وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان ہمیشہ سے ایک بہترین نظام حکومت کی تلاش میں ہے، کبھی اس نے آمریت کو بہترین نظامِ حکومت جانا اور اس پر عمل پیرا ہوا، پھر اس نے بادشاہت کو منتخب کیا اور ایک بڑے عرصے تک اسے ہی بہترین نظام ِ حکومت سمجھتا رہا پھر اس نے جمہوریت کو اختیار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہ تو end of the history ہے، یعنی اس سے بہترین نظام ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے لئے دینِ اسلام نے کس نظامِ حکومت کو مثالی قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں ارشادِ مبارک ہے :
وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أنَّ الارضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ
اور البتہ تحقیق ہم ذکر (تورات)کے بعد زبور میں لکھ چکے ہیں کہ بے شک زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید سے پہلے والی کتابوں میں بھی خدا نے بنی نوعِ انسان سے وعدہ کیا ہے کہ زمین کے وارث اس کے نیک بندے ہی ہونگے۔مقامِ فکر یہ ہے کہ ان نیک بندوں کو آیا خود بخود حکومت مل جائے گی یا انہیں کچھ کرنا بھی پڑے گا۔
چنانچہ دینِ اسلام کی معتبر کتابوں میں آیا ہے کہ اگر دنیا کی عمر ایک دن سے زیادہ نہ رہ جائے تو بھی خدا وندِ عالم اس ایک دن کو اتنا طولانی کرے گا کہ حضورﷺ کے اہل بیت سے ایک شخص مبعوث ہوگا کہ جس کا اسم گرامی نبی آخرالزماں ﷺ کا اسم ہی ہوگا اوروہ شخص زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پر کردے گا جیسا کہ وہ اس سے پہلے ظلم و جور سے پر ہو چکی ہوگی۔
مندرجہ بالا سطور سے پتہ چلتا ہے کہ دینِ اسلام انسانوں کو ایک ایسے انسان کا سراغ بتا رہا ہے ، جس کی حکومت قائم ہو کر رہے گی اور اس کی حکومت میں ہر طرف عدل ہی عدل ہوگا۔
یقیناً ایک خوشحال اور عادل حکومت ہی ہر انسان کو پسند ہے اور وہی حکومت انسان کے لئے بہترین حکومت ہے جس میں کسی پر کسی بھی قسم کا ظلم نہ ہو اور ہر طرف عدل و انصاف کی حاکمیت ہو ۔
سنن ترمذی میں ارشادِ نبوی ہے کہ یہ دنیا اپنے اختتام کو نہیں پہنچے گی مگر یہ کہ ایک مرد میرے اہلِ بیت سے عرب پر حکومت کرے گا، وہ میرا ہم نام ہو گا۔
سنن ابی داود میں ہے کہ المهديّ من عترتي من ولد فاطمه ، مہدی ؑمیری آل میں سے اور فاطمہؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ اسی طرح سنن ابن ماجہ میں ہے کہ امام مہدیؑ ، اہلِ بیت رسولﷺ سے ہونگے۔
مفہومِ مہدویت
اس زمین پر حضور نبی اکرم ﷺ کی آل میں سے امام مہدی ؑ نامی ایک شخص کی عادلانہ اور مثالی حکومت کا قیام
مہدوی حکومت کے خدو خال
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کی ایسی خصوصیات کیا ہونگی کہ جن کی وجہ سے لوگ اس کے شیدائی ہونگے اور عوام میں مقبولیت کے باعث وہ حکومت ایک مثالی حکومت کہلائے گی۔اس حکومت کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہوگا کہ دیگر حکومتیں اس میں ضم ہوتی چلی جائیں گی۔
۱۔ اسلامی تعزیرات کا نفاذ
اس حکومت کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہوگی کہ اس حکومت میں مکمل طور پر اسلامی تعزیرات نافذ ہونگی اور کسی کو نہ ہی تو چھوٹ دی جائے گی اور نہ ہی کسی پر ظلم کیا جائے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ قوانین کا بھرپور طریقے سے اجرا کیا جائے گا اور امام مہدیؑ لوگوں کو اپنے جد نبی اکرم ﷺ کی مانند دینِ اسلام کی طرف شفاف دعوت دیں گے اور دینِ اسلام کا نفاز کریں گے۔
۲۔ہر دلعزیز حکومت
