The Latest
وحدت نیوز(آرٹیکل) جنرل (ر) راحیل شریف پاکستان کی تاریخ میں واحد جنرل گذرے ہیں جنہیں پاکستانی قوم نے خوب عزت دی یہاں تک کہ انکی ریٹارئرمنٹ کے معمالہ پر بھی قوم نے افسردگی کا اظہار کیا گیا ، جنرل (ر) راحیل شریف کی وجہ مقبولت انکا دہشتگردوں کے خلاف سخت اقدام، فوجی عدالتوں کے ذریعہ دہشتگردوں کو سزائیں دلوانا اور قومی وقار کو بلند کرنا تھا، عوام ان سے بے حدمحبت کرتی اور انہیں قومی ہیرو تسلیم کرتی تھی حتیٰ کہ سول قیادت سے زیادہ فوجی قیادت پر عوام کا اعتماد تھا۔
لیکن جنرل (ر) صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد انکی بڑھتی ہوئی مقبولیت میں اس وقت کمی واقع ہوئی جب انہوں نے سعودی عرب کی قیادت میں بنے والے ایک متنازعہ فوجی اتحاد کی قیاد ت سنبھالنے کی ذمہ داری قبول کی، اسکی وجہ خود سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے یہ نام نہاد اسلامی اتحاد تھا جسکے اہداف اور عزائم تک دنیا کے سامنے آشکار نہیں ، جبکہ اس اتحاد کی تاسیس ہی ایک ایسے ڈرامائی انداز میں ہوئی جس کی وجہ سے اس اتحاد پر کافی سوالات اُٹھےمثال کے طور پر ۱۵ دسمبر کو اس سعودی فوجی اتحاد کا قیام عمل میں آیا، باقاعدہ سعودی نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمدبن سلمان نے اس فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا جس میں کہا گیا سعودی عرب کی قیادت میں بنے والے اس فوجی اتحاد میں34اسلامی ممالک شامل ہیں ، ان 34ممالک میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا،اگلے دن ۱۶ دسمبر کے اخبارات اور نیوز ویب سائٹ سرچ کرکے دیکھے جاسکتے ہیں پاکستانی وزارت خارجہ نے صاف صاف اعلان کردیا تھا کہ پاکستان کو اس سعودی اتحاد کے قیام کا علم نہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سیکرئٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا تھا کہ سعودی قیادت میں بنے والے فوجی اتحاد میں پاکستان کا نام سن کر حیرانی ہوئی ہے، انہوںنے کہاکہ ریاض میں موجود پاکستانی سفیر سے اس خبر کی وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔
اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ سعود ی عرب نے پاکستان کے ساتھ بادشاہ اور غلاموں والا سلوک رو رکھا تھا ،بادشاہ کے بیٹے نے پاکستان کو یہ بتانا بھی گوار ا نہیں کیا کہ وہ پاکستان کو فوجی اتحا د میں شامل کررہے ہیں۔
یقیناً پاکستان کی گستاخی بادشاہ سلامت کو ناگوار گذری ہوگی اور انہوںنے ہمارے بخشو حکمرانوں کی جب کلاس لی اور انہیں احسانات یاد دلائے ہونگے تو پھر کھسیانی بلی کی طرح اس اتحاد میں شامل ہونے کی خبر یں بھی سامنے آنے لگیں ،لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس اتحاد میں شامل ہونے کی واضح مخالفت کی تھی ،پارلیمنٹ سے منظوری نا ملنے کے بعد بادشاہ سلامت نے مذہبی کارڈ استعمال کیا او ر پھر ہم نے دیکھا یہ نائب ولی عہد سے لے کر امام کعبہ تک نے پاکستان کے دورہ جات کیئے اور اس اتحاد میں شامل ہونے کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشیش کی، پاکستان کی شدت پسند نظریات کی حامل جماعتوں سے ان شخصیات کی مسلسل ملاقتوں اور سعودی عرب کے سرکاری دورہ جات کے بعد دفاع حرمین شرفین کانفرنسز، ریلیاں، جلسے جلوس اور فارم تشکیل پاتے بھی ہمیں دیکھائی دیئے ، یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ، لیکن پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے فیصلہ کرنے والے ادارے پارلیمنٹ اور اپوزیشن جماعتیںاور کئی صحافتی و سنجیدہ حلقے ناصرف جنرل راحیل شریف کے اس اتحاد کے سربراہ بننے بلکہ یمن جنگ میں براہ راست ملوث ہونے پر شدید مخالف ہیں۔
اس مسئلے کو جاننے کے لئے اس سعودی فوجی اتحاد کے بننے اور اسکی مخالفت کرنے کی وجہ کو باریکی سے سمھجنے کی ضرورت ہے۔
سعودی اتحاد کیوں بنا؟
سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے ۱۵ دسمبر ۲۰۱۶ کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ سعودی عرب کی قیادت میں دہشتگرد ی کے خلاف جنگ کے لئے ایک نیا اسلامی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے یہ اتحاد سعودی عرب کی قیادت میں کام کرے گا اور اس کا ہیڈ کوارٹرز ریاض میں قائم کیا جائے گا۔ اس اتحاد کا مقصد دہشت گردی اور زمین پر فساد برپا کرنے والے اداروں اور گروہوں کے خلاف جنگ کو مربوط بنانا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ 34 مسلمان ملکوں کا یہ اتحاد مسلک اور عقیدہ کی تخصیص کے بغیر ہر اس گروہ کے خلاف کارروائی کرے گا جو دہشت گردی کے ذریعے معصوم افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اسلامی ملکوں کے اس نئے عسکری اتحاد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا اعلان سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نےخود کیا کیونکہ عام طور سے شاہی قیادت اس طرح میڈیا کے ذریعے پیغام پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی، شہزادے محمد بن سلمان نے اپنے بیان میں کہا کہ عراق ، شام ، لیبیا ، مصر اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مربوط کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ یہ اتحاد اس وقت عمل میں آیاتھا جب یمن میں سعودی عرب کو بری طرح شکست کا سامنا کرناپڑ ا، عرب ممالک پر مشتمل فوج یمن میں ان عزائم کو حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تھی جسکے کے لئے سعودی عرب کی جانب سے یمن پر یہ جنگ مسلط کی گئی تھی، جبکہ اقوام متحد ہ کی جانب سے یمن میں جنگ بندی کروانے کے بعد محمدبن سلمان نے اپنی شکست چھپانے کے لئے اس نئے اسلامی اتحاد کا ڈرامہ کیا یہی وجہ تھی کہ اس اتحاد میں شامل کیئے جانے والے بیشتر ممالک اس اتحاد کے حوالے سے لاعلم تھے، کیونکہ یہ اتحاد یمن میں جنگ بندی کے بعد فوراً ری ایکشن کےطور پر سامنے آیا تھا۔ لہذا اس اتحاد میں انہی ممالک کو سعودی عرب کی جانب سے شامل کیا گیا جنکےبارے میں انہیں یقین تھاکہ بغیر بتائے بھی یہ ممالک سعودی اتحاد میں شامل ہونے پر راضی ہوجائیں گے، جبکہ اسکے مقابل وہ ممالک جو سعودی سیاسی تسلط سے آزاد ہیں انہیں اس اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔دوسری جانب اس دوران شام و عراق میں بھی سعودی عزائم کافی حد تک خاک میں مل رہے تھے۔
ایک اور اہم نقطہ کہ محمد بن سلمان نے اعلان کیا کہ عراق ،شام ،مصر وغیرہ میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی جائے گی لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ متاثرہ ممالک اس اتحاد میں شامل نہیں، جبکہ یمن کا نام محمد بن سلمان کی جانب سے براہ راست نہیں لیا گیا جس سے وہ برسرپیکار ہیں۔
لہذا خلاصہ سامنے آیا کہ اس اتحاد کے ظاہری مقاصد کے ساتھ ساتھ خفیہ مقاصد بھی ہیںجو وقت کے ساتھ ساتھ آشکار ہورہے ہیں، جسکی ایک مثال عرب میڈیا کی اس خبر کے بعد سامنے آئی کے پاکستانی فوج کو یمن بارڈر پر تعینات کردی گئی ہے، اسی طرح کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ سعودی عرب اپنی بادشاہت کے تحفظ کے لئے ایک عسکری اتحاد تشکیل دے رہا ہے کیونکہ تیزی سے تبدیل ہوتے علاقائی حالات اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ آل سعود کی بادشاہت اب زیادہ عرصہ چلنے والی نہیں۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اتحاد عالم اسلام کے بنیادی ترین مسئلہ فلسطین پر خاموش ہے ، یہ خاموشی اس بات کی جانب اشارہ کررہی ہے اس اتحاد کی اصل کمان امریکا و اسرئیل کے ہاتھ میں ہے اور شام و عراق و یمن میں داعشی پروجیکٹ کی ناکام کے بعد اس اتحاد کے ذریعہ مکروہ عزائم حاصل کیے جائیں گے ۔
سعودی اتحاد اور پاکستان
اس سعودی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر پارلیمنٹ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا کہ ہم کسی بھی بین الاقوامی مسئلہ میں خود کو شامل نہیں کرسکتے جبکہ ہم خود حالات جنگ میں ہیں، دوسری جانب سے یہ رائے بھی سامنے آئی تھی کہ پاکستان مسلم ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے ناکہ کسی کا فریق بن جائے کیونکہ روز روش کی طرح یہ بات عیاں ہے کہ سعودی فوجی اتحاد یمن کے خلاف تشکیل پارہا ہے جبکہ دوسر ی جانب اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے اس اتحاد کو سعودی عرب ایران کے مشرق وسطی اور افغانستان میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کے لئے استعمال کرے گا یہاں سے یہ اتحاد فرقہ وارانہ رنگ بھی اختیار کرلے گا۔لہذا پاکستان کی باوقار پارلیمنٹ میں اس جنگ سے دور رہنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن ہمارے بخشو حکمران بادشاہ سلامت کی نافرمانی کرنے سے خود کو نا روک سکے۔
جنرل راحیل شریف اور سعودی اتحاد
جنرل (ر) راحیل شریف کی شخصیت بھی اس اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے داغ دار ہورہی ہے،جسکا براہ راست فائدہ لیگی حکمرانوں کو پہنچ رہا ہے ، سامنے جنرل صاحب کو رکھ کر یہ لیگی حکمرانوں عرب بادشاہوں سے اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنارہے ہیں، دوسری جانب جنرل صاحب نے اعلان کیا تھا کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کی صورت میں اس اتحاد کی کمان سنبھالیں گے، اب جبکہ وہ قیادت سنبھالنے جارہے ہیں تو کیا ہمیں یہ سمھجنا لینا چاہئے کہ سعودی عرب نے جنرل صاحب کوثالثی کا کردار ادا کرنے کی اجازت دیدی ہے ؟ کیا بادشاہ صفت افراد سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو اتنے اختیارات دیے دیں گے؟
سابق لیفٹنٹ جنرل عبدالقادر بلوچ جو کہ وفاقی وزیر بھی انہوںنے بھی ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جنرل (ر) راحیل شریف اگر اس فوجی اتحاد کی قیادت کو قبول کرتے ہیں وہ متنازعہ شخصیت بن جائیں گے اور جو بھی عزت انہوںنے کمائی ہیں وہ گنواں بیٹھیں گے۔
واضح رہے کہ ۲۵ مارچ کو ملک کے وزیر دفاع نے اپنے ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ حکومت نے سعودی درخواست پر جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کا این او سی جاری کردیا گیا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس مسئلے کو ایک با ر پھر پارلیمنٹ میں اُٹھانے کا اعلا ن کیا ہے۔
پاکستان کو اس اتحاد کا حصہ کیوں نہیں بنانا چاہئے!
