وحدت نیوز(آرٹیکل) غرب ایشیاءکی سیاست پر آج کل امریکی صدی کے ڈیل نامی معاہدے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔مستند خبروں کے مطابق امریکہ کی جانب سے پیش کی جانے والی صدی کی ڈیل جون کے مہینہ میں بحرین میں منعقد ہونے والی معاشی تعاون کی کانفرنس میں اعلان کیا جائے گا۔یہ ڈیل کیا ہے ؟ اس حوالے سے اگر خلاصہ کیا جائے تو صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ عرب حمیت برائے فروخت اور فلسطین کے خاتمہ کی صہیونی سازشوں میں عربی تعاون۔بہر حال صدی کی ڈیل کے عنوان سے جو باتیں فی الحال ذرائع ابلاغ تک پہنچ رہی ہیں ان میں سب سے اہم بات تو مسئلہ فلسطین سے متعلق ہی ہے جبکہ عالمی سیاسی منظر نامہ میں اس صدی کی ڈیل کی حمایت میں سرگرم عمل چند عرب حکمرانوں کا مطمع نظر خطے میں ایران سے دشمنی بھی ہے۔
در اصل یہ ایسے احمق حکمران ہیں کہ ایران سے دشمنی کی خاطر انسانیت کے دشمن اور فلسطین میں روز و شب مظلوم فلسطینیوں کے قاتل غاصب اور جعلی اسرائیل کی حمایت میں سرگرداں ہیں۔یقینا اس خیانت کی قیمت بھیانت ہی چکانا ہو گی کیونکہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا مقصد صرف اور صرف فلسطین پر تسلط قائم رکھنا نہیں بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے جس کی سرحدیں نیل کے ساحل سے فرات اور مکہ و مدینہ منور ہ تک طے کی گئی ہیں۔صدی کی ڈیل کی معلومات کو امریکہ کی جانب سے تاحال انتہائی صیغہ راز میں رکھا جا رہاہے لیکن پھر بھی کچھ معلومات ایسی ہیں جو اس ڈیل سے افشاں ہو چکی ہیں۔بین الاقوامی منظر نامہ پر سامنے آنے والی صدی کی ڈیل کی بنیادی معلومات میں ایک مسئلہ فلسطین سے متعلق امریکی ہٹ دھرمی اور یکطرفہ فیصلوں سے متعلق ہے۔
اس حوالے سے ماضی میں بھی امریکی صدر ٹرمپ پہلے ہی یکطرفہ احمقانہ فیصلے اعلان کر چکے ہیں اور امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے القدس شہر میں منتقل کرنا اور اس شہر کو صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت قرار دینا اور پھر اس کے فوری بعد شام کے علاقے جولان کی پہاڑیوں سے متعلق اسرائیل کی جعلی ریاست کی خود مختاری تسلیم کرنا سب کے سب اقدامات دراصل صدی کی ڈیل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
فلسطینی عوام کو پہلے القدس کو تقسم کر کے دینے کی بات کی جاتی رہی یعنی مشرقی اور مغربی القدس ۔لیکن اب صدی کی ڈیل میں کہا جا رہاہے کہ فلسطینیوں کو مشرقی القدس کے بجائے ابو دیس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت قبول کرنے پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ قدیم بیت المقدس اسرائیل کے کنٹرول میں رہیگا۔ اس پر اسرائیل کے سوا کسی کا کنٹرول نہیں ہوگا۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ بیت المقدس بغیر کسی تقسیم مشرقی ومغربی کے پورے کا پورا ہی پورے فلسطین کا دارلحکومت تھا اور ہے اور اسی طرح رہے گا ۔