یہ حکومت مال و دولت والوں اور ثروت و طاقت والوں کے بجائے اسلامی اخلاق و اطوار والوں کی حکومت ہو گی ، اس حکومت میں جو جتنا دیندار ہوگا وہ اتنا ہی عزت دار اور محترم شمار ہوگا۔ لوگوں میں عزت و وقار کا پیمانہ دینداری اور اخلاق ہو گا۔پیغمبر اسلامﷺ کا ارشاد ہے کہ تم لوگوں کو قریش کے ایک فرد مہدیؑ کی بشارت دیتا ہوں کہ جس کی خلافت سے زمین و آسمان والے راضی ہونگے۔ ہمارے نبی اکرم ﷺ کی ہی حدیث ہے کہ حضرت امام مہدیؑ کے قیام سے تمام اہلِ زمین و آسمان ، پرندے ، درندے اور سمندر کی مچھلیاں شاد و خوشحال ہونگی۔ اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک اور حدیث ہے کہ میری امت کا ایک شخص قیام کرے گا جسے زمین و آسمان والے دوست رکھیں گے۔
۳۔علم و آگاہی کا دور دورہ
اس دور میں طبقاتی نظامِ تعلیم نہیں ہوگا اور نہ ہی تعلیم پر چند خاندانوں کا قبضہ نہیں ہوگا بلکہ تعلیم و شعور کی دولت عام ہو گی ، عام انسانوں حتیٰ کہ گھریلو خواتین کے فہم و شعور کی سطح بھی بہت بلند ہوگی اور لوگ اپنے علم و شعور کی بنیاد پر نظام زندگی اور معاشرتی تعلقات کو استوار کریں گے۔ ہر طرف علم و حکمت کے چشمے جاری ہو نگے اور مکار اور شعبدہ باز افراد لوگوں کی جہالت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ۔
۴۔زمین کے خزانوں سے انسانیت کی خدمت
آج کل کے دور کی طرح زمین کے خزانوں پر استعمار اور طاغوت کا قبضہ نہیں ہوگا اور استعماری طاقتیں مختلف بہانوں سے دیگر اقوام کے معدنی وسائل پر ہاتھ صاف نہیں کر سکیں گی۔ یعنی اس زمانے میں معدنی وسائل اور معیشت پر محدود لوگوں کا قبضہ نہیں ہو گا بلکہ زمین کے خزانوں کے منہ عام انسانوں کے لئے کھلے ہوئے ہونگے اور عام لوگ اپنی صلاحیت ، استعداد اور ضرورت کے مطابق زمین کے ذخائر سے بھرپور اور عادلانہ استفادہ کریں گے۔
رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت سے مہدیؑ ظہور کریں گے ، خدا انہیں انسانوں کا ملجا بنا کربھیجے گا اور اس زمانے میں لوگ نعمت و آسائش میں زندگی گزاریں گے۔
۵۔اختراعات و ایجادات کا دور
علم و شعور کے عام ہونے کے باعث یہ اختراعات و ایجادات کا دور ہو گا، انسان نت نئی ایجادات کے ذریعے انسانی معاشرے کی خدمت کریں گے اور پورا انسانی معاشرہ امن و سکون اور خوشحالی کی نعمت سے مالا مال ہوگا۔علم اور ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہونگے اور انسان علوم و فنون سے انسانی معاشرے کی تعمیر کریں گے۔
حضرت امام جعفر صادقؑ کی حدیث ہے کہ علم و دانش کے ۲۷ حروف ہیں، اور اب تک جو کچھ پیغمبروں نے پیش کیا ہے وہ دو حروف ہیں اور باقی پچیس حروف سے لوگ آشنا نہیں ہیں، لیکن جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو باقی پچیس حروف کو بھی لے آئیں گے اور پھر پورے ستائیس حروف لوگوں کے درمیان رائج ہوں گے۔
رسول خدا ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے کہ تمہارے بعد ایسی اقوام آئیں گی جن کے پاس طی الارض یعنی قدموں تلے زمین سمٹنے کی صلاحیت ہوگی اور دنیا کے دروازے ان کے لئے کھل جائیں گے، زمین کی مسافت ایک پلک جھپکنے سے پہلے طے ہو جائے گی، اس طرح سے کہ اگر کوئی مشرق کی سیر کرنا چاہے تو ایک گھنٹے میں ایسا ممکن ہو جائے گا۔
۶۔ظلم و جور کا خاتمہ
ظلم چاہے اقتصادی ہو، معاشی ہو، عسکری ہو یا جارحیت اور شب خون کی صورت میں ہو ، اس کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ چونکہ ظلم ہمیشہ جہالت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، جب جہالت ختم ہو جائے گی تو ظلم خود بخود ختم ہو جائے گا اور دوسری طرف نظام ِ عدل بھی پوری طرح فعال ہوگا لہذا دنیا ہر طرح کے ظلم سے پاک ہو جائے گی۔ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور مجرم پیشہ افراد کے ساتھ سخت قانونی برتاو کیا جائے گا۔ کسی بھی قسم کی رشوت یا سفارش کسی بھی ظالم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔
حدیث میں ہے کہ جب امام مہدیؑ ظہور کریں گے تو کوئی ایسا مسلمان غلام نہیں رہ جائے گا جسے امام خرید کر راہِ خدا میں آزاد نہ کر دیں نیز کوئی مقروض ایسا نہیں بچے گا جس کے قرض کو امام ؑ ادا نہ کر دیں۔
رسولِ خداﷺ فرماتے ہیں کہ جب عیسیٰ ابن مریم ؑ آسمان سے زمین پر آئیں گے تو چرواہے اپنے مویشیوں سے کہیں گے کہ فلاں جگہ چرنے کے لئے جاو اور اس وقت لوٹ آو، گوسفندوں کے گلے دو کھیتوں کے درمیان ہونگے لیکن ایک خوشے کو بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے اور ایک شاخ تک اپنے پیروں سے نہیں روندیں گے۔
۷۔انسان کی قدر دانی
وہ انسانیت کی معراج کا دور ہوگا۔ اس دور میں علم و شعور اور آگاہی کے باعث ایک انسان دوسرے انسان کی خدمت کرنے کو عبادت اور شرف سمجھے گا اور کوئی بھی انسان دوسرے کے حقوق کو پائمال نہیں کرے گا بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور دوسرے انسانوں کی خوشحالی کے لئے کام کرنے کو اللہ سے قرب کا وسیلہ سمجھا جائے گا اور ایک مومن دوسرے مومن کی مدد کرنے کو واجب سمجھے گا۔
اس طرح معاشرے میں انسانوں کی درمیان کسی قسم کی کوئی طبقاتی ، جغرافیائی ، لسانی یا ذات پات کی کوئی تفریق اورفاصلہ نہیں ہوگا۔ سب آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں گے۔پیغمبرِ اسلام ﷺ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگوں کے دلوں سے کینہ اور دشمنی ختم ہو جائے گی۔
۸۔ میرٹ کی حاکمیت
انسان اس دور میں بھی اپنا کام کاج کریں گے اور ہر انسان کو میرٹ کے مطابق اس کا حصہ ملے گا، ہر طرح کی رشوت اور سفارش ختم ہو جائیگی اور بغیر کسی رشوت اور سفارش کے لوگ اپنی استعداد کے مطابق اپنے لئے کام کاج کا انتخاب کریں گے۔تمام تر اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر افارد کا انتخاب ہوگا اور تمام تر فیصلے بھی میرٹ کی بنیاد پر ہونگے۔
میرٹ کی حاکمیت کے باعث، برادری ازم، اقربا پروری، لوٹ کھسوٹ، دھونس دھاندلی اور مکر و فریب کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حدیث میں ہے کہ آپ اس طرح مال تقسیم کریں گے کہ آپ سے پہلے کسی نے اس طرح تقسیم نہیں کیا ہو گا۔
۹۔غربت و افلاس کا خاتمہ
عدالت ، علم اور میرٹ کے باعث دنیا میں کوئی شخص فقیر اور نادار نہیں رہے گا حتیٰ کہ لوگ ذکواۃ دینے کے لئے فقرا اور نادار حضرات کو ڈھونڈتے پھریں گے لیکن انہیں کوئی فقیر یا نادار شخص نہیں ملے گا۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ فرماتے ہیں کہ ناامیدی اور فتنوں کے زمانے میں مہدیؑ نامی شخص ظہور کرے گاجس کی بخشش اور عطا لوگوں کی خوشحالی کا باعث ہوگی۔
ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ ، ملاوٹ اور بخل و کنجوسی جیسی برائیوں کا قلع قمع کر دیا جائے گا جس کی وجہ سے معاشرے کے عام لوگ بھی مطمئن اور ثروت مندانہ زندگی بسر کریں گے۔
پیغمبر ﷺ کی حدیث ہے کہ مہدی ؑ میری امت میں ہونگے ، ان کی حکومت میں مال و دولت کا ڈھیر لگ جائے گا۔
۱۰۔ نبی آخرالزماںﷺ کی سنتوں کا احیا
اس زمانے میں ہر طرف حضور نبی کریم ﷺ کی سنتوں کا دور دورہ ہوگا اور لوگ اپنے شب و روز کو سرکارِ دوعالم کی سنتوں سے مزین کریں گے۔پورا انسانی معاشرہ صدر اسلام کے مسلمانوں کی طرح محبت ، اخوت اور رواداری کی مثال بن جائے گا۔اگر کسی کو کوئی نعمت میسر ہوگی تو وہ سب سے پہلے اپنے ہمسایوں اور عزیزو اقارب میں اسے تقسیم کرنے کو سعادت سمجھے گا، اسی طرح ایک ہمسایہ دوسرے ہمسائے کے لئے دعا اور طلبِ مغفرت کے ساتھ ساتھ اس کی عملی مدد بھی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ گویا پوری عالمی برادری ایک بڑے خاندان میں تبدیل ہو جائیگی۔
