وحدت نیوز (آرٹیکل) ۱۱ فروری کو ملّت ایران "یوم اللہ "کے نام سے بناتی ہے اور اس روز ایران بھر میں اسلامی انقلاب کی ترقّی اور ارتقاء کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں،نیز اس روز اسلامی انقلاب کے دشمنوں سے اور بے دین طاقتوں سےاظہارِ بیزاری اوراپنی دینی قیادت سے اظہارِ محبّت کیاجاتاہے۔

۱۱ فروری کو پورےایران میں بڑے پیمانے پر جلسے جلوس اور ریلیاں نکلتی ہیں ،جن میں شاید ہی کوئی ایرانی حصّہ نہ لیتاہو۔چنانچہ ہرسال فرزندانِ توحید کی یہ عظیم الشّان ریلیاں ایک طرف تو استعماری طاقتوں کی کمر توڑ دیتی ہیں اور دوسری طرف اسلامی حکومت کے حق میں ریفرنڈم ثابت ہوتی یں۔

یوں تو اسلامی انقلاب کے بعد ملتِ ایران کا ہر اجتماع باطل قوتوں پر خوف و ہراس طاری کردیتاہے لیکن طاغوتی طاقوتوں پر جو ہیبت "یوم اللہ" کی طاری ہوتی ہے وہ واقعتاً قابلِ دید اور قابلِ مشاہدہ ہے۔

اس یوم کی ہیبت سے خوفزدہ میڈیا اس روز کواس لئے اصلاً کوریج نہیں دیتاکہ کہیں ایران میں طلوع کر نےوالا اسلامی انقلاب دیگر ممالک میں "صادر "نہ ہوجائے۔
چنانچہ "صدورِ انقلاب" کے حوالے سےغیراسلامی طاقتوں اور ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ گروپوں کی اطلاع کے لئے اسلامی انقلاب کے رہنما سید علی خامنہ ای حفظہ تعالی اپنے ایک خطاب میں نےفرما چکے ہیں کہ ہمیں دشمن کہتے ہیں کہ انقلاب کو صادر مت کرو۔ہم پوچھتے ہیں کہ کیا انقلاب کوئی صادر کرنے والی شئے ہے؟انقلاب تو پھولوں کی خوشبو کی مانند ہےجو خود بخود پھیل جاتی ہے۔انقلاب تو موسم بہار میں چلنے والی بادِنسیم کی مانند ہےکہ جو خود بخود بدبودار اور گھٹن ماحول کو خوشبودار اور معطر کر دیتی ہے۔انقلاب کو صادر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی لہر خودبخود پھیل جاتی ہے۔[1]

جی ہاں! انقلاب کو صادر کرنے کی ضرورت نہیں، انقلاب تو موسم بہار میں چلنے والی بادِنسیم کی مانند ہےکہ جو خود بخود بدبودار اور گھٹن ماحول کو خوشبودار اور معطر کر دیتی ہے۔

کیا آج ہم نہیں دیکھ رہے کہ استعماری طاقتوں کے پروپیگنڈے کے باوجود،امریکی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے مفتیوں اور مولویوں کے فتووں کے باوجود گزشتہ ۳۳ برس سے یہ انقلاب مسلسل ترقی،استقلال،سربلندی اور عظمت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔آج علم و جتہاد سے لے کر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان تک ہر طرف دور دور تک اس انقلاب کا کوئی حریف نہیں،کوئی ثانی نہیں اور کو ئی مدّمقابل نہیں۔

آج عراق، تونس،مصر ،لیبیا،فلسطین،کشمیر،افغانستان،یمن،بحرین اور سعودی عرب میں اسلامی انقلاب کی موجیں عالمِ بشریّت کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اب تو اپنی آنکھوں سے تعصّب کے پردے ہٹادو اور اس حقیقت کو تسلیم کرلو کہ حقیقی فتح صرف اور صرف حق کی ہوتی ہے۔

ان ۳۳سالوں میں حضرت امام خمینی ؒ کے خلاف دئے گئے فتوے "آسمان پر تھوکا "کے مصداق ثابت ہوئے،اسلامی انقلاب کو شیعہ انقلاب کہنے کی مذموم سازشیں بے نقاب ہوگئیں۔ نیزصدام اور قذافی سمیت ظالموں،بادشاہوں،ڈکٹیٹروں اور آمروں کی پشت پناہی کرنے والے "ناصبی و امریکی"صہیونی و خارجی"دنیا بھر میں زلیل و رسوا ہوئے۔

یہ اسلامی انقلاب کی بادِ نسیم کاہی ثمر ہے کہ یمن کی محکوم عوام نے اپنے وجود سے بادشاہت کے خوف کا چوغہ اتار پھینکا،تونس کی مظلوم ملت نے ظالم آمریت کی آنکھیں نکال دیں،بحرین کے تہی دست لوگ اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر لئے گلی کوچوں میں نکل آئے،مصر کے مظلوموں نے یزیدِ وقت کاجنازہ نکادیا،لیبیاکے بہادروں نے آمریت کابھرکس بنادیا،حماس نے ناصبیت کے منہ پر طمانچے مارے،حزب اللہ نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے،عراقیوں نے امریکیوں کے نجس وجود کو اپنی مقدس سر زمین سے باہر دھکیلا اور ایرانیوں نے امریکی جاسوسی ٹیکنالوجی کا توڑ پیش کرکے کر وائٹ ہاوس کی چولیں ہلادیں۔