صدی کی ڈیل میں کہا گیا ہے کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل چند ایک علاقوں سے ہٹ کر کچھ ایسے علاقوں میں کہ جہاں پہلے ہی صہیونیوں کی آباد کاری کی شرح انتہائی کم ہے وہاں سے صہیونیوں کے نکال لیا جائے گا۔صدی کی ڈیل کے عنوان سے امریکی صدر ٹرمپ کی احمقانہ سوچ یہ بھی ہے کہ شاید فلسطینیوں کو معاشی پیکج اور مالی لالچ دے کر خرید لیا جائے گا۔اس عنوان سے صدی کی ڈیل میں غزہ کے علاقے کو کہ جس کو تاحال امریکی سرپرستی میں صہیونی جعلی ریاست اسرائیل نے محاصرے میں رکھا ہوا ہے ، اب کہا گیا ہے کہ اس علاقے کی تعمیر کی جائے گی۔یعنی فلسطین کے باشندوں کو لالچ دی جا رہی ہے لیکن فلسطین کے غیور عوام گذشتہ ایک سو برس سے مزاحمت کرتے آئے ہیں اور اس طرح کے امریکی اوچھے ہتھکنڈوں کے جال میں پھنسنے والے نہیں ہیں۔
صدی کی ڈیل میں بتایا گیا ہے کہ وادی اردن پر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا ناجائز تسلط رہے گا۔اسی طرح ایک اور اہم مسئلہ جو قبلہ اول کے اوقاف سے متعلق ہے اس بارے میں اس ڈیل میں کہا گیا ہے کہ بیت المقدس کے اوقاف اور مقامات مقدسہ سے اردن کی ہاشمی ریاست کی تولیت ختم کر دی جائے گی۔جعلی ریاست اسرائیل بیت المقدس کے اوقاف کا ذمہ دار ہو گا۔(صدی کی ڈیل کے مطابق)صدی کی ڈیل کو بنانے اور اس کے بارے میں عرب دنیا سے مکمل حمایت حاصل کرنے کا بنیادی ٹاسک امریکی صدر کے داماد کوشنر کے پاس ہے جبکہ ان کی معاونت میں سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان اور عرب امارات کے محمد بن زاید پیش پیش ہیں۔
فلسطینی حکومت ، عوام اور تمام مزاحمتی و سیاسی دھڑے اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیںاس حوالے سے امریکہ نے فلسطینی دھڑوں کو خریدنے کا منصوبہ بھی اسی صدی کی ڈیل میں رکھا ہے اور اگر خرید نہ سکے تو پھر ان گروہوں اور دھڑوں کو سخت سزائیں دینے اور فلسطینیوں کی باقاعدہ امداد کو بند کرنے جیسے احکامات بھی صدی کی ڈیل کا حصہ ہیں۔ اردن کے عوام اور حکومت بھی اس حوالے سے منظر عام پر آنے والی اطلاعات سے شاکی ہے۔ اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ الثانی صدی کی ڈیل کو مسترد کرچکے ہیں۔ مشرقی القدس کے مستقبل سے متعلق انہیں صدی کی ڈیل کا کوئی بھی فیصلہ قبول نہیں۔ اسی طرح مقامات مقدسہ پر اردن کی تاریخی تولیت بھی ختم کرنا اسے قبول نہیں۔
علاوہ ازیں وادی اردن پر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا مسلسل قبضہ بھی اس کےلئے ناقابل قبول ہے۔امریکی صدر جس دن سے صدارت کی کرسی پر براجمان ہوئے ہیں پوری دنیا کے امن کو شدید خطرات لاحق ہو چلے ہیں۔اب صدی کی ڈیل کے نتیجہ میں نہ صرف فلسطین کو ختم کرنے کی گھناؤنی سازش کی جا رہی ہے بلکہ ساتھ ساتھ خطے کی دیگر ریاستوں کے مقبوضہ علاقوں پر بھی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ناجائز تسلط کو باقاعدہ تسلیم کئے جانے کی ناپاک سازش بھی پنپ رہی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے پیش کی جانے والی صدی کی ڈیل ایک خود ساختہ اور امریکہ کی یکطرفہ ڈیل ہے۔
امریکہ کی کوشش ہے کہ صدی کی ڈیل کے مطابق ہی فلسطین کے مسئلہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نابود کیا جائے لیکن دورسی طرف فلسطین کے غیور عوام اور دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت میں سرگرم حریت پسند ہیں کہ جنہوںنے شدت کے ساتھ امریکہ فارمولہ صدی کی ڈیل کو مسترد کر دیا ہے۔پاکستان بھی ایسے ہی غیور ممالک میں شمار ہوتا ہے کہ جس نے امریکہ کی اس صدی کی ڈیل کو مسترد کر دیا ہے ۔
وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین سے متعلق مسلمان اور عرب حکومتیں بھرپور اور واضح موقف اپناتے ہوئے فلسطین کا دفاع یقینی بنائیں ۔لیکن ساتھ ساتھ افسوس ناک صورتحال کا سامنا کچھ اس طرح ہے کہ امت مسلمہ کے نام نہاد ٹھیکیدار ہی فلسطینیوں اور پوری مسلم امہ کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے میں مصروف عمل ہیں۔
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
وحدت نیوز(اسلام آباد) البصیرہ شعبہ خواتین کے زیر اہتمام اسلام آباد میں یوم آزادی پاکستان و یوم القدس سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شیعہ سنی ، مذہبی و سیاسی خواتین نمائندگان نے شرکت کی۔ اس سیمینار سے دختر جناب سید ثاقب نقوی اور مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین ضلع اٹک کی سیکرٹری اطلاعات محترمہ زینب نقوی نے بھی شرکاء سے خطاب کیا قرآن کی آیت حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور بیشک باطل مٹنے کے لیے ہے کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ خداوند کا وعدہ ہے کہ وہ مستضعفین کو غلبہ عطا کرے گا ۔یوم القدس در حقیقت باطل کی نابودی و رسوائی کا اعلان ہے۔ رہبر انقلاب سید علی خامنہ ای کا فرمان بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ القدس کے دن مردہ باد امریکہ و اسرائیل سے فضا گونجنی چاہیے۔ امت مسلمہ کو اتحاد و یگانگت کی مثال قائم کرتے ہوئے باطل صیہونی طاقتوں کو شکست دینا ہوگی ۔مظلوم فلسطینی عوام کے حقوق اور قبلہ اول کے تحفظ و تقدس کے لیے تمام عالم اسلام کو ملکر آواز اٹھانی چاہیے۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری مالیات محترمہ قراة العین اور مرکزی آفس سیکرٹری محترمہ روبینہ شاہ بھی ان کے ہمراہ موجود تھیں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) رہبر کبیر امام خمینیؒ کے فرمان پر جمعة الوداع عالمی یوم القدس کے موقع پر دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یوم القدس بھرپور طریقے سے منایا گیا ۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے ملک بھر میں منعقدہ القدس ریلیوں میں ایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین کی جانب سے بھرپور شرکت کی گئی۔لاھور ، چینیوٹ ، اسلام آباد، اٹک ، فیصل آباد ، حیدر آباد اورملک کے دیگر اضلاع میں خواتین ہاتھوں میں امریکہ و اسرائیل مخالف پلے کارڈز اٹھائےاور اپنے ننھےبچوں کے ہمراہ حالت روزہ اور شدید گرمی کے موسم میں القدس ریلیوں میں شریک ہوئیں۔
وحدت نیوز(تہران) اردو زبان طلبہ جامعات تہران اور ایم ڈبلیو ایم شعبہ امور خارجہ کے تعاون سے تہران میں القدس کانفرنس کا انعقاد۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس کے حل کی ضرورت پر زور دیا۔ کانفرنس سے خطاب کے دوران ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری امور خارجہ اور معروف عالم دین حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے بیت المقدس کی تاریخ اور مذہبی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ خداوند متعال نے بیت المقدس اور اس کی ملحقہ سرزمینوں کو بابرکت قرار دیا اور انبیا علیہم السلام سے نسبت ہونے کی وجہ سے سرزمین فلسطین ایک خاص تقدس کی حامل ہے۔ انہوں نے کہا فلسطین پر صیہونیوں کا قبضہ ایک تدریجی عمل اور عرب حکمرانوں کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ ان کے بقول ہر ایک مخصوص وقت کے بعد جب صیہونی فلسطین کے نئے حصے پر قبضہ کرتے تو عرب حکمران پرانے حصے پر قبضے کو بھول جاتے اور یوں عرب حکمرانوں کی تدریجی عقب نشینی آج صدی کی ڈیل نامی معاہدے پر آکھڑی ہوئی ہے۔
