شہید سبط جعفر کرکٹ کلب وحدت یوتھ لاہورکے زیر اہتمام منعقدہ شہدائے پاکستان کرکٹ ٹورنامنٹ کی فاتح قرار
وحدت نیوز (لاہور) وحدت یوتھ لاہور کے زیر اہتمام لاہور وحدت کرکٹ گراؤنڈ میں سالانہ ایک روزہ ٹیپ بال شہدائے پاکستان کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کیا گیا، جس میں لاہور کے مختلف ٹاؤنز سے 10 ٹیموں نے شرکت کی جنہیں گروپ A اور گروپ B میں تقسیم کیا گیا، دونوں گروپس پانچ ٹیموں پر مشتمل تھے جبکہ ٹورنامنٹ کے پہلے مرحلے میں ہر ٹیم کے 2 لیگ میچز کرائے گئے،دوسرے مرحلے میں 4 ٹیموں نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا، جبکہ فائنل میں شہید سبط جعفر کرکٹ کلب شاہجمال نے شہید محرم علی کرکٹ کلب گلبرگ ٹاؤن کو 7 وکٹس سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ ٹورنامنٹ کے اختتام پر کھلاڑیوں میں انعامات، میڈلز اور شیلڈز تقسیم کی گئیں، جبکہ ٹورنامنٹ کا اختتام دعائے امام زمانہ اور اس عزم کے ساتھ کیا گیا کہ وحدت یوتھ کے جوان ملت کی خدمت کے لیے ہر میدان میں پیش پیش ہوں گے۔
وحدت نیوز (کراچی) شہر قائد میں لوڈشیڈنگ کا جن کسی صورت قابو نہیں آرہا، کے الیکٹرک سمیت وفاقی وزارت پانی وبجلی اور صوبائی حکومت کا رویہ مجرمانہ ہے، کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ لوڈشیڈنگ کے اوقات میں زیادتی قابل مذمت ہے، نویں دسویں جماعت کےامتحانات میں مصروف طلباءکو تیاری میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، کے الیکٹرک کی ظالمانہ لوڈشیڈنگ کے خلاف تعلیمی اداروں کے باہر احتجاجی مظاہرے کیئے جائیں گے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل علامہ محمد صادق جعفری نے ڈویژنل کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر علامہ مبشرحسن،علامہ علی انور ، علامہ نشان حیدر، احسن عباس رضوی، میر تقی ظفر، عارف رضا زیدی، عون علی، سبط اصغر ودیگر بھی موجود تھے۔
انہوں نے مزید کہاکہ کے الیکٹرک نے شہریوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کررکھاہے، غربت ومہنگائی کے بوجھ تلے عوام کو اضافی بلوں اور لوڈشیڈنگ جیسے سنگین عذاب کا سامنا ہے، کے الیکٹرک کے مجرمانہ اور ظالمانہ رویئے کے خلاف ایم ڈبلیوایم کی احتجاجی مہم دوسرے مرحلے میں داخل ہورہی ہے، بروزبدھ او رجمعرات شہر کے مختلف تعلیمی مراکزکے باہر طلباءوطالبات ،اساتذہ اور شہری کے الیکٹرک کے غیر انسانی وغیر اخلاقی رویئے کے خلاف پرامن احتجاجی مظاہرے کریں گے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی سیکریٹری جنرل شعبہ خواتین محترمہ سیدہ زہرانقوی نے اسلام آباد میں منعقدہ تین روزہ سالانہ اجلاس
