وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی سے گلگت بلتستان صوبائی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کیپٹن شفیع کی ملاقات،ملاقات میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب میں ایم ڈبلیوایم کے کلیدی کردار پر شکریہ ادا کیا، کیپٹن شفیع نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کے گلگت بلتستان کی سیاست میں مثبت کردار کو عوام اور سیاسی حلقے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،ایم ڈبلیوایم نے سیاست میں پڑھے لکھے نوجوان لوگوں کو جگہ دے کر دیگر جماعتوں کے لئے بھی ایک قابل تقلید مثال قائم کی ہے،ایم ڈبلیوایم گلگت بلتستان میں غیرقانونی وغیرآئینی ٹیکس کی نفاذ کے خلاف احتجاجی تحریک میں عوامی سطح پر ایک قابل ذکر کردار ادا کیا ہے جسے گلگت بلتستان کی اپوزیشن جماعتیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں،سید اسد عباس نقوی نے اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے محب وطن عوام کی امنگوں کی ترجمائی ایم ڈبلیوایم کا نصب العین ہے،ہم صوبے کے عوام پر کوئی بھی ظالمانہ جابرانہ نظام مسلط نہیں کریں دینگے،گلگت بلتستان میں ظالمانہ ٹیکس کے نفاذکیخلاف اور آئینی حقوق کی جدوجہد میں عوام کے شانہ بشانہ رہیں گے،ن لیگی حکومت نے گلگت بلتستان کے غریب عوام کو مہنگائی اور غربت کے سوا کچھ نہیں دیا،سی پیک میں گلگت بلتستان کے عوام کو دوسرے صوبوں کے برابر حق ملنا چاہیئے،انشااللہ دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر گلگت بلتستان کے حقوق کے لئے جدوجہد کو آنے والے دنوں میں مزید تیز کر یں گے۔

وحدت نیوز(شکارپور) وارثان شہداء کمیٹی شکارپور کے ایک وفد نے چئیرمین شہداء کمیٹی اور مجلس وحدت مسلمین سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی کی قیادت میں شکارپور سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی امتیازاحمد شیخ سے ملاقات کی۔ ملاقات میں وارثان شہداء کمیٹی کے رہنما سکندر علی دل، مولانا احسن عباس، سید بشارت حسین شاہ و دیگر موجود تھے۔ وفد نے بعد از آں سکندر علی دل کی قیادت میں ہوم سیکریٹری سندہ سے بھی ملاقات کی۔ملاقات میں سندہ گورنمنٹ کے شہداء کمیٹی سے معاہدے کے نکات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ یادگار شہداء ٹاور کی تعمیر کا مسئلہ جلد حل کیا جائے،شہداء کی برسی سے قبل شہداء ٹاور کی تعمیر ضروری ہے۔ وارثان شہداء کے لئے اسلحہ لائسنس کا اجراء قابل تحسین اقدام ہے۔ معاہدے کے بعض نکات پر پیش رفت ہوئی ہے مگر معاہدے پر عمل در آمد کی رفتار سست اور ناقابل اطمینان ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہدائے شکارپور کی تیسری برسی کے موقع پر 30 جنوری کو سندہ سطح کا بڑا اجتماع ہوگا۔ سندہ کے مختلف شہروں سے پیدل قافلے شہداء سے تجدید عہد کے لئے نکلیں گے۔ اس موقع پر ایم پی اے امتیاز احمد شیخ نے کہا کہ شکارپور کے عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے میری بھرپور کوشش ہے کہ معاہدے کے نکات پر عمل در آمدہو۔ جبکہ ہوم سیکریٹری سے ملاقات میں معاہدے پر عمل در آمد کا شق وائز جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر ہوم سیکریٹری نے کمشنر لاڑکانہ ڈویژن کو خصوصی ہدایات دیں۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) ایکشن کمیٹی کا اجلاس ریاستی دفتر مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر میں منعقد ہوا۔ شرکائے اجلاس کا علامہ تصور جوادی اور ان کی اہلیہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کی عدم گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار، وزیراعظم آزادکشمیر بذات خود کیس کی نگرانی کریں کمیٹی کی جانب سے مطالبہ۔ جوادی کے لیے انصاف تحریک کو تیز کرنے کا فیصلہ، تفصیلات کے مطابق ملت جعفریہ کی نمائندہ ایکشن کمیٹی کا اجلاس وحدت سیکرٹریٹ مظفرآباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں علامہ سید فرید عباس نقوی ، مولانا سید طالب ہمدانی ، سید شجاعت علی کاظمی ، سید تصور عباس موسوی ، سید راشد حسین نقوی ، سید علی رضا سبزواری ،  سید معصوم علی سبزواری ، و دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں علامہ سید تصور جوادی کیس پر انتظامی سست روی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم آزادکشمیر سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ خود اس کیس کی نگرانی کریں تا کہ کوئی بھی انتظامی افسر سست روی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جوادی کے لیے انصاف مہم میں مزید تیزی لائے جائے گی۔ اجلاس اعلامیے کے مطابق کہا گیا کہ مجرمان کی عدم گرفتاری ناقابل برداشت ہے۔ اگر ہمارے مطالبات پر کان نہ دھرے گئے تو جلد سخت و راست لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ حالات کی تمام ذمہ داری انتظامیہ و حکومت پر عائد ہو گی۔

پیکرخلوص ووفا

وحدت نیوز (آرٹیکل) میں نے جب پہلی مرتبہ ان کی گفتگو سماعت کی میرے دل پہ پڑا غلاف اتر گیا۔ آپ اتحاد امت کا درس دے رہے ۔ واعتصموا بحبل للہ جمیعا کی تشریح میرے سینے میں اتر گئی۔ میری آنکھوں سے تعصب کا چشمہ اتر گیا۔ ان کی اس دلنشیں گفتگو میں اتنی حلاوت تھی کی الفاظ واقوال کی لذت میں اپنے اندر محسوس کرنے لگا۔ دوران گفتگو ہی میرے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش مجھے بھی ایسی اہل علم ہستی کی رفاقت ، قرابت و صحبت نصیب ہو جو اتحاد امت کے لئے کوشاں ہے۔ وقت قبولیت تھا فورا مجھے مصافحہ و دست بوسی کا موقع میسر آیا، دوران مصافحہ میرا ایک دوست بھی میرے ساتھ تھا، انھوں نے فرمایا کہ شام کو اس برخوردار کو بھی ساتھ لے آنا ۔ مجھے ان کا یہ حکم سن کہ بہت مسرت ہوئی۔ شام کو حمید مجھے ساتھ لے گیا، فرمانے لگے کہ مجھے دوران گفتگو ایسا لگا کہ آپ پہ میری باتیں اثر کر رہی ہیں ۔ اس لئے آپ کو بھی زحمت دی۔ اتحاد امت اور مشن حسینی کے لئے میں اپنا سینا گولیوں کے بھی پیش کر سکتا ہوں۔

بہر حال طویل گفتگو ہوئی میں نے ان کے قلب میں امت رسول کا غم ریکھا ۔ محبت میں اور اضافہ ہوتا رہا۔ یہی اضافہ قرب و رفاقت کی شکل اختیار کر گیا ۔ اب اکثر شرف زیارت بھی ہوتا اور نورانی علم کی موتیوں کی خیرات بھی ملتی۔ اب قرب کی جہ سے ان کے شب و روز سے آگاہ و آشنا بھی ہوتا رہا۔ ان کو حلیم الطبع اور ملنسار و باوفا پایا۔ ہمیشہ برادر اکبر کی طرح دیکھا، اور ان سے بھی ایسی ہی شفقت و محبت پائی ۔ میرا محسن شب و روز میرے قلب و دماغ میں رہتا ہے۔ ملنساری میں اپنے اجداد کا آئینہ ہے۔ وفاایسی بے مثل ہے کہ علمدارکربلا کی جھلک نظر آتی ہے۔ جرات و ہمت ہمت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اگر کوئی ہلکا سا گائل ہو تو ہمت ہار جاتا ہے ۔ مگر اس کے گلو ے نازک سے گولی آر پار ہو گئی مگر یہ وارث شجاعت علی اس حالت میں رفیقہء حیات کو صبرو حیا کی وصیت کرتا رہا۔ صبر و حوصلہ دیکھتا ہوں تو سید سجاد کے مقدس لہو کی بو آتی ہے۔ خلوص و وفا میں بھی لاثانی ہے، اپنے تو خیر اپنے ہیں غیر و بیگانہ بھی نثار ہوتے ہیں ۔ گفتار ایسی کہ ہر کوئی فدا ہو جاتا ہے۔ گفتار میں علی المرتضی کا پیرا لگا نظر آتا ۔

اعداء سے بھی مروت سے ایسے پیش آتا ہے جیسے کردار پہ حسن مجتبی کا سایہ ہو۔ میں اس کی سخاوت کابھی شاہد ہوں کہ اپنا سب کچھ احباب، اقارب و حاجت مندوں میں لٹا دیتا ہے۔ شاہد اسی وجہ سے اہل محبت اس کو جوادی کے نام سے پکارتے ہیں ۔ پدر علمدار مہدی و ھادی خطہء کشمیر میں اپنی لوگوں سے محبت و اخلاص، وفا و مروت کی وجہ سے مقبول ہیں ۔ شاہد دشمن انسانیت کو یہ محبت کی فضا گوارہ نہ تھی ، اسی لئے اس نے اس کوکب درخشاں کو گل کرنے کی ناپاک سعی کی۔ ان پہ حملہ دراصل وفا، اخلاص، شجاعت، مروت اور اتحاد بین المسلمین پہ حملہ تھا۔

ارباب اختیار واقتدار نے اگر ایسے رونما ہونے والے واقعات کے پشت پناہوں کا خاتمہ نہ کیا تو شاہد کل چوکوں میں ، مجھے کیوں نکالا کے نغمے کے ساتھ ماتم کناں نظر آئیں ۔ علامہ تصور نقوی جیسی ہستیاں صدیوں میں جنم لیتی ہیں۔۔

خدا اس چراغ علم و وفا کو حیات خضر و عیسیٰ سے نوازے اور سعادت کاظمی کو ان کا سابا نصیب کر کے سعادت مند کر دے۔

 

تحریر: سعادت حسین کاظمی

وحدت نیوز(آرٹیکل)’’ جنوبی ایشیا میں امریکی اقتصادی اور اسٹریٹجک ضروریات‘‘

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سابقہ روس یا سوویت یونین اور مریکہ کے درمیان موجود کشمکش یعنی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یہ تنہاامریکہ ہی تھا جو ایک بڑی قوت کے طور پر جانا جاتا تھا ،یہاں تک کہ امریکہ کی اس تنہا قوت ہونے کو مختلف عنوانات کے ساتھ یاد کیا جانے لگا جیسے امریکی صدی، نیا عالمی نظام، (نیو ورلڈ آرڈر))یونی پولر)یا ایکبروویی دنیاوغیرہ ۔

یہاں تک کہ کچھ زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ دنیا میں بہت سے گہری نگاہ رکھنے والے دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے اپنے شکوک کا اظہار کرنا شروع کردیا کہ امریکہ تنہا عالمی طاقت ہوسکتا ہے اور بہت ہی مختصر عرصے میں یک قطبی(یونی پولر ورلڈ) نظریے کی جگہ کثیر القطبی (  ملٹی پولر ورلڈ)نظریے نے لینا شروع کردیا اور یوں دنیا آہستہ آہستہ سمجھنے لگی کہ اکیسویں صدی میںامریکہ اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ پارہا ہے اور اب صرف امریکہ واحد طاقت نہیں رہا ہے ۔

خاص کرایک جانب افغانستان اور عراق جنگ میں امریکی مداخلت ،داخلی سطح پر معیشتی بحران نے رائے عامہ امریکہ کی اس پوزیشن کو مزید کمزور کردیا تو دوسری جانب اس کی حریف دو طاقتوں کی عسکری سیاسی اور اقتصادی اثرو رسوخ نے امریکہ کے بجائے بہت سوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ۔

(۱)چین اور امریکہ کے تعلقات کا مختصر بیگ گرونڈ
گرچہ چین اور امریکہ میں ڈیپلومیٹک تعلقات کی تاریخ انیسویں صدی ۔(1884)میں وانگیانامی ڈیپلومیٹک معاہدے سے شروع ہوتی ہے کہ جس میںا مریکی شہریوں کو ڈیپلومیٹک اور استثنائی حیثیت دی جاتی ہے لیکن 1911میںچینی بادشاہت کے خاتمے کے بعد چین کوچیانگ کی شیک کو مقامی فوجی بغاوت سے درپیش مسائل اور پھر جاپانی قبضے سے آزادی خاص کر دوسری عالمی جنگ میں امریکی تعاون حاصل رہتا ہے ۔ لیکن اس کے بعد ماو زے تنگ کی کیمونسٹ تحریک کیخلاف بھی امریکہ  چیانگ کی شیک ہی کی حمایت جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ1949میں ماوزے تنگ کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے اور امریکی حمایت یافتہ  چیانگ کی شیک تا ئیوان بھاگ جاتا ہے۔
یوں چینی باغی رہنماچیانگ کی شیک تا ئیوان میں ہی اپنی حکومت کا اعلان کرتا ہے اور ماوزے تنگ کی مخالفت کو جاری رکھتا ہے ،اسے مکمل طور پر ایک عرصے تک نہ صرف امریکی حمایت حاصل رہتی ہے بلکہ امریکہ ماوزے تنگ کی حکومت کی قانونی حیثیت سے انکار کرتے ہوئے تائیوان میں قائم باغی چینی رہنما کی حکومت کو قانونی حکومت قرار دیتا ہے یوں اس وقت سے ہی امریکہ اور کیمونسٹ چین کے تعلقات کی نوعیت میں ایک خاص قسم کی اجنبیت اور کھچاو کا آغاز ہوتا ہے ۔

شمالی اور جنوبی کوریا کے مسئلے (سن1950- 1953)میں بھی چین اورسوویت یونین جہاں شمالی کوریا کی مدد کررہے تھے تو وہیں پر امریکہ اور تا ئیوان جنوبی کوریا کے مدد گار بنے ہوئے تھے تو اسی طرح ویتنام کی جنگ میں بھی خاص کر اس جنگ میں امریکیوں کے کودنے کے بعد سن (1965- 1973)کے درمیان کیمونسٹ بلاک امریکہ کے مدمقابل کھڑا تھا یہاں تک کہ امریکہ کو انتہائی سخت قسم کی حزیمت اور شدید نقصان اٹھانے کے بعد ویتنام سے نکل جانا پڑا ۔اسی اثنا میں یعنی سن 1972میں امریکی صدر رچڑ دنکسن کے دورہ چین کے بعد طرفین میں تعلقا ت کشیدگی سے نکل کر نارمل سطح پر آجاتے ہیں۔چین میں امریکی صدر کے اس دورے کو جسے شنگھائی اعلان کا نام بھی دیا جاتا ہے کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ میں تا ئیوان کی نمائندگی کو ہٹاکر اپنی رسمی نمایندگی کے آغاز کے ساتھ ساتھ سیکوریٹی کونسل کی دائمی ممبرشب بھی حاصل کرلیتاہے ۔اس کے بعد چینی اور امریکی تعلقات میں اگرچہ بہتری رہی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ طرفین میں موجود اختلافی مسائل پس پشت ڈا ل دیئے گئے ہوں ۔

تا ئیوان انہی اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے کہ جس کے بارے امریکی پالیسی جوں کی توں موجود ہے اور امریکہ تائیوان سے اقتصادی اور عسکری تعلقات برقراررکھے ہوئے ہے۔طرفین میں تا ئیوان جیسے مسائل کے باجود بہت سے مفادات کے پیش نظر تعلقات کی سطح بہتر رہی خاص کر دو کیمونسٹ قوتوں یعنی چین اور سوویت یونین کے درمیان موجود اختلافات اور سرد جنگ نے بھی امریکی اور چینی قربت کو بنائے رکھنے میں مدد فراہم کی لیکن جوں ہی سوویت یونین کا خاتمہ ہوا طرفین کے تعلقات نے بھی نارمل سطح کی جانب رخ کیا ۔

سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی تھینک ٹینک مسلسل اس بات کو دہرارہے تھے کہ اب کسی طاقت کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ ہمارا ہم پلہ بن سکے ،بطور مثال نوے کی دہائی میں دفاعی پلاننگ گائیڈ لائن یا اسٹریٹیجک ڈاکیومنٹ لکھنے والے پال وولف وٹز جن کاتعلق نئے قدامت پسندوں نیو کنزرویٹیوسے ہے اور اب بھی وہ امریکی وزارت دفاع کا اہم ترین تھینک ٹینک شمار ہوتاہے، کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا پہلا ہدف اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم اپنا کوئی بھی حریف پیدا ہونے ہی نہ دیں ،یہ ہماری وہ تھیوری ہے کہ جس کے نیچے ہماری بین الاقوامی دفاعی اسٹراٹیجی پوشیدہ ہے،یہ ہمیں بتلاتی ہے کہ ہم نے دنیا کے کسی بھی خطے میں ایسی کسی بھی مخالف قوت کو پنپنے ہی نہیں دینا کہ جس کے پاس اپنے وسائل ہوں،اگر ہم ایسا کرسکیں تو پھر ہمیں واحد عالمی قوت کہا جاسکتا ہے ،اور یہ علاقے ذاتی ریسورسزیا وسائل کے حامل ،مغربی یورپ ،مشرقی ایشیا،جنوب مغربی ایشیا اور سابق سوویت یونین سے جدا ہونے والی ریاستیں ہیں ‘‘

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جس وقت جارج ڈبلیوبش کا دور شروع ہوتا ہے تو نئے قدامت پسندوں کی ہی اسی لہر سے تعلق رکھنے والے تین اہم افراد ،زلمائے خلیل زاد،فرنک کارلوسی اور رابرٹ ہنٹر ایک خط لکھ کر اسی دفاعی گائیڈلائن اسٹرٹیجک ڈاکیومنٹ کی یاد دلاتے ہیں کہ ’’امریکہ نے اپنی حریف کسی بھی قوت کو پنپنے نہیں دینا ‘‘وہ اس خط میں مزید لکھتے ہیں کہ ’’یورپی یونین ،چین اور روس وہ ابھرتی ہوئی قوتیں ہیں کہ جو مستقبل میں امریکہ کے مد مقابل کھڑ ی ہوسکتی ہیں ‘‘اس دفاعی گائیڈ لائن کے حساب سے چین کا مقابلہ کرنے کے دو مرحلے ان کے مدنظر ہیں کہ’’ نہ تو چین کے ساتھ مکمل شراکت داری رہے اور نہ ہی مکمل دوری ‘‘اس حکمت عملی کے مطابق چین کے ساتھ امریکی تجارتی اور عسکری روابط بھی رہیں گے اور دوسری جانب  چین میں اپنی من پسند ڈیمو کریسی کا فروغ اورچین کے عالمی سطح پر بڑھتے اثر ورسوخ کو روکنے کی بھی کوشش جاری رہے گی ۔

کونڈالیزا رائز سے لیکر امریکی قومی سلامتی امور کے اداروں سے تعلق رکھنے والے اہم عہدار مسلسل چین کی بڑھتی قوت کی روک تھام کے بارے میں مختلف قسم کی تھیوریز اور حکمت عملیوں کو بیان کرتے رہے کہ ’’چین موجودہ طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے ،چین ایک سافٹ پاور بن چکا ہے ۔یہاں تک کہ بہت سے امریکی تھینک ٹینک کا کہنا ہے کہ ہمیں ان اصطلاحات کے بجائے ’’چین کی واپسی ‘‘کی اصطلاح استعمال کرنا چاہیے بعنوان مرکزی سلطنت ،واضح رہے کہ یہ اصطلاح چین کے قدیم نام اور پوزیشن سے تعلق رکھتی ہے ۔امریکی تھینک ٹینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ چینی میڈیا اور سرکاری مشنری امریکہ کے بارے یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ ان کا پہلے نمبر کا دشمن ہے ،امریکی سمجھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ چین امریکہ کے مفادات کے لئے کوئی خطرہ نہیں لیکن امریکہ کسی بھی وقت چین کیخلاف کھلی محاذ آرائی کرسکتا ہے ۔اگر ہم بغور چینی نکتہ نظر کا مطالعہ کریں تو واضح ہے کہ چین سمجھتا ہے کہ امریکہ ہی وہ واحد طاقت ہے جو چین پر کسی بھی وقت جنگ مسلط کرسکتی ہے چین کی یہ سوچ اس وقت مزید تقویت پکڑتی نظر آتی ہے کہ جب جارج بش کے دور میں چین پر امریکہ کی جانب سے کچھ پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔
 ۔
چینی حکمران جماعت کی پپلیکیشنزاور میڈیا نشریات سے واضح ہوجاتا ہے کہ چین سمجھتا ہے کہ امریکہ اس کا دشمن ملک ہے، سن 1992اور اسی طرح سن 1995میں نشر ہونے والے چینی دستاویز کے مطابق چین کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ جب سے واحد قوت کے طور پر سامنے آیا ہے تب سے اس کی کوشش ہے کہ وہ ہم پر کنٹرول حاصل کرے ‘‘جبکہ سن 1995میں چینی صدر نے کھل کر کہا تھا کہ ’’مغربی قوتیں ہمارے ملک کو تقسیم و تباہ کرنے کے لئے ایک منٹ بھی نہیں لگائیں گی ۔اسی سال چینی وزیر خارجہ نے جنوبی ایشیا ئی ممالک کی تعاون تنظیم آسیان کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بڑے سخت لہجے میں کہا تھا کہ ’’امریکہ کو یہ تصور چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ مشرق کا نجات دہندہ ہے ،ہم ایشیا کے امن و امان میں کسی بھی قسم کے امریکی کردار کے دعووں کو نہیں مانتے ‘‘

چین کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ چین ایک عالمی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے لیکن کسی کو  اس چینی قوت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ’’چین کا ایک طاقت کے طور پر ابھرنا پرامن مقاصد  لئے ہوئے ہے ‘‘۔سن 2002میں چینی حکمران جماعت کے سالانہ اجلاس میں چینی صدر جیانگ ژمن نے اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’چین کو گذشتہ بیس سال سے یہ اسٹراٹیجیکل فرصت میسر ہے کہ داخلی ترقی پر فوکس رکھتے ہوئے عالمی سطح پر ایک معتدل اور عملیت پسند (پراگیمنٹ)  حکمت عملی کے زریعے خود کو بین الاقوامی طور پر آگے بڑھائے ‘‘طرفین میں موجود ان متصادم تھیوریز کے باوجود نوے کی دہائی کے بعد چین اور امریکہ کے تجارتی روابط میں قابل ملاحظہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے یہاں تک چین تجارتی اعتبار سے امریکہ کا پہلا ملک بن جاتا ہے اور پھر نائن الیون کے واقعے کے بعد طرفین میں تعلقات کو ایک نیا باب دہشتگردی کیخلاف مشترکہ کوشش کی شکل میں کھل جاتا ہے ۔

لیکن سن 2007میں شروع ہونے والا عالمی مالیاتی بحران کے سبب چین امریکی نظام اور بین الاقوامی کردارپر کڑی تنقیدکرنا شروع کرتا ہے چین کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران کا ذمہ دار امریکہ ہے اور اس مالیاتی بحران کو ایجاد کرنے کا مقصد چین کے بین الاقوامی اقتصادی کردار کو متاثر کرنا ہے ۔یوں سن 2010 بحری آبی حدود کو لیکر چین کا ہمسائیوں کے ساتھ ہونے والے تنازعے پر بھی چین امریکہ پر الزام لگاتا ہے کہ وہ چین کے گرد محاصرہ بنانا چاہتا ہے ،اور اس طرح ایک بار پھر طرفین میں موجو د پہلے نمبر کے دشمن کی سوچ ابھر کے سامنے آجاتی ہے ۔

(۲)امریکہ کی ایشیا میں قدم جمانے کی کوششیں ۔
بات صرف یہ نہیں ہورہی ہے کہ امریکہ ایشیا میں قدم رکھنا چاہتا ہے بات دراصل یہ ہے کہ اب امریکہ قدم جمانا چاہتا ہے کیونکہ امریکی پہلے سے ایشیا میں موجود ہیں ۔
دنیا کے قریب 130ممالک میں 750سے زائد امریکی اڈے موجود ہیںاور بعض ممالک میں ایک زائد اڈوں کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد1000سے زائد بنتی ہے کہ جن میں سے 109کے قریب فوجی اڈے جاپان میں جبکہ جنوبی کوریا میں 85کے قریب فوجی اڈے موجود ہیں ان فوجی اڈوں میں تقریبا 47ہزار فوجی جاپان میں جبکہ 37ہزار کے قریب جنوبی کوریا میں موجود ہیں ۔باراک اوباما کے دور میں سن 2014میں اس کے جاپان اور جنوبی کوریا کے دورے کے وقت جنوب مشرقی ایشیا کے بارے میں امریکی نئی پالیسی کا اعلان کھلے لفظوں کردیا گیا تھا۔

اگر ہم ہیلری کلنٹن کا مضمون امیرکن پیسیفک کنٹری کو پڑھیں تو اس سلسلے میں ایشیاء کے بارے میں امریکی حکمت عملی کے خدوخال مزید واضح ہوجائینگے ۔
ہیلری آنے والے وقتوں میں ایشیا اور پیسفک یعنی بحر الکاہل کی امریکی اسٹراٹیجی میں اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایشیا اور پیسفک عالمی سیاست میں مرکزی اور حرکی اہمیت حاصل کرچکے ہیں  انڈین سب کانٹیننٹ( بر صغیر)پیسفک یا بحر الکاہل ،بحیرہ ہندسے لیکر لا طینی امریکہ کے ساحلوں تک کہ جو اپنے اندر دنیا کی نصف سے زائد آبادی کو سموئے ہوئے ہے ہمارے لئے انتہائی اسٹرٹیجیک اہمیت کا حامل علاقہ ہے ۔

ہیلری کے دوست اور سابق امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا بھی اپنے ایک مضمون امیرکن  پیسیفک ری بیلنس میںاس بات کی تاکید کرتاہے کہ امریکہ کو ایشیا اور پیسفک یا بحرالکاہل میں طاقت کے توازن کی برقراری کے لئے اپنی قوت کا بھر پور اظہار کرنا چاہیے کہ جس میں جنوب مشرقی ایشیا اور بحرہ ہند میںفوجیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ،اسٹریلیا کے شمالی حصے میں فضائیہ کا مزید اضافہ،سنگاپور کے ساتھ معاہد ہ تاکہ وہاں بحری بیڑوں کا پڑاو بنایا جاسکے ،اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ جنگی مشقیں ،یوں سن 2020تک امریکی بحریہ کا ساٹھ فیصد حصہ پیسفک یا بحرہ الکاہل میں موجود ہوگا ۔

امریکہ بحرہند میں بھی بڑھتی ہوئی چینی موجودگی کو روکنے کے لئے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹرٹیجک سطح تک لے کر جارہا ہے اس خطے میں امریکہ کو چین کی سری لنکا سے لیکر پاکستان کے گوارد پورٹ اور سی پیک نامی وسیع تجارتی پلان بری طرح کھٹک رہا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھارت اور افغانستان کو ایک ایسا پل بنانا چاہتا ہے جو  ان چینی منصوبوں کو روک سکے ۔پاکستان پر مسلسل بڑھتا ہوتا امریکی دباو اور نہ ختم ہونے والے الزامات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔

جاری ہے ۔۔۔۔
 


تحریر۔۔۔حسین عابد
(ریسرچ اسکالر اور تجزیہ کار )

وحدت نیوز(آرٹیکل) سوچتی ہوئی عقل سے ہر فریب کار کو خطرہ ہے، اگرکسی کا  دماغ فعال ہے اور اُس کی عقل کام کر رہی ہے تو پھراُسے فریب دینا آسان کام نہیں۔کسی بھی ملت کا دماغ اس کے دانشور ہوتےہیں، اگر کسی ملت کے دانشور اپنا کام نہ کریں تو وہ ملت فہم و فراست اور شعور سے عاری ہو جاتی ہے یعنی پسماندہ رہ جارتی ہے۔

دانشوروں کا کام اچھائی اور برائی کی تمیز اور حق و باطل کا فرق کر کے اچھے کو اچھا اور برے کو برا اسی طرح حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا ہوتا ہے۔  چنانچہ فریب کار جب کسی معاشرے میں   برائیوں کی ترویج اور باطل کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس معاشرے، قوم اور ملک کے دانشوروں کو اچھائی اور برائی نیز حق اور باطل کی نسبت غیر فعال کرتے ہیں۔آج کے دور میں دانشوروں کو اُن کا کام کرنے سے روکنے کے لئے انہیں غیر جانبداری کے درس دئیے جاتے ہیں۔

حالانکہ  غیر جانبداری کے یہ درس دینے والے خود بھی غیر جانبدار نہیں ہوتے،  یہ فریب کار  اپنے مدِّ مقابل کو نرم کرنے کے لئے اُسے کہتے ہیں کہ   سارے گروہوں ، سارے ادیان ، ہر طرح کے حق و باطل سے بالاتر ہو جاو۔ بالاتر ہو جاو یعنی حق کا ساتھ نہ دو اور ہمارے ساتھ مل جاو۔ یہ در اصل کسی کو حق کی حمایت سے ہٹانے کاایک حربہ ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ   خداواندِ عالم جو سارے انسانوں کا خالق ہے وہ بھی سارے گروہوں کی نسبت غیر جانبدار نہیں ہے بلکہ وہ حزب الشیطان کا سخت ترین دشمن ہے اور سارے ادیان میں سے صرف اسلام کو ہی دین قرار دیتا ہے اور باقی ادیان کی نفی کرتا ہے اسی طرح اس کے نزدیک حق و باطل سے بالاتر یا ان کے درمیان کچھ نہیں ہے جو کوئی بھی  ہے وہ یا حق  پر ہے اور یا باطل پر۔

اگر کوئی حزب اللہ اور حزب الشیطان سے بالاتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اورمیدانِ حرب میں زبان و قلم کے ساتھ حزب اللہ کا ساتھ نہیں دیتا تو وہ در اصل حزب الشیطان کے پلڑےمیں اپنا ووٹ ڈالتا ہے،اسی طرح اگر کوئی مقامِ ضرورت پر دینِ اسلام کی مدد و نصرت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور دینِ اسلام کی نصرت نہیں کرتا تو در اصل اسلام کے دشمنوں کی کمر مضبوط کرتا ہے اور یونہی اگر کوئی حق و باطل کے معرکے میں یہ کہتا ہے کہ میرے لئے تو سب  برابر ہیں تو ایسا شخص در اصل حق والوں کی حمایت نہ کر کے باطل کو مضبوط کرتا ہے۔

آج ضروری ہے کہ دانشورحضرات غیر جانبدار ہونے کے دلکش اور پُر فریب نعرے سے دھوکہ نہ کھائیں بلکہ یہ جان لیں کہ ایک اصول پرست انسان کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا کہ حق والے اُسے پھولوں کے ہار پہنائیں اور باطل والے اس کے پاوں دھوکر پئیں۔

بلکہ  وہ ایک گروہ کے نزدیک بہترین اور دوسرے کے نزدیک بدترین کہلائے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اگر حق کا ساتھ دینے کے بجائے غیر جانبدار بن کر   حق  پر پردہ ڈالا جائے اور حق کو عقب نشینی پر راضی کیا جائے اور اس طرح دنیا میں جنگ و جدال میں کمی واقع ہو جائے گی تو یا تو ایسے شخص کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے اور یاپھر وہ دوسروں کی عقل پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔

دنیا میں  نفرت، جنگ  و جدال اور خون خرابہ ہے ہی باطل کی وجہ سے،  اگر باطل کے مقابلے میں  کسی بھی محاز پرایک قدم عقب نشینی کی جائے  تو باطل دو قدم آگے بڑھتا ہے، یہ باطل ہی ہے جو ظلم کرتا ہے، جو جارحیت کرتا ہے، جو شب خون مارتا ہے جو لوگوں سے ان کے پیدائشی و جمہوری  اور فطری حقوق چھینتا ہے۔

باطل کے مقابلے میں پیچھے ہٹ کر کسی فساد، کسی ایٹمی جنگ یا خون خرابے کو نہیں روکا جا سکتا،  بلکہ باطل کے مقابلے میں آگے بڑھ کراور سینہ سپر ہو کر ہی  خونریزجنگوں ، مظالم اور ناانصافیوں کو روکا جاسکتا ہے۔

اپنے سامنے تاریخِ پاکستان کا تجربہ رکھئے اور دیکھ لیجئے کہ ہم جس قدر باطل لشکروں اور ٹولوں  کے مقابلے میں عقب نشینی  اور نرمی کرتے گئے  اُسی قدر  یہ باطل لشکر آگے بڑھتے گئے ، پہلے ایک ایک کر کے ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے، پھر امام بارگاہوں میں، پھر مسجدوں میں، پھر مزارات پر، پھر مسافروں پر، پھر عوامی مراکز پر ، پھر فوج و پولیس پر ، پھر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر حتی کہ  پھر تو سکولوں کے بچوں کو بھی قتل کرنا شروع ہو گئے۔

پاکستان آج غیر محفوظ نہیں ہوا بلکہ سچ اور حق بات یہ ہے کہ پاکستان اُسی روز غیر محفوظ ہوگیا تھا جس روزپہلی مرتبہ  کسی بے گناہ کے قتل پر ہم سب نے بحیثیت قوم غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا تھا۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree