وحدت نیوز(کوئٹہ )مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ اقتصادی راہ داری، ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کا منصوبہ ہے، جسے متنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے ۔ اس منصوبے کی عمل داری کا اختیار پلاننگ کمیشن سے لے کر ایک ایسی کمیٹی کے سپرد کیا جائے ، جو تمام وفاقی اکائیوں کے نمائندوں پر مشتمل ہو۔ راہداری منصوبے پر حکومت کے متنازعہ بیانات اس قومی اہمیت کے منصوبے پر شکوک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبوں کے مسائل حل کرنے کے لیے متفقہ آئینی فورم مشترکہ مفادات کونسل کو فعال کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ کا کنٹرول بلوچستان کو دیا جائے اور راہداری منصوبے سے قبل بلوچستان میں ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ پر کام ہونا چاہیے تاکہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کو ترقی و خوشحالی کے اس سفر میں شامل کیا جا سکے ۔ گوادر کی ترقی کے بلند و بالا دعوؤں کے باوجود آج بھی گوادر کے عوام پانی کے لئے تر س رہے ہیں۔وفاقی حکومت کو پنجاب کے خول سے باہر نکل کر چھوٹے صوبوں کو بھی ترقی کے سفر میں شامل کرنا ہوگا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کے تعلیم یافتہ جوانوں کو وفاقی اداروں میں ملازمتیں دی جائیں اور بلوچستان میں جوانوں کے لئے اسکل ڈولپمینٹ پروگرام شروع کیا جائے ۔
وحدت نیوز (لاہور) دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ان سہولت کاروں اور سیاسی سرپرستوں پر ہاتھ ڈالنا ہو گا،انتہا پسند گروہ اب بھی سرگرم ہے،مصلحت پسندی اور سیاسی مفادات کے لئے ملکی سلامتی کو داوُ پر لگا دیا گیا ہے، حکومت نیشنل ایکشن پلان سیاسی مخالفین کیخلاف استعمال کر رہی ہے،جنوبی پنجاب میں دہشتگرد وں کیخلاف کاروائی کا نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے شہدائے باچا خان یونیورسٹی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے بلائے گئے تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کے بزدلانہ عزائم ہمیں جھکا نہیں سکتے،اسلام کے نام پر بربریت اور ظلم کی تاریخ رقم کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں،ملک پر مٹھی بھر مخصوص نظریہ اور سوچ حامل گروہ کو مسلط نہیں ہونے دینگے،اسلام آباد میں داعش کے حامیوں کیخلاف سینٹ میں پیش کردہ ثبوت پر حکومت کاروائی کرے،وزیر داخلہ کے مبہم اور غیر ذمہ دارانہ بیانات سے عوام ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم باچا خان یونیورسٹی شہداء کے لواحقین کے درد کو محسوس کر سکتے ہیں،اس دہشت گردی کی عفریت نے ہمارے چوبیس ہزار سے زائد پیاروں کو ہم سے چھین لئے،لیکن انصاف کے حصول کے لئے مظلوموں کی فریاد کے باوجود حکمرانوں کی کان پر جوں تک نہیں رینگی،دہشت گردوں کیخلاف فوجی عدالتوں میں کاروائی کو تیز کیا جائے ،اور ان درندوں کو سر عام چوراہوں پر لٹکا کر عبرت کا نشاں بنایا جائے۔
علامہ عبدالخالق اسدی کا کہنا تھا کہ پنجاب میں داعش کے بڑھتے اثر رسوخ سے پنجاب حکومت آنکھ چرا رہی ہے،پنجاب کے متنازعہ وزیر قانون کے ہوتے ہوئے دہشتگردوں کیخلاف کاروائی کی امید رکھنا ایک حماقت سے کم نہیں،جن کے روابط ایسے گروہوں سے ہوں ان سے خیر کی امید رکھنا ممکن نہیں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری امورتعلیم نثارعلی فیضی نے سانحہ چارسدہ کے حوالے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد قوتیں تعلیمی اداروں پر حملے کر کے ہمارے نوجوان نسل کو تعلیمی عمل سے دور کر نا چاہتی ہیں۔ اس کی طرح کی بزدلانہ کاروائیاں طلباء کے مضبوط ارادوں اور استقامت کو متزلزل نہیں کرسکتیں۔ علم کا نور جہالت کے اندھیروں پر ہمیشہ حاوی رہے گا۔