کیونکہ
پاکستان افغانستان کے مسئلے میں شامل ہونے کا نتیجہ دیکھ چکاہے، جسکا خمیازہ ہم ۳۰ سال سےسہہ رہے اور ۶۰ ہزار پاکستانی افغان جنگ کے نتیجے میں اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اس اتحاد میں شامل ہونا پاکستان کی واضح خارجہ پالیسی کی نفی ہے ، کیونکہ ہمارا آئین ہمیں اسلامی ممالک سے خوش گوار تعلقات استوار کرنے پر زور دیتا ہے،اس اتحاد میں شامل ہوکر اسلامی دنیا میں پھوٹ پڑنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہونے والے۔
اس اتحاد میں شامل ہونا سعودی جرائم میں پاکستان کو شامل کرنے کے معترادف ہوگا، کیونکہ کسی سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ سعودی عرب ہی دنیا بھر میں شدت پسند تنظیموں اور دہشتگردوں کو مالی و لوجسٹک تعاون فراہم کرتا رہا ہے۔
اس اتحاد کو عالمی سطح پر ایران مخالف اتحاد سمجھا جارہا ہے، جبکہ ایران پاکستان سے اپنے بارڈر بھی شیئر کرتا ہے لہذا پڑوسی سے تعلقا ت بگاڑ کر سمند پار بیٹھے بادشاہ کو خوش کرنا بے وقوفی تصور کی جائے گی۔
اس اتحاد کے ذریعہ پاکستانی فوج کے لئے عالم اسلام خصوصاً ان ممالک میں جہاں سعودی عزائم کی تکمیل کے لئے یہ اتحاد استعمال ہوگا وہاں کے مسلمانوں کے دلوں میں احساسات اور جذبات میں کمی واقع ہوگی۔
پاکستان کے اندار موجود ۵ کڑور سے زائد شیعہ مسلمانوں کے خدشات میں اضافہ ہوگا۔
کیونکہ اس لئے کہ پاکستان کا کسی بین الاقوامی الائنس میں شامل ہونے کا فیصلہ تنہا وفاقی حکومت نہیں کرسکتی ۔
لہذا پاکستان ملک کی مخلص قیادت ،پارلیمنٹ اور حکمرانوں سے بھی درخواست ہے خدارا ماضی کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے ملک کو کسی نئی دلدل میں داخل ہونے سے بچائیں، ہم نے عالم اسلام کے تمام مسائل کو حل کرنے کا ٹھیکا نہیں اُٹھا رکھا ، اگر سعودی عرب کی حکومت گرتی ہے تو گرنے دیں کیونکہ اپنی اس حالت کے ذمہ دار وہ خود ہیں، اور رہی با ت حرمین شرفین کی تو اسکی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے اُٹھائی ہے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
تحریر۔۔۔۔سید احسن مہدی
وحدت نیوز (راولپنڈی) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین راولپنڈی کے زیراہتمام خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کی مناسبت سے امام بارگاہ یادگار حسینی میں یوم خواتین و روز مادر کی تقریب کا انعقاد ہوا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیرت و عظمت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ مادر حسنین کریمین علیہم السلام کی تعلیمات کو عملی زندگیوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے، معاشروں کی تشکیل متعدد گھرانوں سے وجود میں آتی ہے اور گھرانوں کی تربیت مائیں کرتی ہیں۔ اگر تربیت اعلٰی خطوط پر ہوگی تو معاشرے اعلٰی اوصاف سے مزین ہوں گے۔ ناقص تربیت معاشرے کو تنزلی اور بدعملی کا شکار بناتی ہے۔ ہمارے پاس آئمہ اطہار علیہم السلام اور ان کے بعد مجتہدین عظام کی زندگیاں اس طرح کی لاتعداد مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ دور حاضر میں دشمن ہر طرف سے ہم پر حملہ آور ہے۔ ثقافتی یلغار کے ہتھیار سے ہماری روایات کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی پروگراموں کی ذریعے پرتعیش زندگی، مغربی ملبوسات، جدت پسندی، مادیت پرستی اور ہندوانہ ثقافت کی تشہیر سے ہیجان انگیز فکری تبدیلی لائی جا رہی ہے۔ علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی نسلوں کو اس سے بچانا ہوگا۔ اس سلسلے میں خواتین کا کردار ہی اہم ہے۔
شعبہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری جنرل زہرا نقوی نے کہا کہ اسلام کی تاریخ میں ماؤں کا کردار بے مثال رہا ہے۔ واقعہ کربلا میں دین حق کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اصحاب باوفا جس بے تابی کا اظہار کر رہے تھے، وہ باکردار ماؤں کی تربیت کا ہی مرہون منت ہے۔ ایم ڈبلیو ایم راولپنڈی کی سیکرٹری جنرل سیدہ قندیل کاظمی نے کہا کہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی حیات مبارکہ ہر میدان میں ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ بیٹی، بیوی اور ماں کے روپ میں ان کے عظیم کردار کا لفظی احاطہ ممکن نہیں۔ ان کی معرفت کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ کائنات کی وہ واحد شخصیت ہیں، جن کی آمد پر سردار الانبیاء نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی جگہ سے کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا اپنی نسلوں کو فکری تنزلی سے بچانے کا واحد حل سیدہ سلام اللہ علیہا کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔ تقریب میں جڑواں شہروں سے خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ شرکاء کے لئے سوال و جواب کی نشست کا بھی اہتمام تھا اور کامیاب ہونے والوں میں انعامات بھی تقسیم کئے گئے۔
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام تحفظ مزارات اولیاء اللہ کانفرنس دربار عالیہ حضرت شاہ شمس تبریز پر منعقد ہوئی، کانفرنس میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے 50 سے زائد سجادہ نشینوں کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام و مشائخ عظام نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور کھڑے ہو کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اولیاء اللہ کے مزارات کے تحفظ کے سلسلے میں اظہار یکجہتی کیا گیا اور مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاکستان میں تکفیری قوتوں کی طرف سے مزارات اولیاء اللہ، صوفیائے کرام پر دہشت گردی کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ دربار عالیہ حضرت لعل شہباز قلندر، حضرت داتا گنج بخش، حضرت بری امام، دربار حضرت شاہ نورانی، حضرت رحمان بابا، حضرت عبداللہ شاہ غازی سمیت دیگر درگاہوں پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے بارے میں قوم کو آگاہ کیا جائے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ مزارات اولیاء اللہ شعائراللہ ہیں، ان کو بند کرنا تکفیری و دہشت گردوں کی سازش ہے، حکمران ان سازشوں کو ناکام بنائیں اور مزارات کو بند کرنے سے باز رہیں، نیشنل ایکشن پلان پر اس کی مکمل روح کے مطابق عمل کیا جائے، ردالفساد آپریشن کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلایا جائے اور اچھے و برے دشمن کے تصور کو ختم کرتے ہوئے تمام ملک دشمن عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے، دین مبین کی سربلندی اور پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کو ہم اپنا ایمان اور نصب العین تصور کرتے ہیں، کرکٹ میچز مثبت اقدام جو دہشت گردوں کو شکست دینے کے لئے کرائے جا رہے ہیں تو پھر دہشت گردوں اور تکفیری قوتیں جو اولیاء کے مزارات کو بند کرانا چاہتی ہیں، ان دہشت گرد قوتوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے، وطن عزیز پاکستان کو اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں، پارلیمنٹ کی منظور کی گئی قراردادوں کے مطابق کسی جنگ کا حصہ نہ بنا جائے، مزارات اولیاء کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور تعلیمات اسلام کے مطابق ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، اوقاف کے ذمہ داران مزارات کے سجادہ نشینوں کے مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔
اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ سکیورٹی انتظامات کو یقینی بنائیں، نہ کہ زائرین کے ہدیہ اور نذرانوں کی وصولی تک محدود رہیں، ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی دراصل اولیاء اللہ، صوفیاء کرام کی تعلیمات سے روگردانی کا نتیجہ ہے، ان کی تعلیمات نصاب تعلیم میں شامل کی جائیں، کوٹ مٹھن شریف میں دربار پر جاری پابندیوں کو فوری ختم کیا جائے، درگاہ حضرت شاہ شمس سے ملحقہ میلہ گرائونڈ کی چار دیواری، میلہ گرائونڈ سے گزرنے والے زائرین کے لئے واحد راستہ اور مغرب و مشرق کی جانب گیٹ فوری طور پر تعمیر کیا جائے، تاکہ ماہ جون میں حضرت شاہ شمس تبریز کے نام سے منصوب زائرین کے لئے ثقافتی میلے کے انعقاد کو یقینی بنایا جا سکے۔ کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی سمیت سید احمد مجتبٰی گیلانی، سید اسد عباس نقوی، مخدوم عباس رضا مشہدی، خواجہ غلام فرید کوریجہ، مخدوم طارق عباس شمسی، مخدوم زاہد حسین شمسی، مخدوم زمرد حسین بخاری، محمد عباس صدیقی، رانا فراز نون، عثمان بھٹی، مخدوم زادہ حسن زمرد نقوی، مہر سخاوت سیال، علامہ علی انور جعفری، مولانا ہادی حسین، مولانا قاضی نادر حسین علوی، مخدوم مدثر محمود (تونسہ شریف) عنائیت اللہ مشرقی، سید اعجاز حسین زیدی، ثقلین نقوی، سفیر حسین شہانی، محمد اصغر تقی، علی رضا طوری، احسان اللہ خان، ندیم کاظمی، سید نعیم کاظمی، مرزا وجاہت علی سمیت دیگر نے شرکت کی۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن شعبہ خواتین کے زیر اہتمام جشن ولادت باسعادت خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکی مناسبت سے ایک عظیم الشان جلسہ بعنوان ’’یوم خواتین وروز مادر‘‘المحسن ہال فیڈرل بی ایریا کراچی میں منعقد ہوا جس میں خصوصی خطاب مرکزی سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان قائد وحدت ناصر ملت حضرت علامہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ اور مرکزی سیکریٹری جنرل شعبہ خواتین مجلس وحدت مسلمین پاکستان خانم سیدہ زہرا نقوی نے کیا، جبکہ مختلف نعت ومنقبت خواں خواتین اور بچیوں نے بارگاہ جناب سیدہ (س)میں نذرانہ عقیدت پیش کیا، خواتین کارکنان کی جانب سے اپنے محبوب، جری، اور نڈر لیڈر کی آمد پر پرجوش استقبال،قائد وحدت کی آمد پر پورا پنڈال لبیک یاحسین ؑ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا،اس شاندار جشن کی محفل میں شہر کے مختلف علاقوں سے ایم ڈبلیوایم کی خواتین کارکنان سمیت دیگرمومنات نے بھی سینکڑوں کی تعداد میں شرکت کی،جشن کے اختتام پر مقابلہ مضمون نویسی اور نعت خوانی میں کامیاب ہونے والی خواتین اور بچیوں میں نقد انعامات قائد وحدت کے دست مبارک سے تقسیم کیئے گئے ، اس موقع پر خواتین سے متعلق ۵۰ مختلف اقسام کے اسٹالز بھی لگائے تھےجو کے شرکاء کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
وحدت نیوز(لاہور) انتہا پسندی کیخلاف مثبت سوچ کے حامل اور محب وطن قوتوں کومتحد ہو کرکردار ادا کرنا ہوگا،دشمن ہمیں تقسیم کر کے کمزور کرنا چاہتے ہیں،پاکستان کو مسلم ممالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے لئے کردار ادا کرنا چاہیئے،ہمیں جہاد افغان پالیسی سے سبق سیکھنا ہوگا،جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے،حکومت کی جانب سے سابق آرمی چیف کو متنازعہ فوجی اتحاد کے سربراہی کے لئے بھیجنے کا اعلان قوم کو ایک اور دلدل کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہیں،ذاتی تعلقات پر ملکی مفادات کو داوُ پر لگانے کی قوم اجازت نہیں دے گی،دہشتگردوں کے سرپرست دنیا بھر میں شکست کھا رہے ہیں،آج مسلم امہ کے درمیان اختلافات کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنے کا وقت ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی نے ایم ڈبلیوایم لاہور کے زیر اہتمام یوم پاکستان کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب میں کیا انہوں نے کہا کہ ہماری کمزور خارجہ پالیسی موجودہ حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے،انڈیا کی مسلسل لائن آف کنٹرول پر بزدلانہ کاروائیوں کا بھر پور جواب دینا ہوگا،دشمن ہمیں مختلف محاذوں پر مصروف کرکے اقتصادی راہ داری کو متاثر کرنے کی کوشش میں ہے،ہمیں اپنے گھر کو بچانا ہے،دنیا جانتی ہے کہ کہ ان سفاک دہشتگردوں کے سرپرست کون ہے،انشااللہ ہم شہدائے پاکستان کے پاکیزہ لہو کو فراموش کرنے نہیں دینگے،ملک و قوم کیخلاف ہونے والی سازشوں کو انشااللہ بے نقاب کرتے رہیں گے۔
وحدت نیوز(اسلا م آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا ہے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش میں شمولیت کے لیے پاکستانیوں کے جانے کی اطلاعات تشویشناک ہیں۔اعلی تعلیم یافتہ افراد کی داعش کے نظریہ سے ہم آہنگی ملک میں ایسے عناصر کی موجود گی کا بین ثبوت ہے جو منفی سمت میں نا پختہ ذہنوں کی فکری رہنمائی کرنے میں مصروف ہیں۔تعلیمی اداروں میں تکفیری رجحان کا فروغ انتہا ئی خطرناک ہے اور انتہا پسند قوتوں کی غیر معمولی کامیابی ہے۔قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث یہ عناصر ملک کے لیے سخت خطرہ اور عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو داغدار کرنے کے باعث بن رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں سے معصوم ذہنوں کو بچانے اور تکفیریت کی حوصلہ شکنی کے لیے ضروری ہے کہ تکفیریت کے خلاف مضامین نصاب تعلیم میں شامل کیے جائیں تاکہ یہ عناصرناپختہ فکر کے حامل اورمعصوم افراد کو گمراہ نہ کر سکیں۔ دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے صرف عسکری کوششیں کافی نہیں بلکہ قلم کی طاقت کو بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس عفریت سے مستقل چھٹکارا دہشت گردوں کی محض کمین گاہوں کے تدارک سے ممکن نہیں بلکہ فکری نشونما کے لیے بہترین حکمت عملی کا مرتب کیا جانا بھی ضروری ہے۔انہوں نے کہا کالعدم جماعتوں کے ان تمام مدارس کا آپریشن کیا جائے جہاں رواداری، اور اخوت و اتحاد کی بجائے عدم برداشت،انتہا پسندی اور نفرت کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر حکومت کی طرف سے تکفیریت کے خلاف مہم کا آغاز ہونا چاہیے اور کالعدم جماعتوں سے تعلق رکھنے کو ریاست کے خلاف جرم قرار دیا جائے۔
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام ''تحفظ مزارات اولیاء اللہ کا نفرنس''آج دربار حضرت شاہ شمس ملتان میں منعقد ہوگا، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما ملتان پہنچ گئے، تیاریاں مکمل،کانفرنس کے آخر میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ ایم ڈبلیو ایم کے ترجمان ثقلین نقوی کے مطابق مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام منعقد ہونے والی''تحفظ مزارات اولیاء اللہ کا نفرنس'' کی تیاریاں مکمل ہوگئیں، گزشتہ رات علامہ اقتدار حسین نقوی نے صوبائی کابینہ کے ہمراہ دربار کا دورہ کیا۔ اس موقع پرمحمد عباس صدیقی، مہر سخاوت علی،وسیم عباس زیدی،سید ندیم عباس کاظمی، ثقلین نقوی اور دیگر موجود تھے۔ ثقلین نقوی کے مطابق ایم ڈبلیو ایم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی، سید ناصر عباس شیرازی اور سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی ملتان پہنچ گئے ہیں، دربار شاہ شمس پر کانفرنس کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں ہیں، کانفرنس میں جنوبی پنجاب بھر کے مزارات کے سجادہ نشین حضرات شرکت کریں گے، کانفرنس کے آخر میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل سید میثم رضا عابدی نے کہا ہے کہ سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کیجانب سے حیدرآباد سے لاپتہ میڈیکل کی طالبہ اور کراچی سمیت سندھ بھر سے درجنوں طالبات کی عالمی دہشتگرد گروہ داعش میں شمولیت اور شام جانے کے انکشاف نے پاکستان میں داعش کی موجودگی اور پاکستانی نوجوانوںکی اس میں شمولیت سے انکاری ریاستی اداروں کی کارکردگی اور دعوو ¿ں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے وحدت ہاو ¿س کراچی میں ہنگامی کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اجلاس سے علامہ مبشر حسن، علامہ صادق جعفری، علامہ اظہر نقوی، علامہ علی انور جعفری، میر تقی ظفر و دیگر نے بھی خطاب کئے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کراچی کے رہنماوں نے کہا کہ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی حیدرآباد کی طالبہ کی پاکستان سے شام جاکر داعش میں شمولیت کا انکشاف اگر حقیقت ثابت ہوتا ہے، تو ملک وقوم کیلئے لمحہ فکریہ ہوگا اور قومی سلامتی کے اداروں کی کارگردگی پر ایک سوالیہ نشان ہوگا، پاکستان میں داعش کا وجود نہیں،داعش کو پاکستان میں قدم رکھنے نہیں دینگے، داعش یہاں اپنا سکہ نہیں جما سکتی، جیسے سب دعوے دھرے کے دھرے ثابت ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس کے اعلیٰ افسر نے حیدرآباد کی طالبہ کے شام جانے اور داعش میں شمولیت سے متعلق انکشافات ثابت کرتا ہے کہ داعش سندھ میں اپنا نیٹ ورک اتنا مضبوط کرچکی ہے کہ اب تعلیمی اداروں میں اپنے نظریات کی وسیع پیمانے پر تشہیر کرچکی ہے اور سادہ لوح نوجوانوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طالبات بھی اس کے جال میں پھنس رہے ہیں، ایک طالبہ کو داعش کیلئے تیار کرنے میں کئی سہولت کار عناصر ملوث ہوں گے، طالبہ کا حیدرآباد سے لاہور جانا، اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ دہشتگرد گروہ داعش کے سہولت کار پورے ملک میں موجود ہیں۔
رہنماو ں نے کہا کہ سندھ بھر کی درجنوں طالبات کے داعش میں شامل ہونے کو بھی محض افواہ قرار دے کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے، تعلیمی اداروں کی صورت حال بہت زیادہ تشویشناک ہے اور اندرون سندھ داعش سمیت کئی شدت پسند گروہ سرگرم عمل ہیں اور یہ گروہ خاموشی سے پروفیشنل یونیورسٹیوں سمیت اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کے درمیان تیزی کام کر رہے ہیں اور انہیں اپنی جانب راغب کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملکی سلامتی کے ذمہ دار اداروں، وفاقی و صوبائی حکومت کو آپریشن ردالفساد اور نیشنل ایکشن پلان کو ناکامی سے بچانے کیلئے داعش کے حوالے سے بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، ان کے عزائم کو فی الفور ناکام بنانا ہوگا، یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں جہاں کہیں ان کے سہولت کاروِں کے موجود ہونے کا انکشاف ہو، ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے، کیونکہ کچھ عرصہ قبل تک وزارت داخلہ پاکستان میں داعش کے وجود سے بھی انکاری تھی، لیکن اب داعش کی جانب سے پاکستان میں کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے اور تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنے دہشتگرد نیٹ ورک کا حصہ بنانے کے بعد وزارت داخلہ کا مو ¿قف غلط دکھائی دے رہا ہے۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین کے زیر اہتمام عظیم الشان جلسہ عام بعنوان ’’یوم خواتین وروز مادر‘‘بسلسلہ ولادت خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا (س)سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ذات مبارک سیدہ زہرا(س) تمام عالم بشریت کیلئے زمان ومکان سے ماورااسوہ حسنہ ہے،اس عالم کی کامل ترین ہستی ذات اقدس مادر حسنین ؑ ہے،چودہ صدیوں سے ظلم کے خلاف مبارزہ اور میدان میں حضورآپ (س) کی تعلیمات کا خاصہ ہے،جوکہ نا فقط خواتین بلکہ مردوں کیلئے بھی مشعل راہ ہے،ایم ڈبلیوایم سے وابستہ خواتین اپنی انفرادی، گھریلواورمعاشرتی تربیت کے لئے شہزادی کونین (س)کی سیرت کی پیروی کو اپنا شعار قرار دیں ۔
انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ضیائی باقیات ، ضیاء الحق کی احمقانہ پالیسوں ، افغان جہاد اور دیگر اسلامی ممالک میں مداخلت کو جاری رکھ کر پاکستان کو نئی مشکل میں دھکیل رہی ہیں ،امریکہ، اسرائیل اور سعودی جہنمی اتحاد پاکستان کو فتنوں کی دلدل میں دھکیل ڈالےگا،جنرل (ر) راحیل شریف کے سعودی ،امریکی اور اسرائیلی ملٹری الائنس کے سربراہ مقرر ہونے کی منظوری کی خبر پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹر ی جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اتحادبیت المقدس اور کشمیر سمیت دیگر مظلوم مسلمانوں کے دفاع کے لئے نہیں بلکہ اسرائیل اور اسکے ساتھوں کے تحفظ کے لئے تشکیل پایا ہے، نواز حکومت ضیائی پالیسی کو اپنا کر ملک کو ایک نئے بحران میں دھکیل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں یمن جنگ میں شامل نا ہونے کی قرار داد منظور کی تھی اور کہا گیا تھا کہ پاکستان ثالثی کا کردار ادا کریگا ، لیکن بغیر پارلیمنٹ کے منظور ی کس طرح نواز حکومت نے سعودی عرب کو اجاز ت دید ی؟ نواز حکومت ہمارے جنرل کو ایک فرقہ وارانہ الائنس کا سربراہ بنارہی، جسکی پاکستان کے ہر مخلص طبقہ کو مذمت کرنی چاہیے، یہ جہنمی مثلثی اتحاد پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر کھوکلا کرڈالے گا، اس اتحاد میں شمولیت سے پاکستان کے ہاتھ تباہی وبربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، وطن کی تمام محب وطن سیاسی ومذہبی قوتوں کوپاکستان کے اس منحوس شیطانی اتحاد میں شمولیت اور حکمرانوں کی اس سنگین خیانت کاری کے مقابل صف آراءہو نا ہوگا، انہوں نے کہاکہ پاناما کیس اور میموگیٹ میں پھنسے حکمران اب پاک افواج کو بھی یمن کی دلدل میں پھنسا رہے ہیں،یہ پاک افواج کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی سازش ہے۔
ان کامزید کہنا تھاکہ پہلے ہی بحرین کے عوام پاکستانی حکمرانوں سے شکوہ کررہے ہیں کہ انکے بھیجے ہوئے کرائے کے قاتل بحرینی عوام کو آل خلیفہ کی پولیس کے ساتھ مل کر قتل کررہے ہیں، اب ایک نئی جنگ میں خود کو شامل کرکے ہم عالم اسلام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، پاکستان امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی علامت بننے کی بجائے آل سعود کی فرقہ وارانہ پالیسوں کا حصہ نہیں بن سکتا، اس الائنس کا حصہ بننا پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں بلکہ نواز حکومت کے مفاد میں ہے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) قرار داد پاکستان کے وقت قائداعظم نے فرمایا کہ "لفظ قوم کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہے اور اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحدہ وطن اپنا علائقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہئے ، ہم چاہتے ہیں کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہم سایوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کریں اور اپنی روحانی ، ثقافتی ،معاشی ، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو اس طریق پر زیادہ سے زیادہ ترقی دیں جوہمارے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نسب العین سے ہم آہنگ ہو ۔"
اے قائد تیرااحسان ہے ہم پر کہ ہمیں ہماری شناخت دی ہمیں آزادی دلائی ہمیں اپنا وطن دیا جس پر ہم جتنا فخرکریں کم ہے کہ ہم غلامی کی
ذلت سے سے آزادی و حریت کی عزت وعظمت سے ہمکنار ہوئے مسلمانوں کے اس وطن میں کہیں بھی لسانی ، سیاسی یا فرقہ ورانہ گروہ بندی کا کوئی شائبہ تک نہیںتھا ، مگر دشمن کو یہ بہت ناگوار گذرا اس نے اس وقت سے لے کر آج تک ہم سے اسی کا بدلہ لینا شروع کیا جو ہم نے اتحاد آپ کی قیادت میں دکھایا دشمن نے آپ کوبھی بہت دکھ دیئے اور ساتھ ساتھ آپ کی دلائی ہوئی آزادی کو بھی پارہ پارہ کردیا دشمن کا ہمیں کوئی ڈر اور دکھ نہیں مگر اب تو شکوہ اپنوں کا ہے ۔
آج کسی دوست نے پیغام بھیجا کہ مردم شماری والے دوسری معلومات کے ساتھ جب مسلم لکھواتے ہیں تو فرقے کے بارے میں بھی پوچھتے ہیں کہ سنی ہو یا شیعہ اگر کوئی سنی لکھواتا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ بریلوی ہو دیوبندی اہلحدیث ہو ہووغیرہ وغیرہ ۔یہ سن کر حیرانی ہوئی یہ کون لوگ ہیں جو ہمارے اداروں کو ہماری نسب العین کے خلاف کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور ہماری حکومتیں بھی ان کے آلہ کار کے طور پر ان کے ہی ایجنڈا پر کام کرنا شروع کردیتی ہیں اور قانون اور آئین کی یوں سرعام دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور ادارے خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں اور سب اسمبلیاں جہاں آئین کے تقدس کی رٹ لگی رہتی ہے وہ بھی ایسے خاموش ہو جاتے ہیں جیسے ان کے منہ میں زبان نام کی کوئی چیز ہی نہ ہو خیر ان کو کیا پڑی کہ وہ اپنے آقائوں کے خلاف ہوں جبکہ اس میں ان کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو بڑے بڑے قانون کے ماہر جن کی فیس سن کر ہی ان کے بڑے قانوندان ہونے کا احساس ہوتاہے وہ بھی اس معاملے سے نظریں چرارہے ہیں اور حکومت تو ویسے بھی اپنے جرم چھپانے میں اتنی مصروف ہے کہ اس کو کوئی دوسرا ہوتا ہواجرم نظر ہی نہیں آتا ، اور عدلیہ بھی کیا کرے کہ اس کے پاس سو ئوموٹو کا اب فیشن ہی نہیں رہا یاپھر شاید وہ بھی ایک موسم کی طرح ہی ہوتا ہے ۔
بحرحال جب قرارداد پاکستان اور آئین پاکستان کا مطالعہ کیا جائے تو فرقہ ورانہ تقسیم کہیں نظر نہیں آتی بلکہ پاکستانی من حیث القوم ایک قوم ہی ملتی ہے جسے دشمن نے مختلف لسانی اور علائقائی اور سیاسی گروہوں میں تو تقسیم کرہی دیا ہے اور اب اسے فرقوں میں تقیم در تقسیم کیا جارہا ہے ۔
جب مسلم کی حیثیت سے اس سارے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتاہوں تو قرآن کی روشنی میں ایک بات ملتی ہے کہ اگر حکمران فرعوں کی طرز کا ہو تووہ بڑی بڑی قوموں کو گروہوں میں تقسیم کرتا ہے تاکہ اس میں ضعف پیدا ہوجائے ۔
(سورہ قصص )
اب یہ سمجھ نا ہے کہ یہ فرعون کوئی لوکل ہے یا امپورٹیڈ یا کہیں بیٹھ کر ان کو اپنے اشارے پر نچارہاہے اس طرح ہمارے ملک کو مسلکی بنیاد پر تقسیم کرنایقیناَ بے وجہ تو نہیں خصوصاَ اس وقت جب مذہبی ہم آہنگی کی مسلمانوں میںپہلے سے زیادہ ضرورت ہو ایسے وقت میں مسلمانوں کی مسلکی تقسیم کچھ خاص اشارہ تو کرہی رہی ہے ۔
یہ سب ہونے کے بعد اس آفت زدہ قوم سے کہ جو صبح اٹھتی ہے تو چائے بنانے کے لئے سوئی گیس نہیں ہوتی ، آفس جانے کے لئے کپڑے استری کرے توبجلی نہیں ہوتی ، گھر سے آفس جائے توباہر سڑک نہیں ہوتی حد تو یہ کہ باہر نکلا تو واپسی کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ایسی بے یارومددگار قوم کو اس قدر تقسیم کرکے اس قوم سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس ملک میں ایک قوم بن کر رہواس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی مضحکہ خیز بات ہو کہ جس کو حکومتی سطح پر تقسیم کرنے کی اس قدر کوششیں کی جائیں اسی سے ہم آہنگی اور یکجہتی اور ایک قوم بننے کا مطالبہ بھی کیا جائے ۔
کیا کوئی تاریخ پاکستان کا ماہر بتا سکتاہے کہ 1940 میں جب قرارداد پاکستان پیش ہوئی تھی تو اس وقت اس اجلاس میں بیٹھے ہوئے ایک لاکھ کے مجمع میں جس میں شیعہ سنی موجود تھے کسی ایک کے وہم و گمان میں بھی یہ بات تھی کہ جس قوم کوہم آزادکرا رہے ہیں اس کو اسی ملک میں سرکاری سطح پر تقسیم کیا جائے گا ۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو ہم کو مننا پڑے گا کہ ہم اپنے اس نظریے سے کتنی وفا کررہے ہیں ۔
اس آئینے میں دیکھنے کے بعد ہمیں مردم شماری کی اصلیت کو سمجھنا چاہئے جبکہ ابھی تک حکومت کی جانب سے ریفیوجیز کیمپس جو کچی آبادیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں کے بارے میں کوئی پالیسی واضع نظر نہیں آرہی ہے اور نہ ہی اب تک فارم کچی پینسل سے پر کرنے پر حکومت نے کوئی ایکشن لیا ہے نہ ہی اس مردم شماری میں کوئی متناسب نمائیندگی موجود ہے اس مردم شماری کے نتیجے میں آبادیاتی و ثقافتی تبدیلی آجائے گی جو کسی بھی قوم کے لئے موت کے مترادف ہے امید ہے اگر حکومت اور سیاسی پارٹیاں اس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہیں تو ہم عوام اپنی زندگی اور موت کے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں ۔
تحریر۔۔۔۔عبداللہ مطہری