وحدت نیوز(قم المقدسہ) مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کی جانب سے انقلاب اسلامی ایران کی پینتیسویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ پروگرام میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے مشیراعلٰی اور سابق اسپیکر مجلس شوریٰ اسلامی ڈاکٹر غلام علی حداد عادل نے خصوصی خطاب کیا ۔ ایم ڈبلیو ایم کے دفتر آمد پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری اور شعبہ قم کے سیکرٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین غلام محمد فخرالدین نے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کابینہ نے اس پروگرام میں خصوصی شرکت کی۔ ڈاکٹر حداد عادل نے حوزہ علمیہ قم میں موجود پاکستانی طلاب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رھبر معظم انقلاب اسلامی ایران کے بقول قم میں موجود مختلف ممالک کے طلاب اس شہر میں مہمان نہیں بلکہ اس شہر کے باسی ہیں اور اسلامی جمہوری ایران آپ کا اپنا ملک ہے۔ انہوں نے انقلاب اسلامی ایران کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب اسلامی ایران درحقیقت دنیا میں رائج سوشلزم اور سرمایہ داری نظاموں کی نفی اور ان نظاموں کے عین مخالف دین کی حاکمیت کا نظام ہے۔ ولایت فقیہ شیعہ مذہب کی حاکمیت کا نام نہیں ہے بلکہ جو کوئی بھی دین کی حاکمیت کی بات کرتا ہے وہ ولایت فقیہ کا قائل ہے ہوسکتا ہے، کوئی خلیفہ یا امیر یا کوئی اور لفظ استعمال کرے، لیکن جب ہم دین کی حاکمیت کی بات کرتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ حاکم ایسا شخص ہو جو دین سے ناواقف ہو اور دین سے واقف اشخاص میں فقیہ حکومت کیلئے سب سے افضل مقام رکھتا ہے، اور یہی نظریہ ولایت فقیہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے مشیر اعلٰی نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کی آپس میں دوستی اور بہت پرانا رشتہ ہے۔ ایران میں علامہ محمد اقبال کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسی طرح برصغیر پاک و ھند کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں کوئی ایسا گھر نہیں ہوتا تھا کہ جس میں حافظ شیرازی کے مجموعہ اشعار موجود نہ ہو۔ ڈاکٹر حداد عادل نے یورپی نظام کو اندر سے خالی نظام کا نام دیا اور کہا کہ آج یورپ کے نظام زندگی اور نظریہ حکومت میں اخلاق اور ایمان کی کوئی جگہ موجود نہیں ہے۔ یورپ نوجوانوں کو گمراہی، بے راہ روی اور اخلاق سے خالی زندگی کی جانب دعوت دے رہا ہے، جبکہ اسلام نے انسان کی زندگی میں اخلاق کو بہت اہمیت دی ہے۔ ایران میں انقلاب اسلامی اور امام خمینی (رہ) کی تحریک کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ یہاں سے یورپی افکار کو اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا اور یہاں سے دنیا کو دوبارہ دین اور اخلاق کی جانب دعوت دی گئی۔