الیکٹرانک میڈیا کے مختلف نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں میں سیکورٹی کے نظام کو موثر بنائیں۔ ہر انسان کی جان وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے ضیاع کی تلافی ممکن نہیں۔ دہشت گرد عناصر بغیرکسی معاونت کے اس طرح کی کاروائیوں میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتیں۔ ان مخفی عناصر کو بھی بے نقاب کر کے عبرت ناک سزا دی جانی چاہیے جو ملک دشمن قوتوں کے حامی و مددگار ہیں ان مدارس پرفوری پابندی لگائی جائے جن کے منتظمین کے کالعدم جماعتوں سے رابطے ہیں۔نثار فیضی نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکومت اپنی صفوں سے ان کے سہولت کاروں کو باہر نکال نہیں پھینکتی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل)کتاب،کاپی اور بستہ لہو میں تر کیوں ہے
بتادے ملک میرا اتنا پُر خطر کیوں ہے۔۔
20 جنوری کی صبح سورج طلوع ہوتے ہی لوگ کام اور حصولِ علم کے لئے نکلے مگر سب انجان تھے کہ آج کے دن بھی بڑا سانحہ ہونے والا ہے۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں چارسدہ کے مقام پربا چا خان یونورسٹی کے بوائز ہاسٹل پر صبح 10بجے ناپاک عزائم کے ساتھ دہشت گردوں نے حملہ کیا طالب علموں کے لاش گرتے رہے ہر طرف شور و غوغا اور لوگوں پر وحشت طاری ہوا 16 کے قریب طالبہ و طالبات شہید ہوگئے ۔ پروفیسر ڈاکٹر حامد حسین PHD کیمسٹری سمیت 20سے 25افراد شہید ہوئے ۔وطن کے محافظین پاکستان آرمی کے کمانڈوز ایک بار پھر بھر پور جواب دیتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو مار دئیے اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف بھی حملے کے مقام پر پہنچ گئے اور حالات کو کنٹرول میں لا کر عوام کا غم وغصہ دور کرنے میں کچھ حد تک کامیاب بھی ہوگئے۔تمام سیاست دانوں نے رسماََ اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ملک بھر میں سوگ کا اعلان سمیت قومی پرچم بھی سرنگوں رکھنے کا اعلان کیا۔
قارئینِ کرام! یوں تو وطنِ عزیز پاکستان کو بیرونی خطروں کے ساتھ ساتھ اندرونی خطروں اور سازشوں کا سامنا بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی اور اقتصادی حالت پر بھی گہرا اثر ہوا ہے ۔پاکستان میں پہلے سے طالبان کے حملوں کا خطرہ تمام حساس اداروں سمیت عام پبلک کو بھی پتہ ہے مگر پاکستان میں داعش کا وجود اور داعشی نظریہ رکھنے والے لوگ سب سے زیادہ وطن کی سا لمیت کے لئے خطرہ ہو سکتے ہیں۔کچھ لیڈروں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں داعش کا وجود نہیں ہے مگر اب وہ بھی مان گئے ہیں کہ نہ صرف داعش بلکہ داعش کے حامی بھی پاکستان میں ہیں۔دارلخلافہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی لال مسجد اور جامعہ حفضہ نے داعش کے ہاتھوں بیعت کر کے اعلان کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے حامی ہیں۔اس طرح کراچی میں بھی داعش کے لئے فنڈینگ اور چندہ کرتے ہوئے کئی دفعہ خواتین سمیت داعشی فکر رکھنے والے دہشت گرد پکڑے گئے۔ARY اسلام آباد کے دفتر پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی مگر حکمران پردہ ڈالتے رہے ۔حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں جبکہ گلگت جیسے شہر میں بھی داعش کے حق میں وال چاکنگ ہمارے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔کل پشاور میں بھی خود کش حملہ ہوا جس میں معروف صحافی اورٹرائبل یونین آف جرنلسٹ کے صدر محبوب شاہ آفریدی سمیت کئی اہم لوگ اس حملے کا شکا رہوئے۔پورے پا کستان اور بلخصوص دارلخلافہ اسلام آباد کے مدرسوں میں داعش اور القاعدہ کے انتہا پسند نظریے کو فروغ مل رہا ہے۔