وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی ہدایت پر ملک بھر میں عید میلاد النبی (ص) کے موقع پر استقبالیہ کیمپ، چائے اور پانی کی سبیلوں کا اہتمام کیا گیا۔ ملتان میں ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام امام بارگاہ حسین آباد دولت گیٹ، جیل موڑ چوک اور چوک شاہ عباس پر استقبالیہ کیمپ لگائے گئے۔ ملتان کے مرکزی استقبالیہ کیمپ میں مخدوم سید وجاہت حسین گیلانی، ممبر قومی اسمبلی ملک عامر ڈوگر، ممبر صوبائی اسمبلی حاجی جاوید اختر انصاری، علامہ اقتدار حسین نقوی، ضلعی سیکرٹری جنرل سید ندیم عباس کاظمی، علامہ قاضی نادر حسین علوی، چیئرمین سرائیکستان نوجوان تحریک مظہر عباس کات، علامہ طاہر عباس نقوی، مولانا عمران ظفر، مولانا سلمان محمدی، مولانا ممتاز حسین ساجدی، مولانا علی حسین نقوی، مولانا علی رضا، سید دلاور عباس زیدی، سید وسیم عباس زیدی، ملک شجر عباس کھوکھر، ملک ثمر عباس کھوکھر اور دیگر برادران نے خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر میلادالنبی (ص) کے جلوسوں کے شرکاء پر گل پاشی کی گئی اور عاشقان رسول کا شاندار استقبال کیا گیا۔ استقبالیہ کیمپ میں خطاب کرتے ہوئے علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا کہ بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول تک ہفتہ وحدت عالم اسلام کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں، ہم ہر سال 12 ربیع الاول کو استقبالیہ کیمپ لگا کر اس ہفتہ وحدت کا آغاز کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم کس طرح وجہ تخلیق کائنات (ص) کا ذکر کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ 16 ربیع الاول کو جامع مسجد الحسین گلشن مارکیٹ سے گھنٹہ گھر چوک تک عظیم الشان میلاد ریلی نکالی جائے گی۔ مذہبی و سیاسی رہنمائوں نے مجلس وحدت مسلمین کے اس اقدام کو عملی وحدت کا نمونہ قرار دیا۔ مخدوم وجاہت حسین گیلانی نے اس موقع پر اس اتحاد و وحدت کی کامیابی کے لئے خصوصی دعا کرائی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) ہفتہ وحدت کا آغاز ہوگیاہے،مسلمان اپنے آخری نبیﷺ کی ولادت کا جشن منانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔پیغمبر رحمت ﷺ کی ولادت کا جشن ،مسلمانوں کو سیرت نبویؐ پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتاہے۔ایک طرف مسلمان جشن ِ ولادت پیغمبرؐ بنانے میں لگے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی آج کی ہی خبر ہے کہ کراچی سے پانچ دہشت گردوں کو تخریب کاری کی کاروائی کرنےسے پہلے گرفتار کیا گیاہے۔پولیس کے مطابق یہ دہشت گرد ایک لمبے عرصے سے کراچی میں رہ رہے تھے اور انہوں نےافغانستان سے اسلحے اور بارود کی تربیت حاصل کی ہے۔دہشت گردوں نے کئی بچوں کو اغوا کر کے تاوان وصول کرنے اور سائٹ ایریا کی فیکٹری مالک سے بھتہ وصول کرنے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان پانچوں میں سے ایک کا تعلق بھی کسی غیر مسلم کمیونٹی سے نہیں ہے۔یہ پانچوں مسلمان ہیں اور ۱۲ ربیع الاول کو مسلمانوں پر ہی شب خون مارنا چاہتے تھے۔
چونکا دینے والی بات یہ بھی ہے کہ ان پانچوں کا تعلق طالبان سے ہے اور ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ۲۰۱۴میں بھی انہی دنوں میں طالبان نے ۱۶ دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کر کے ادارے کے سربراہ کو آگ لگائی تھی اور مجموعا ۱۴۴ افراد کو شہید کیا تھا۔
سولہ دسمبر کی تاریخ کو ہی بنگلہ دیش بھی ہم سے جدا ہوا تھا اور اس سال اتفاق سے سولہ دسمبر کی تاریخ ہفتہ وحدت میں آرہی ہے۔دشمنان اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ مسلمان وحدت اور اخوت کے ساتھ رہیں چنانچہ اس مرتبہ ہفتہ وحدت کے موقع پر ہمارے سیکورٹی اداروں کو پہلے سے کئی گنا زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک گرفتار شدہ دہشت گردوں کی افغانستان میں تربیت کی بات ہے تو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے بعد یہ حقیقت اب کسی سے مخفی نہیں رہی کہ افغانستان اور بھارت دونوں ہی پاکستان کو اپنا مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں۔