انہوں نے عرب حکمرانوں کی مسئلہ فلسطین کے بارے خیانتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بعض عرب حکمران طول تاریخ میں صیہونیوں کے ہم نوا رہے اور ہمیشہ اسرائیل کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے درپے ہیں اور اس وقت صدی کی ڈیل کی تقویت کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی علیہ الرحمہ نے امت اسلامیہ کے اہم مسائل کو حکومتوں سے لیکر عوام کے ہاتھ میں دے دیا کیونکہ امام خمینی ملت اسلامیہ پر یقین رکھتے تھے کہ وہ شعائر اللہ کی حفاظت کرنے اور اسلام کی سربلندی کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر شیرازی نے ایران کو مزاحمت کی علامت اور مرکز قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج مشرق وسطی میں اسلام کے شعائر کی حفاظت اور سربلندی میں ایران اور نظام ولایت کا کردار نمایاں ہے۔ انہوں نے کہا عالم کفر ایران کے شیعہ ہونے سے نہیں بلکہ ایران کے مزاحمتی ہونے کیوجہ سے ایران سے خائف ہے وگرنہ شیعہ تو ایران کا سابق بادشاہ رضا شاہ بھی تھا۔ انہوں نے کہا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی دو طاقتیں بہت نمایاں ہیں ایک اسرائیل اور دوسری سعودی عرب۔ ان کے بقول سعودی عرب کی جانب سے یمن میں ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کے بعد دنیا کے بدترین مظالم کی مثال ہے۔
انہوں نے مسئلہ فلسطین کے حل کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل جمہوری طریقے سے فلسطین کے حقیقی باشندوں کے درمیان ریفرنڈم ہے کہ وہ اپنے ملک اور ملک پر قابض طاقتوں کے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ انہوں نے پاکستانی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان نے حالیہ غیر منصفانہ، ظالمانہ اور مکارانہ صدی ڈیل میں سعودی حکومت کے توسط یا کسی دیگر دباو کیوجہ سے اسرائیل کا ساتھ دیا تو اصولی طور پر اسے مسئلہ کشمیر سے ہاتھ دھونا اور اس کے اصولی موقف کی کمزوری کا باعث بنے گا کیونکہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے حق خودارادیت اور جمہوری اقدار کشمیر کے لیے ٹھیک لیکن فلسطین کے مسئلے میں ٹھیک نہ ہوں۔
اردو زبان طلبہ جامعات اور ایم ڈبلیو ایم کے تعاون سے تہران میں منعقدہ القدس کانفرنس کے دوسرے خطیب کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے معروف دانشور ڈاکٹر رحیم پور ازغدی نے ماہ مبارک رمضان کی مناسبت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حقیقی کامیابی اس دنیا کی کامیابی نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کامیابی اور شکست کا معیار آخرت ہے اور ماہ مبارک رمضان آخرت کی کامیابی میسر کرنے کے لیے بہترین موقع ہے۔ ڈاکٹر ازغدی نے کہا کہ اسلامی تہذیب و تمدن کو شکست سے دچار کرنے والے عناصر اس وقت بھی اسلام کے خلاف متحد اور اسلام کی ہر کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کے لیے سرگرم ہیں۔
