نہیں کہ ہم اکٹھے ہو کر خارجی استعمار سمیت داخلی سطح پر موجود تمام ملک دشمن قوتوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات اور قرآن و سنت کانفرنس کا اولین پیغام یہ تھا کہ ایم ڈبلیو ایم confused نہیں ہے۔ ملت تشیع پاکستان کی ابھرتی ہوئی نمائندہ جماعت کا Agenda بالکل واضع ہے، اور وہ ہے ملت مظلوم پاکستان کے حقوق کا تحفظ۔، کربلا کے پیغام کی پاسداری۔ ایم ڈبلیو ایم کہیں پر بھی قومی حقوق کے حوالے سے compromise نہیں کرئے گی، چاہے سانحہ چلاس ہو، کوئٹہ کے واقعات ہوں یا پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شیعہ طلبہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی۔ سیاسی حوالے سے کانفرنس کا پیغام نہایت واضع تھا کہ پاکستان کی جو پارٹی تکفیری دہشتگردوں سے تعلق بنائے یا انہیں اپنی صفوں میں جگہ دے، مومنین اس کا بایئکاٹ کریں۔ یہ یک نکاتی ایجنڈا ہر ایک کو سمجھ بھی آتا ہے اور پاکستان کی انتخابی سیاست کے ماحول میں موثر بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے نہ فقط عوام کو بلکہ ایم ڈبلیو ایم کے تمام کارکنان کو بھی Political Line Of Action ملی ہے۔ کانفرنس کا یہ اعلان کہ ہمارے دشمن عالمی سطح پر بھی ہیں، علاقائی اور مقامی سطح پر بھی۔ اور ہر سطح پر ملت اسلامیہ بالخصوص ملت تشیع دہشتگردی کا شکار ہے اور دنیا کا سب سے بڑا دہشتگرد امریکی ٹولہ ہے، چاہے وہ شام میں ہو یا پاکستان میں۔ کانفرنس میں یہ اعلان کیا گیا کہ ایم ڈبلیو ایم کا vision یہ ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی دہشتگردی کے اڈے امریکی سفارت خانے اور قونصلیٹ ہیں۔ اس سے پہلے اس ایشو پر اس طرح کی Clarity of mind کہیں سے سامنے نہیں آئی، ہو سکتا ہے کہ یہ ذہنی واضحیت پائی جاتی ہو، لیکن کسی کو جرائت اظہار نہیں ہوئی۔ یہ فقط خون شہید عارف حسین الحسینی کی تاثیر ہے کہ ملت تشیع پاکستان کی نمائندہ جماعت نے اس حقیقت کو مینار پاکستان کے سائے تلے عالمی اور مقامی میڈیا کے سامنے اس طرح برملا کیا، اور مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی اپنے دشمن کی طرف متوجہ بھی کیا اور دشمن کو بے نقاب بھی کیا۔ خود ایم ڈبلیو ایم کو بحیثیت جماعت جتنا فائدہ اس اجتماع سے ہوا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ چین کی سرحد سے لیکر کراچی کے ساحلوں تک ملک کے کونے کونے میں جماعت کا پیغام پہنچ رہا ہے اور جماعت پر عوام کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔ جماعت کے ذمہ داروں کو جہاں نیا حوصلہ ملا ہے، وہاں ان کی ذمہ داری بھی دوچند ہوگئی ہے۔ یکم جولائی کو مینار پاکستان پر ہونے والا اجتماع ایم ڈبلیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے، تمام سطحوں پر فعالیت اور عمومی روابط کے لیے بہت خوش آئند ہے۔ اسلام آباد میں تواتر سے ہونے والے قائد شہید علامہ عارف حسین حسینی کی برسی کے اجتماعات کی طرح قرآن و سنت کانفرنس میں بھی غالب اکثریت پاکستان کے تنظیمی افراد پر مشتمل تھی اور شرکا کی ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی تھی جو کسی قومی جماعت کا حصہ نہیں رہے، لیکن وہ اب تنظیمی طور پر ایم ڈبلیو ایم کا حصہ ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کے ذیلی شعبوں کے علاوہ ماہنامہ پیام زینب (س)، امام سجاد (ع) فاونڈیشن، شہید فاونڈیشن، ماہنامہ العارف، قومی تعلیمی اداروں اور مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والی قومی تنظیموں نے اپنے اپنے اسٹالز اور کانفرنس میں شرکت کرکے ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے اور پاکستان میں دشمنان ملت تشیع کو پیغام دیا ہے کہ حسین (ع) ابن علی(ع) اور جناب زینب(س) کے پیروکار ہمیشہ ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ یہ ملت مظلوم پاکستان کی خدمت میں مصروف تمام اداروں کے درمیان مثالی فکری اور ذہنی ہم آہنگی کا ثبوت تھا۔ پاکستان کے گوش و کنار سے آئے ہوئے طلبہ و طالبات اور خواتین کی نمایاں شرکت ایم ڈبلیو ایم پر اعتماد کا قومی اظہار ہے۔ سخت گرمی اور رش کی وجہ سے ایک درجن سے زیادہ خواتین بے ہوش ہوگئیں، لیکن ان پیروکاران بی بی زینب (س) کے جوش و جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی، اور مینار پاکستان کی فضائیں مسلسل لبیک یاحسین (ع) کی صداوں سے گونجتی رہیں۔ کانفرنس کا سب سے اچھوتا اور دلفریب پہلو یہ تھا کہ اعلان کیا گیا کہ ہمارا ایمان ہے کہ طاقت کا سرچشمہ خدا کی ذات ہے۔ دولت، افرادی قوت اور نظم و جماعت اللہ تعالی کی نصرت کے مظاہر ہیں۔ کانفرنس کی انتظامیہ اور قائدین نے ہر لمحہ اس کا اظہار کیا کہ یہ کامیابی اور خدمت کرنے کی ہمت فقط ائمہ معصومین (ع) سے توسل کی بدولت ہے اور عالم تکوین میں آپ (ع) کی نصرت و تائید کا اثر ہے۔ ہمارا نعرہ یا علی (ع) مدد اس بات کا اعلان ہے کہ ہماری worth نہ دھن ہے نہ دولت، نہ دنیاوی فکر و فلسفہ نہ مال و دولت، نہ افراد کی زیادتی، نہ مادی اسباب بلکہ ان کامیابیوں کا سبب ہماری پشت پہ صاحب العصر و زمان (ع) کا ہاتھ ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے سروں پہ مولا عباس (ع) کے علم کا سایہ ہمارا پشتیبان ہے۔ اللہ تعالی تمام قومی جماعتوں کو راہ خدا میں کامیاب و کامران فرمائے اور ایم ڈبلیو ایم کے قائدین اور کارکنان کو ملت کی طرف سے ملنے والے اعتماد اور جماعت کی طرف سے کئے گئے وعدوں پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔
برما میں مسلمانوں کے بیہمانہ قتل عام کی مذمت کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ برما کے مسلمانوں کی مدد کے لئے اس ملک میں امن محافظ فوج روانہ کریں۔ان خیالات کا اظہار مقررین نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے جامع مسجد کھارادر میں برما میں بدھسٹوں کی جانب سے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف منعقدہ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مقررین میں مولانا باقر زیدی، مولانا علی انور جعفری اصغر زیدی اور برادر محمد مہدی شامل تھے۔ اس موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد نے برما کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے برما کی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برما کے مسلمانوں پر جو قیامت برپا ہے اس دکھ اورمصیبت کی گھڑی میں ترقی پسند اور نام نہاد امن پسند غیر مسلم طاقتوں کی اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن پوری دنیا میں اسلامی ریاستوں کے سربراہوں سے لیکر مذہبی اور سیاسی راہنما تک اس انسانیت سوز واقع پرخاموش اور شرم ناک رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی سوائے ملت ایران اور رہبر مسلمین جہان آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے علاوہ کسی مسلم رہنما نے اس مسئلے پر آواز بلند نہیں کی، شاید لگتا یہ ہے کہ یہ رہنما شام میں امریکی مفادات کی تکمیل کے لئے مزاحمت اسلامی کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔رہنماں کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی برما کے مسلمانوں کے لئے آواز اٹھانا گوارا نہیں کیا ہے، رہنماں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون سے مطالبہ کیا برما مسلمانوں کے قتل عام کو رکوانے کے لئے فی الفور مداخلت کی جائے اور اقوام متحدہ کی امن فوج کے دستوں کو متاثرہ علاقوں میں تعینات کیا جائے۔ انہوں نے اسلامی ممالک اور بالخصوص عرب ممالک کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کی نوکری چھوڑ کر مظلوم مسلمانوں کی فریاد کو سنیں ورنہ مظلوموں کی آہ و بکا ان کی لرزتی ہوئی حکومتوں کے آخری جھٹکا ثابت ہوں گی۔حالیہ دنوں میں دنیا کے بہت سے ممالک میں مسلمانوں کی جانب سے میانمار میں مسلم نسل کشی کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے اور اس پر بین الاقوامی اداروں اور حقوق انسانی کی نام نہاد تنظیموں کی خاموشی کی مذمت ہو رہی ہے.میانمار کے مغربی صوبہ راخین میں انتہا پسند بدھسٹوں کے حملوں میں ہزاروں مسلمان جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں.