مرکزی مجلس عمومی کے شرکاءکے نام جاری پیغام میں کہاکہ تمام شرکاء ،علماء کرام ،تنظیمی برادران ، صوبائی اور ضلعی مسئولین اور مرکزی کابینہ کی خدمت میں اس کامیاب ،معنوی اور پرجوش کنونشن کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔الحمدللہ آج مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی پاک سرزمین پر ملک کے گوشہ و کنار میں ملت مظلوم تشیع کی آواز بن کر وقت کے فرعونوں کے خلاف بر سر پیکار ہے ۔ جو کہ انبیاء اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کی راہ و روش کا تسلسل ہے ۔ بعثت انبیاء کا فلسفہ متعدد آیات قرآنی کی روشنی میں توحید اور اجتماعی عدالت کا قیام ہے ۔ اسلام فرد اور معاشرہ دونوں کی اصالت کا قائل ہے یعنی انسان کی حقیقی سعادت اس وقت متحقق ہوتی ہے جب معاشرے میں سعادت ہو ۔ مجلس وحدت مسلمین کی بابصیرت قیادت نے وطن عزیز میں’’ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا ۔جنہوں نے ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جسے خالصتاً اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ۔ لیکن افسوس اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا یہ ملک گھٹیا سیاستوں کی نظر ہو گیا ۔لیکن ہم نے تاریخ میں دیکھا ہے جہاں علی ابن ابی طالب ؑ کے حقیقی چاہنے والے میدان عمل میں حاضر ہو جائیں اور اپنے کردار کو ادا کریں تو بڑی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری حفظہ اللہ اور انکی ٹیم کی شجاعانہ اور مدبرانہ قیادت کے سائے میں مجلس وحدت مسلمین نے بڑی تیزی سے اس کھٹن سفر کو طے کیا ہے اور ملت تشیع کے مضبوط کردار کو ادا کیا ہے ۔ بابصیرت قیادت نے از روز اول ملت کی بیٹیوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا اور خواتین کو عملی طور پر اس جدوجہد کا حصہ بنایا ہے ۔میں اّن تمام حضرات کی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کا بھر پور ساتھ دیا اور اپنے اضلاع میںشعبہ خواتین کےلئے تعاون کرتے ہیں ۔ لیکن اّن اضلاع سے یہاں شکوہ کروں گی جنہوں نے بار بار پیغام دینے کے باوجود شعبہ خواتین کے قیام کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اّٹھایا ۔سیاست کے بڑے میدانوں سے لیکر چھوٹے سے گھریلو نظام تک خواتین کی تربیت اوربلند ہمتی کے بغیر کوئی قوم بھی کامیاب نہیں ہو سکتی ۔لہذا میںاس کنونشن کے موقع پر تمام برادران سے چند گزارشات کرنا چاہوں گی تاکہ شعبہ خواتین بھی بھر پور انداز میں کار زینبی (س) انجام دےسکیں۔
: 1۔ شعبہ خواتین سے رابطہ برقرار کرنے کے لئے مرکزی آفس میںموجود برادر ظہیر کربلائی سے رجوع کیا جائے ۔2۔ تمام اضلاع کے برادران اپنے اضلاع کی موثر اور معاون خواتین کی ایک لسٹ اور رابطہ نمبرز مرکزی آفس میں قائم شعبہ خواتین کو مہیا فرمائیں ۔3۔ جن اضلاع میں اب تک شعبہ خواتین کا قیام عمل میں نہیں آسکا وہاں جلد از جلدشعبہ خواتین کے یونٹ کے قیام کے لئے عملی اقدامات کریں اور مرکز میںموجو د شعبہ خواتین کواطلاع دیںتاکہ دورہ جات ترتیب دیئے جا سکیں خصوصاً جن علاقوں میں الیکشن لڑے جا رہیں ہیں ۔ان علاقوں کے سیکرٹری جنرلزحضرات جلد از جلد رابطہ کریں ۔ 4۔جن اضلاع میں شعبہ خواتین فعال ہیںوہاں مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ علماء کرام کے درس اور علمی نشست کا اہتمام کیا جائے ۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر چند کہ راقم بلتی زبان و ادب کے رموز اورادبی و علمی اصطلاحات سے تقریبا نا آشنا ہوں۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ صرف معاشرے میں رائج الفاظ اور عام بول چال ہی جانتا ہوں۔ ایک مرکب لفظ‘‘سرفہ رنگہ’’پر غور کیا گیا۔ پہلا لفظ سرفہ یعنی تازہ، نیا، جدید، جبکہ رنگاہ ایسا خطہ ارضی یا زمین کا ایسا ٹکڑا جو باقاعدہ ذراعت وغیرہ کیلئے استعمال نہ ہو، بلکہ قرب و جوار کی آبادیوں کے لئے بطور چراگاہ استعمال ہونے والی زمین۔ اس مرکب لفظ کے معنی و مفہوم جو اخذ کئے جا سکتے ہیں وہ ہیں ایسی تازہ زمین جو کہ کاشت کاری کیلئے استعمال نہ ہو۔ رنگاہ، سنیو رنگا، ہلما رنگاہ اور سرفہ رنگاہ وغیرہ کے علاقوں سے بلتستان کے عوام واقف ہیں۔ سرفہ کو ہم ماڈرن یا جدید کے معنی میں لیں تو ہمارے ذہنوں میں زمانے کے نت نئے طور طریقوں، نت نئی ٹیکنالوجی، نئی سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصطلاحات اور پالیسیاں وغیرہ بھی آجاتے ہیں۔ انسان اپنی ضروریات کے مطابق رنگاہ یعنی غیر آباد علاقے کو استعمال کرتا ہے۔ جس کیلئے سرفہ یعنی تازہ خیالات اور مشورے کار آمد ہوتے ہیں۔ نئی اصطلاحات اور پالیسیاں ضروری نہیں کہ کسی پرانے اصطلاح یا پالیسی کے متبادل کے طور پر بنائی جائے، بلکہ یہ نئی تخلیق بھی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ انسان کو اللہ نے سوچنے کی صلاحیت دی ہے جس سے نت نئے ایجادات ہوتے آج کی دنیا کو اکیسویں صدی میں ھم گلوبل ولیج کہتےہیں۔ بقولِ شاعر،
جہانِ تازہ کے افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہی وجہ ہے دنیا آج تحقیق کے شعبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اورمحققین کی ہی محنت کا ثمرہے جو آج نت نئی ٹیکنالوجی، ایجادات ہماری زندگیوں کو پر آسائش بنا رہی ہیں۔ سکردو کے مضافات میں دریائے سندھ کے اس پار سرفہ رنگاہ سے اب ایک دنیا واقف ہوچکی ہے۔ اس کی وجوہات سرفہ رنگاہ جیب ریلی، سرفہ رنگاہ ہائیکنگ اور سرفہ رنگاہ کی جانب سکردو شہر کی وسعت کیلئے ہونے والے اقدامات ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ عظمی کی سلطنت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھی، تقریبا پوری دنیا میں اسکا سکہ رائج تھا۔ لوگوں کیخیالات بدلے، زمانہ بدلا، ضروریات بدلیں، نئے تقاضے سامنے آئے۔ آج ڈالر پوری دنیا پر راج کررہا ہے۔ اور سپر پاور امریکہ دنیا پر دھاک بٹھاتا نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کی دنیا پر معاشی و سیاسی اجارہ داری کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ قرائن یہی بتلاتے ہیں کہ جدت پسندی اور تازہ خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں مہارت ایسا ہتھیار ہے جو امریکہ کو سپر پاور بنا گیا۔ دنیا کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہئے کہ امریکہ کی اجارہ داری اس وقت تک قائم رہے گہ جب تک اقوام عالم میں اس کے خیالات و افکار کے مقابل کوئی تازہ تر اور جدید تر خیال سامنے نہیں آجاتا۔
تحقیق کے طالبعلم ہونے کے ناتے مختلف کتب اور دستاویز سے واسطہ پڑتا ہے اور ماضی اور حال کی کئی حقیقتیں اور ایجادات سے واقفیت ہو جاتی ہے۔ میرا قلیل مطالعہ باور کراتا ہے کہ دنیا کی معاشی بازار میں تیل کو اولیت حاصل ہونے سے قبل لوگوں کا انداز فکر ویسا نہیں تھا جیسا عہد رفتہ میں ہے۔ عرب ممالک میں قدامت پرستی عروج پر تھی، لارنس آف عربیہ نامی مووی دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خطہ عرب کے نقشے کو اس عہد کی طاقتوں نے نئی شکل دی۔ تب سے زمانہ جدید سے ما بعد جدیدیت کا روپ دھار گیا۔ آج بھی دنیا کی طاقتیں خاص کر امریکہ بہادرعرب سرزمین کو اپنے بہترین مفاد میں استعمال کررہا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم اور مایہ ناز لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کرایا گیا۔ اس سے قبل سعودی عرب کے جدید تفکر کے حامل شاہ فیصل کو بھی انجام تک پہنچایا جا چکا تھا۔ بھٹو تازہ خیالات کے مالک تھے جو سامراجی قوتوں کے جبر کو قبول کرنے کو اپنی اور قوم کی توہین سمجھتے تھے۔بھٹو کو منظر سے ہٹانے کے بعد پاکستان میں امریکہ کا عمل دخل بڑھ گیا۔ امریکی ساختہ مرد مومن, مرد حق ضیاء الحق کے ذریعے مجاہدین کی تربیت کروائی، ضیاء کے اندھیرے ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ مخصوص سکول آف تھاٹ کو پروان چڑھایا گیا۔ حال ہی میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اعتراف کے بعد اب اس میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ امریکی ساختہ مرد مومن کے مجاہدین کے نعرے با قاعدہ عقیدے بن گئے۔ اس وقت بوئی گئی زہریلی فصل کو پاکستان سمیت خطے کے ممالک اب تک کاٹ رہے ہیں۔ امریکہ بہادر کی ضروریات بدلیں، سو پالیسی بھی بدلی۔ نتیجتا نئی تھیوری سامنے آئی۔اب روشن خیال اعتدال پسندی کا ڈھونگ رچایا گیا اور یہ بھی ایک اور آمر مطلق کے ذریعے۔ گزشتہ مرد مومن سے تربیت دلانے گئے مجاہدین کو کچلنے کیلئے روشن خیال بہادر کو خوب استعمال کیا گیا جس کے نتائج سے پوری دنیا واقف ہے۔ افغانستان میں سترہ سالہ جنگ میں ناکامی کے بعد گزشتہ دنوں قندوز میں ڈیڑھ سو معصوموں پر بمباری نے ثابت کیا کہ اس اعتدال پسند روشن خیال سوچ کے پیچھے شہہ دماغوں کو اپنی دھاک بٹھانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے کوئی روکنے والا نہیں۔
گزشتہ دنوں مقامی اخباروں میں خبر شائع ہوئی ہے کہ بلتستان کے مخصوص علاقے میں مخصوص بیرونی طاقت کو پانچ سو کنال کی اراضی چاہئے۔ صوبائی حکومت خطے کی ہزاروں بلکہ لاکھوں ایکڑ زمین خالصہ سرکار کے نام پر ہتھیانے کے لئے پہلے سے ہی بے تاب ہے۔ خالصہ سرکار کے کالے اصول کے نفاذ میں ہنوز عوامی طاقت رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ سکردو چھومک میں سولہ روزہ عوامی نگہبانی کے نتیجے میں انتظامیہ قبضے میں فی الحال ناکام ہے۔ اب خبریں آ رہی ہیں کہ لینڈ ریفارمز کے نام پر گلگت بلتستان میں جہاں جہاں سرفہ رنگاہ یعنی غیر آباد علاقے ہیں ان کو زیر استعمال لانے کیلئے حکومت نئی پالیسی بنا رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ حکومتی پالیسی کی آڑ میں مخصوص ملک کے لئے پانچ سو کنال عوام کی ملکیتی زمین مفت دینے کی بھی حکمت عملی بن رہی ہو۔ عوامی سطح پر ایسی پالیسی کی شدید مخالفت کے آثار نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب اسی علاقے کے نوجوانوں کا ایک طبقہ روشن خیالی کے نعروں اور سوچ سے مرعوب و متاثر دکھائی دیتا ہے۔ مقامی طور پر اس سوچ کو ہوا دینے کی کچھ مثالیں ثقافتی پروگرامز اور خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی انسان دوست گروہوں کی سرگرمیاں ہیں۔ اتفاقا ثقافت کے نام پر کی جانیوالی سرگرمیوں کو بھی ستر کی دہائی کے بعد سے باقاعدہ ایک نئی فکر کے ساتھ علاقے سے ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا جدیدیت کے جتنے زینے طے کر لے مگر یہ بات اٹل ہے کہ کوئی شریف انسان قدیم جاہلیت کے زمانے کے قبیح کاموں کو اچھا نہیں سمجھتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں اب کچھ لا ابالے منچلے ڈانس پارٹیاں منعقد رہے ہیں۔ یعنی ان کے حصے میں جدید تعلیم اور طرز فکر کی بجائے ایسی جدید مگر قبیح حرکتیں آئیں۔
گلگت بلتستان کے اہل فکر اور ہوش مند افراد کی یہ اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ خطے کو بیرونی عناصر کے ثقافتی یلغار سے بچایا جائے. مروت اور ادب کی آمیزش میں گوندی ہوئی ہماری تہذیب کو کسی اور تمدن سے ملانے کی چنداں ضرورت نہیں. ساتھ ساتھ اہل نظر کایہ بھی قومی فریضہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کی اچانک گلگت بلتستان میں بڑھتی دلچسپی کا ادراک کیا جائے. یہاں کی جدی پشتی عوامی ملکیتی زمینوں کو خالصے والی سرکار کی مشکوک نظروں سے بچایا جائے۔ یہ زمینیں نہ سرکار کی ہیں اور نہ کسی بیرونی شاہ، شیخ یا مسٹر کو تحفے میں دینے کے واسطے پڑی ہیں۔ یہ زمین ہماری ہے۔ہم اس زمین سے ہیں۔سارفہ رنگاہ ہمارا ہے۔نہ سرکار کا ہے اور نہ کسی بیرونی طاقت کی ملکیت ہے۔
تحریر: شریف ولی کھرمنگی(بیجنگ)
وحدت نیوز (آرٹیکل) سب لوگ برابر نہیں ہوتے، سب کو ایک جیسا کہنا اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے، لُٹنے والا اور لوٹنے والا، قاتل اور مقتول، ظالم اور مظلوم نیز دھوکہ دینے والا اور دھوکہ کھانے والاکبھی بھی برابر نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت ساری غلط باتیں پڑھے لکھے لوگوں کی زبان پر بھی جاری رہتی ہیں ، جن میں سے ایک یہی بات ہے کہ جی یہاں تو سب لوگ ہی برے اور فراڈی ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، جہاں بر ے لوگ ہیں وہیں اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ ہم اچھوں کو بروں کے ساتھ خلط ملط کرکے بروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک کسان کے چھ بیٹے تھے، سب کے سب نمازی اور محنتی، بوڑھے کسان نے اپنے بڑے بیٹے کو گھر کا سربراہ بنایا اور بقیہ بیٹوں سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا کہا، اگلے دن گاوں کے دکاندار نے سب سے بڑے بیٹے کو خاندان کا سربراہ بننے پر مبارکباد دی اور دکان پر اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھایا اور گپ شپ میں اسے سگریٹ کے ایک دو کش بھی لگوائے، دوسرےدن بڑے بیٹے نے پھر جا کر دکاندار کو سلام کیا اور سگریٹ کے ایک دو کش لگانے کا خود تقاضا کیا ، تیسرے دن دکاندار نے اسے پورا سگریٹ مفت پلا دیا اور چوتھے دن اسے کہا کہ اگر تم روزانہ میرے پانچ سگریٹ بکواو تو میں تمہیں ایک سگریٹ مفت پلاوں گا، جوان نے کچھ دیر سوچا اور اپنی جیب سے پانچ سگریٹ خریدے اور ایک مفت کا سگریٹ لے کر گھر آگیا، گھر آکر اس نے اپنے بھائیوں کو سگریٹ کے فوائد پر ایک لیکچر دیا اور وہ پانچ سگریٹ اپنے بھائیوں کو بیچ کر اپنے پیسے پورے کر لئے۔ بھائی بھی تو بھائی ہونے کے ناطے اپنے بڑے بھائی پر اندھا اعتماد کرتے تھے، انہوں نے یہی خیال کیا کہ یہ ہمارا بڑا بھائی ہمیں کوئی غلط چیز تھوڑی لا کر دے گا۔
یہ سلسلہ چل نکلا تو ایک دن دکاندار نے کسان کے بڑے بیٹے سے کہا کہ اگر تم سونا لاکر مرے پاس بیچو تو تمہارے پانچ بھائیوں کو بھی منافع ہوگا اور تمہیں بھی پانچ گنا زیادہ منافع دوں گا۔ کسان کے بیٹے نے کہا کہ میرے پاس تو سونا ہے ہی نہیں، دکاندار نے کہا کہ تمہارے گھر میں سونا موجود ہے ذرا اپنی ماں سے پوچھو۔ جوان نے گھر آکر بھائیوں سے مشورہ کیا اور ماں سے معلومات لیں تو دکاندار کی پیشین گوئی بالکل درست ثابت ہوئی، سب بچوں نے مل کر ماں کو سونا بیچنے پر آمادہ کیا، ماں کا سونا بک گیا اور سب بچوں کو اپنے اپنے حصے کا منافع بھی بروقت مل گیا ، سب سے بڑا بیٹا تو پانچ گنا منافع ملنے پر پھولے نہیں سما رہا تھا، اب اس کا دکاندار سے یارانہ اور بھی بڑھ گیا، دکاندار نے ایک دن اسے سمجھایا کہ ان زمینوں پر کب تک کاشتکاری کرو گئے ، یہ زمینیں بیچو اور پیسے کما کر کوئی کاروبار شروع کرو اور فوراً ارب پتی بن جاو، جوان نے گھر آکر بھائیوں سے مشورہ کیا اور کاروبار کے فوائد پر لیکچر جھاڑا، بوڑھے ماں باپ کڑھتے رہے لیکن بچوں نے زمینیں بیچ ڈالیں اور پیسے کما لئے، اب دکاندار نے کہا کہ اتنے پیسوں کا تم کیسے کاروبار کرو گے تمہیں تو کاروبار کا تجربہ ہی نہیں لہذا یہ پیسے اکٹھے مجھے دے دو میں اپنے کاروبار میں لگاوں گا اور منافع تم سب بھائیوں کو ملے گا البتہ تمہیں شریکِ درجہ اول ہونے کی وجہ سے پانچ گنا زیادہ دوں گا۔
جوان نے سر کھجایا ، تھوڑا بہت سوچا اور خوشی خوشی بھائیوں کو دکاندار کے کاروبار میں شریک ہونے کے منصوبے سے آگاہ کیا، سب نے سابقہ تجربے اور بھائی کے رشتے پر اعتماد کی وجہ سے ساری رقم بڑے بھائی کے قدموں میں لا کر رکھ دی۔ اب بڑے بھائی نے وہ رقم اٹھائی اور جاکر دکاندار کی گود میں رکھ دی ، دکاندار نے بہت گرمجوشی سے جوان کا استقبال کیا اور اسے دودھ پتی پلاکر رخصت کیا، اگلے چند دنوں میں دکاندار نے اپنا سارا سامان سمیٹا اور وہاں سے رفوچکر ہوگیا۔ اب عام لوگ تو کسان کے سارے بیٹوں کو ملامت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سارے بیوقوف ہیں لیکن اگر غوروفکر سے کام لیاجائے تو دراصل اس سارے مسئلے کا اصل زمہ دار کسان کا وہ بڑا اور لالچی بیٹا تھا جو کسان کے گھر کا سربراہ تھا اور جس نے سگریٹ کے ایک کش کے لئے اپنے بھائیوں کے اعتماد کو بیچ ڈالا تھا۔
آج اسلامی دنیا کا یہی حال ہے، خانہ کعبہ مسلمانوں کاقبلہ ہے، حرمین شریفین سے امت مسلمہ کا قلبی لگاو ہے، دینی، سیاسی، جغرایافیائی اور منطقی حوالے سے سعودی عرب مسلمانوں کا بڑا، رہبر اور قائد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب جو کچھ کرتا ہے دیگر اسلامی ممالک اسے بسرو چشم قبول کرتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے سعودی عرب ایک بڑے اسلامی بلاک کا قائد ہے ، اسلامی دنیا کے اکتالیس ممالک کی فوج سعودی عرب کے پرچم تلے آج بھی متحد ہے ۔ ایسے میں اگر سعودی عرب عالمی سرمایہ داروں اور دکانداروں کے کہنے پر اسلامی ممالک کو جہادی کلچر میں لپیٹ کر منشیات، ہیروئن، افیون، چرس، کلاشنکوف اور دہشت گرد سپلائی کرتا ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ سارے اسلامی ممالک ایک جیسے ہیں بلکہ سعودی عرب کا کردار سب سے منفرد اور جداگانہ ہے ۔
خصوصاً جب سے سعودی شہزادے نہیں میڈیا میں برملا اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ہم نے وہابی ازم کو بھی امریکہ و مغرب کے مفاد کے لئے عام کیا ہے اس کے بعد مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اپنے اپنے حکمرانوں کو بیدار کرنا چاہیے کہ وہ سعودی عرب پر اندھا اعتماد کرنے کی وجہ سے کہیں دیگر اسلامی مناطق سےبھی ہاتھ نہ دھو ڈالیں۔ آج صورتحال ایسی نہیں ہے کہ سب اسلامی ممالک بے حس ہو چکے ہیں، سب لوگ برابر نہیں ہوتے، سب کو ایک جیسا کہنا اچھے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور برے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے، بلکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ اکثر ممالک ایک بڑا بھائی سمجھتے ہوئے سعودی عرب پر اندھا اعتماد کئےبیٹھے ہیں اور اب مسلمان دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یاتو اپنی ملتوں اور حکومتوں کو سعودی عرب کا اصل چہر ہ دکھائیں اور یا پھر اس اندھے اعتماد کی قیمت چکانے کے لئے تیار رہیں۔
تحریر۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر استعماری آلہ کاروں کی کوئی جگہ نہیں۔ ہم ظلم کے مخالف اور مظلوم کی حامی ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ہمارا اصولی موقف ظلم اور ظالموں کے خلاف تھا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام سیمینار بعنوان ’’وحدت اسلامی اور استحکام پاکستان‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سید ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین نے شیعہ سنی اتحاد کو عملی شکل دی ہے۔ ایسے کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے جو تکفیریت کی تقویت کا باعث ہو۔ پاکستان میں پہلی اکثریت وہ اہلسنت ہیں جو لبیک یارسول اللہ ﷺ اور لبیک یاحسین ؑ کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سفارتی اہلکار کی جانب سے بےگناہ پاکستانی شہری کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملوث اہلکار کو قانون کے مطابق سزا سنائی جائے، انہوں نے قاتل سفارتکار کی رہائی کی شدید مذمت کی۔