انہوں نے کہا اسلامی دنیا میں زبان، ثقافت اور دیگر تہذیبی علامات کا فرق اس استعمار کا منصوبہ تھا جو اسلامی تہذیب کی طاقت سے خائف تھے۔ بیت المقدس کی تاریخی حیثیت کے بارے صیہونیوں کے پروپیگنڈا کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین اسلام سے قبل سلطلنت روم کے تحت کنٹرول تھا اور خود فلسطینیوں نے خلیفہ دوم کے زمانے میں مسلمان حکمرانوں کو خط و کتابت کے ذریعے فلسطین کی تمام سرزمین ان کے اختیار میں دینے کا اعلان کیا تھا صرف اس شرط کے ساتھ کہ مسلمان انہیں مذہبی آزادی اور رفاہ، تعلیم اور صحت میں آباد کریں گے کیونکہ غیر مسلمان سلطلنتیں اپنے زیر تسلط علاقوں کو برباد جبکہ مسلمان اپنے زیر تسلط علاقوں کو رفاحی، تعلیمی، صحت و تہذیبی لحاظ سے آباد کرتے تھے۔
انہوں نے کہا ہمارے زمانے کا استکبار بھی اسی سلطلنتی ڈگر پر چل رہا ہے کہ وہ جہاں بھی گیا اس نے ان خطوں کو تباہ و برباد اور غارت کیا ہے جبکہ اسلام ہمیشہ خطوں کو آباد کرنے کی بات کرتا ہے۔ انہوں نے قدس کو عالم اسلام کی مظلومیت کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر قدس آزاد ہوجائے تو عالم اسلام آزاد ہوجائے گا۔ ان کے بقول فلسطین پر ظلم و ستم اور بربریت ایک آدھ دن کی بات نہیں بلکہ یہ ظلم و ستم عشروں پر محیط ہے۔
انہوں نے کہا فلسطین فلسطینیوں کا ہے چاہے وہ مسلمان فلسطینی ہوں یا عیسائی اور یہودی، کسی تیسری طاقت کو حق حاصل نہیں کہ وہ فلسطین پر مسلط ہو یا ان کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ انہوں نے کہا فلسطین سے لاکھوں فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور، ہزاروں کو شہید، ہزاروں اب بھی اسرائیلی جیلوں میں جبکہ لاکھوں گھر تباہ و برباد کئے گئے ہیں۔ ان کے بقول یہ حق دنیا کے کونسے قانون اور اصول کے مطابق ہے کہ ایک گروہ آئے ایک ملک کے باشندوں کے ساتھ اور خصوصا مسلمان اکثریت کے ساتھ طاقت کے زور پر یہ ظلم روا رکھے۔
انہوں نے کہا صیہونی پروپیگنڈا مشینری ہاتھ میں ہونے کے سبب ظالم اور مظلوم کی جگہ کو ایکدوسرے سے تبدیل کرنے کے درپے ہیں وہ ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنانے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں ان کے بقول ایک فلسطینی بچے کا غلیل سے اسرائیلی فوجی کی طرف پھینکا پتھر تو دہشت گردی ہے لیکن اسرائیل سے فلسطینیوں پر داغے جانے والے میزائل دہشت گردی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا صیہونی بین الاقوامی اداروں کو بھی یہ باور کروانے کے درپے رہتے ہیں کہ اسرائیلی مظلوم جبکہ فلسطینی ظالم ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ڈاکٹر ازغدی نے کہا مسئلہ فلسطین یہود و اسلام کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ قابض طاقتوں کے منصوبوں کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا صیہونیت کا حضرت موسی علیہ السلام اور یہودیت کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ صیہونیت کی بنیادیں ایک سیکولر مغربی گمراہ مفکر ہرزل کے افکار پر مبنی ہیں اور ہرزل کے بقول اسرائیل کی تشکل کا ہدف مشرق وسطی میں مغرب کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک تھانیدار کی تعیناتی ہے۔ انہوں نے کہا مسئلہ فلسطین ایک شہر اور ایک ملک کی بات نہیں بلکہ سارا مغرب اس مسئلے میں صیہونیوں کی پشت پر نظر آتا ہے پس مسئلہ مغربی مفادات اور منصوبے کا ہے۔
