وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اسلامی جمہوری ایران اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہے، اس تناؤ اور کشیدگی کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں کچھ نہ کچھ دونوں ممالک کے ماضی پر بھی نگاہ ڈالنی پڑے گی۔
خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے ۹۰ برسوں پر محیط دوطرفہ تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کے شکار رہے ہیں، اگرچہ کسی موڑ پر بھی یہ تعلقات دوستانہ اور قریبی نہیں تھے، دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب آل سعود نے برسراقتدار آتے ہی ایک طے شدہ سمجھوتے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہابی افکار کا پرچار شروع کر دیا اور جنت البقیع میں واقع آئمہ معصومین (ع) اورصحابہ کرام کے مزارات؛ خاص طور پر رسول اللہ (ص) کے لخت جگر جناب فاطمہ (س) کے مزار کو مسمار کر دیا جو آج بھی آل سعود کے دامن پر ایک بدنما دھبہ ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ آل سعود نے اس ظالمانہ اقدام سے دنیا بھر کے شیعوں کے سینوں میں چھری گونپ دی لہذا ایک شیعہ اکثریت مملکت کے ناطے ایرانی شیعوں کے دل بھی اس واقعے سے داغ دار ہوئے۔ جس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات ۳۴ برسوں تک معطل رہے اور اس دونوں ملکوں کے سربراہانِ مملکت نےایک دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا ، ۱۹۷۹ میں امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران کا اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ایماء پر ڈیکٹیٹر صدام حسین کے توسط سے ایران پر جنگ مسلط کی گئی تو سعودی عرب نے عراق کی بعثی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا جس سےدونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔
۳۱ جولائی ۱۹۸۷ کو مکہ مکرمہ میں ایرانی حجاج مشرکین سے بیزاری کے سلسلے میں پُرامن احتجاج کر رہے تھے کہ اس دوران سعودی انتظامیہ نے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چار سو سے زائد افراد شہید ہو گئے، اس اقدام کے ردِعمل میں تہران میں مشتعل ہجوم نے سعودی سفارت خانے پر حملہ کیا اور یوں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔
اکسیویں صدی کے اوائل میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی تھی، تاہم جب رفتہ رفتہ ایران خطے میں ایک طاقتور کے طور پر ظاہر ہونے لگا تو خطے میں ایران کے دو بڑے دشمن اسرائیل اور سعودی عرب ایران کی برق رفتار ترقی سے بوکھلاہٹ کے شکار ہو گئے، لہذا وہ مسلسل ایران کے ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے عالمی اداروں کو اعتماد میں لینے کی کوششیں کرنے لگے تاہم وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے، جب وہاں سے مایوسی ملی تو سعودی عرب نے اسرائیل کو ہی ایران پر حملے کی پیشکش کی اور اسے یقین دلایا کہ ایران کے خلاف جنگ کا سارا خرچ ہم برداشت کریں گے۔
اسی طرح انہوں نے ایران میں امن و امان خراب کرنے کے لیے "جنداللہ" نامی دہشت گرد گروہ کی بنیاد رکھی جو گذشتہ ایک دہائی دہائی سے ایرانی سرحد پر دہشت گردانہ واقعات کرتی رہی ہے۔ اس گروہ کے کمانڈر عبدالمالک ریگی تھے جس نے گرفتاری کے بعد میڈیا کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ تمام دہشت گردانہ کاروائیاں سعودی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کرتے رہے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، گذشتہ سال یہ کشیدگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب ایرانی زائرین کا یک کاروان عمرہ ادا کرنے کے بعد واپس ایران آ رہا تھا کہ جدہ ہوائی اڈے پر سکیورٹی اہلکاروں کے غیر اخلاقی حرکت کے باعث ایرانی حکومت کو عمرہ پر پابندی لگانی پڑی۔اور اسی سال حج کے موقع پرحج انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں ہزاروں حجاج دم گھٹنے اور پاؤں تلے دبنے سے شھید ہوگئے، ان میں ساڑھے چار سو سے زائد تعداد ایرانیوں کی تھی اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان کی لاشوں کو بھی ایران کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
اب گذشتہ دنوں سعودی عرب نے شیعہ عالم دین آیۃ اللہ شیخ باقر النمر (رہ) کا سر قلم کر دیا، ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک حق گو اور نڈر عالم دین تھے، وہ سعودی حکمرانوں کے عیاشیوں اور عوام کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے، انہوں نے شیعہ سنی تمام مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر دی تھی جس سے ظالم اور سفاک سعودی حکمرانوں کی نیندیں آڑ گئیں تھیں، لہذا اقتدار کے نشے میں مست خونخوار سعودی حکمرانوں نے حق کی آواز دبانے کی کوشش کرتے ہوئے شہید باقر النمر (رہ) کو اپنے راستے سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا، یقینا انہوں نے اس اقدام سے اپنے جنازے میں آخری کیل پیوست کی ہے، انہیں نہیں معلوم کہ یہ مقدس اور بے گناہ خون لاکھوں باقر النمر(رہ) کو جنم دے گا جو ان کے ۹۰ سالہ اقتدار کو خاک میں ملائے گا۔