میڈیا میں متعدد چھپنے والی رپورٹس سے عیاں ہے کہ پاکستان میں سرگرم تمام پاکستان دشمن ٹولے را کی سرپرستی میں افغانستان میں ٹریننگ حاصل کرتے ہیں۔ان گروپوں کے نام مختلف ہیں لیکن مشن ایک ہی ہے کہ پاکستانی عوام کا قتلِ عام کیاجائے،پاکستان کے تجربہ کار اور جرات مند فوج اور پولیس کے جوانوں کو تہہ تیغ کیا جائے،پاکستان کے دانشوروں ،ڈاکٹروں اور اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کی جائے۔
ابھی گزشتہ روز ہی چارسدہ روڈ پر دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے افسر ڈی ایس پی ریاض الاسلام کو ہلاک کیا ہے۔اس قتل کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کی ہے۔
دہشت گردوں نے اپنا نیٹ ورک مضبوط کرنے کے لئے شروع میں یہ تاثر دیا کہ ہم فقط اہل تشیع کے دشمن ہیں جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے سے نقاب الٹتا گیا اور یہ حقیقت واضح ہوتی گئی کہ دہشت گردسرزمینِ عراق و شام کی طرح ارضِ پاکستان کے دشمن ہیں اور تمام پاکستانیوں کے خون کے پیاسے ہیں۔
دہشت گردی کا سرطان یوں تو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کا موجودہ مرکز بلوچستان ہے۔بلوچستان میں افغان ایجنسی این ڈی ایس کے دہشت گردوں کی نقل و حرکت،حقانی نیٹ ورک کی موجودگی،القاعدہ اور را کے نیٹ ورکس نیز ”لشکر جھنگوی العالمی“کے بارے میں خبریں آئے روز میڈیا میں گردش کرتی رہتی ہیں اور پاکستان دشمن کاروائیاں ہوتی رہتی ہیں۔بنگالیوں کی طرح بلوچوں کو بھی پاکستان سے متنفر کرنے کے لئے اور پاکستان کے دیگر علاقوں کے رہنے والوں کو اہل بلوچستان سے نفرت دلانے کے لئے مختلف انداز میں کام کیا جارہاہے۔
ایک طرف خود قبائلی تعصب کی آڑ میں بعض بلوچ قبائل کو خود مختاری کا نعرہ لگواکر پاکستان کی سالمیت کے خلاف اسلحہ اور ٹریننگ دی جاری ہے،دوسری طرف ہزارہ قبیلے پر قاتلانہ حملوں کے ذریعے اہل بلوچستان کے درمیان قبائلی اور مسلکی نفرت کی خلیج کو وسیع کیاجارہاہے ،تیسری طرف خود ہزارہ برادری سے لوگوں کو متنفر کرنے کے لئے زائرین کا استحصال کیاجارہاہے اور چوتھی طرف عوامی وفوجی اورپولیس مراکز کو نشانہ بنا کر حکومتی رٹ کو کمزور ثابت کیاجارہاہے۔
یعنی خود بلوچستان کی سرزمین کو ہی پاکستان کو توڑنے کے لئے استعمال کیاجارہاہے۔یہ سب کچھ بظاہر مختلف لوگ کررہے ہیں لیکن درحقیقت ایک ہی ایجنڈے”پاکستان توڑنے” کی تکمیل کررہے ہیں۔
اس مرتبہ ہفتہ وحدت کی مناسبت سے جہاں ہمیں مذہبی رواداری کو نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے وہیں اجتماعی شعور اور ملی بیداری کے لئے بھی سعی کرنی چاہیے۔اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے ہمیں ملک دشمن عناصر کی فعالیت اور ان کے مذموم مقاصد کا پردہ بھی چاک کرنا چاہیے۔
ہفتہ وحدت کے وسیلے سے پاکستان کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کے لئے اجتماعی شعور پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ملک دشمنوں کے خلاف ،وحدت کی طاقت، ایٹمی طاقت سے بڑھ کرہے۔
تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ ملک میں کرپشن کی انتہا ہوچکی ہے۔ انسداد بدعنوانی کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ پانامالیکس اور میگا اسکینڈلز میں بے نقاب ہونے والے افراد قومی مجرم ہیں۔ کرپٹ افراد کا کڑا احتساب ہونا چاہئے، تاکہ ملک میں سے کرپشن کا خاتمہ ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ'' گلوبل کرپشن بیرومیٹر'' کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ کرپشن حکومتوں میں رہنے والی سیاسی جماعتوں میں ہے، جبکہ سیاستدان دوسرے، کاروباری طبقہ تیسرے اور پولیس چوتھے نمبر ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر حکومتی وزراء، چند سیاسی جماعتیں جو مسلسل کئی بار حکومتوں میں رہی ہیں، کے اندر ہونے والی کرپشن لمحہ فکریہ اور باعث تشویش ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ 20 کروڑ پاکستانی عوام کی خواہش ہے کہ پانامالیکس کو جلد ازجلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ وزیراعظم نواز شریف کے بچوں سمیت جن پاکستانیوں کے نام پانامالیکس میں آئے ہیں، ان کو احتسابی عمل سے گزرنا پڑے گا۔ ملک و قوم کی زندگی میں فرد نہیں بلکہ ادارے اہم ہوتے ہیں۔ جمہوریت کا حسن اسی میں ہے کہ عوامی رائے اور جذبات کا احترام کیا جانا چاہئے۔ پانامالیکس کے حوالے سے حکمران چھ ماہ سے لیت و لعل سے کام رہے ہیں۔
12 ربیع الاول کا دن مسلمانوں کا اپنے نبی کریم ﷺ سے عشق کے عملی اظہار کا دن ہے، علامہ ناصر عباس جعفری
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے عید میلاد البنی حضرت محمد ﷺ کے یوم ولادت کے موقع پر امت مسلمہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ 12 ربیع الاول کا دن مسلمانوں کا اپنے نبی کریم ﷺ سے عشق کے عملی اظہار کا دن ہے۔ امت مسلمہ کی تنزلی کا سب سے بڑا سبب رحمت اللعالمین ﷺ کی حقیقی تعلیمات سے دوری ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے امت کو اخوت، رواداری اور بھائی چارے کا درس دیا ہے۔ آج اسلام کے نام پر جو گلے کاٹے جا رہے ہیں، وہ دین اسلام کے روشن چہرے کو بدنما ظاہر کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ جس کے پس پردہ صیہونی نصرانی ایجنڈا کار فرما ہے۔ اس سازش کو باہمی اتحاد و یگانگت سے شکست دینا ہوگی۔ علماء کی اعلٰی بصیرت اور دانش مندانہ اقدامات سے عدم برداشت کے رجحان کا خاتمہ کرکے معاشرے میں امن و سکون قائم کیا جا سکتا ہے۔ آج کا دن تجدید عہد کا دن ہے، نبی کریم ﷺ کی حقیقی تعلیمات کا فروغ اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا آج ہمیں عہد کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دین اسلام جبر و بربریت سے نہیں بلکہ اسوہ حسنہ سے پھیلا ہے۔ دنیا کے دیگر مذاہب حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کو بہترین نمونہ قرار دیتے ہوئے اسلام کے نظام عدل و مساوات اور باہمی احترام پر عمل پیرا ہیں۔
علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ حضور کریم ﷺ کی ذات مبارکہ سے محبت کے زبانی اقرار کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات کو عملی زندگیوں میں نافذ کرکے دشمنان اسلام کی کوششوں کو ناکامی سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین 12 تا 17ربیع الاول تک ہفتہ وحدت و اخوت منا رہی ہے۔ اس دوران ملک بھر میں جشن میلاد النبی ﷺ کے سلسلے میں سمینار منعقد کئے جائیں گے۔ تمام صوبائی و ضلعی دفاتر پر چراغان اور نعتیہ محافل کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے۔ بارہ ربیع الاول کو ملک بھر میں عید میلاد النبی ﷺ کے مرکزی جلوسوں کے راستوں میں استقبالیہ کیمپ اور سبیلیں بھی لگائی جائیں گی۔
وحدت نیوز (لاہور) دہشتگردی کیخلاف جنگ میں کسی بھی قسم کی نرمی یا کوتاہی کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی،نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی کا ضامن ہے اس کیخلاف کسی بھی سازش کو قوم قبول نہیں کریگی،ہزاروں شہداء کے لواحقین انصاف کے منتظر ہیں،حکمران اپنی کرسی سے زیادہ ملکی سلامتی و بقا کی فکر کریں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر افتخار حسین نقوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں وسطی پنجاب کے مسئولین کے اجلاس سے خطاب میں کیا،انہوں نے کہا کالعدم انتہا پسند دہشت گردجماعتوں کو گلے سے لگانے والے ان کے سیاسی سرپرستوں کو عزائم سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں،ملکی سلامتی کے دشمنوں اور شہدائے پاکستان کے قاتلوںکو سیاسی پناہ دینے والوں کو بے نقاب کرنا ہوگا،حکمرانوں کی سیاسی مفادات کے خاطر ملکی سلامتی کو داوُ پر لگایا جا رہا ہے،جسے کوئی بھی محب وطن قبول کرنے کو تیار نہیں،انہوں نے کہا دہشتگردی ،دہشتگردوں کے سہولت کاروں اور ان کے سیاسی سرپرستوں کیخلاف قوم کو متحد ہونا ہوگا ،پاکستان کو بیرونی دشمنوں سے زیادہ اپنے آستین کے سانپوں سے خطرہ ہے،ہم کسی بھی صورت دہشتگردی کیخلاف جنگ اور نیشنل ایکشن پلان کے خلاف سازش کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے،قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہونے دینگے،پاکستان میںبسنے والے ہر مذہب اور ہر مسلک کے لوگ پاکستانی ہے،ہمیں بحثیت پاکستانی و مسلمان سب کے حقوق کا احترام کرنا چاہیئے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) جہاں اتحاد بین المومنین اہم ہے اور اس حوالے سے اپنے ہمارے دوست کا م کر رہے ہیں وہیں اتحاد بین المسلمین کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اس حوالے سے جو کام ہو رہا ہےاسےجاری رہنا چاہیے یہ ایسے ہی ہے کہ یہ دونوں اصول ہیں کہ جن کو زندہ کرنےاور اپنے اندر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے یہ ایک دوسرے کے ساتھ متصادم نہیں ہیں ۔اور نہ ہی ایک دوسرے کی جگہ لے رہے۔اپنی اپنی جگہ پر کام جاری رہنا چاہیے اس میں جو رول پلے کرنے والاانداز ہے وہ مختلف ہے۔لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ہمیںاتحاد بین المومنین کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المسلمین کو بھی عملی طور پر دیکھانا ہوگا۔اتحاد سے مراد انضمام نہیں بلکہ اتحاد ہی ہے ۔ انضمام یعنی ایک دوسرے میں ضم ہو جانا اور اتحاد یعنی اپنے اپنے مکتب فکر پر عمل پیرا رہتے ہوئےاور دوسروں کا احترام کرتے ہوئے اپنی خدمات کو انجام دینا ۔ تاکہ معاشرہ ہر قسم کے تفرقہ سے پاک رہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر ہمارا اتحاد بین المسلمین کے حوالے سےویژن کیا ہے؟پاکستان میں بنیادی طور پراگر ہم کہیں کہ اسوقت چار یا پانچ مکاتب فکر موجود ہیں ۔ جس میں اہلسنت، اہلحدیث، اہلسنت دیوبندی اور اہلسنت بریلوی حضرات ہیں شیعہ سائیڈ پر فقہ جعفریہ لیڈ کر تی ہے اور اس کے بعد اسماعیلی حضرات فقہ جعفریہ کے ساتھ آتے ہیں ۔ تو ہمارا پاکستان کے اندر کام کرنے کا ویثرن یہ ہے کہ ہم اسوقت کسی بریلوی ، دیوبندی یا شیعہ تفریق کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ افراد جو تکفیری ذہن رکھتے ہیں یا وہ گروہ یا وہ پارٹیاںجو تکفیر کی قائل ہیں ان کو ہم اس سسٹم سے جدا کریں اور دیگر وہ تمام مکاتب فکر جو اختلاف رائے کا حق دیتے ہیں ایک دوسرے کو آزادی اظہاررائےاور اپنے مکاتب فکر کے مطابق آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا حق دیتےہیں اوردوسرے مکاتب فکر کا احترام کرتے ہیں، ذہنی اور فکری طور پر ان کا الائنس ڈولیپ کریں ۔یہ سوچ دیوبندی حضرات کے اندر بھی پائی جاتی ہے ،بریلوی حضرات اور اہلحدیث کے اندر بھی موجود ہے ۔وہ سارے لوگ جو اتحاد بین المسلمین کےلئے کوشاں ہیں ۔ اس کا حصہ ہیں ۔ اور وہ سارے تکفیری گروہ جو نظریاتی طور پراور آئیڈیالوجی کے اعتبار سےایک خاص مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں اور جن کی سوچ یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو مسلمان نہیںسمجھتے خواہ کسی بھی مکتب فکرسے اس کا تعلق ہو ۔ہم چاہتے ہیں کہ انہیں آئسولیٹ کیا جائے انہیں تنہا کیا جائے اور ان کو اپنے مکتب فکر کے اندر بھی پذیرائی حاصل نہ ہونے پائے۔وہ اپنے مکتب فکر کو بھی بدنام کرنے کا سبب بن رہےہیں اس کی بھی توہین کرنے کا باعث ہیں ۔ لہذا ان کے حوالے سے کلئیر سٹینڈ لیناہو گا ۔تمام مکاتب فکر کے وہ معتدل لوگ جو تکفیر کے قائل نہیں ہیں ان کو مشترکات پر اکھٹا کرنا ہو گا اور اختلاف رائے کا حق دیتے ہوئے تمام مسالک کا احترام کرنا ہو گا جو اپنے انداز سے آزادی سےاپنے مسلک پر عمل کرنا چاہیںیہ وہ روح ہےاتحاد کی جس کے لئے ہمیں پاکستان کے اندرجو کام بھی کرنا ہے اسے اس کی اصل روح (اتحاد)کے دائرے میں رہتے ہوئے انجام دینا ہے۔
اس حوالے سے ہم نے جو قدم اٹھائے ہیں۔جیسے ہم نے نہیں دیکھا بڑی پارٹی کون سی ہے؟بڑی شخصیت کون سی ہے؟ہم نے یہ دیکھا ہے کہ وہ کون سے گروہ ہیں ؟ جو تکفیری گروہوں کو سپورٹ نہیں کرتے خود تکفیری نہیں ہیں لیکن تکفیری گروہوں کو سپورٹ بھی نہیں کرتے ان کے ساتھ ہاتھ بھی نہیں ملاتے ان کے ساتھ ان کی ایڈجیسٹمنٹ نہیں ہے۔لہذا پہلے مرحلے میں ہم نے تمام مکاتب فکر میں سے ان گروہوں کی شناخت کی ہے کہ جو تکفیریت کے مقابلے میں ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے آمادہ ہیں اور ہم نے الحمداللہ اس کے اندربڑی ایچومنٹ حاصل کی ہےاور پاکستان میں جس میں سنی اتحاد کونسل، 30 جماعتوں کا ایک بڑا الائنس سنی تحریک اسی طرح جمعیت علمائے پاکستان کے مختلف گروہ ان کے ساتھ مربوط تنظیمیں یہ ہمارے ساتھ شامل ہونا شروع ہوئیں ہیں اور بہت سی شخصیات بھی شامل ہونا شروع ہوئیں ہیںجن میں بالخصوص دیوبندی حضرات میں سے وہ لوگ کہ جو تکفیریت کے قائل نہیں ہیں کہ جو وطن عزیزاور ملت کیلئےتکفیر کو ایک خطرہ سمجھتے ہیں وہ ہمارے ساتھ شامل ہونا شروع ہوئے ہیں توپہلے مرحلے میں ہم نے جو تکفیریت مخالف تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو ان مشترکہ اہداف پر اکھٹے کرناشروع کیا ہے۔
دوسرےمرحلے پر ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ غیر اعلانیہ ،غیر سیاسی اتحاد و وحدت کی فضاء پیدا کی جائے جس کے لئے ماحول بنایا ہے ۔ مختلف گروہوں کو اپنے ساتھ اکھٹا کیا ہےہم چاہتے ہیںکہ یہ گروہ اتنےمضبوط ہو جائیں ان کی آواز مضبوط ہو جائے کہ عملی طور پر تکفیریت کی حمایت کرنا پاکستان کے اندر مشکل امر ہو جائے اور اس کے جو سہولت کار حمایت کرنے والے ہیںان کے لیے بھی یہاںزمین تنگ ہوجائے ایسی معاشرتی فضاءقائم کرنی ہے ۔اب ہم اس اگلے مرحلے کی طرف گامزن ہیں ہمیں یقیناً یہ اس کے لئے اور کام بھی کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ وہ چیزیں جس کی وجہ سے تکفیریت کو مواد ملتا ہے جیسے توہیں آمیز مواد(لٹریچر،خطاب،گفتگو)یا وہ توہین آمیزحرکات جو ہمارا شیلٹر لے کر کی جائیں جو فقہ جعفریہ کا شیلٹرلے کر کی جائیں لیکن اس سےتکفیریت کے لیے بنیاد مضبوط کی جائےاور اس خطاب ،لٹریچر یا گفتگو کو تکفیری لوگ بنیاد بنا پیش کریں ، اور پھرتکفیری گروہ آپ کے خلاف ماحول سازی کرے، اس کو بھی روکنا ہے ۔ اس کی اجازت بھی نہیں دینی ہوگی ۔ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنے کے بھی اقدامات کرنے ہونگے۔ جو یقیناً اتحاد بین المومنین کی طرف بھی ایک قدم ہے اس میں اصلاح بھی ہے کہ ہم نے اپنا اجتماعی ویژن درست کیا ہےمیں صرف اس میں اتنا عرض کروں گاکہ اس سلسلے میں ذاکرین، خطباء ، علماء ،ماتمی انجمنوں بالخصوص بانیان مجالس ان کے ساتھ ہماری بات چیت اور ڈسکشنز اور انڈرسٹینڈنگز ڈوویلپ ہوئی ہیں ۔اور بعض نےہمارے ساتھ یاداشتیں لکھی ہیں بعض نے ایگری مینٹس اس حد تک کیے ہیں کہ ضابطہ اخلاق تک مرتب کیے ہیں اس کے اندر ہم نے تین نقاط کو واضح کیا ہے۔ان کی حفاظت کی ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑا قدم ہے۔ ہم نےتکفیریت سے اس کی غذا چھین لی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اس کے اندر پہلا نقطہ یہ طے کیا ہے جس پر پاکستان کےنامور ذاکرین نے اور اہم بانیان مجالس نےبھی دستخط کیے ہیںکہ ہم اپنی مجالس عزاء اور اپنے دینی اجتماعات کو کسی بھی مکتب فکر کی توہین کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے اور نہ ہی اپنے داخلی گروہی تقسیم ہے اس کو بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے اور تیسرا اس کے اندر یہ نقطہ ہے کہ انشاء اللہ پاکستان اور پاکستانیت اور پاکستانی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے بھی ہم اپنے اجتماعات کے اندر گفتگو کریں گے تو الحمداللہ اس کے اندر بھی بہتری آئی ہے اب دشمن کو ایسا مواد نہیں ملتا ہےیا کم ملتا ہے جس کی بنیاد پر وہ فضاء سازی کر سکے اور اپنے ناپاک عزائم کو آگے بڑھاسکے۔ پھر وہ ادارے جو دہشت گردی کے مقابلے میںبنے ہیں میں یہ نہیں کہتا ہے کہ وہ جامع ہیں لیکن وہ ایک قدم آگے بڑھ رہے ہیںتکفیریت کی روح کے خلاف ہے کہ شیعہ اور سنی مل کر بیٹھیں ملی یکجہتی کونسل ایک ایسا ادارہ ہے اور ایسامشترکہ فورمزسے کہ جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ بیٹھتے ہیں یہ تکفیریت کے خلاف ہے تو ایسےفورمز کو بھی مضبوط کرنا شروع کیا ہےمجلس وحدت مسلمین، ملی یکجہتی کونسل کے بانیان میں سے ہیں اور اسی طریقے سے ایسے کئی فورمز غیر اعلانیہ طور پر وجود رکھتے ہیں جس میں شیعہ اور سنی مل کر بیٹھتے ہیں یو ں تکفیریت کے لیے فضاء تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔اور اسی میں وطن عزیز اور ملت پاکستان کی کامیابی ہے ۔
اگلے مراحل میںوہ قوانین جو پاکستان کے اندرتکفیریت مخالف بنے ہیں ابھی کچھ نئے قوانین بھی متعارف ہوئے ہیں ان کے اوپر ان کی روح کے مطابق عمل درآمدکرانے کی ضرورت ہے اور اسی طریقے سے ضرب عضب پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہو نا چاہیے تاکہ کوئی شخص کسی دوسرے کی تکفیر اور نفرت انگیز مواد کے ذریعے سے پاکستان کی فضاء کو مسموم نہ کرسکے اس پر عملدرآمد کے حوالے سے اپنےا تحادیوں کے ساتھ مل کر فضاء سازی کی ہے اور اس فضاء سازی کے نتیجے میں کئی چیزیں بہتر ہوئی ہیں اورنفرت انگیز مواد میں کافی کمی ہونا شروع ہوئی ہے اور اس کا جو مس یوز ہونا تقاریر کی صورت میں تھا ،اس میںکمی ضرور آئی ہے یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں کہ ختم ہوا ہے ابھی بھی اجتماعات میں مکتب اہل بیتؑ کے خلاف نعرے لگتے ہیں لیکن اب اس پر آواز بلند ہوتی ہے اس پر سیاسی جماعتیں بھی آواز اٹھاتی ہیں مذہبی جماعتیں بھی آواز اٹھاتی ہیں اور ان کو عوامی حمایت حاصل نہیں رہی ہےبڑی تیزی سے ان کو انشاء اللہ تعالیٰ تنہا کرنے کی طرف جارہے ہیں ۔ یہ ایک ایسا کام ہے کہ جس میں آئینی اور قانونی گنجائشیں موجود ہیں ۔ہم تمام گنجائشوں سے بھی استفادہ کرتے ہوئے چیزوں کو آگے بڑھائیں پھر ایک بہت بڑا کام آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ نےبھی تکفیر یت کے لیے ایک بہت بڑی مشکل پیدا کر دی ہے ازواج مطہرات اوراصحابہ کرام کے حوالے سے ایک تاریخی فتویٰ صادر کیا ہے ’’ اہلسنت کے مقدسات (ازواج مطہرات اور صحابہ کرام ) کی توہین کو انہوں نے حرام قرار دے دیا ہے ‘‘ اس کے بعد ہمارے ہاں بھی یقینی طور پر اصلاح ہوئی ہے۔بہر حال کچھ لوگ تکفیریت پھیلانے کے حوالے سے اس سے استفادہ کرتے تھے جب تشیع کی اتنی بڑی لیڈر شپ سٹینڈ لے لیتی ہے تو اس کے بعد ان کے لیے مشکل پیدا ہو گئی ہے جو تکفیریت کو بڑھاوا دیں جو اس میں سب سے بڑی سپورٹ ہمیںآغا کے اس فتویٰ کی روشنی میں ملی ہے۔
ظاہر ہےیہ ایک اتحاد کی جانب بہت بڑا سٹپ تھا ۔ قدم بہ قدم ہم اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ایک چیز جو ہمارے پاس بہت اہم ہے اس حوالے سے بھی ہم کچھ ڈوویلپمنٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ عمان معاہدہ ہے جو اہلسنت کی طرف سے ایک پیش کش ہے۔کنگ آف جورڈن کی طرف سے اور اس کے بعد اس پر تقریباً اہل تشیع،اہل تسنن اور اہل حدیث میں سے عالم اسلام کی برجستہ شخصیات نے اس کے اوپر دستخط کیے ہیں یہ اہلسنت کی طرف سے وہ پہلا معاہدہ ہے جس میںمسلمان کی تعریف کی گئی ہے اور اس میں پانچ مکاتب فکر معین کیے گئے ہیں جس میں فقہ جعفریہ کو اسلامی مکتب فکر کے طور پر معین کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان تمام مکاتب فکر میں سے کسی ایک کے اوپر بھی عملدرآمد کرتے ہوئے صحیح مسلمان رہ سکتے ہیں اس کے علاوہ جوکرتا ہےوہ دائرہ اسلام میں نہیں ہے تو اس کے اندر باقاعدہ تعریف کی گئی ہے کہ یہ تمام مکاتب فکراسلامی مکاتب فکر ہیں اس میں اہلسنت کے مکاتب فکر ہیں حتیٰ اہلحدیث ہیں ان کو شامل کیا گیا ہے معین ہے یہ ایک پہلا بڑا ڈاکومینٹ ہے جس پر مراجع کے بھی دستخط اور توثیق موجود ہے اسی طرح سے عالم اسلام مصر،آفریقی ممالک اور بعض دیگراسلامی ممالک کے بڑےجید مفتیان اعظم کے دستخط ہیں تو یہ بھی ایک ڈاکومینٹ ہے عمان ڈیکلریشن کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی بھی ایک ویلیو ہے اوراقدام اہلسنت کی طرف سے کیا گیا ہے تو پاکستان میں اہلسنت بھائی ہمارے ساتھ اتحاد کے عملی اقدام کو آگے بڑھارہے ہیں ۔
تو اب ہمارا ویژن یہ ہے اگر ہم عملی اتحاد کی بات کریں توآئندہ ماہ ربیع الاول آرہا ہے جیسے ابھی ماہ محرم و صفر تھاتواس میں اہلسنت بھائیوںنے ساتھ دیا ہے۔پاکستان میں کہیں کوئی تفرقہ پیدا نہیں ہوا ہے۔مجالس عزاء اور عزاداری سید الشہداء کے جومعاملات ہیں ان میں کہیں بھی پاکستان کے اندر نفرت پیدا نہیں کی ہےلو گ ایک ساتھ ہیں۔اہلسنت کو اپنائیت محسوس ہوئی ہے کوئی ایسا ایونٹ نہیں ہوا ہے کہ جس سے کوئی دہشت گردوں کو یا جو تکفیریت والوں کو مواد ملا ہولیکن ابھی ربیع الاول کا مہینہ آرہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ تو آپ دیکھیں گے یہ بھی شیعہ سنی اتحاد کا مہینہ ہو گااور محمدعربی ﷺکو غلام ماننے والے شیعہ اور سنی مل کران ایام کو منائیں گے یہ جو مہینہ شیعہ سنی اتحاد کے حوالے سے ایک عجیب تاثیر رکھتا ہو گا۔تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ تین مہینے تو عملاً شیعہ سنی اتحاد کے ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ہمیں توقع ہے انشاء اللہ تعالیٰ کرم کریںگے۔ ہم اس وثر ن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں حمایت کرنے والےلوگوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے بنیادی مٹریل میں اضا فہ ہو رہا ہے ۔ ہمارے ساتھ گروہ انجمنیں، جماعتیں ہیں ملنا شروع ہوئیں ہیں ان کی تعداد بھی بڑھنا شروع ہوئی ہے عوام کے اندر بھی مقبولیت بڑھی ہے اس کے نتیجے میں مجموعی فضاءبھی بہتر ہوئی ہے اس کے جواثرات اور اس کی لہریں پارلیمنٹ کے اندر اورپولیٹکل کوریڈورز کے اندرسنائی دینے لگی ہیں۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے شیعہ اور سنی نے مل کربنایا اور اس کے اندر تکفیریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ایک اس موضوع کے اوپر کام کیا ہےکہ کون سے گروہ، ممالک اور آئیڈیالوجیز ہیں جنہیں تکفیریت کا آئیڈیا سوٹ کرتا ہے۔ان کو بے نقاب کیا جائےانکی پاکستان کے اندر مداخلت کم کی جائے جن میں بدقسمتی سے ایک بڑے ملک کا نام آتا ہے آل سعود کا نام آتا ہے کہ جنہوں نے پاکستان کے اندرشیعیت کے خلاف نفرت انگیز مواد پیدا کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔
ابھی ایک تازہ سلسلہ شروع ہوا ہے حرمین شریفین بلکہ تحفظ آل سعود ہے ۔ حرمین شریفین کوکوئی خطرہ الحمداللہ نہیں ہے۔اور عالم اسلام اس کا پورا دفاع کرے کو تیار ہے۔لیکن آل سعود نے ایک فضاء بنائی ہے کہ اس کی بنیاد پر اہل تسنن اور اہل تشیع کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے ہمیں اس کا رستہ روکنا ہے ہمیں پاکستان کے اندر کسی بھی ملک کی مداخلت روکنی ہے پاکستان کے اندر فارن فنڈنگ روکنی ہے پاکستا ن کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہیے۔پاکستان کے اندر کسی مدرسے کسی انسٹیٹوشن اور کسی پارٹی کیلئے بیرونی فنڈنگ نہیں ہونی چاہیے اور یہ بیرونی فنڈنگ اہداف کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ ایک خطرہ بھی ہے
بالآخریہ معلوم ہے جو مزارات پر حملے ہوئے ہیں اورانہیں شرک کے مراکز قرار دیا گیا ہے ان کو بالآخریہ سوچ اور فنڈنگ آل سعود سےہو ئی ہے اور انہوں نے پہلے سعودی عرب کے اندر رسول ﷺکے اصحاب اور اہلبیتؑ کے مزارات کو مسمار کیا ہےاس کے بعد جو تفکر داعش کی صورت متشکل ہو ا ہے جو انہی سی مانوس ہے اس نے شام و عراق کے اندران مقدس مقامات کو مسمار کیا اور ابھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ داتا دربار سے لے کر عبداللہ شاہ غازیؒ تک اور ابھی جو شاہ نورانی ؒ کے مزار پر جو حملہ ہوا ہے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اس تفکر کے خلاف ہیں جو صوفیاء کا تفکر ہے جس کے نتیجے میں تمام مکاتب فکر مل بیٹھتے ہیں جس میں نفرتیں نہیں ہیں ۔جس میں محبتیں ہیں جس میں اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کیا جاتاہے۔ تو اس موضوع پر بھی ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے ہمیں پولیٹکل پروسیس کے نتیجے میں ہم بالآخر بڑی حد تک اس کو ایکسپوز کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن یہ سلسلہ نہیں روکا ہے اور اس پربیرونی سرمایہ کاری بہت زیادہ ہو رہی ہے۔
بالخصوص یمن کےمسئلہ پر پاکستان نے سعودی عرب کی یمن پر مسلط کردہ جنگ میں ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اس کے بعد سے یہ انولومینٹ بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اس کے اثرات بھی ہمیں کہیں نہ کہیں نظر آتے ہیں ۔لیکن ایک بات حقیقت ہے پاکستان میں شیعہ سنی مسئلہ نہیںرہا۔کیونکہ جہاں شیعہ سنی مسئلہ آتا ہے وہاں شیعہ سنی کو قبول نہیں کرتا ہے اور سنی شیعہ کوقبول نہیں کرتا ہےلیکن یہاں مشترکہ شادیاں ہیں مشترکہ فیملیز ہیں مشترکہ پروگرامز ہیں مشترکہ ایکٹوٹیز ہیں کسی بھی جگہ گلی یا کوچہ میں سول وار کی سی کیفیت نہیں ہے یہاں نامعلوم ہاتھ ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں اس کے پیچھے تفکر اور آئیڈیالوجی ہوتی ہے یقیناً اس کے مراکز ہیں لیکن عوامی سطح پر شیعہ اور سنی کے درمیان دوری نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو وہ سول وار میں ڈوویلپ نہیں کر سکے عوام نے شیعہ اور سنی اختلاف کو جنگ میں بنانے کو قبول نہیں کیا ہے اختلاف یقناً موجود ہےاور اختلاف حسن ہوتا ہے اختلاف پولیٹیکل موجود ہے مذہبی موجود ہے۔
لیکن ہمیںیہ اختلاف اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ ہم کسی کی جان و مال کو پامال کریں توانشاء اللہ تعالیٰ ایک ویثرن کے تحت ہم نےآگے بڑھنا شروع کیا ہے کہ خداوند کریم ہمیں توفیق دے گا۔اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس ویثر ن کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان میں شیعہ اور سنی کواسلا م کے دو بازئوں کی صورت میں متعارف کرائیں گے اور یہ جو وحدت ہے تکفیریت کو شکست دے گی اورلوگ یہ سمجھنا بھی شروع ہو گئے ہیں پاکستانی عوام، میڈیا اور دیگر کہ تکفیریت ایک ایجنڈ ا ہے اس ایجنڈے کا مقصد عالم اسلام کو کمزور کرنا ہے خدانے جو طاقت دی ہے اس سے استفادہ نہ کرنے دینا ہے۔
تو ا ن شاء اللہ تعالیٰ جب ہم اس بڑے دشمن کو سمجھ جائیں گے تو ہم ان چھوٹے بڑے اختلافات کو بڑا نہیں بننے دیں گے۔کہ وہ مسالک کے درمیان مذاہب کے درمیان اور فرقوں کے درمیان نفرت اور جنگی فضاء ڈوویلپ کریں ہم انشاء اللہ تعالیٰ ان جزئی اختلافات کو نفرت میں نہیں بدلنے دیں گے۔اسی میں اتحاد ہے ۔ اور ہماری ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ ہم نےہی اس وطن عزیز کو بنایا تھا اور ہم شیعہ و سنی ملکر اس کو بچائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے درمیان وحدت پیدا کرے اور ہمت دے کہ ہم ملکر دشمن کا مقابلہ کرسکیں ۔ اور ہمیں ہر میدان میں ثابت قدم رکھے -
تحریر۔۔۔۔سید ناصرعباس شیرازی