یہود کے قتل و کشتار کے افسانے کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طول تاریخ میں کسی مسلمان حکمران یا مفکر نے یہودیوں کے قتل کا فتوی نہیں دیا ہے اگر تاریخ کے کسی حصے میں یہودیوں کے قتل کی داستان مان بھی لیں تو وہ مسلمانوں نے نہیں کیا جنہوں نے وہ قتل کیا ہے انتقام اور یہودیوں کی سرزمین کے قیام کی جدوجہد ان کے خلاف ہونی چاہئے۔
انہوں نے کہا یہودی اور عیسائی ایکدوسرے کے تاریخی دشمن ہیں۔ اسلام نے آکر ان کے درمیان صلح کی بنیاد رکھی اور ان کی ایکدوسرے سے دشمنی کا باعث بننے والی داستانوں کو جھوٹ قرار دیا اور اس حوالے سے شفافیت سامنے لائی لیکن اس وقت تاریخ کے یہ دو سرسخت ترین دشمن اپنے مشترکہ مفادات کی خاطر عالم اسلام کے مقابلے میں متحد ہیں۔
ڈاکٹر ازغدی نے کہا مقبوضہ فلسطین پر قابض صیہونیوں کا یہودیت اور فلسطین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ مغربی مفادات کا تحفظ کرنے والی ایک سیاسی جماعت ہے جس کا انیسویں صدی سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ ڈاکٹر ازغدی نے بین الاقوامی اداروں کی جانبداری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی ادارے امریکہ اور چند دیگر استعماری طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں اور انہوں نے صیہونیوں اور سعودیوں کو عالم اسلام میں قتل و کشتار کا لائسنس دے رکھا ہے۔ ڈاکٹر ازغدی نے کہا جو ملک بھی قرآن، مسجد، حجاب، آزادی اور انتخابات کی مخالفت اور اس سے مقابلہ کرے گا وہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کی بنیاد خود فراہم کرے گا۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ استعمار شدت پسندی کی وجہ خود ہے۔ انہوں نے کہا اس وقت دو گروہ ایسے ہیں جو مسئلہ قدس کی اہمیت کم کرنے کے لیے سرگرم ہیں ایک طرف انسانی حقوق کے نام پر امریکہ اور برطانیہ جبکہ دوسری طرف جہاد کے نام پر وہابیت اور تکفیریت جس کی سربراہی سعودی عرب کے حکمران کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا جس طرح صیہونیوں کا یہودیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اسی طرح سعودی حکمرانوں کا وہابیت اور دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ لوگ بے دین اور خطے میں مغربی طاقتوں کے مفادات کے محافظ ہیں۔ انہوں نے کہا سعودی حکمرانوں نے اسلامی بیداری کو داخلی اور فرقہ وارانہ جنگوں میں تبدیل کرکے استکبار اور امریکہ کی سب سے بڑی خدمت کی ہے۔
ڈاکٹر رحیم پور ازغدی نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا یاد رکھیے اسرائیل نے مذاکرات کیوجہ سے عقب نشینی نہیں کی ہے بلکہ حماس اور حزب اللہ کے مجاہدین کے جہاد اور شہادتوں اور شہیدوں کے خون کی تاثیر کی وجہ سے عقب نشینی کی ہے۔ انہوں نے کہا ایک وقت تھا جب اسرائیل کو ناقابل شکست سمجھا جاتا تھا پھر حزب اللہ اور حماس کی مزاحمت کی وجہ سے ایک وقت ایسا آیا کہ اسرائیل ۳۳ دن بعد صلح کی درخواست کرتا نظر آیا۔ انہوں نے کہا یہ ۳۳ دن پھر ۲۲ دنوں تک محدود اور حالیہ جنگ میں مزاحمتی بلاک کے مجاہدین نے اسرائیل کو صرف ۴ گھنٹے بعد گھٹںے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور وہ جنگ بندی کی درخواستیں کرنے لگا۔ انہوں نے کہا اگر مزاحمتی بلاک کی یہ عوامی پشت پناہی کی حامل مزاحمت جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جس دن سپاہ اسلام کے مجاہدین بیت المقدس میں داخل ہوجائیں گے۔تہران میں منعقدہ القدس کانفرنس میں اردو زبان طلبہ جامعات کے علاوہ تہران میں مقیم پاکستانی کمیونٹٰی کے متعدد افراد نے بھی شرکت کی۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) وزیر اعظم عمران خان کا اوآئی سی اجلاس میں گولان ہائٹس کا شامی حصہ اور بیت المقدس کوفلسطین کا دارالحکومت قراردینا قابل ستائش ہے ۔اسرائیل کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح کا موقف ہی پاکستان کا بیانیہ ہونا چاہئے ۔ایم ڈبلیوایم دو ریاستی فارمولے کو کسی صورت تسلیم نہیں کرتی ۔ پاکستان کی تمام سیاسی مذہبی جماعتیں مسئلہ فلسطین پر اتفاق رکھتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کا گولان ہائٹس کی واپسی کا مطالبہ عالمی قوانین کے عین مطابق ہے اور یہ پیغام بھی ہے کہ پاکستان کسی بھی غیر قانونی اقدامات کی حمایت نہیں کرئے گا ۔پاکستانی عوام کی حمایت فلسطینوں کے ساتھ ہے باشعور اور غیرت مند پاکستانی قوم ڈیل آف سینچری کے تحت ہونے والی کسی بھی کوشش کی حمایت نہیں کرئے گی ۔ حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور او آئی سی کو اس اہم سلگتے ہوئی علاقائی مسئلے پر کردار ادا کرنے کے لئے کوشش تیز کرئے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین میں ہم نہر سے بحر تک سارے فلسطین پر فلسطینی حکومت کے قائل ہیں۔دو حکومتوں کا نظریہ در اصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ کھولنے کا بہانہ ہے ۔ پاکستان کی جانب سے یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دیا جانا اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے لئے واضح پیغام ہے کہ پاکستان اسرائیل کو قابض اور فلسطینوں کی ان کے وطن واپسی کے حق کو درست مانتا ہے۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی جانب سےامام خمینیؒ کے فرمان پر قبلہ اوّل بیت المقدس اور ارض مقدس فلسطین کی صیہونی قبضہ سے آزادی اور امریکی ایما پہ مسلط کی جانیوالی “صدی کی ڈیل“ کیخلاف جمعتہ الوادع کو ملک بھر میں یوم القدس کے طور پہ منایا گیا۔چاروں صوبوں ، آزادکشمیر ، گلگت بلتستان اور جنوبی پنجاب بھرمیں بعد نماز جمعہ سوسے زائد شہروں ، قصبوں ، دیہاتوں میں احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے جبکہ ریلیاں بھی نکالی گئیں۔ان احتجاجی اجتماعات میں شدید گرمی اور سخت موسم کے باوجود حالت روزہ میں کڑوڑوں افراد بشمول خواتین، بچوں ،بزرگوں اور جوانوں نے بھرپور شرکت کی۔شرکاءنے ہاتھوں نےبینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر امریکہ ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے خلاف نعرے درج تھے۔
احتجاجی جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہاکہ قبلہ اوّل بیت المقدس کی صیہونی قبضہ و تسلط سے آزادی ہمارے ایمان کا حصہ ہے، پاکستان کی غیور عوام امریکہ اور عرب ریاستوں کی قبلہ اوّل کو مسلمانوں سے چھیننے اور آزاد فلسطینی ریاست کے وجود کے خلاف کسی سازش کو قبول نہیں کریںگے۔ انہوں نے کہا کہ نئے مشرق وسطی کی طرح امریکیوں اور انکے عرب اتحادی شیوخ کا “صدی کی ڈیل کا منصوبہ بھی خاک میں مل جائے گا۔ ارض مقدس فلسطین پہ فلسطینوں کا حق ہے اور کسی بھی خائن کو یہ حق حاصل نہیں کہ اسکا سودا کرسکے۔