جس کی طرف نشاندہی کئی بار ہمارے حساس ادارے بھی کر چکے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس حساس معاملے کو نظر انداز کرنا اپنے پاؤں میں کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔آج پاکستان میں حساس ادارے،تعلیمی ادارے،مسجد ،مندر، امام بارگاہ،چرچ اور دیگر اہم مقامات اور شخصیات ٹارگٹ ہو رہے ہیں تو اس لئے کہ ہمارے ہاں مذہبی انتہا پسند لوگوں کو فروغ مل رہے ہیں ۔آج ہمارے حکمرانوں کو پاکستان سے ذیادہ سعودی عرب کی سالمیت کا فکر رہتا ہے حرمین شرفین کے نام سے ہم خواہ مہ خواہ میں جزباتی ہورہے ہیںیہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اول تو حرمین شرفین کو کوئی خطرہ نہیں اور اگر خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہو بھی جاتی ہے تو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امتِ مسلمہ حرمین شرفین کی دفاع کے لئے سروں پہ کفن باندھ کر نکلیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ حرمین شرفین کی سلامتی کے نام پر مسلمانوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے سعودی بادشاہی نظام کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس کے لئے سعودی اعلیٰ قیادت کئی بار پاکستان وزٹ کر چکے ہیں۔اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کوئی بھی ملک نہیں کر رہا اکیلے پاکستان کئی ملکوں کے دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال وزیرستان آپریشن ہے۔مگر پاکستان کے اندر پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ لوگ اسلام آباد کے ایوانوں میں چھپے ہیں جو دین کا نعرہ تو لگا تے ہیں مگر دین کے بارے میں ان کو پتہ تک نہیں ہوتا۔لہٰذا آج ہم دربدر کیوں ہیں ہمارے لیڈروں کو سوچنا ہوگا اور جو نتائج نکلتے ہیں اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔ہمارے ایک عزیز رضا بیگ گھائل صاحب نے کیا خوب کہا ہے ۔
چھپا ہے دین کے پردے میں موت کا تاجر
ذرا سا پر دہ ہٹا نے میں تجھ کو ڈر کیوں ہے
ہے دین ملک بچانے میں مصلحت کیسی
اے رہنماؤ بتاؤ اگر مگر کیوں ہے۔۔؟
تحریر۔۔۔۔۔محمد سعید اکبری
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری علامہ سید اقتدار حسین نقوی نے چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردوں کی کاروائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد جہنم کے کتے اور انسانیت کے دشمن ہیں ان کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا، یہ انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ چارسدہ میں بیرونی ہاتھ کا ملوث ہونا بھی خارج از امکان نہیں مگر حکومت کو چاہیے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ المیہ یہ ہے کہ موجودہ حکمران بھی دہشت گردوں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ حکومتی صفوں میں بھی دہشت گرد شامل ہیں۔ اگر حکمران قومی ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کرتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ضرب عضب میں پاک فوج کی قربانیاں قابل تحسین ہیں مگر حکومت کو جو کام کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا گیا جس وجہ سے دہشت گردوں کو اس طرح کی کاروائیاں کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے آرمی پبلک سکول پشاور اور اب چارسدہ میں یونیورسٹی پر حملہ کرنے والوں نے ثابت کر دیا کہ وہ علم کے دشمن ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ لاکھ اختلافات کے باوجود پاکستانی قوم دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے متحد ہے اور پاکستان کی بہادر افواج اپنی پاک سرزمین کو ان کے ناپاک وجود سے ضرور پاک کر دیں گی۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) وطنِ عزیز پاکستان کے موجودہ سیاسی عمائدین اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو انہیں معلوم ہوجائےگا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ یہ پاکستان کا اہم ترین حصہ ہےاس علاقے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 1970 میں صدر پاکستان جنرل محمد یحیی خان نے یہاں ایڈوائزری کونسل قائم کی ،ذواالفقار علی بھٹو جب بر سر اقتدار آئے تو انہوں نے ۱۹۷۲ میں گلگت بلتستان میں تین اضلاع بنا کر ترقی کے راستے کھول دئیے۔ 