وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور روابط ملک اقرار حسین نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے پاکیزہ، بابصیرت اور شجاع افراد کا عظیم الشان قافلہ ہے، یہ کاروان شہدائے ملت جعفریہ بالخصوص شہید قائد کے افکار کی ترویج اور تشیع کے استحکام کے لئے اپنی منازل طے کرتا رہے گا،شوریٰ مرکزی کے اجلاس میں ملک بھر سے آئے ہوئے مرکزی و صوبائی قائدین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ انشاءاللہ وقتی چیلنجز کو اپنے حق میں تبدیل کر دیں گے،شعبہ روابط ملک بھر میں ڈویژنل سطح پر" بیداری شعور رابطہ مہم " کا آغاز کرے گا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) متکلمین امامیہ نے اپنی کتابوں میں ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی امامت کے بارے میں قرآن و سنت سے بہت سارے نصوص ذکر کئے ہیں کہ جن کی وضاحت کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن ہم یہاں پر بطور نمونہ چند نصوص بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
1۔ آیہ ولایت:
{ إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللّہ ُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوۃَ وَ يُؤْتُونَ الزَّکَوۃَ وَہُمْ رَاکِعُون}۱تمہاراولی تو صرف اللہ اوراس کا رسول اوروہ اہل ایمان ہیں جونماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔
آیت کریمہ کے مطابق خداوند متعال،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ مومنین جو خاص صفات کے حامل ہیں مسلمانوں پرولایت رکھتے ہیں ۔علاوہ از یں کلمہ{انما} حصر پر دلالت کرتاہے ۔۲ یعنی خدا ،پیغمبر اسلا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بعض مومنین کو مسلمانوں پر ولایت حاصل ہے۔
آیت کریمہ کی شان نزول کے سلسلے میں شیعہ وسنی کتابوں میں بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں نیزطرفین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔۳بنابریں آیت کریمہ سے حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری ثابت ہوجاتی ہیں اگرچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مسلمانوں پر ولایت رکھتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام بھی دوسرے مومنین کی طرح اس آیت {النَّبیِ أَوْلیَ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِہِمْ}کے حکم میں شامل تھےلیکن آپ ؐکی رحلت کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی ولایت شروع ہوتی ہے۔
2۔آیت تبلیغ:
{یايہُّا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْکَ مِن رَّبِّکَ وَ إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَ اللّہ ُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّہ َ لَا يہَدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِين}۴اے رسول!جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیاگیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویاآپ نےاللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اوراللہ آپ کو لوگوں{کے شر}سے محفوظ رکھے گا،بےشک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔آیہ کریمہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے بہت ہی قابل توجہ اور اہم موضوع کے بارے میں اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے اگر وہ کام انجام پذیر نہ ہو تو گویا اسلام کی بنیاد اور رسالت خطرے میں پڑ جائے گی لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موضوع کو بیان کرنے کے لئے مناسب موقع کے منتظر تھے کیونکہ عوام کی طرف سے ممانعت ،رکاوٹ اور خطرے سے ڈرتے تھے ۔یہاں تک خداوند متعال کی طرف سے تاکید کے ساتھ حکم ملا کہ اس کام کو انجام دینے میں تامل نہ کریں اور فورا انجام دیں اور نہ ہی کسی سے ڈریں۔یہ موضوع یقینی طور پر دوسرے احکام کی طرف نہیں تھا کیونکہ ایک یا چند قوانین کی تبلیغ کی یہ اہمیت نہیں ہے کہ ان کی تبلیغ نہ کرنے سے اسلام کی بنیاد اکھڑ جائے گی اور نہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قوانین کے بیان کرنے اور تبلیغ سے خوفزدہ تھے۔بنابریں قرائن و شواہد اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مذکورہ آیت غدیر غم کے مقام پر حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور بہت زیادہ شیعہ اور سنی مفسرین نے بھی اس کی تصدیق کی ہے ۔جیساکہ ابو سعید خدری فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام کی طرف دعوت دی ۔ آپ ؐنے حضرت علی علیہ السلام کے بازو کو پکڑ کر اس قدر بلند کیا کہ آپؐکی بغل کی سفیدی دکھائی دینے لگی اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔{الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَ أَتمْمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتی وَ رَضِيتُ لَکُمُ الْاسْلَامَ دِينًا}
شیعہ و سنی کتابوں میں نقل ہونی والی متعدد احادیث میں اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کیاگیاہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم کو غدیر خم میں پہنچایا ہے ۔ شیعہ عقائد کے مطابق یہ بات مسلم ہے جبکہ اہل سنت کے متعدد علماء نے بھی آیت کی شان نزول کو حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت قرار دیا ہے اگرچہ یہ افراد ولایت کے معنی میں شیعہ مذہب کے ساتھ متفق نہیں ہیں ۔
علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں اہل سنت کے تیس بزرگ علماء کا نام ذکر کیا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے بارے میں غدیر خم میں نازل ہوئی ہے ۔آیت کریمہ کے شان نزول کے بارے میں موجود احادیث کے علاوہ خود آیت کریمہ کے ابتداوانتہا اورکلمات پر غور کرنے سے بھی واضح ہو جاتا ہے جیساکہ آیت کریمہ کے ابتدائی حصے میں اس مطلب کو بیان کیاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی طرف سے نازل شدہ احکام کو لوگوں تک پہنچانے پر مامور تھے اور یہ الہیٰ پیغام اتنا اہم تھا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے انجام نہ دیں تو گویا نبوت و رسالت کی ذمہ داری انجام نہیں دی ہے جبکہ اس جملہ{ وَ اللّہ ُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ}{خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا}سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ اس حکم کو پہنچانے سے خوف محسوس کرتے تھے جس کی بنا پر خدا نے آپ ؐکو تسلی دی اور آپ ؐکی حفاظت کا اعلان فرمایا ۔ ظاہر ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پیغام کے پہنچانے میں اپنی جان کا خوف نہیں تھا اور آپ ؐاپنی موت و حیات کے بارے میں خوفزدہ نہیں تھے بلکہ آپ ؐدین کے بارے میں خوف محسوس کر رہے تھے کہ کہیں لوگ اس اعلان کے بعد دین کے بارے میں مشکوک اور مرتد نہ ہو جائیں کیونکہ یہ پیغام حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت سے متعلق تھا اور حضرت علی علیہ السلام آپ ؐ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔عرب کے پرانے رسم و رواج کے مطابق منافقین کے لئے یہ بہترین موقع تھا کہ آپ ؐ کے اس اقدام کو عرب کے اس جاہلی آداب و رسوم کے مطابق سمجھ بٹھیں جس کے نتیجے میں دین اسلام کی حقانیت اور اس کے عظیم اہداف خطرے میں پڑ جاتےجبکہ دین اسلام عرب کے اس جاہلی آداب و رسوم کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنا چاہتا تھا لہذا خداوند متعال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دی کہ ہم ہر قسم کی ناروا تہمت سے آپ کو محفوظ رکھیں گےاور اس سلسلے میں دین اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔۵
3۔ آیہ اکمال دین:
{الْيَوْمَ يَئسَ الَّذِينَ کَفَرُواْ مِن دِينِکُمْ فَلَا تخَشَوْہُمْ وَ اخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَ أَتمْمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتیِ وَ رَضِيتُ لَکُمُ الْاسْلَامَ دِينًا}۶ آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوچکے ہیں،پس تم ان{کافروں} سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور اپنی
نعمت تم پرپوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطوردین پسندکرلیا۔
آیت کریمہ اس دن کی خبر دے رہی ہےکہ جس دن کوئی بڑا واقعہ رونما ہوا جس سے دو نتیجہ حاصل ہوا:
1۔ کفار ہمیشہ کے لئے اسلام کی تباہی سے مایوس ہوگئے۔2۔دین اسلام اپنے کمال کو پہنچا اور خداوند متعال کی نعمتیں پوری ہوئیں اور وہ دین اسلام سے راضی ہو گیا ۔ یہاں یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کون سا دن تھا ؟ اور کون سا عظیم واقعہ رونما ہوا؟
شیعہ و اہل سنت ذرائع سے نقل ہونے والی متعدد احادیث کے مطابق آیت کریمہ حجۃ الوداع اور روز غدیر خم 18 ذی الحجۃ سن10ہجری کو نازل ہوئی یعنی جب پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاجیوں کے جمع غفیر میں اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری کا اعلان فرمایا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ بات شیعہ روایات کےمطابق مسلم ہے۔ اہل سنت کی روایات میں بعض اصحاب جیسے ابو سعید خدری ،جابر بن عبد اللہ انصاری ، زید بن ارقم اور ابو ہریرہ وغیرہ نے مذکورہ آیت کو واقعہ غدیر سے مربوط جانا ہے ۔
مسئلہ امامت، دین اسلام کی حفاظت اور احکام کےنفاذ و ابلاغ میں امام او ررہبرکے اہم کردار کو مد نظر رکھنےسے واضح ہو جاتا ہےکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت اسلامی کے رہبر کے انتخاب یعنی حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے اعلان کے بعد کفار مایوس ہو گئے کیونکہ یہ لوگ اسلام کی نابودی کے لئے ہمیشہ سازش میں مصروف رہتےتھے لیکن کبھی کامیاب نہ ہو سکے گرچہ ان کی آخری امید یہی تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد اسلام کے خلاف عملی قدم اٹھاسکتے ہیں کیونکہ آپ ؐکا کوئی بیٹا نہیں ہے۔لہذا وہ اس دن کے منتظر تھے تاکہ دین اسلام کے خلاف اپنی دشمنی کو برملا کریں لیکن پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کے سامنے قانونی اور عمومی طور پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کا اعلان فرما کر ان کی امیدوں کو ناامیدی میں تبدیل کیا. جب رہبر و امام کا اعلان ہوا تودین عروج و کمال کو پہنچا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام جیسا رہبر مسلمانوں کو ملاجو قرآن و سنت کی صحیح تفسیر کرتے ہیں اور جن کا کلام حق و باطل کی پہچان کا معیار بنا جس کے نتیجے میں دین وشریعت تحریف سے محفوظ رہیں۔ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں مسلمانوں پر خدا کی نعمتیں بھی کامل ہوگئیں اور اس قسم کے آئین پرعمل کرنے کے نتیجے میں رضایت الہی بھی حاصل ہوگی۔
لہذا خدا کی حکیمانہ تدبیر کو جسےپیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں واضح فرمایا جس سے دین اسلام ،کفار کی سازشوں سے محفوظ رہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس سلسلہ میں زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیےلیکن جو چیز پریشانی کا باعث ہے وہ مسلمانوں کے اپنے اعمال ہیں کیونکہ اگر وہ اس عظیم نعمت کا انکار کریں تو یقینا یہ الہی نعمت ان کے ہاتھوں سے چھن جائے گی کیونکہ الہی سنت یہ رہی ہے کہ وہ کسی قوم یا فرد کو نعمت عطا کرنے کے بعد واپس نہیں لیتا مگر یہ کہ کفران نعمت کرے اور اپنے ہاتھوں سے الہی نعمت کے زوال کا اسباب فراہم کرےچنانچہ ارشادرب العزت ہے :{ذَالِکَ باَنَّ اللّہ َ لَمْ يَکُ مُغَيرِّا نِّعْمَہً أَنْعَمَہَا عَلیَ قَوْمٍ حَتیَ يُغَيرِواْ مَا باَنفُسِہِمْ}۷ایسا اس لئےہواکہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے۔ آیت اکمال دین کا یہ جملہ {فَلَاتخَشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ}{پس تم ان{کافروں} سے نہیں مجھ سے ڈرو}اسی الہی ٰقانون کی طرف اشارہ ہے ۔۸
حوالہ جات:
۱۔مائدۃ،55۔
۲۔مختصر المعانی ،ص82،باب القصر۔
۳۔المیزان ج6ص16 – 20۔تفسیر ابن کثیر،ج2ص597۔تفسیر قرطبی،ج6س221۔شواہد التنزیل،حسکانی،ج1ص161۔اسباب النزول ، واحدی ، ص 132۔الریاض النضرۃ،طبری،ج3،ص208۔ المیزان ج6،ص 35۔المراجعات ،ص 161۔
۴۔مائدۃ، 67 ۔
۵۔المیزان،ج6،ص 45 – 52۔
۶۔مائدۃ،3۔
۷۔انفال،53۔
۸۔المیزان، ج5، ص178 – 179۔
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(حیدرآباد) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین ضلع حیدرآباد کے شعبہ تحفظ عزاداری کی جانب سے مجلس ایام فاطمیہ بسلسلہ شہادت خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کا انعقاد کیاگیا، امام بارگاہ معصومین میں منعقدہ مجلس عزاء میں مرثیہ خوانی کے فرائض خواہر شہر بانو (شھرو) اور ساتھی خواہران نے جبکہ خطابت ذاکرہ اہلیبیت محترمہ فضا ءعمران دستی نے بعنوان معرفتِ شہزادی کونین عبد اور عبادت فرمائی ،بعد ختم مجلس اجتماعی دعائے سلامتی امام زمانہ ع اور ملک و ملت کے لئے دعا کرائی گئی۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ضلع جنوبی کے ڈیفنس ویو یونٹ کی تشکیل نوکردی گئی،یونٹ اراکین نے کثرت رائے سے برادر حسن کاظمی کو ایم ڈبلیوایم ڈیفنس ویویونٹ کا سیکریٹری جنرل منتخب کرلیا جن سے ڈویژنل سیکریٹری امور تنظیم سازی سید ذیشان حیدر نے حلف لیا، اس موقع پر ڈویژنل پولیٹیکل سیکریٹری میر تقی ظفر ، ضلع جنوبی کے عبوری سیکریٹری جنرل حسن رضا اور دیگر کارکنان بھی موجود تھے ، اجلاس سے قبل مجلس شہادت حضرت فاطمہ زہراؑ منعقد ہوئی اور ماتم داری بھی کی گئی۔
وحدت نیوز (گلگت) پورا جی بی تاریکی میں ڈوباہوا ہے جس کی حکمرانوں کو کوئی فکر نہیں اور غیر اہم شاہراہوں کی تعمیر محض مال بنانے کا حربہ ہے۔کارگاہ اہالیان گلگت کی چراگاہ ہے جس پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے اور عدالت میں اس کا کیس بھی چل رہا ہے۔مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ غیر اہم منصوبوں کی منظوری سے نہ صرف علاقہ ترقی نہیں کرے گا بلکہ ایسے منصوبے خزانے پر بوجھ ہونگے۔غریب عوام کے ٹیکسوں کو عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرنے کی بجائے حکمران اپنی مرضی کے منصوبے تیار کرتے ہیں جس کی کوئی افادیت نہیں ہوتی۔ کارگاہ ویلی روڈ نہ تو اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل روڈ ہے اور نہ ہی سیاحتی اہمیت کی حامل جگہ ہے جبکہ گلگت بلتستان میں سیاحتی اہمیت کی حامل خوبصورت ویلیوں تک سیاحوں کی رسائی ہی نہیں۔کارگاہ ویلی روڈ جو چھ مہینے تو بند رہے گی اور بقیہ چھ مہینے چرواہوں کے علاوہ کسی کا گزر ہونا نہیں ،ایسے منصوبوں پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنا ریاست سے بددیانتی تصور ہوگی۔اس کے علاوہ ڈوڈشال کے لوگوں نے کارگاہ میں اہالیان گلگت کی زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے جس پر گلگت اور ڈوڈوشال کے درمیان تنازعہ بھی چل رہا ہے ایسے میں روڈ کی تعمیر ایک طرح سے کارگاہ کو ڈوڈوشال کے لوگوں کو کارگاہ کا قبضہ دلوانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں انہی ندی نالوں کے ذریعے کارگاہ اور ضلع غذر میں چوری چکاری،اغوا اور دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں اگر ان ندی نالوں کو کشادہ سڑک کے ذریعے منسلک کیا گیا تو ان وارداتوں میں اضافہ ہوگا اور علاقہ غیر محفوظ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت ،سکردو،غذر،گانچھے،استور ،ہنزہ نگر اور دیامر میں رابطہ سڑکوں کی حالت زار انتہائی خرا ب ہے جس پر حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔گلگت شہر میں آئے روز عوام سڑکوں کی حالت زار پر احتجاج کررہے ہیں جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ضلع استور، سکردو،غذر اور گانچھے میں انتہائی اہمیت کے علاقے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں خاص طور پر ضلع استور میں قدرتی حسن اپنے عروج پر ہے جہاں کی رابطہ سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کا کوئی منصوبہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں جبکہ اس علاقوں میں سیاحت کو فروغ دیکر علاقے کے عوام خوشحال اور روزگار کے مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں۔انہوں نے حکام بالا سے اس ضمن میں نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) صوبائی وزیر برائے جنگلات و محکمہ امور حیوانات آغا سید محمد رضا نے کہا ہے کہ سبی میلہ 2018ء کو شاندار انداز میں منانے کے لئے تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں۔ اس سال بھی سبی و گرد ونواح سے میلے میں شرکت کرنے والے مالداروں کو سہولتیں فراہم کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کو برداشت نہیں کیاجائے گا۔ کوئٹہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ میلہ دراصل مالداروں کے مرہون منت ہے اور میلے کی کامیابی کا اصل دارو مدار مالداروں پر ہے۔ جو سارا سال جانوروں کو پالتے ہیں اور انہیں میلے میں لانے کیلئے تیار کرتے ہیں۔ یہ میلہ مالداری کے فروغ اور عوام میں جانور پالنے کے شوق کو بڑھانے کا اہم ذریعہ ہے۔ محکمہ ہذا میلے کو مزید چار چاند لگانے کے لئے اپنی کاوشیں کرتا ہے اور آئندہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ہمسایہ ممالک کی بھی اس اہم میلے میں شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ میلے میں سکیورٹی کے انتظامات کے لئے بلوچستان پولیس، لیویز، پاک آرمی اور فرنٹیئر کور کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں۔