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کی صوبائی کابینہ نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب علامہ امین شہیدی سے ملاقات کے بعد جوان ہاؤس کا دورہ کیا۔ شعبہ جوان کے میڈیا کوارڈینیٹر برادر محمد نے وفد کو شعبہ جوان کی میڈیا کے حوالے سے فعالیت پر بریفنگ دی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم پنجاب ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے لئے شعبہ جوان کی ملی خدمات قابل تحسین ہیں۔ قوم کو اپنے حسینی کردار جوانوںپر فخر ہے۔ ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے وفد میں علامہ اصغر عسکری کے علاوہ ، سیکرٹری امور تنظیم سازی ذوالفقار اسدی، سیکرٹری مالیات بردار مسرت کاظمی شامل تھے۔
آج کے اس مشکل دور میں ذاکر، عالم، ماتمی اور نمازی کو پرچم وحدت کے سائے تل جمع کرنا مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا ایسا کارنامہ ہے جو تاریخ کے سینے پر سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ایم ڈبلیو ایم غموںاور تکلیفوں کے دھوپ میں جلنے والوں کے لئے سائبان اور شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتی ہے۔ قوم کی نظریں ایم ڈبلیو ایم پر لگی ہیں۔ ملت جعفریہ کو مایوس نہیں کریں گے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ حسن ظفر نقوی نے ایم ڈبلیو ایم پنجاب کی صوبائی اور ضلع لاہور کی کابینہ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ قوم کا وقار بحال کرنے کے لیے عوام کے درمیان خلیج کو دورکرناہوگا۔قومی تحریک ایک شجرسایہ دار کی مانند ہوتی ہے جس کے نیچے ہر ستایا ہواپناہ حاصل کرتاہے اسی روش پر چلتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین نے ہر ولائے علی رکھنے والے کے لئے اپنی آغوش پھیلادی ہے۔مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ یکم جولائی کو قوم کے بھرپور اعتماد کے بعداکابرین مجلس وحدت کی ذمہ داریوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیاہے اور قوم کا ہرطبقہ صرف اور صرف مجلس وحدت کی طرف دیکھ رہا ہے اور پاکستان میں شیعہ حقوق کی واحد آس مجلس وحدت مسلمین پاکستان کو سمجھتا ہے۔ مجلس وحدت کے ذمہ داروں کے لئے ایک چیلنج ہے کہ وہ قوم کے اعتما د پر پورا اترنے کے لئے اپنی مخلصانہ کوششوں کو اور زیادہ تیز کردیں۔
مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے وفد نے سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی کی قیادت میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی سے ان کی رہائش گاہ پرملاقات کی ۔ تین گھنٹے دورانیے کی اس ملاقات میں ایم ڈبلیو ایم کے تنظیمی امور، ملت جعفریہ کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے علاوہ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر سیر حاصل گفتگوہوئی۔ اس موقع پر پنجاب کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ خدا کے عنایت الٰہی سے ایم ڈبلیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ پورے ملک میں مرکز سے دیہات کی سطح تک قائم ہو چکا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے عہدیداران پاکستانی معاشرے کو اسلامی فلاحی معاشرہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اسلام دشمن قوتیں پاکستان میں تشیع کی بیداری سے خوف زدہ ہیں۔ انہوں نے کہا اب حکومت وقت سے مطالبہ کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ شیعہ قوم پاکستان کے آئین اور اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ہمیں کوئی راست اقدام اٹھانے کیلئے مجبور نہ کیا جائے۔ بین الاقوامی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بحرین ، سعودی عرب اوربرما میں مسلمانوں کی نسل کشی اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کو نظر نہیں آتی۔ لیکن شام کے لئے آئے دن راگ آلاپتے رہتے ہیں۔کراچی سے خیبر تک ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے لگتا ہے کہ حکومت اور امن دشمن شرپسند عناصر کا معصوم شہریوں کے خلاف گٹھ جوڑ ہو چکا ہے۔ جس پر پاکستانی عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ پولیس، ایف سی ، رینجرز سمیت خفیہ ادارے دہشت گردوںکو گرفتا ر کر کے کیفر کردار تک پہنچانے میں کیوں سستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے وفد وفد میں سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی کے علاوہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اصغر عسکری ، سید اسد عباس نقوی ، برادر ذوالفقار اسدی ، برادر رائے ناصر اور برادر مسرت کاظمی شریک تھے جبکہ مرکز ی شوریٰ عالی کے رکن علامہ اقبال بہشتی کو خصوصی طور پر ملاقات میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
امام بارگاہ حسینی سیتا جوگی ضلع دادو پر پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر صوبائی اسمبلی عمران لغاری کی مسلح دہشت گردوںکے ساتھ قبضے کی کوشش کے خلاف مجلس وحدت مسلمین سندھ آج ایس پی چوک دادو میں دھرنا دے گی۔ مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ مختار امامی کی قیادت میں مورو سے ایک ہزاروں افراد کا قافلہ دادو کے لئے روانہ ہو چکا ہے۔ دریں اثناء سندھ بھر سے قافلوںکی صورت میں محبان آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دادو جمع ہو رہے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل عمران لغاری نے مسلح دہشت گردوںکی مدد سے امام بارگاہ پر قبضے کی کوشش کی تھی جس میں عمران لغاری کے دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں چھ مومنین شدید زخمی ہو گئے تھے۔ مزید یہ کہ مجلس وحدت مسلمین سندھ نے عمران لغاری کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ یاد رہے کہ ایم ڈبلیو ایم کے دھرنے کی تمام شیعہ جماعتوں، ماتمی انجمنوں اور علماء امامیہ نے بھرپور حمایت کی ہے۔
جی بی حکومت آئین کی حکمرانی کی بجائے شرپسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ علامہ موسیٰ کریمی کا خطبہ جمعہ
مجلس وحدت مسلمین ضلع ھنزہ نگر کے سیکرٹری جنرل علامہ موسیٰ کریمی نے جمعہ کے روزمرکزی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت آئین و قانون کی عملداری کی بجائے دہشت گردوں کی پشت پناہ کا کردار ادا کر رہی ہے۔ جس کی واضح مثال سانحہ چلاس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کشیدہ صورتحال کے بعد قیام امن میں کلیدی کردار ادا کرنے والے تقی شاہ پر انتظامیہ کی جانب سے دائر کی جانے والی ناجائز ایف آئی آر ہے۔ علامہ کریمی نے حکومتی اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ گلگت کی زمین دہشت گردوں کے لئے کھلا میدان اور امن پسندمحب وطن شہریوں کے لئے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کو انتباہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اسی طرح کی پالیسی پر عمل پیرا رہی تو ملت جعفریہ اپنے آئینی حقوق کے حصول کے لئے پر امن احتجاج کا راستہ اپنائے گی۔
آیت اللہ شیخ نمر النمرکی رہائی کے لئے القطیف میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ سعودی عرب میں سکیورٹی فورسز نے پرامن مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی ہے جس میں درجنوں نہتے شہری زخمی ہو گئے ہیں جبکہ بیسیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سعودی وزارتِ داخلہ کے اپنے بیان کے مطابق یہ گرفتاریاں اس وقت کی گئیں جب گذشتہ رات مظاہرین القطیف نامی شہر میں ٹائر جلا کر احتجاج کر رہے تھے۔