1977 کو پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی مارشل لا نافذ کیا گیا۔1982 میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے گلگت بلتستان اور دیامر کے تینوں اضلاع کو وفاقی مجلس شوری میں ایک ایک مبصر کی سیٹ مختص کی ، 1994 کے انتخابات کو بینظیر بھٹو نے جماعتی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کیا تو پاکستان کی بڑی بڑی پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے آئے جو اب بھی انتخابات کے موسم میں بڑے بڑے نعروں اور وعدوں کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے آتے ہیں ۔ 2002 میں صدر جنرل پرویز مشرف نے آئینی اصلاحات کے پکیج کا اعلان کر کے ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل کو اسمبلی سے بدل دیا۔اور اسی طرح بلتستان کے غیور عوام نے بھی پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ 1965 اور 1971کی پاک بھارت جنگ میں بلتستان کے ۷۴ افراد درجہ شہادت پر فائز ہوئے ہیں اور 89-1986 میں ۲۴ جبکہ 1999 میں ۸۳ افراد نے جام شہادت نوش کی ہیں۔جب جنگوں کا موسم آئے تو گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے جب سیاحت کے شعبے سے کچھ لینا ہو تو کے۲ پاکستان حصہ ہے دیوسائی کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے جب سیاچن بارڈر کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے جب شاہراہ قراقرم کی بات آئے تو پاکستان کا حصہ ہے لیکن جب آئینی حقوق اور اقتصادی راہداری کی بات آئے تو یہ علاقہ متنازع ہے ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اگر اتنا بڑا عرصہ اس خطے کو بنیادی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے تو اس میں موقع پرست سیاسی افراداور جماعتوں کا ہاتھ ہے اگر ہمارے نمائندے اسمبلی میں صحیح معنوں میں عوام کی نمائندگی کرتے تو بہت پہلے آئینی حقوق مل چکے ہوتے لیکن انہوں نے اس علاقے کے نام پر سیاسی فایدے تو لیے مگر علاقے کے لیے کہیں ایک لفظ بھی بولنے کی زحمت نہ کی ۔
جس ابتر حالات سے اس جنت نظیر خطے کو دوچار رکھا گیا ہے آج بھی ملکی سیاسی سیٹ اپ کے تناظر میں کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ اس خطے کے عوام کے بنیادی حق کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کے دیگر صوبوں کی طرح جائز حیثیت مل سکے۔
قوم مفاد پرستوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ سیاسی عمائدین کا نہ کوئی نظریہ نہ کوئی زبان اور نہ ہی یہ کسی اقدار کے پابند ہیں۔یہاں دولت کے بل بوتے، دھونس دھاندلی کے ذریعے جو چاہتا ہے عوام کا نمائندہ بن کر سامنے آ دھمکتا ہے، اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔نمائندے ایسے ہوں جو معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو نمٹانے کی صلاحیت رکھتے ہوں نہ صرف نوکریوں اور تبادلوں کی سیاست ، الیکشن میں اقربا پروری ، رشوت ، ذاتیات کی جنگ اور علاقہ پرستی جیسے کمترین اور ذلیل ترین ہتھکنڈے ہی سیاست کادار و مدار ہوں۔ اور اب ستم بالائے ستم یہ کہ جو علاقہ سالہا سال سے انتظامی ، ثقافتی اور دینی اعتبار ایک ہو اس وحدت کو سیاسی مفادات کی خاطر تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔اب بات یہ ہے کہ اس قوم کا مزید امتحان نہ لیاجائے ،عوام کے صبر کا پیمانہ پہلے ہی لبریز ہے۔
سید قمر عباس حسینی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.