بہرحال زہد و تقویٰ کے پیکر آیۃ اللہ باقر النمر (رہ) کی شہادت پر پوری دنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، دنیا کے ہر گوشے میں اس ظالمانہ اقدام کے خلاف ریلیاں نکالیں گئیں، دیگر مسلمانوں کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے ایران کے شیعہ سنی مسلمانوں نے مل کر احتجاجی جلوس نکالے اور اس ظالمانہ اقدام کی شدید مذمت کی، اس موقع پر کمین میں بیٹھے فرصت طلب سامراجی قوتوں کے کارندے بھی مظاہرین میں شامل ہو گئے، جنہوں نے جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کر دیا اور مشتعل مظاہرین کو بھڑکایا جس کے بعد سعودی سفارت خانے پر پھتراؤ ہوا اور اشتعال زا مواد پھینکے گئے، یوں سعودی حکومت نے اپنا سفیر واپس بلالیا اور ایک مرتبہ پھر دونوں ملکوں کے تعلقات منقطع ہو گئے۔
در حقیقت اس اقدام سے ان کا مقصد سعودی عرب کی حالیہ جنایات پر پردہ ڈال کر اس واقعہ سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانا تھا اور اس مقصد میں وہ کامیاب بھی ہوئے، کیونکہ ان دنوں سامراجی قوتوں کے زیرِ سایہ عالمی ذرایع ابلاغ سعودی مظالم پر تنقید کرنے کے بجائے سعودی سفارت خانے پر حملے کو کوریج دیتے رہے ہیں۔
اب آخر میں سعودی عرب کے ۳۴ ممالک پر مشتمل دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی تشکیل کا پس منظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا سعودی عرب اور اس حواری واقعی طور پر دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں یا وہ " چور بھی کہے چور چور" کا مصداق بن کر اپنے آپ سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام ہٹانا چاہتا ہے اور پس پشت اس کے عزائم کچھ اور ہیں؟
تو عرض یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک ایسے ملک کا اتحاد تشکیل دینا مضحکہ خیز ہے جس نے سب سے پہلے سرکاری طور پر طالبان کی حکومت تسلیم کی تھی، بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اتحاد کا مقصد کیا ہے؟ کیا خانہ کعبہ کو خطرہ لاحق ہوا ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو وہ اللہ دوبارہ اپنے گھر کی حفاظت کرے گا جس نے ابابیلوں کے ذریعہ ابرھہ اور اس کے لشکر کو کھائے ہوئے بھوسے میں بدل دیا تھا اور اگر انہیں القاعدہ، جبھۃ النصرہ اور داعش جیسی دہشت گرد گروہوں سے خطرہ ہے تو وہ توساری سعودی عرب کے دست پروردہ ہیں جو عملی طور پر خطے میں انکے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ جبکہ امریکا اور اسرائیل جیسے تسلط پسند ممالک سے بھی انہیں خائف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے فرمانِ الہی [1] کو پس پشت ڈال کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اسرائیل اور امریکا کو اپنا ہم پیمان بنایا ہوا ہے، پس ان سے خوف کس بات کی اور ڈر کس بات کا؟! لہذا بات صاف واضح ہے کہ سعودی عرب کو خطے میں ایران کا باعزت اور خود مختاروجود برداشت نہیں ہو رہا اور کسی نہ کسی بہانے سے ایران کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ تاہم وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران دینا کا واحد ملک ہے جو (اشداء علی الکفار و رحماء بینھم) کا مصداق بن کر سامراجی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئےہے۔ ایران دنیا کا واحد ملک ہے جس نے امیرالمؤمنین امام علی (ع) کے اس فرمان کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا ہوا ہے کہ "ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی بنو" چاہے وہ مظلوم مسلمان ہوں یا غیر مسلم، شیعہ ہوں یا سنی، وہ مسلمان بوسنیا کے ہوں یا فلسطین اور یمن کے، انکا تعلق عراق کے ہو یا شام سے، وہ نائیجریا کے رہنے والے ہوں یا میانمار کے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا قرآن میں سچا وعدہ ہے کہ "اللہ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے" [2]
[1]۔ اے ایمان والو، تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو تم میں سے اس کو دوست بنائے گاوہ انہی میں سے ہے۔ ( سورہ مائدہِ آیہ ۵۱۔)
[2] ۔ فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (سورہ مائدہ آیہ ۵۶)
تحریر۔۔۔۔۔ساجد مطہری