مظاہرین آیت اللہ نمر النمراور دیگر شیعہ مسلمانوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔اس ماہ کے اوائل میں بھی ان گرفتاریوں کے خلاف ہو نے والے ایک مظاہرے کے دوران دو افراد کو سعودی سکیورٹی فورسز نے بلااشتعال فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق ہلاک ہونے والے مظاہرین تھے جن پر پولیس نے گولی چلائی۔تیل کے ذحیرے سے مالا مال مشرقی صوبوں میں شیعہ اکثریت ہے۔ یہ لوگ طویل عرصے سے سنی حکمراں خاندان کی شکایت کرتے ہیں۔مارچ دو ہزار گیارہ میں ہمسایہ ملک بحرین میں ہونے اٹھنے والی آزادی کی تحریک کے بعد سعودی عرب کے مشرقی حصوں میں بھی آل سعود کے مظالم کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے۔
عالم اسلام کے عظیم رہنماء اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کی سرکردگی میں اسلام دشمن مورچہ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔فارس نیوز ایجنسی کے مطابق قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران کبھی بھی بیرونی دباو کے تحت اپنے موقف میں تبدیلی نہیں لائے گا۔ یہ بات انہوں نے منگل کی شام تہران میں اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں سے اپنی ملاقات کے دوران خطاب میں کہی۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کی سرکردگی میں بعض استکباری قوتیں ایران کے اسلامی نظام کی مخالف ہیں لیکن وہ ایسا ظاہر کرتی ہیں کہ انکا اصل مسئلہ ایران کا ایٹمی پروگرام اور انسانی حقوق کی صورتحال ہے، یہ ممالک اپنی سیاسی، اقتصادی اور میڈیا توانائیوں کی بدولت وسیع پیمانے پر منفی پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گویا ساری عالمی برادری انہیں چند ممالک تک محدود ہے۔رہبر معظم کا کہنا تھا کہ انکا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملت ایران نے اسلامی انقلاب کے ذریعے اپنے ملک کو انکے استعماری تسلط سے نجات دلائی ہے اور عالم اسلام میں بیداری اور انقلاب کی روح پھونک دی ہے، اسی وجہ سے استکباری قوتیں چاہتی ہیں کہ ایران پر کاری ضرب لگا کر اسے دوسروں کیلئے عبرت کا نشان بنا دیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں انقلابات کے بعد اسرائیل کو درپیش خطرات میں اضافہ، لبنان کی 33 روزہ جنگ اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اسرائیل کی شکست، عراق میں امریکہ کی ناکامی، افغانستان میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی اور ختم نہ ہونے والی مشکلات اور مشرق وسطی میں امریکی خارجہ سیاست کا بری طرح ناکام ہو جانا اس کمزوری کے بعض واضح نمونے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی ایران نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا مغربی ہتھکنڈہ غیرموثر اور ناکارہ ہو چکا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران انشااللہ بہت جلد موجودہ اقتصادی مشکلات اور دباو سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا اور لمبی مدت کیلئے ہمارے خلاف اقتصادی پابندیاں خود مغربی ممالک کے نقصان میں ہیں۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ملت ایران آج ترقی کی منازل انتہائی تیزی سے طے کر رہی ہے، جیسا کہ ایک وقت وہ تھا جب پورے ملک میں صرف تین سنٹری فیوج کام کر رہے تھے اور مغربی ممالک کا اصرار تھا کہ انہیں بھی بند کر دیا جائے لیکن آج خدا کی نصرت اور مدد سے ملک بھر میں گیارہ ہزار سے زائد سنٹری فیوجز دن رات کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک اس وقت انتہائی شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں جن میں یورپی یونین اور یورو کے خطے میں شدید مالی بحران، بعض یورپی ممالک میں معاشی عدم استحکام اور اسکے نتیجے میں حکومت کی سرنگونی، امریکہ میں بجٹ کا شدید خسارہ اور 99 فیصد تحریک کا معرض وجود میں آنا شامل ہیں۔