یہ سب کچھ ایسے ہی ہوا جیسے آج سے چودہ سو سال پہلے دنیاکے بڑے بڑے دانش مندوں،کاہنوں اور نجومیوں کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ مکّے کی سنگلاخ چٹانوں کے درمیان انگڑائیاں لینے والا دین اسلام اپنے سینے میں ایسی آتش انقلاب کو دبائے ہوئے ہے کہ جس کے بھڑکتے ہی ذات پات جیسی زنجیریں،قیصر و کسری جیسی بادشاہتیں،روم و ایران جیسی سلطنتیں، عربی اور عجمی جیسی دیواریں خاکستر ہوجائیں گی۔

وہ اسی انتظار میں تھے کہ جیسے ہی پیغمر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا نتقال ہوگا اسی وقت اسلام بھی ختم ہوجائیگا لیکن ان کےدیکھتے ہی دیکھتے دین اسلام مکّے کے افق سے ابھرا اور مدینے کی وادی پر چمکتا ہوا آفاق عالم میں بادِ نسیم کی طرح گھل مِل گیا۔مکّے میں بعثت پیغمبرِ اسلام کے بعد آج تلک ہر چشم بینا اورہر مرد دانا کے لئے ہرصبح ،انقلاب کی بادِ نسیم لے کر طلوع ہوتی ہے۔ایک ایسے انقلاب کی خوشبو جووقت کے سینے میں گلاب کی طرح مہک رہا ہے۔

جونادان بھی اس انقلاب کے سامنے سینہ سپر ہونے کی کوشش کرتے ہیں نہیں یہ انقلاب خوشبو کے جھونکوں طرح خاطر میں نہ لاتے ہوئےنسل در نسل اور صدی بہ صدی آگے ہی بڑھتا چلاجارہاہے۔

دین اسلام نام ہے ایک ایسی خوشبوکا کہ جس نے اقوام عالم کے درمیان حائل ذات پات اور ملک و نسب کی خلیج کو پاٹ دیا،جس نے عربی اور عجمی کے درمیان مشرق و مغرب کی طرح پھیلے ہوئے فاصلے کو مٹادیا،جس نے عزّت کی میزان،برتری کے معیار اور فضیلت کے ترازو کو تبدیل کردیا۔

بعثت رسول اکرم [ص]سے لے کر آج تک اس دین کی آفاقی و انقلابی تعلیمات نے اطراف عالم میں اقوام عالم کے مفکرین،ادیان،تحریکوں اور معاشروں پر اثر انداز ہوکر کئی مرتبہ مظلوم و محکوم انسانوں کو جبر و استبداد اور ظلم و بربریّت کی زنجیروں سے نجات دلائی ہے۔

ہاں۔۔۔ مگر چشم فلک نے برسوں تک وہ مناظر بھی دیکھے ہیں جب اسلام کی انقلابی تعلیمات کو درہم و دینار اور طاقت و تلوار کے ذریعے دبا دیا گیاتھا۔وہی ظالم اور جابر حکمران جن کے ظلم و جبر سے اسلام نے اقوام عالم کو نجات دلائی تھی اب دنیا ئےاسلام پر حکومت کر رہے تھے۔اموی شہنشاہ،عباسی حکمران اور مغل و لودھی بادشاہ بیت المال سے شراب بھی پیتے تھے،رنگ رلیاں بھی بناتے تھے اور امیرالمومنین بھی کہلاتے تھے۔

یہ بادشاہ خود تو محلّات میں رہتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ جھونپڑیوں میں زندگی گزارو کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے،یہ خود توعیاشیاں کرتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ تم بکریاں چراتے رہو کہ یہ انبیاء کا پیشہ ہے ۔

عرصہ دراز تک دنیا ئےاسلام بادشاہت و ملوکیّت کےبوجھ تلے دبی رہی،تقریباً تیرہ سو برس تک دین اسلام بادشاہت و ملوکیّت کے پنجوں میں سسکتارہا،تیرہ سو سال کے بعدسرزمین ایران سے بادشاہت و ملوکیّت کے خلاف ایک ایسے شخص نے قیام کیاجس کی رگوں میں پیغمبر اسلام [ص]کا خون تھا اور جس کے ہاتھوں میں پیغمبر اسلام [ص]کی کتاب قرآن تھی۔

اس مرد مجاہد نے ایک ایسے دور میں قیام کیا جب پوری دنیا میں ملت اسلامیہ غلامی کی عادی ہو چکی تھی اور ایران کا یہ حال تھا کہ ایران مسلسل تیل بیچ رہاتھااورزرہ پوش گاڑیاں،ٹرک،اینٹی کرافٹ توپیں اور بھاری اسلحہ خرید رہاتھا،یہاں تک کہ ۱۹۷۶سے ۱۹۷۷ کے دوران امریکہ سے اسلحے کی خریداری کا بل چار ارب ڈالر سےبڑھ کربارہ ارب سے بھی زیادہ ہوگیاتھا۔

