وحدت نیوز(مظفرآباد) اولیاء اللہ کے مزارات دکھی انسانیت کے لیے دکھوں دردوں کا مداوا امیدوں کا مرکز و محور ہیں یہ وہ مقامات ہیں جہاں اولیاء اللہ کے توسل سے لوگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ان کی دلی حاجتیں اور تمنائیں پوری ہوتی ہیں۔ اولیاء اللہ زمین پر اللہ کے نمائندے اور ان کے مزارات زمین کی میخیں ہیں۔ پیر چناسی کے مقام پر حضرت پیر سید شاہ حسین شاہ بخاری بادشاہ کی ہستی ایسی ہستی ہے جو تین سو سال سے زیادہ عرصے سے یہاں منبع فیض بنی ہوئی ہے۔ آپ کا دربار فیض بار ہرخاص و عام کے لئے امن و محبت کا پیغام دیتا ہے یہ اولیاءاللہ ہی ہیں جنہیں نہ کوئی خوف ہے نہ حزن و ملال یہ اولیاء اللہ ہی ہیں جنہیں اللہ نے اپنا دوست قرار دیا ہے یہ اولیاء اللہ ہیں جن کے دربار گوہر بار بھٹکی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرنے کا باعث ہیں۔
ان خیالات کا اظہار سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے دربار عالیہ حضرت پیر سید نور امام حسینی المعروف حضرت پیرسید شاہ حسین شاہ بخاری بادشاہ پیر چناسی کے تین روزہ عرس کی اختتام کے موقع پر منعقدہ سیرت النبی ص کانفرنس کے دوران خطبہ صدارت میں کیا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھنے سے پہلے صورت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب ہمیں صورت سمجھ آئے گی تو سیرت خود بخودسمجھ آ جائے گی نبی علیہ السلام پیکر بشری میں نور تھے۔ انسانوں کی ہدایت کے لئے اللہ نے انہیں مبعوث کیا تھا اسی لیے انہیں بشری پیکر میں ڈال کر بھیجا تھا ان کا نورصلب آدم علیہ السلام سے پاک صلبوں اور پاک رحموں میں منتقل ہوتے ہوئے حضرت عبدالمطلب تک پہنچا۔وہاں سے اس نور کے دو حصے ہوئے ایک حصہ جناب عبداللہ کے صلب میں اور ایک جناب ابو طالب کے صلب میں منتقل ہوا۔ خود پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ میں اور علیؑ ایک ہی نور سے ہیں رسول اللہ کا نور اتنا تھا کہ اگر دیوار کے اس طرف بیٹھے ہوتے تو دوسری طرف راہگیر اپنا راستہ ڈھونڈ لیتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ اگر ہماری سوئی کھو جاتی تھی تو ہم انتظار کرتے تھے کہ پیغمبر اسلام تشریف لائیں تو ہم ان کے نور کی روشنی میں وہ سوئی تلاش کرسکیں۔ جب پیغمبر اکرم ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو اس بات کی ضرورت تھی کہ بستر پر کوئی ایسا شخص سوئے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سہیم نور ہو جس کے سونے سے کفار کو شک نہ ہو نورانیت اتنی ہو لہذا علی ابن ابی طالب علیہ السلام رسول اکرم کی چادر اوڑھ کر تلواروں اور تیروں کے سائے میں سو گئے۔
علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے مزید کہا کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے کہ وہ بی بی فاطمہ زہرہ سلام اللہ علیہا کے استقبال میں کھڑے ہوجاتے تھےانہیں اپنی جگہ بٹھاتے تھے ان کے ہاتھوں اور پیشانی کے بوسے لیتے تھے۔ سیرت النبوی کا ایک پہلو یہ ہے کہ امام حسن اور حسین علیہ السلام کواپنے کندھوں پر بٹھا کے اپنی واللیل زلفیں ان کے ہاتھوں میں دے کر مہار نبوت شہزادوں کے ہاتھوں میں دے دی۔
انہوں نے کہا کہ سیرت النبوی کا ایک گوشہ یہ بھی ہے کہ آپ نے مولا علی ع کو اپنے کندھوں پر بلند کر کے کعبہ کے بت توڑے اور آپ نے غدیر خم پر علی کا بازو پکڑ کر اعلان کیا کہ من کنت مولاہ فہٰذا علی مولا۔ سیرت پر عمل کرتے ہوۓ ہمیں مولا علی ع کو اپنا مولا تسلیم کرنا چاہیے علامہ تصور نقوی الجوادی نے مزید کہا کہ اگرپیر چناسی کا دربار اس قدر فیض بار ہے تویہ جن کی اولاد ہیں جن سے ولایت لیتے ہیں اور ان کے مزارات کس قدر فیض بار ہونگے۔
کانفرنس سے مخدوم سید لیاقت حسین نقوی متولی مرکزی امام بارگاہ پیر سید علم شاہ بخاری مظفرآباد, پیر سید غلام مرتضی گیلانی رہنما پاکستان تحریک انصاف, سید یاسر علی نقوی رہنما آل جموں مسلم کانفرنس, شوکت جاوید میر رہنماء پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر, کے علاوہ شبر کیانی, اسد کیانی و دیگر نعت خواں حضرات نے بارگاہ رسالت میں اپناہدیہ عقیدت پیش کیا۔جبکہ مسلم کانفرنس کے علاوہ مختیار عباسی اور عاصم نقوی و دیگر خصوصی طور پر کانفرنس میں شریک ہوئے۔