وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) رہبر انقلاب نے اسلامی تبلیغات کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور کہا کہ ایرانی قوم اور اسلامی نظام سے امریکہ کو ہر میدان میں مایوسی نصیب ہوگی۔ امام خامنہ ای نے اسلامی تبلیغات کونسل کے اراکین سے خطاب میں امریکہ کی ایران اور اسلام دشمن پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ بعض افراد دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دشمن کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ 40 برسوں میں ایرانی قوم اور اسلامی نظام کے خلاف امریکہ کی عداوتوں اور اور سازشوں کی شکست اور ناکامی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایرانی قوم مستقبل میں بھی امریکہ کی ناک کو زمین پر رگڑ دے گی ، ایرانی قوم استقامت اور پائداری کے ساتھ ترقی اورپیشرفت کی شاہراہ پر گامزن رہےگی۔
رہبر معظم نے امریکی حکومت کو دنیا کی بدترین اور فاسد ترین حکومت قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ داعش جیسے خوانخوار تکفیری درندوں کی حمایت کے علاوہ اسرائیل اور آل سعود جیسے دنیا کے جابر، ظالم ڈیکیٹر حکمرانوں کی حمایت کررہا ہے جو یمن کے مظلوم عوام کو خاک وخوں میں غلطاں کررہے ہیں۔ امام خامنہ ای نے مزید کہا کہ اسلامی تبلیغات کا سلسلہ مغربی ممالک کے پروپیگنڈے سے بالکل الگ اور جداگانہ ہے مغربی ممالک کے پروپیگنڈے میں جھوٹ اور مکر و فریب کے عناصر بڑی مقدار میں موجود ہوتے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات اور تبلیغات میں سچائی اور صداقت پر زور دیا جاتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تبلیغ کے میدان کو بھی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں کی طرح میدان جنگ توصیف کرتے ہوئے فرمایا: "دشمن نے سیاسی، اقتصادی، فوجی، ثقافتی اور نشر و اشاعت کے میدانوں میں ہمارے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے اور ہمیں ان میدانوں میں دشمن کی سازشوں اور کوششوں کے حوالے سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دشمن نے جنگ کے طریقہ کار کو بدل دیا ہے آج استعمار سرد جنگ کے ذریعے شکست دینا چاہتا ہے، ایرانی قوم نے گذشتہ 40 برسوں میں ثابت کردیا ہے کہ نہ وہ کسی پر دھونس جمانا چاہتی ہے اور نہ کسی کی دھونس میں آنا چاہتی ہے، ایرانی قوم نے اپنی استقامت اور پائداری کے ذریعے اسلامی نظام کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنادیا ہے۔ ہمیں ہر دور میں دشمن کی گھناؤنی سازشوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور دشمن کی ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے پہلے سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
امام خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "ایرانی قوم نے دشمن کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کے باوجود ہر شعبہ میں خاطر خواہ ترقی اور پیشرفت کا مظاہرہ کیا ہے اور ہم مزاحمتی اقتصادی پالیسیوں پر عمل کرکے اقتصادی میدان میں بھی دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ امام خامنہ ای نےکہا کہ دشمن نے جنگ کا طریقہ کار بدل دیا ہے، دشمن قومی، قبائلی اور لسانی سطح پر اختلافات پیدا کرکے فتنہ برپا کرنے کی کوشش کررہا ہے لہذا ہمیں باہمی اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ دشمن کی اس ناپاک کوشش کو بھی ناکام بنانا چاہیے۔
وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سربراہ و عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ٹیکس کے خلاف جاری تحریک میں جی بی کے عوام نے ثابت کر دیا کہ یہاں کے غیور عوام کسی کی ساز ش میں آنے والے نہیں ہیں۔ چلاس سے داریل تانگیر اور ہنزہ سے کھرمنگ تک کے عوام نے جس اتحاد و ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا لائق فخر ہے۔ میں اس تحریک کے ادنی سے کارکرکن کی حیثیت سے اس تحریک میں حصہ لینے والے علماء، بزرگان، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنا ن کا انتہائی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے تاریخی ہڑتال اور لانگ مارچ کر کے حکومت کو واضح کر دیا کہ یہاں کے عوام باشعور ہو چکے ہیں اور کسی بھی حکمران کو ظلم کرنے نہیں دیں گے۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ ٹیکس مخالف تحریک کے قائد غلام حسین اطہر کے خلوص و ثابت قدمی کو سلام پیش کرتا ہوں انکی قیادت کے نتیجے میں حکومت مذاکرات کی ٹیبل پر آنے کے لیے تیار ہوگئی اور مذاکرات میں مثبت پیش رفت کے سبب لانگ مارچ کو روندو سے ختم کر کے اسکردو جانے کا فیصلہ ہوا ہے ۔بلتستان میں جب تک ٹیکس کی منسوخی کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوتا احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت کے مشکل ترین حالات میں استقامت دکھانے پر برادر عزیر مولانا سلطان رئیس اور انجمن تاجران کے صدر کو سلام پیش کر تا ہوں ۔ ان کی بصیرت کے سبب کسی قسم کی علاقائی ، مسلکی اور لسانی تعصبا ت کو ہوا دینے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے عوام کو مزید شیعہ سنی اور بلتی گلتی کے نام پر لڑاکر حکمرانی کرنے کا دور ختم ہو گیا ہے۔ آج تمام گلگت بلتستان کے مسالک ایک ہی گلدستے کے پھول ہیں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ جی بی کے عوام جی بی کو آئینی حصہ بنانے کے لیے جدوجہد کرنے کو تیار رہیں ۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ گلگت بلتستان کو سی پیک میں بھی حصہ دلانے میں صوبائی حکومت ناکام ہوگئی ہے اور غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں ۔ میں آرمی چیف اور وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ پاکستان کے نظریاتی سرحدوں کے امین جی بی کے عوام کو آئینی خودمختاری دی جائے اور سی پیک میں اس خطے کو بھر پور حصہ دیا جائے۔ پاکستان دشمن طاقتیں سی پیک سمیت جی بی کو آئینی حقوق دلانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں ۔ دشمن نہیں چاہتے کہ گلگت بلتستان اورپاکستان اقتصادی طور پر مضبوط ہو یہی وجہ ہے کہ سی پیک کے خلاف پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔ سی پیک میں حصہ ملنے سے گلگت بلتستان مزید مستحکم اور مضبوط ہو جائے گا۔ مضبوط گلگت بلتستان ہی مضبوط پاکستان کا ضامن بن سکتا ہے ۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جی بی کو مضبوط کرنے کے لیے سی پیک میں حصہ دلانے کی بجائے مزید ٹیکس عائد کر کے عوام میں بے چینی پھیلا رہی ہے اور معاشی طور پر مزید کمزور ہو رہا ہے ۔ جی بی میں حالیہ دھرنون میں انڈیا مخالف اور پاکستان آرمی کے حق میں لگائے جانے والے نعروں نے ثابت کر دیا کہ یہاں کے عوام پاکستان کی دفاعی فرنٹ لائن ہے۔ یہاں کے عوام پاکستان کے دفاع کا ضامن ہے ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) لکھنے والے بہت کچھ لکھ چکے ہیں، اس منطقے کی جغرافیائی اہمیت، معدنی کانیں، آبی ذخائر اور قدرتی حسن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، رہی بات پاکستان سے محبت کی تو عوامِ علاقہ کی تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے ضیاالحق جیسے آمر کے مظالم تو سہے لیکن ملکی محبت پر کبھی بھی آنچ نہیں آنے دی۔