دوسری طرف ملک میں ہر روز نت نئے جشن اور میلے منعقد کئے جاتے تھے۔مثلاً۲۶ اکتوبر کو شاہ کی سالگرہ ،۲۶جنوری کو سفید انقلاب کی سالگرہ ،۶دسمبر کو آزادی خواتین کی سالگرہ اس کے علاوہ جشن تاجپوشی،شہنشاہیت کا ۲۵ سوسالہ جشن وغیرہ وغیرہ۔۔۔صرف شہنشاہیت کے ۲۵ سوسالہ جشن کے اخراجات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اسے دنیاکی عظیم ترین نمائش کہاگیاتھا۔

یہ سب کچھ کرنے کے باوجود"شاہ" کے لئے مریکی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری تھا کہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اختیارات میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ کرتا چلاجائے،ایجنسیوں اور فوج کے کارندے اپنے وسیع اختیارات کے باعث کسی کو سراٹھانے کی مہلت نہیں دیتے تھے ،جوکوئی بھی شاہ پر یا شاہ کی پالیسیوں پر تنقید کرتا تھا اسے ملک دشمن ،غدار اور خائن قرار دےدیاجاتا تھا۔

جیلیں قیدیوں سے چھلک رہی تھیں،ٹارچر سیل خون اور ہڈیوں سے لتھڑ گئے تھے،لوگوں کی ایک بڑی تعداد خفیہ ایجنسیوں نے اغواء کر رکھی تھی ،۱۹۷۸ تک ملکی معیشت کا یہ حال ہوگیاتھاکہ شاہ اور اس کی بیوروکریسی پرائیویٹ بنکوں کے ۵۰ فی صد حصص کی مالک تھی،ایران کی غیرملکی تجارت صرف ۶۰ افراد کے ہاتھ میں آگئی تھی،کمپنیوں کے زیادہ تر شئیرز صرف ۵۰ خاندانوں کے پاس تھے،ہرروز شاہی خاندان کے افراد،شاہی محل کے ملازمین اور کارندوں کے لئےجنیوا میں سویس بینک کے اکاونٹ نمبر۲۱۴۸۹۵-۲۰ میں پہلوی فاونڈیشن کے اکاونٹ میں کئی ملین ڈالرڈالے جاتے تھے۔

ایرانی یونیورسٹیاں دن بدن بے روزگار وں کو جنم دے رہی تھیں،ملک کے طول و عرض میں غیرملکی سرمایہ کاری خصوصاً امریکی سرمایہ کاری کا جال بچھاہواتھاجبکہ ایرانی نوجوان اپنے ہی ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں ٹھوکریں کھاتے پھررہے تھے،ایران کی یہ نام نہاد ترقی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ ایران جو کبھی گہیوں برآمد کرتا تھا اس نے گہیوں بھی در آمد کرنی شروع کر دی تھی۔

۱۹۶۰ء میں جب ایران کی حکومت نے اسرائیل کو سرکاری طور پرتسلیم کرلیا تواسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے ٹریننگ اور تربیّت حاصل کرنے کے لئے ایرانی فوج اور ایرانی خفیہ ایجنسی ساواک کےکئی اہم عہدیداران اسرائیل گئے اور اسی طرح موساد کے سینکڑوں اسرائیلی عہدیدار ایران آکر بھی ایرانی فوج اور خفیہ اداروں کو ٹریننگ دینے میں مصروف رہے۔

اس ٹریننگ کے نتیجے میں ساواک نے اپنے ہم وطنوں پر ایسا شکنجہ کسا کہ یونیورسٹیوں سے میمنے،بکریاں اور طوطیاں نکلنے لگیں،کسی میں دم نہ تھا کہ وہ ساواک،فوج اورشاہ یا اس کی پالیسیوں کے خلاف زبان کھولے،پورے ملک میں اسرائیلی اور امریکی مفادات کے تحفظ اور فروغ کا عمل زوروشور سے جاری تھا۔

ملک میں حکومتی وحشت و برریت کااندازہ اس امر سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ اسی دور میں حکومت نے مچھلیوں کاشکاربھی غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کردیااورغیرملکی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے جاسوسی انتظامات کے ساتھ ساحل پر ایک ساحلی گارڈ بنائی جس کا نام "گارد ساحلی شیلات" تھا۔اس ساحلی گارڈ کو یہ اجازت تھی کہ وہ غیر ملکی کمپنیوں کے علاوہ شکار کے لئے آنے والوں کو گولی کا نشانہ بنادے۔چنانچہ ایران کے ساحلوں پہ سینکڑوں غریب ایرانی اپنے ہی ملک میں اپنی ہی گارڈ کے ہاتھوں ،مچھلی شکار کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے تھے۔

یادرہے کہ یہ اس دور کی بات ہے جب ایک طرف تو ایرانیوں کی غربت کا یہ حال تھا کہ وہ اپنی جان لڑا کر مچھلی شکار کرنے کی کوشش کرتے تھے جبکہ دوسری طرف ایران اور اسرائیل کے درمیان تجارتی لین دین چالیس کروڑ ڈالر سے بھی تجاوز کرچکا تھا۔

کچھ عرصے بعد ہی طاقت کے نشے میں دھت ایرانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے اپنے اختیارات کی وسعت کے باعث تعلیمی اداروں خصوصاً دینی مدارس کا رخ کر لیا۔انہوں نےمارچ ۱۹۶۳ ء میں قم کے مدرسہ فیضیہ اور تبریز کے مدرسہ طالبیہ پر چڑھائی کی اورسینکڑوں نہتّے طالبعلوں پر گولی چلاکر انہیں خاک و خون میں غلطاں کردیا۔

فوج کا تخمینہ اور خفیہ ایجنسیوں کا گمان یہ تھاکہ انہوں نے عوام کو میمنے اور طوطیاں بنا رکھا ہے لہذادوسرے بہت سارے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی چھپ جائے گالیکن ان کا یہ گمان اس وقت غلط ثابت ہو گیا جب ایرانی قوم اس خون کوعلم بنا کر کوچہ و بازار میں نکل آئی،مظاہروں نے زور پکڑا اورساواک کے مظالم کی داستانیں ایرانی بارڈرز کو پھلانگ گئیں اور پھر ۱۰ جولائی ۱۹۶۳ء کو "مصر"کی الازہر یونیورسٹی کے وائس چانسلرمحمود شلتوت نے اس ظلم کے خلاف پمفلٹ چھاپا۔

جامعۃ الازہر کے بعدروزنامہ "الاہرام" نے ۶ اور ۷جون ۱۹۶۳ء کے شمارے میں اس پر تبصرہ چھاپا،ہفتہ وار جریدے "ابزرواتورعرب"نے ۱۷جون ۱۹۶۳ء کے شمارے میں"حیلہ عظیم " کے عنوان سے اس حادثے کے بارے میں مقالہ چھاپا اور پھر مسلسل"جامعہ اسلامی لبنان"نے ،کویتی جوانوں نے،جرمن میں مقیم ایرانی جوانوں اور کئی دوسری تنظیموں نے پمفلٹ،مقالے اور کالم چھاپنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی شخصیتوں کو ٹیلیگرام بھیجے اور یہ تحریک اس جوش اور


ولولے کے ساتھ آگے بڑھی کہ ایرانیوں کے خون کو چوسنے والی فوجی جونکیں اور ان کی لاشوں پر رقص کرنے والےخفیہ اداروں کے بھیڑیے ایک ساتھ تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوگئے۔

۔۔۔ اور ۔۔۔پھر وہ دن بھی آپہنچا کہ جب ایک جرمن روزنامے "اشپی گل" کے خبرنگار نے تہران ائیر ہورٹ پر ملک چھوڑکر بھاگتی ہوئی ملکہ فرح سے یہ سوال کیا کہ کیاآپ کو یہ امید تھی کہ آپ سے عوام اس قدر متنفر ہوجائے گی ؟۔۔۔
۱۱فروری ۱۹۷۹ کو شہنشاہیت کاگہن زدہ سورج ایران کے افق سے ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا اور شہیدوں کے مقدس لہو میں تر بتر"اسلامی انقلاب" درخشندہ مہتاب کی طرح دمکنے لگا۔

ایران میں آنے والے اس اسلامی انقلاب سے بین الاقوامی برادری بڑے پیمانے پرمتاثرہوئی اور مجموعی طور پر دنیا میں اس انقلاب کےتین طرح کےثمرات دیکھنے میں آئے۔

۱۔فوری طور پر حاصل ہونے والےثمرات
۲۔ایسےثمرات جو ابھی تک مرتب ہو رہے ہیں اور ان کا سلسلہ چلتا رہے گا
۳۔ایسےثمرات جو جلد یا بدیر ضرور سامنے آئیں گے۔


۱۔فوری طور پر مرتب ہونے والے ثمرات

۱لف۔اسلام کے کھوئے ہوئے تشخص کی بحالی۔

ایک طویل مدّت تک بادشاہت و ملوکیّت کے زیر تسلط رہنے کے باعث اسلامی ممالک میں دیگر غیراسلامی ممالک کی طرح فسق و فجور اور بے راہروی کا دوردورہ ہوچکاتھا،مسلمان سلاطین غیر مسلم بادشاہوں کی طرح عیاشیاں کرتے تھے اور دین کو اپنی حکومت کے استحکام کی خاطر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے چلے آرہے تھے۔اسلامی انقلاب کی کامیابی نے بادشاہت و ملوکیّت کو اسلام سے جدا کیا اور اسلامی حکومت کو سیرت النّبی{ص}کے احیاء اور اجراء کا ذریعہ بنا دیاجس سے لوگوں کے سامنے اسلام کی حقیقی شکل ایک مرتبہ پھر نمودار ہوئی۔