حضورﷺ فرماتے ہیں کہ قریش سے ایک شخص ظاہر ہوگا جو لوگوں کے درمیان مال تقسیم کرے گا اور اپنے نبیﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوگا۔
۱۱۔ صحت و علاج
مہدوی حکومت میں سب کے لئے یکساں طور پر صحت اور علاج کی سہولتیں میسر ہونگی۔ ایسا نہیں ہو گا کہ امیر لوگ اچھے اہسپتالوں میں جائیں یا بیرون ملک علاج کے لئے جائیں اور غریب ایڑیاں رگڑتے رہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے معیاری علاج کی سہولتیں عام ہونگی جس کی وجہ سے اس زمانے کے لوگوں کی عمریں بھی طویل ہونگی۔یہانتک کہ بعض عام افراد کی عمریں ہزار سال تک بھی پہنچ جائیں گی۔
۱۲۔ امام مہدیؑ کا اپنے سپاہیوں کے ساتھ عہد وپیمان
۱۔میدان جنگ سے فرار نہیں کرو گے
۲۔ چوری نہیں کرو گے
۳۔ناجائز کام نہیں کرو گے
۴۔حرام کام نہیں کرو گے
۵۔برے اور قبیح اعمال انجام نہیں دو گئے
۶۔سونا چاندی ذخیرہ نہیں کرو گے
۷۔کسی کو ناحق نہیں مارو گے
۸۔جو اور گیہوں ذخیرہ نہیں کرو گے
۹۔کسی مسجد کو خراب نہیں کرو گے
۱۰۔ناحق گواہی نہیں دو گے
۱۱۔کسی مومن کو ذلیل و خوار نہیں کرو گے
۱۲۔سود نہیں کھاو گے
۱۳۔سختی و مشکلات میں ثابت قدم رہو گے
۱۴۔خداپرست و یکتا پرست انسان پر لعنت نہیں کر وگے
۱۵۔ شراب نہیں پیو گے
۱۶۔ سونے کے تاروں سے بنا لباس نہیں پہنو گے
۱۷۔ حریر و ریشم کا لباس نہیں پہنو گے
۱۸۔بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کرو گے
۱۹۔ محترم خون نہیں بہاو گے
۲۰۔کافر و منافق پر انفاق نہیں کرو گے
۲۱۔ خز کا لباس نہیں پہنو گے
۲۲۔ مٹی کو اپنا تکیہ بناو گے
۲۳۔ ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرو گے
۲۴۔نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے
اس وقت آپ کے اصحاب کہیں گے کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہم اس پر راضی ہیں اور آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں، اس وقت امامؑ بیعت کے طور پر ہر ایک سے مصافحہ کریں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کا انسان ایسی مثالی حکومت کے قیام سے لا تعلق اور محروم کیوں ہے!؟
بات یہ ہے کہ در اصل اسلامی معاشرے نے ہی مہدویت کے تصور کو دنیا بھر میں متعارف کروانا تھا لیکن مہدویت کے حوالے سے خود یہی معاشرہ مختلف غلط فہمیوں کا شکار ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مہدوی حکومت کی تشکیل کا خواب پورا نہیں ہو پا رہا اور دنیا مہدویت کو بطورِ حکومت ابھی تک نہیں سمجھ سکی۔
اسلامی معاشرے میں مہدویت کے حوالے سےغلط تصورات
مسلمانوں کے ہاں مہدویت کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کا ذکر اور ازالہ ضروری ہے:
۱۔ صرف انتظار
مسلمانوں کے ہاں عام طور پر ایک بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حضرت امام مہدیؑ کا انتظار کیاجائے۔ حالانکہ جب بھی کسی حکومت کے قیام کے لئے انتظار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا جاتا بلکہ اس حکومت کے لئے باقاعدہ کمپین اور مہم چلائی جاتی ہے تب جاکر وہ حکومت قائم ہوتی ہے۔
۲۔ اپنی ذمہ داریوں سے نا آشنائی
مسلمانوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ اسے ایک مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے کیاکرنا چاہیے، یعنی عام مسلمان اس حوالے سے یہ نہیں جانتا کہ اس کی کیا زمہ داری بنتی ہے؟!
۳۔ مہدویت کے بارے میں عدم شعور
بہت سارے مسلمان مہدویت کے بارے میں تفصیلی طور پر کچھ بھی نہیں جانتے ، بلکہ یوں تو جمہوریت و آمریت اور بادشاہت کے بارے میں تو ہماری معلومات بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کی نسبت مہدویت کے بارے میں ہم سطحی سے معلومات بھی نہیں رکھتے ، جس کی وجہ سے مہدویت کی حکومت کی تشکیل میں مشکلات حائل ہیں۔
۴۔ مہدویت بغیر نصاب کے
ہمارے ہاں مسلمان ہونے کے باوجود مہدویت ہمارے نظامِ تعلیم میں شامل نہیں ، جس کی وجہ سے ہم نسل در نسل مہدویت سے نا آشنا ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت محض ایک یا کچھ معجزات سے قائم ہو جائیگی۔ ضرورت اس ا مر کی ہے کہ مہدویت کو تمام تر تفصیلات کے ساتھ نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے تا کہ لوگ مہدویت کو اچھی طرح سمجھیں اور امام مہدیؑ ہونے کے جھوٹے دعویداروں کو بھی پہچانیں۔
۵۔ مہدویت بدونِ نظامِ حکومت
ہمارے ہاں اگر مہدویت پر بات کی بھی جاتی ہے تو بطورِ نظامِ حکومت نہیں کی جاتی، بلکہ مہدویت کو قیامت کی نشانیوں اور آخرت کی علامات سے جوڑ کر اس بحث کو ختم کر دیا جاتا ہے۔
مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے درست لائحہ عمل
۱۔ جمہوریت سے مہدویت کی خدمت
سب سے پہلے جمہور کو مہدویت سے آشنا کیا جائے اور عوام النّاس میں ایک مہدوی حکومت کے قیام کی تڑپ پیدا کی جائے، لوگوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ سمجھایا جائے کہ ان کے تمام تر مسائل کا حل مہدوی حکومت کی تشکیل میں پو شیدہ ہے تاکہ لوگ کسی تشنہ شخص کی طرح مہدویت کی تشنگی کو محسوس کریں۔
۲۔ مہدویت شناسی کے لئے اداروں کا قیام
ہر عمر، ہر مذہب اور ہر دین کے شخص کو مہدوی حکومت سے آشنا کرنے کے لئے مخصوص اداروں اور ریسرچ سنٹرز کی ضرورت ہے۔ ایسے سنٹرز میں محقیقین مخاطب شناسی کر کے مخاطبین کی زہنی سطح کے مطابق مہدویت کو تبیین کریں۔
۳۔اپنی ذمہ داریوں کا تعین
اس دنیا کو بدبختی، فقر، جہالت اور ظلم سے نجات دلانے کے لئے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے، مہدوی حکومت کی تشکیل کے لئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ مہدوی حکومت کی خصوصیات کیا ہیں!؟ مثلا ً مہدوی حکومت کی ایک خصوصیت علم و ااگاہی کا دور دورہ ہے تو ہمیں دنیا میں علم و ااگاہی کو عام کرنے کے لئے کمربستہ ہو جانا چاہیے ، اسی طرح اگر مہدوی حکومت کی ایک اور خصوصیت ظلم و جور کا خا تمہ ہے تو ہمیں جہاں بھی ہوں ظلم و جور کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، ہم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ جس حال میں ہے وہاں سے کس مہدوی خصوصیت کو عملی کر سکتا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی بساط کے مطابق مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کا کام شروع کر دے تو یہ معاشرہ خود بخود مہدوی حکومت کی طرف بڑھنے لگے گا۔
۴۔ انتظار کا درست مفہوم
عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مہدوی حکومت کا بس انتظار کیا جائے اور یوں خود بخود وہ حکومت قائم ہو جائے گی۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری یہ دنیا اسباب اور مسبب کی دنیا ہے، اگر ہم خود مہدوی حکومت کے اسباب فراہم نہیں کریں گے تو اسی طرح مختلف انواع و اقسام کی حکومتیں ہمارا استحصال کرتی رہیں گی۔ لہذا جس طرح ہم دیگر حکومتوں کے قیام کے لئے کمپین اور مہم چلاتے ہیں اسی طرح ہمیں مہدوی حکومت کے لئے بھی کمپین اور مہم چلانی چاہیے، ہماری تحاریر و تقاریر میں جابجا مہدویت کا ذکر ملنا چاہیے اور لوگوں کو مہدوی حکومت کی خصوصیات کو اپنانے اور پھیلانے کی تلقین کی جانی چاہیے۔
۵۔ مہدوی حکومت اور انقلاب
ظاہر ہے دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی کہ ظلم کی جگہ عدل لے لے، تاریکی کی جگہ نور لے لے، کفر کی جگہ اسلام آجائے، شر کی جگہ خیر سنبھال لے، رشوت کی جگہ میرٹ کا بول بالا ہو یہ سب کچھ بیٹھے بٹھائے ہونے والا نہیں ہے ، اس کے لئے ایک بہت بڑی انقلاب اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ انقلاب اور تبدیلی لوگوں کے سرکاٹنے سے ممکن نہیں بلکہ اس نقلاب اور تبدیلی کے لئے لوگوں کے افکار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر لوگوں کا باطن تبدیل ہوجائے اور لوگ عقلی طور پر ظلم و ستم، کرپشن اور دھاندلی ، فقر اور ناداری نیز جبر و استحصال سے نفرت کرنے لگیں تو باہر کی دنیا خود بخود تبدیل ہو جائے گی۔
ہمارے عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دور کا انسان ابھی تک اچھائی اور برائی کو تشخیص دینے میں گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے، یہ بے چارہ یہ تو چاہتا ہے کہ دوسرے غلط کام نہ کریں لیکن اگر اسے موقع مل جائےتو یہ خود وہی کام کرنے لگتا ہے جن سے دورسوں کو منع کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے دور کے انسان کی تربیت ابھی اس سطح کی نہیں ہوئی کہ وہ اپنے لئے بھی وہی پسند کرے جو دوسروں کے لئے پسند کرتا ہے۔
تربیت پر توجہ کی ضرورت
کسی بھی انقلاب کے لئے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے، حضرت امام مہدیؑ کے انقلاب کے لئے بھی تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے، وہ ایسے افراد ہونے چاہیے کہ جو سب سے پہلےخود مہدویت کی خصوصیات سے مزین ہوں اور دوسرے لوگ ان کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر مہدوی بننے کی تمنّا کریں۔ اگر ایسے اخلاق و کردار کے حامل افارد کی تربیت نہیں کی جاتی تو ظاہر ہے کہ پھر مہدوی حکومت کے قیام میں بھی بہت تاخیر ہو سکتی ہے۔یہ تربیت بھی دوطرح کی ہونی چاہیے:
تربیت عمومی اور تربیت خصوصی: تربیت عمومی کے طور پر تمام انسانوں کو خیرو بھلائی اور دین اسلام پر عمل کرنے کے دعوت دی جانی چاہیے اور تربیت خصوصی کے طور پر ایسے افراد کی خصوصی تربیت کی جائے جو مہدویت کے عمیق مسائل کو قرآن و سنت سے بطریقِ احسن استخراج کر کے لوگوں تک مہدویت کا پیغام عملی طور پر پہنچائیں۔
جس نظریے کے پاس تربیت یافتہ افراد نہ ہوں وہ نظریہ کوئی انقلاب یا تبدیلی نہیں لا سکتا لہذا ایک مہدوی انقلاب کے لئے افراد کی نظریاتی و عملی تربیت ضروری ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام مہدیؑ کے حکومتی اہلکاروں میں حضرت عیسیٰؑ، اصحاب کہف، مومن آل فرعون جیسی عظیم ہستیوں کے نام بھی آتے ہیں۔
نتیجہ:۔
دینِ اسلام اللہ کا آخری دین ہے، یہی دین انسانوں کی سعادت و خوشبختی کا بھی ضامن ہے، اس دین میں فقط انسانوں کے لئے اخلاق و طہارت اور عبادات کے احکام نہیں بیان کئے گئے بلکہ انسانوں کی خوش بختی کے لئے ایک مکمل نظام حکومت کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اس دینی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کریں جس کا کتاب و سنت میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔
جب تک مسلمان ایک الٰہی اور عالمی حکومت کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کریں گے تب تک خود بخود مسلمانوں کی عالمی حکومت قائم نہیں ہو جائے گی۔اس عالمی اور عادل حکومت کا نام مہدویت ہے ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں ، مہدویت کے حوالے سے تحقیق کریں اور مہدوی حکومت کے قیام کے لئے ممکنہ راہ حل سوچیں اور دنیا کو اس کی طرف دعوت دیں۔
فہرست منابع
1. قرآن مجید
2. احقاق الحق مكتبة المرعشي النجفي. مكان چھاپ: قم
3. ارشاد مفید كنگره شيخ مفيد قم
4. سنن ابي داود دارالرائد العربی، بیروت
5. سنن ترمذي دارالرائد العربی، بیروت
6. عقدالدرر دارالکتب الاسلامیه قم
7. غیبہ النعمانی دارالرائد العربی، بیروت
8. کمال الدین دارالکتب الاسلامیه قم
9. مستدرک حاکم انتشارات دار الکتب العلمیه، چھاپ بیروت
10. مصنف عبد الرزاق انتشارات دار الکتب العلمیه، چاپ بیروت
11. معجم رجال الحدیث وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چھاپ اول، تهران
12. ینابیع المودّۃ دار العراقیۃ الکاظمیۃ، و انتشارات محمّدی، قم، چھاپ ہشتم
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کی صوبائی کابینہ کا اجلاس جامع مسجد الحسین نیو ملتان میں منعقد ہوا. اجلاس کی صدارت صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی نے کی. اجلاس میں خصوصی طور پر کوآرڈینیٹر شعبہ تنظیم سازی برادر آصف رضا ایڈووکیٹ نے شرکت کی. اجلاس میں صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی،غلام اصغر تقی،مہر سخاوت علی،مولانا ہادی حسین ہادی،سید وسیم عباس زیدی،سید علی رضا زیدی،ناصر عباس،سید ندیم عباس کاظمی،اسد عباس عسکری،ثقلین نقوی نے شرکت کی، اجلاس میں محرم الحرم کے معاملات،تنظیم سازی کے حوالے امور طے کیے گئے۔
وحدت نیوز (چنیوٹ) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین ضلع چنیوٹ رجوعہ سادات یونٹ اور مدرسہ خواہران رجوعہ کے اشتراک سے عشرہ زینبیہ کی مناسبت سے مجلس عزا کا انعقاد کیا گیا، مجلس عزا سے ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری امور تنظیم سازی محترمہ سیدہ معصومہ نقوی اور ضلعی سیکریٹری جنرل محترمہ سیدہ صائمہ زیدی نے خطاب کیا، جس میں فضائل بی بی زینب (س) پر روشنی ڈالی گئی اور خواتین کو کردار زینبی اپنانے کی تشویق دلائی گئی۔ قابل ذکر ہے کہ پروگرام کے آغاز میں ننھی بچیوں اور جوان بیٹیوں نے جناب زینب س کی خدمت میں بھر پور عقیدت کا اظھار کیا ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے ہفتہ کے روز اسلام آباد میں ارنا نیوز ایجنسی کے نمائندے کو خصوصی انٹریو دیتے ہوئے کہاکہ زائرین کے مسائل صرف محرم الحرام کے پہلے عشرے یا چہلم کے ایام تک محدود نہیں بلکہ پاکستانی شہریوں کے ایران اور عراق کی زیارتوں کے سفر کا سلسلہ پورے سال جاری رہتا ہے،انہوں نے یہ تجویز دی ہے کہ ایران، پاکستان اور عراق کی خارجہ، داخلہ اور مذہبی امور کی وزارتوں پر مشتمل مشترکہ رابطہ اور تعاون کمیٹی کی تشکیل ہو جس کا مقصد زائرین کو درپیش مسائل کے حل کے لئے بہتر اور وقت کے مطابق اقدامات اٹھائے جائیں۔
علامہ راجہ ناصر عباس نے چہلم امام حسین (ع) کے سالانہ عظیم پیدل مارچ کو شیعہ سنی کی وحدت کی منفرد علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ چہلم مارچ سے عالم اسلام میں باہمی اتحاد مزید مضبوط ہوگا جس سے امت مسلمہ کے دشمنوں میں مایوسی پیدا ہوگی،انہوں نے پاک ایران سرحد تفتان پر پاکستانی زائرین کی پذیرائی کے لئے حکومت ایران کی منفرد انتظامات بالخصوص پاکستانی زائرین سے متعلق قائد اسلامی انقلاب کی خصوصہ توجہ کا شکریہ ادا کیا،علامہ جعفری نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کی ہوائی کمپنیاں اس موقع پر مقدس مقامات کے لئے پاکستان سے براہ راست پروازیں چلائیں جس سے ان کا مالی فائدہ بھی ہوگا اور زائرین کو بھی سہولت فراہم ہوگی۔
وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین شعبہ امور خارجہ نے اپنے ایک بیان میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے امسال اربعین حسینی کے موقع پر اپنے پروگرامز اور فعالیت کا اعلان کیا ہے،مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے شعبہ امور خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری ڈاکٹر سید ابن حسن نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ امسال مجلس وحدت مسلمین پاکستان نجف اشرف اور کربلائے معلی میں سید الشہداءؑ انٹرنیشنل کانفرنسز منعقد کرے گی جس میں دنیا بھر سے تشریف لانے والے پاکستانی زائرین حضرت ابا عبداللہ الحسین اور قومی و بین الاقوامی شخصیات شریک ہوں گی۔
ان کے کہناتھاکہ اس سلسلے کی پہلی کانفرنس 15 صفر بوقت 10 بجے دن نجف اشرف شارع رسول پر واقع حسینیہ باقر شریف قریشی میں منعقد ہو گی جس کی میزبانی کے فرائض مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ نجف اشرف انجام دے گا،اس سلسلے کی دوسری کانفرنس 21 صفر بوقت 2:30 بجے ظہرحرم امام حسین (ع) میں واقع خاتم الانبیاء کانفرنس ہال میں منعقد ہو گی جس کی میزبانی کے فرائض مجلس وحدت مسلمین شعبہ یورپ انجام دے گا، ان بین الاقوامی کانفرنسوں میں دنیا بھر سے تشریف لانے والے پاکستانی زائرین کے علاوہ قومی و بین الاقوامی شخصیات شریک ہوں گی۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ان کانفرنسوں میں خصوصی شرکت فرمائیں گے،اس کے علاوہ مجلس وحدت مسلمین کے ذیلی شعبہ جات قم المقدس و نجف اشرف کی طرف سے اربعین واک کے دوران دو مختلف مقامات پر موکب شہدائے پاکستان کے نام سے ثقافتی اسٹالز لگائے اور ان پر زائرین حضرت ابا عبداللہ الحسین (ع) کی خدمت کی سعادت حاصل کی جائے گی، موکب شہدائے پاکستان نجف اشرف نزد شارع مدینہ مولانا خاور عباس شاہ صاحب کی مسوولیت میں فعالیت کرے گا، جبکہ موکب شہدائے پاکستان کے نام سے نجف سے کربلا کے راستے میں ستون نمبر 1120 پر ثقافتی اسٹال لگایا جائے گا جس میں پاکستانی شہداء کی تصویری نمائش کا اہتمام کیا جائے گا،مجلس وحدت مسلمین کے متعلقہ شعبہ جات کے مسوولین و کارکنان مولانا جان علی حیدری صاحب کی مسوولیت میں یہاں زائران حضرت ابا عبداللہؑ کی میزبانی کا شرف حاصل کریں گے۔
علاوہ ازیں مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ امور خارجہ حسینی ثقافت کی ترویج اور اشاعت کے کارخیر میں شریک ہونے کے لیے امسال عراق اور ایران (زاہدان) خصوصی ثقافتی ٹیمیں اعزام کر رہا ہے جو مختلف مواکب اور مقامات پر جاکر حسینی ثقافت کی ترویج و اشاعت کے لیے پہلے سے طے شدہ فعالیت انجام دیں گیں،مجلس وحدت مسلمین ہمہ وقت زائرین حضرت ابا عبداللہ الحسین (ع) کی خدمت کے لیے حاضر ہے، دوران سفر اربعین پیش آنے والی مشکلات کے حل یا سفر اربعین سے متعلقہ راہنمائی یا مجلس وحدت مسلمین کے پروگرامز کی تفصیلات کے لیے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی دفتر اسلام آباد, قم المقدس, مشہد مقدس اور نجف اشرف کے دفاتر اور متعلقہ مسوولین کے درج ذیل نمبروں پر رابطہ کریں۔
مرکزی دفتر اسلام آباد مولانا ضیغم عباس صاحب: +92 334 4663575
دفتر شعبہ قم المقدس کے مسوول مولانا عادل علوی صاحب: +989356560461
دفتر شعبہ مشہد کے مسوول مولانا عقیل عباس خان صاحب:+989158937810
شعبہ نجف اشرف کے مسوول مولانا خاور عباس شاہ صاحب: +9647713649420
مواکب و ثقافتی اسٹالز کے مسوول:امور خارجہ کے میڈیا کوآرڈینیٹر مولانا جان علی حیدری صاحب:+989388669413
امام حسین (ع) انٹرنیشنل کانفرنسز کے مسوول:حجت الاسلام والمسلمین مشرف حسینی صاحب:+447946453006
حجت الاسلام والمسلمین غلام حر شبیری صاحب: +353 85 207 2572
وحدت نیوز (سکردو) مرکزی امامیہ جامع مسجد اسکردو میں بلتستان کے علماء کا ایک غیر معمولی اجلاس حجت الاسلام شیخ محمد حسن جعفری کی سرپرستی میں ہوا، جس میں علمائے بلتستان کے نمائندہ وفد نے شرکت کی۔ اجلاس میں گلگت بلتستان میں عوامی حقوق اور اتحاد و وحدت کے لئے آواز بلند کرنے والے علماء بالخصوص آغا علی رضوی اور دیگر محب وطن شہریوں کو شیڈول فور میں ڈالنے کی بھرپور مذمت کی گئی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ گلگت بلتستان میں امن و اتحاد کے قیام میں سب سے زیادہ کردار علماء کرام کا ہے۔ انہیں شیڈول فور میں ڈالنا علماء کی توہین اور ہتک عزت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی بی جیسے پرامن خطے میں شیڈول فور کا نفاذ بلاجواز ہے اور علماء کرام کو عوامی حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے روکنے کی سازش ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ علمائے بلتستان کے اجلاس کے آخر میں اہم قرارداد بھی منظور کی گئی۔
ذرائع کے مطابق اس قرارداد میں کہا گیا کہ گلگت بلتستان جیسے پرامن خطے میں شیڈول فور کا استعمال بلاجواز ہے۔ اسے دہشتگردوں اور تکفیری عناصر کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے محب وطن شہریوں اور عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والوں کے خلاف استعمال کرنا قابل مذمت ہے۔ بلتستان کے علماء اس سلسلے میں ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ شیڈول فور کے ناجائز استعمال کو روکیں۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا آغا علی رضوی، بلتستان کے دیگر علماء اور عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے محب وطن شہریوں کو شیڈول فور میں ڈالنا انتہائی ناقابل برداشت اور عوامی حقوق کے لئے اٹھنے والی آواز کو دبانے کی کوشش ہے، انہیں فوری طور شیڈول فور سے نکالا جائے۔ جی بی کے علماء پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں، انہیں شیڈول فور میں ڈالنا ملک دشمنی ہے اور اس سے خطے میں شدید بےچینی پھیل سکتی ہے۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ وزیر مملکت برائے داخلہ اور دیگر مقتدر حلقے بلتستان کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آغا علی رضوی اور دیگر علماء کو فوری طور پر شیڈول فور سے خارج کریں۔