آئے روز یہ جو گلگت بلتستان میں ہڑتالیں جاری رہتی ہیں ، ان کے حقیقی اسباب اور اصلی مسئلے کو جاننے کی ضرورت ہے، بعض لوگ اسے آٹے اور چینی کے مہنگے اور سستے ہونے کا جھگڑا سمجھتے ہیں جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ عوامِ علاقہ حکومتِ پاکستان سے اپنی قومی شناخت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہم نے جس طرح بنگالیوں کی ہڑتالوں اور اُن کےجذبات کو اہمیت نہیں دی تھی اُسی طرح ہم گلگت و بلتستان کے عوام کے حقیقی مطالبات سے بھی آنکھیں چرا رہے ہیں۔
یہ ہمارے سیاسی و قومی اکابرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس منطقے کے عوامی کی قومی حیثیت کو مشخص کریں۔ اگر مسئلہ کشمیر کی وجہ سے انہیں گلگت و بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے میں مشکلات درپیش ہیں تو پھر عوامِ علاقہ کو اعتماد میں لے کر اُن کے لئے کسی موزوں اور متناسب نیز متبادل سیٹ اپ پر غور کیا جائے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں شمولیت کی خواہش ایک آئینی و جمہوری خواہش ہے اور ہمارے سیاسی زعما کو اس کا مثبت جواب دینا چاہیے۔
گلگت بلتستان میں اس وقت کتنے ہی دنوں سے ٹیکسز کے نفاذ کے خلاف غذر سمیت مختلف علاقوں میں پہیہ جام ہڑتال جاری ہے۔ سخت سردی میں لوگ اپنے حقوق کی خاطر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ تمام چھوٹی بڑی دکانیں، کاروباری مراکز، نجی ادارے اور پبلک ٹرانسپورٹبند ہیں، عوام کا مطالبہ ہے کہ جب تک گلگت بلتستان کو قومی سطح پر نمائندگی نہیں دی جاتی اس وقت تک کسی بھی طرح کے ٹیکسز کا نفاذ ناقابل قبول ہے۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اگر وقتی طور پر حکومت ٹیکسز کے مسئلے سے عقب نشینی کر بھی لے تو پھر بھی یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ، چونکہ اصل مسئلہ عوامی و انسانی حقوق اور گلگت بلتستان کی ملی شناخت کا ہے۔
ایسے میں ہم سب پاکستانیوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارا بھی گلگت و بلتستان سے کوئی دینی و نظریاتی رشتہ ہے یا نہیں!؟ اگر ہم اہلیانِ گلگت و بلتستان کو دینی بھائی سمجھتے ہیں اور پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔لاالہ الااللہ کی حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں بھی اس ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں اہلیانِ گلگت و بلتستان سے اظہار یکجہتی کے لئے اپنے ایمان کی حرارت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اب یہ بات پاکستانی دانشوروں اور اربابِ حل و عقد کو اپنے پلے باندھ لینی چاہیے کہ جاری ہڑتال جس نتیجے پر بھی منتہج ہو ہمیں بہر حال گلگت و بلتستان کی ملی شناخت اور علاقائی سیٹ اپ کے حوالے سے دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔روز روز کی ہڑتالوں سے جہاں ملکی اقتصاد اور ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے وہیں اس سلسلے میں ہماری سرد مہری سے ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی مسلسل فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اپنے ملک کو اقتصادی نقصانات اور بھارت کی چالوں سے بچانے کے لئے ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا کریں اور پاکستان کے دیگر علاقوں کے عوام بھی اہلیان گلگت و بلتستان کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے اُن سے اظہار یکجہتی کریں ۔
اگر ہم سب جی بی کے اصل مسئلے یعنی ان کی ملی شناخت اور قومی سیٹ اپ کے حل میں سنجیدہ ہو جائیں تو درپیش مشکلات پر قابوبھی پا سکتے ہیں اور اپنے دشمن کو مایوس اور ناکام بھی کر سکتے ہیں۔
لہذا یہ ہم سب کی دینی و ملی ذمہ داری ہے کہ ہم جی بی کے مسئلے کو ملی تناظر میں دیکھیں اور اس کے حل کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز( آرٹیکل) حضرت امام موسیٰ کاظم کی صاحبزادیوں میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا مرتبہ نہایت درجہ بلند ہے۔ آپ کو' معصومۂ'' اور'' کریمہ اہل بیت'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،آپ یکم ذی القعدہ سن ١٧٣ھ .ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور آپ نے ٢٨ سال کی عمر میں ربیع الثانی کی دس یا بارہ تاریخ کو سن ٢٠١ ھ.ق میں شہر قم میں شہادت پائی۔آپ کے عالی ترین فضائل میں سے ایک یہ ہے کہ آپ خانہ وحی و رسالت سے منسوب ہیں،آپ کے القابات (بنت رسول اللہ، بنت ولی اللہ، اخت ولی اللہ اور عمة ولی اللہ ) سرچشمہ فضائل و کمالات ہیں۔آپ نے حضرت امام موسی کاظم اور حضرت علی ابن موسی الرضا کے سائے میں زندگی بسر کی ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ مکتب ائمہ اطہار کی تربیت یافتہ ہیں ۔
حضرت امام رضا نے آپ کی شان میں فرمایا :من زار المعصومة بقم کمن زارنی۔جس نے قم میں معصومہ کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی ۔
وہ ہستیاں جو شفاعت کرسکتی ہیں ان میں سے ایک نام فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا بھی ہے۔جیساکہ امام صادق کا فرمان ہے کہ تدخل بشفاعتھا شیعتی الجنة باجمعہم: ان کی شفاعت (معصومہ ) سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں داخل ہونگے۔اسی لئے امام کے حکم سے آپ کی زیارت میں ہم کہتے ہیں یا فاطمة اشفعی لی فی الجنة یعنی اے فاطمہ معصومہ! جنت میں میری شفاعت فرما۔آپ کے زیارت نامہ میں دوسری جگہ آیاہے کہ فانّ لک عند اللہ شانا من الشان یہ جو کہ ہم آپ سے شفاعت طلب کر رہے ہیںوہ اس لئے ہے کہ آپ کو خدا وند عالم کے ہاں بلند اور عظیم مرتبہ و مقام حاصل ہے۔
آپ کی زیارت کی فضلیت:
امام رضا فرماتے ہیں: من زارہا فلہ الجنة جو فاطمہ معصومہ کی زیارت کرے وہ جنت کا مستحق ہے۔
امام جواد فرماتے ہیں : من زار قبر عمتی بقم فلہ الجنة جو قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے اس پر جنت واجب ہے۔
امام رضا فرماتے ہیں: من زارہا عارفاً بحقہا فلہ الجنة جو فاطمہ معصومہ کی قم میںمعرفت کے ساتھ زیارت کرے اس پر جنت واجب ہے۔
سفر عشق: کیا آج تک آپ نے حضرت امام موسی کاظم کی اس بہادر بیٹی کی علت شہادت کے متعلق سوچا ہے کہ جس نے اپنے بھائی علی ابن موسی الرضا کے شوق وصال میں دکھ درد کا لباس زیب تن فرما کر پہاڑوں اور بیابانوں کی کٹھن راہوں کو طے فرمایا ؟
کیاآپ نے اس مظلومہ و معصومہ کی جدائی پر گریہ کیا ہے جس کو اپنے والد گرامی امام موسی ابن جعفر کی طرف سے فداھا ابوھا کی لوح افتخار عطا ہوئی؟
٢٠٠ ھ ق میں مامون عباسی کے اصرا ر پر حضرت امام رضا ''مرو'' کی جانب سفر کرنے پر مجبور ہوئے ۔آپ اپنے اہلیبیت اور احباب میں سے کسی کوبھی اپنے ساتھ لئے بغیر خراسان کی جانب روانہ ہوگئے۔
بھائی کی ہجرت کے ایک سال بعد حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے اپنے بھائی کے شوق دیدار میں بے تاب ہو کر اپنے کچھ بھائیوں اور ان کے بیٹوں کو لے کر خراسان کی طرف سفر کیا ۔آپ جس علاقے اور شہر میں بھی وارد ہوئیں وہاں کے لوگوں نے آپ کاشاندار اور پرتپاک استقبال کیا ۔ آپ بھی اپنی پھوپھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح مکّار حکمرانوں کے چہرے بے نقاب کرتی رہیں۔
جب حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کاکاروان شہر ساوہ پہنچا تو دشمنانِ اہل بیت جن کی حمایت حکومت کے مامورین کررہے تھے ،انہوں نے آپ کا راستہ روک کر آپ کے ساتھیوں کے ساتھ جنگ کی ۔اس جنگ کے نتیجے میں آپ کے ساتھ آئے ہوئے تمام مرد درجۂ شہادت پر فائز ہوگئے ۔ایک روایت کے مطابق حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو بھی زہر جفا دے کر مسموم کردیا گیا۔بہر حال اس خونچکاں اور جانکاہ حادثے کے شدت غم یا زہر جفا کی وجہ سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا مریض ہوگئیں ۔
اس مرض کی سبب سے خراسان تک سفر جاری رکھنا آپ کے لئے ممکن نہ تھا اس لئے آپ نے شہر قم میں ٹھہرنے کاارداہ فرمایا ۔آپ نے پوچھا : اس جگہ (ساوہ) سے قم تک کافاصلہ کتنے فرسخ ہے ؟جو فاصلہ بنتا تھا بتادیا گیا ۔آپ نے فرمایا مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے ۔شہر قم ہمارے شیعوں کامرکز ہے۔
قم کے اشراف واکابرین نے جب یہ خبر سنی تو آپ کے استقبال کے لئے قم سے باہر نکل آئے ۔اشعری خاندان کی بزرگ شخصیت موسیٰ بن خزرج نے آپ کی سواری کی لگام تھامی، بہت سے افرا دپیدل اور سواریوں کی صورت میں آپ کی سواری کی گرد چلتے رہے ۔تقریباً ٢٣ ربیع الاول ٢٠١ ھ ق کو آپ شہر قم میں وارد ہوئیں ۔
پھر اس مقام پر جسے آج'' میدان میر ''کہتے ہیں خود موسی بن خزرج کے گھر کے سامنے آپ کی سواری رک گئی اور آپ کی میزبانی کا شرف بھی اسے نصیب ہوگیا۔
آپ نے صرف ١٧ دن قم المقدس میں زندگی گزاری۔ اس قلیل عرصے میں آپ راز ونیاز اور عبادت ِ پروردگار میں مشغول رہیں۔
آپ کی عبادت گاہ ،مدرسہ ستیہ بنام ''بیت النّور'' آج بھی عاشقان اہل بیت کے لئے زیارت گاہ بناہوا ہے۔
وفات یا شہادت؟
بالآخر دسویں ربیع الثانی '' بنابر قول دیگر بارہویںربیع الثانی '' ٢٠١ ھ ق کو اپنے بھائی کا دیدار کرنے سے پہلے عالم غربت میں شدید غم واندوہ کے ساتھ اس دارفانی سے رخصت کر گئیں ۔یوں شیعیان آل محمدؐنے ایک بار پھر صف ماتم بچھایا۔اہل قم نے اس معظمہ خاتون کے بدن مطہر کو انتہائی عزت واحترام کے ساتھ اسی جگہ پر جہاں آپ دفن ہیں لے آئے جسے اس وقت ''باغ بابلان ''کہتے تھے ۔جب قبر تیار ہوئی تو سب لوگ شش وپنچ میں مبتلا ہوئے کہ اس معصومہ کے جسد اطہر کو کون قبر میں اتارے ۔یکایک قبلہ کی طرف سے دونقاب پوش سوار نمودارہوئے جن میں سے ایک نے نماز پڑھائی اور ان میں سے دوسرا قبر میں داخل ہوا ایک نے جسم مطہر کو ان کے حوالے کر دیا ۔یوں کریمہ اہل بیت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو سپرد خاک کیاگیا۔
مراسم تجہیز و تکفین ختم ہونے کے بعد وہ دو افراد کسی سے بات کئے بغیر واپس چلے گئے ۔
بعید نہیں ہے کہ وہ دو بزرگوار حجت خدا ،امام رضا اور امام جواد ہوں ۔شرعی دستور کے مطابق معصومہ کی تجہیز وتدفین معصوم کے ہاتھوں سے ہونی چاہیے تھی کیونکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکو خود امیرالمومنین نے غسل وکفن دے کر دفن کیاتھا اورحضرت مریم کو حضرت عیسیٰ نے بنفس نفیس غسل دیا تھا ۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکو دفن کرنے کے بعد موسیٰ بن خزرج نے کپڑوں کا سایہ آپ کی قبر مطہرپر بنایا تھا یہاں تک کہ امام جواد کی بیٹی حضرت زینب نے ٢٥٦ ھ ق میں پہلی بار آپ کی قبر شریف پر گنبد بنوایا۔یوں آپ کی قبرِ مطہر عاشقانِ اہل بیت علہیم السلام اور ولایت وامامت کے ماننے والوں کے لئے دارالشفاء بن گئی۔
بہ جز عشق دلبر نیست مارا
غم دل ہست و یاور نیست مار
بود این بارگاہ دختر اما
نشان از قبر مادر نیست مارا
ریاض الانساب کے مصنف نے اپنی کتاب کے صفحہ ١٦٠ پر مرحوم منصور ی ،جو کتاب الحیاة السیاسیہ کے مؤلف ہیں سے روایت نقل کی ہے :کہ جس زمانے میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہانے ہجرت کی اس وقت اہل ساوہ خاندانِ نبوت کے سخت ترین دشمن تھے ۔جب حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا کاروان ساوہ پہنچا تو انہوں نے بھر پور حملہ کیا یوں جنگ چھڑ گئی اور یہ جنگ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے بھائیوں اور ان کے بیٹوں کی شہادت پر تمام ہو ئی ۔ حضرت معصومہ ٢٣ عزیزانِ زہرا کے پارہ پارہ اجسام مطہر کو مشاہدہ کرنے کی وجہ سے سخت بیمار ہوگئیں اور اسی بیماری میں آپ شہید ہو ئیں۔
قال رسول اللہ ۖ
من مات علی حب آل محمد مات شہیدا
پیغمبر اسلام ص فرماتے ہیں کہ جو بھی محبت آل محمد ۖپر مر جائے تو وہ شہید ہے ۔
الحیاة السیاسیہ ا لامام رضا کے مولف جعفر مرتضی عاملی ص ٤٢٨ ، قیام سادات علوی کے ص ١٦١ اور ١٦٨ پر نقل کرتے ہیںکہ جنا ب ہارون ابن موسی ابن جعفر کاکاروان جب ساوہ پہنچ گیا تو دشمنوں نے آپ لوگوں پر اس وقت حملہ کیا جب آپ لوگ کھانا تناول فرمارہے تھے اور آپ کو ٢٣ افراد کے ساتھ شہید کر دیا اور کارواں کے دوسرے افراد کو زخمی کردیا ۔اسی اثناء میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے کھانے میں زہر ڈال دیاگیا ۔یوں ولایت امیرالمومنین کی مدافع ، زہر جفا کے اثر سے مریض ہوئیں اور قم میں تشریف لانے کے ١٧ دن بعد شہید ہو گئیں ۔ وسیلة المعصومین ص ٦٨ میں میرزا ابوطالب نے بیان کیا ہے کہ اس جلیل القدر معظمہ کو ساوہ میں ایک ملعونہ عورت کی وساطت سے زہر دیا گیا۔
تحریر :سید قمر عباس حسینی حسین آبادی
وحدت نیوز (کوئٹہ) علمدار روڈ میں دیا گیا دھرنا،تاریخی دھرنا تھااور اسکا شمار پاکستان کے اہم واقعات میں ہوتاہے، ملک بھر کے میڈیا میں علمدار روڈ کے دھرنے میں امن و امان، نظم و ضبط اور صبر و تحمل کی مثالیں دی جاری تھی۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما و ممبر بلوچستان اسمبلی آغار ضا نے میٹینگ میں ایم ڈبلیو ایم ڈویژنل کابینہ کے اراکین سے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں چند اہم دنوں میں سے ایک 10 ـ جنوری 2013ء ہے، جب قوم کو اپنی طاقت، اپنے وجود، اپنے حقوق اور اپنی ذمہ داریوںکا احساس ہوا تھا اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے پورا ملک سراپا احتجاج ہوا تھا۔ علمدار روڈ میں دھماکوں کے بعد احتجاج میں پورے ملک نے ہمارا ساتھ دیا تھا اوراس وقت کے حکومت کو انکی بے حسی کا احساس دلا یا۔
انہوں نے کہا کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ہم اپنے شہیدوں کو بھول جائے، شہدائے علمدار روڈ نے پورے ملک کو بیدار کیا، سانحہ علمدار روڈ جیسے دہشت ناک اور المناک واقعے پر دنیا بھر میں مختلف ممالک کے لوگ احتجاج کیلئے سڑکوں پرنکلے تھے ، اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان خود علمدار روڈ آئے اور شہدائے علمدار روڈ کے لواحقین کے مطالبات تسلیم کئے علاوہ ازیں اُس وقت کے نااہل وزیر اعلیٰ کی حکومت کوختم کردیا گیا تھا ، یہ سب کسی انقلاب سے کم نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پورے ملک میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ لوگ سراپا احتجاج تھے مگر اس کے باوجودکسی قسم کے تشدد کا واقع پیش نہیں آیانقصان تو دور کی بات ایک ٹائر تک نہیں جلائی گئی۔ صرف احتجاجوں سے پورے ملک کا پہیہ جام ہوگیا تھا اور حکومت وقت پہلی بار خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہوئے ،بے حسی کو پیچھے چھوڑ کر ملک کی حالت کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔ ہم اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ ظالم چاہے جتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو اس کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے، یہ درس ہمیں واقعہ کربلاء سے ملا ہے جسکی پیروی نے جنوری 2013 میں ہمیں سرخ رو کردیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین مظلوموں کی حامی جماعت ہے، ہماری مرکزی قیادت سمیت تمام علاقائی قیادتوں نے ہمیشہ ظالم کے خلاف ہر میدان میں جنگ لڑی ہے۔ قوم ہم پر اعتماد رکھتی ہے ، یہ اعتماد ہماری کارکردگی کا نتیجہ ہے ۔ اس کے علاوہ شہدائے علمدار روڈ کی برسی کے موقع پر ایک جلسے کا انعقاد بھی کیا گیا ہے جس میں شہدائے انقلاب کی یاد کو تازہ کیا جائے گا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں جاری اینٹی ٹیکس موومنٹ کی وہ مکمل حمایت کرتے ہیں۔حکومت کی جانب سے آئینی حقوق دیے بغیر ٹیکس کا نفاذ غیر منصفانہ اقدام ہے۔جی بی کے عوام کی محرومی دور کرنے کے لئے وزیر اعظم ،آرمی چیف، سیاسی جماعتیں اور مقتدر ادارے اپنا کردار ادا کریں اوریہاں کے باسیوں کو ان کا حق دلائیں جو گزشتہ ستر سال سے اس سرزمین آئین پر اپنے حقوق کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔انجمن تاجران ، عوامی ایکشن کمیٹی اور دیگر جماعتوں کی قومی ایشو پر مشترکہ جدوجہد لائق تحسین ہے۔ گلگت بلتستان دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جو کسی ریاست کے ساتھ الحاق کے لیے بے قرار ہے ورنہ دنیا بھر میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔گلگت بلتستان کی عوام کو ان کی امنگوں کے مطابق آئینی حقوق دیے جائیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں بسنے والے ہر فرد کو یکساں بنیادی حقوق حاصل ہیں۔آئینی حقوق دیے بغیر ٹیکسز کا نفاذ ظالمانہ اقدام ہے۔ آئینی حقوق کے حصول کے لئے جی بی کے عوام کا مطالبہ اصولی اور قابل عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جی بی کے عوام نے تحریک آزادی کی جنگ اپنے زور بازو پر لڑی اور پاکستان میں غیر مشروط طور پر شمولیت کا اعلان کیا ۔وہاں کے باسیوں کا یہی دیرینہ مطالبہ ہے کہ اس علاقے کو پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے۔گلگت بلتستان معدنی وسائل اورجغرافیائی اعتبار سے بھی پاکستان کے لیے انتہائی سود مند ہے۔اسے نظر انداز کرنا کس بھی طور ملک کے مفاد میں نہیں۔ گلگت کی عوام سے ریاست سوتیلی ماں کا سلوک نہ کرے۔یہاں کے لوگوں سے ان کی اراضیاں جبراََ چھینی جا رہی ہیں اور حقوق کی بات پر منہ دوسری طرف موڑ لیا جاتا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔گلگت بلتستان کے عوام نے ارض پاک کی سلامتی و استحکام کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں ہیں۔پاک چائنا اکنامک کوریڈور کا ایک سرا گلگت بلتستان جبکہ دوسرا گوادر میں ہے۔جی بی کی عوام کو سی پیک کے ثمرات ہر حال میں حاصل ہونے چاہیے۔یہاں کے باسیوں کی حب الوطنی لائق تحسین ہے۔وطن عزیز کی ترقی اورمختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کردار ادا کرنے وا لی متعدد شخصیات کا تعلق اسی خطہ سے ہے۔انہوں نے ٹیکس کے نفاذ کے خاتمہ ،منرلز کنسیثنل رولز 2016 کو کالعدم قرار دینے، حالیہ تحریک کے دوران دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کی جانے والی ایف آئی آر کے اخراج اور سی پیک میں گلگت بلتستان کے عوام کو حصہ دینے کا بھی مطالبہ کیا۔