ب۔اسلامی وحدت اور استعمار شناسی کا شعور

اسلامی انقلاب سے پہلے اسلامی دنیا مختلف گروہوں اور بلاکوںمیں بٹی ہوئی تھی،علاقائی تعصبات کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت اور فرقہ واریّت عروج پر تھی۔ بادشاہ صاحبان اپنی مکروہات کو چھپانے کے لئے درباروں میں علمی مناظروں کے نام پر شیعہ ،سنّی علماء کو اکٹھا کر کےفرقہ وارانہ مباحث کو از سر نو زندہ کرتے تھے اور پرانے اختلافات کو پھر سے بھڑکاتے تھے چنانچہ لوگ اپنے دینی جذبے کے باعث فرقہ وارانہ جھگڑوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور یوں یہ بغض و حسد نسل در نسل آگے چلتا رہتا ،لوگ ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑے رکھتے تھے اور حکمران رنگ رلیاںمناتے تھے۔

اسی طرح استعماری طاقتیں بھی اپنے مفادات کے حصول کے لئےہمفرے اور لارنس آف عریبیہ کی طرح کےاپنے جاسوسوں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتی تھیں ۔اس طرح کے جاسوس مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر فسادات اور فرقہ واریّت کو ہوا دیتے تھے۔

ایران کے اسلامی انقلاب نے شیعہ اور سنّی مسلمانوں کو صدر اسلام کی طرح بھائی بھائی بننے کا شعور عطاکیا۔ایران کے شیعہ و سنّی علماء نے کے اتحاد اور اتفاق سے تمام دنیاکے مسلمانوں نے متفق اور متحد ہونے کا شعور لیا ،ملت ایران نے عملی طور پر متحد ہو کرپورے عالم اسلام کو یہ باور کرایاہے کہ مسلمانوں کی اصل طاقت اتحاد میں مضمرہے ۔ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جو شخص بھی فرقہ وارانہ مسائل کو اچھالنے کی کوشش کرتا ہے اسے شیعہ یا سنّی سمجھنے کے بجائے استعمار کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ استعماری آلہ کار اور امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ یوم القدس سے لے کرمسئلہ فلسطین،مسئلہ کشمیر اور عراق و افغانستان سمیت تام تر اسلامی مسائل کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف تمام تر تعصبات سے بالاتر ہے۔

اسی طرح اسلامی انقلاب نے دنیائے اسلام کے معدنی وسائل اور آبی ذخائرکو لوٹتی ہوئی استعماری طاقتوں کے خلاف بھی آوازبلند کی ہے اور بین الاقوامی اسلامی برادری کو مل کر استعماری سازشوں کا مقابلہ کرنے کا شعور بھی دیاہے۔ جس کے بعد اسلامی منڈی ،اسلامی بینک اور مشترکہ اسلامی آرمی جیسے کئی عظیم منصوبے آج بھی اسلامی دنیا میں زیر بحث ہیں۔

ج۔دینی و ملّی استقلال و خود مختاری

اسلامی انقلاب نے ایرانی عوام کو یہ شعور دیا کہ کہ انہوں نے اپنی گردنوں سے استعمار کی غلامی کا طوق اتار پھینکا اور اپنے گلی کوچوں سے غیر ملکی ایجنٹوں کو مار بھگایا۔جس کے بعدایرانی سائنسدان،انجینئر،پروفیسر ،ڈاکٹر اور علماء ۔۔۔سب نے ایرانیوں سے احساس کمتری کو ختم کرنے اور ملت ایران کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔

آج کے ایران میں اور ماضی کے ایران میں یہی فرق ہے کہ آج کا ایرانی احساس کمتری سے نکلا ہوا ہے ،آج ایران کے اعلی حکام کے نزدیک ان کی اپنی زبان "فارسی" میں گفتگو کرنا ان کے لئے فخر کا باعث ہے،انہیں اپناتعارف کرانے کے لئے انگریزی اصطلاحات کی بیساکھیوں کا سہارا نہیں لینا پڑتا،آج ان کی یونیورسٹیوں میں انگریزی کو ترقّی کامعیار نہیں سمجھاجاتا اوران کے پالیسی ساز اداروں میں غیرملکی قرضوں اور بیرونی امداد پر تکیہ نہیں کیا جاتا۔

جب تک اسلامی انقلاب کا خورشید ایرانی افق نہیں چمکا تھا ایرانی احساس کمتری کے باعث سر جھکا کر جی رہے تھے اور جب اسلامی انقلاب نے ایرانی معاشرے کو اپنی آغوش میں لے لیا تو پھر انہوں نے وہ سربلندی حاصل کی کہ قیامت تک پورا عالم بشریّت ان پرفخر کرتا رہے گا۔

اسلامی انقلاب نے سب سے پہلے ایرانی قوم کو استقلال اور خود مختاری کا شعور دیا اور پھر ملت ایران سے اقوام عالم نے یہ درس لیا جس کے باعث پوری دنیا میں استعماری طاقتوں کے مفادات کو خطرہ پڑ گیا اور انہوں نے اسلامی انقلاب کےثمراتکو محدود کرنے کے لئے دنیا پھر میں اپنے جاسوسوں اور ایجنٹوں کو پروپیگنڈے کے لئے فعال کیا جنہوں نے کبھی اس انقلاب کو" مُلّا انقلاب " کبھی "شیعہ انقلاب "اور کبھی ایرانی انقلاب کہہ کر اس کے خلاف مزاحمت شروع کی لیکن استعمار اور استعماری ایجنٹوں کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ علم وشعور اور معرفت و بیداری کو جھوٹ اور پروپیگنڈے کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا ۔

چنانچہ ایک طرف تو صدام کو اسلامی انقلاب کے خلاف استعما ل کیاگیا جس کے باعث۸سال تک صدامی فوجی ،اسلامی انقلابیوں کے خون میں ہاتھ رنگتے رہے اور دوسری طرف دنیا بھر میں اسلامی انقلاب کے پیغام اور ثمرات کو منتقل کرنے والے مفکرین اور دانشمندوں کو شہید اور اغواء کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

ان شہید کئے جانے والوں میں عراق سے باقرالصدر،لبنان سےموسی صدراور پاکستان سے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور علامہ عارف حسین الحسینی کے نام سرِ فہرست ہیں اوراسی طرح حج کے موقعہ پر سینکڑوں حاجیوں کو گولی ماری گئی۔

تاہم آج یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ فوری طور پر ایران میں اسلامی انقلاب کےثمرات کو محدودکرنے کئے استعمار نے جو خون ناحق بہایا تھا وہی خون ،اسلامی انقلاب کی ترویج و اشاعت کا بہتریں وسیلہ بنااور دینی و ملّی استقلال و خود مختاری کی جس لہر کو استعمار ایران کے اندر ہی دبا دینا چاہتا تھا آج تیونس،ترکی اور اردن سمیت پوری دنیا میں اس کے جھٹکے محسوس کئے جارہے ہیں۔

 

 

تحریر۔۔۔۔۔۔نذرحافی

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری نے انقلاب اسلامی ایران کی 37ویں سالگرہ کے موقع پرمرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے تہنیتی پیغام میں کہا کہ صدی کے عظیم الشان انقلاب کی کامیابی کے سینتیس برس مکمل ہونے پرملت اسلامیہ کو ہدیہ تبریک پیش کرتاہوں،امام خمینی ؒکی قیادت میں رونماہونے والااسلامی انقلاب آج سرحدوں کی رکاوٹوں کو توڑتا ہوانیل تا کاشغرتک پھیل چکا ہے،اس انقلاب نے راستے میں حائل تمام تر مصائب ومشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے، استعماری قوتوں کی سنگین سازشیں ، صدام ملعون کی مسلط کردہ جنگ،داخلی منافقین کے حملوں کے باوجود یہ انقلاب روز بروز توانا صورت میں پروان چڑھ رہا ہے،امام خمینی ؒکے بوئے ہوئے بیج کی آبیاری لاکھوں شہداءنے اپنے پاکیزہ لہو سے کی،اس انقلاب کو ولی امرمسلمین جہاں امام خامنہ ای نے اسی طرح محفوظ رکھا جیسا امام خمینی ؒ چھوڑ کر گئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان نہ صرف سرحدی حد تک ملحق ہے بلکہ نظریاتی طور پر مربوط اور ملحق ہے۔ پاکستان ایران کا نظریاتی اور اسٹریٹیجک پارٹنر ہے جو امریکہ اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کے لیے قابل برداشت نہیں،پاکستان کو ایران کے ساتھ توانائی کے شعبے میں مشترکہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، ایران پاکستان کو بجلی اور گیس کے بحران سے باہر نکلنے میں باآسانی اورسستی مدد فراہم کرسکتا ہے، پاکستان کی سابقہ خارجہ پالیسی ناکام رہی ہے اور اس میں سب سے زیادہ ہاتھ امریکہ کا ہے۔ پاکستان کو خارجہ پالیسی میں تبدیلی کر کے واضح پالیسی بنانی چاہیئے اور سات سمندر پار ممالک کو گلے سے لگانے کی بجائے ان اسلامی ممالک کے ساتھ روابط بڑھانا چاہیئے جو پاکستان کے حقیقی دوست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے دنیا کے سامنے واضح کر دیا کہ امریکہ سے مدمقابل رہ کر ہی ملت اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو بھی اپنے پاوں پر کھڑا ہو کر جامع پالیسی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیئے اور پاکستان کے حقیقی دوست جیسے ایران، چین، افغانستان اور دیگر اسلامی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہیئے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی موسوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آج پاکستان کو داعش سے زیادہ داعشی اور طالبانی سوچ اور ان کے پرورش دہندگان سے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب قابل تحسین ہے لیکن اس سے پہلے بھی آپریشن ہوچکے ہیں مگر ان سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ کیونکہ ہم دہشگردی کے جڑوں کو کاٹنے کی بجائے پتوں اور شاخوں کو کاٹنے بیٹھ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ آرام و سکون کے بعد دوبارہ بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ بیان میں اس بات پر تنقید کیا گیا کہ جو لوگ داعش کا پاکستان میں موجود ہونے سے انکار کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ اپنے اردگرد نظر دوڑاتے تو داعش نہ بھی ہو مگر ان جیسے سوچ کی آماجگاہ ہیں۔ اور پروان چڑھانے والے ضرور نظر آئیں گے۔

انہوں نے کہا جب تک تکفیری ٹولے علی اعلان سڑکوں اور اخباری بیانات کے ذریعے لوگوں کو کافر قرار دیتے رہیں گے ، دہشت گردی اور افراتفری کا خطرہ پاکستان کے ساتھ منڈلاتا رہے گا اور ہر سکون اور وقفے کے بعد خاک و خون کا سلسلہ جاری ہوتا رہے گا اور باقی آپریشن کی طرح ضرب عضب بھی کاریگر ثابت نہیں ہوگا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ارباب اختیار آپریشن کے ساتھ ساتھ مذکورہ فساد کے ٹھکانوں اور آگ اگلنے والی زبانوں کو لگام دے تو وہ دن دور نہیں کہ پھر سے یہ ملک امن کا گہوارہ بنے ، ورنہ یہ تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔

وحدت نیوز (گلگت) شاہراہوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، حکومت پاکستان بھی ملک کے مختلف شہروں میں موٹر ویز، ہائی ویز اور دیہی علاقوں کو شہروں سے ملانے کے لئے اربوں روپے خرچ کرکے سڑکیں بنا رہی ہے۔ یقیناً اس سے عوام کو سہولت فراہم ہوگی، خطہ ترقی کرے گا، لیکن کب حکومت کی توجہ اس سر زمین بے آئین پر پڑے گی، جہاں 1978ء میں تعمیر ہونے والی گلگت سکردو روڈ کئی سالوں سے حکمرانوں کی توجہ کی طالب ہے۔ یہ شاہراہ جو بلتستان کے سات لاکھ سے زائد لوگوں اور دیگر چار اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد کی واحد گزرگاہ ہے، یہ اسٹرٹیجک اہمیت کے اعتبار سے بھی پاکستان کے لئے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔

قارئین کو معلوم ہونا چاہیئے کہ سیاچن جیسے اہم ترین محاذ پر جانے کا یہ واحد راستہ ہے۔ اسی طرح سیاحت کے فروغ کو اگر ملحوظ نظر رکھا جائے تو k2 اور دنیا کے دیگر اہم ترین پہاڑی سلسلے شنگریلا، سد پارہ، دیوسائی وغیرہ کا واحد زمینی راستہ یہی شاہراہ ہے، لیکن حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ اب مکمل طور پر ناقابل استعمال ہوچکی ہے۔ بلا شبہ یہ سڑک دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے۔ اس پر نہ کہیں تارکول کے اثار دکھائی دیتے ہیں، نہ  کہیں سولر لایٹنگ کا انتظام ہے، نہ سپیڈ بریکر کا کہیں وجود ہے، نہ سائن بورڈز جو خطرناک جگہوں سے ڈرائیور کو آگاہ کریں، نہ ریسکیو کا انتظام اور نہ ہی پولیس پٹرولنگ کا بندوبست ہے، اسے دنیا کا عجوبہ نہ کہیں تو کیا کہیں۔؟

باوجود ان تمام خامیوں اور مشکلات کے یہاں کے عوام اور اس علاقے میں آنے والے سیاح اس راستے پر سفر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ کئی جانیں اس شاہراہ کی خستہ حالی کی وجہ سے جاچکی ہیں۔ بہت سی گاڑیاں دریا برد ہوچکی ہیں، لیکن ابھی تک کسی بھی حکومت نے اسے تعمیر کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی، جبکہ گذشتہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال اسی شاہراہ کی تعمیر کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنی مدت تمام کی اور موجودہ حکومت بھی وعدوں اور نعروں کے سوا کچھ کرتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومتیں چاہے مسلم لیگ نون کی ہو یا پیپلز پارٹی کی، گلگت سکردو روڈ کو صرف اور صرف بر سر اقتدار آنے کے لئے بطور ایشو استعمال کرتی ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ اپنے عوام کے ساتھ مخلص اور وفادار نہیں ہیں۔ انہیں اپنے اقتدار اور سیاسی مفادات سے سروکار ہے، جو کبھی آئینی حقوق، کبھی گلگت سکردو روڈ، کبھی اقتصادی راہداری کے نام سے ہی حاصل کرنا ہوتا ہے۔

کیا انسانی جانوں کا ضیاع اور مالی و مادی نقصانات حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے؟ کیا اب بھی اس شاہراہ کی تعمیر کے لئے کبھی ایشائی ترقیاتی بنک، کبھی چینی ایگزام بنک اور وفاقی فنڈ کے بہانے بناتے رہینگے؟ جبکہ گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر کی تقریب حلف برداری میں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف گلگت سے سکردو تک ہائی وے بنانے اور اسے اقتصادی راہداری سے ملانے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ اب گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے اراکین اپنی خاموشی کے پردے چاک کرکے اپنی تمام تر توانائی وزیراعظم میاں نواز شریف کے اعلان پر عمل کروانے پر صرف کریں۔ سکردو  روڈ کو وقتی، عارضی اور نام نہاد سیاسی مفادات کا اکھاڑہ بنانا مناسب نہیں ہے، یہ روڈ اب ملکی معیشت کی موت اور حیات کا مسئلہ بن چکی ہے۔ لہذا اس کی تعمیر حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔


تحریر۔۔۔۔۔۔ سید قمر عباس حسینی

وحدت نیوز (کوئٹہ)  مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کا اہم جلاس صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں ملک اور صوبے کی سیاسی صورتحال ، تنظیمی معاملات اور سانحہ چھلگری سے متعلق مسائل پر غور کیا گیا۔ اس موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہاہے کہ پی آئی اے کی جان بحق ملازمین کے قتل کی جوڈیشل انکوئری کرائی جائے جبکہ حکومت پی آئی اے ملازمین کے مسائل طاقت کی بجائے مذاکرات سے حل کرے،سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد ایک مرتبہ پھر مخالفین پر گولیاں چلا کر آمرانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ حکومت قومی اداروں میں اصلاحات اور شفافیت لانے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں ضلع کچھری کے باہر بم دھماکہ میں انسانی جانوں کے ضیاع پر شدید دکھ پہنچاہے، دھشت گردوں کے خلاف ملک گیر آپریشن کی ضرورت ہے۔ دھشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی آپریشن کی جائے،تحریک طالبان خراسان گروپ سمیت تمام دھشت گرد گروہوں کا خاتمہ ضروری ہے، دھشت گردوں کے اندرونی اور بیرونی سہولت کاروں کا خاتمہ کئے بغیر دھشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں،تکفیری دھشت گرد امن عالم کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایم ڈبلیو ایم کی صوبائی شوریٰ کا اہم اجلاس اتوار ۲۱ فروری کوشام پانچ بجے ڈیرہ مراد جمالی میں منعقد ہوگا، جبکہ سانحہ چھلگری کے شہداء کی یاد میں۲۰ اور ۲۱ فروری کو منعقدہونے والے احتجاج میں صوبے بھر سے کارکن اور رہنما بھر پور طریقے سے شریک ہوں گے۔ اجلاس میں مختلف اضلاع کے تنظیمی دورہ جات اور اضلاع کی مشاورت سے ضلعی شوریٰ کے ا جلاس بلانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

وحدت نیوز(گلگت) سپریم اپیلیٹ کورٹ کی جانب سے محکمہ صحت سمیت دیگر عوامی مسائل پر از خود نوٹس لینا خوش آئند امر ہے۔ڈی ایچ کیو ہسپتال گلگت میں ستر سے زائدملازمین گزشتہ دس سالوں سے من پسند پوسٹوں پر ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں،آئی سی یو سمیت دیگر شعبوں کو رضاکاروں نے سنبھالا ہوا ہے جو کہ انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے ۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عارف حسین قنبری نے کہا کہ بڑھتے ہوئے عوامی مسائل پرسپریم اپیلیٹ کورٹ کا سوموٹو ایکشن بروقت کاروائی ہے ،حکومت زبانی جمع خرچ پر عوام کو بیوقوف بنارہی ہے جبکہ شہر کا واحد ہسپتال جہاں روزانہ ہزاروں مریض مسیحائی کے منتظر ہوتے ہیں کی حالت زار ناگفتہ بہ ہوچکی ہے۔خواتین ونگ ماہر لیڈی ڈاکٹرز کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے بے اجل اموات کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ امراض قلب وارڈ منظور ہونے کے باوجود بدنیتی پر مبنی غیر ضروری تاخیر کا شکار ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم اپیلیٹ کورٹ کے سو موٹو ایکشن سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ شاید ہسپتالوں کی بگڑی ہوئی صورت حال میں بہتری آجائے اور غریب مریضوں کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم ہوں۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے اخباری دعووں کی کوئی حقیقت نہیں ،آٹا نا پید ہوچکا ہے لوڈشیڈنگ ریکارڈ سطح تک پہنچ چکی ہے ،سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں،کرپشن اقربا پروری اپنے عروج پر ہے۔سرکاری ملازمتوں کی بندربانٹ جاری ہے اور من پسند افراد کو اہم پوسٹوں پر بٹھادیا گیا ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم اپیلیٹ کورٹ کے از خود نوٹس ہی کی وجہ سے گلگت شہر کو کونوداس سے ملانے والا آر سی سی پل تعمیر ہوا ہے اگر سپریم اپیلیٹ کورٹ نوٹس نہ لیتا تو شاید آج تک یہ پل تعمیر ہی نہ ہوتا۔صوبائی حکومت اپنے ماسبق پیپلز پارٹی کے کھینچے ہوئے خطوط پر ہی گامزن ہے عوامی فلاح و بہبود ان کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree