وحدت نیوز (قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم کے زیراہتمام ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کی 22ویں برسی منائی گئی۔ برسی کا پروگرام علمی مرکز مدرسہ حجتیہ میں منعقد ہوا، برسی کے اجتماع میں علماء، طلاب اور زائرین کی کثیر تعداد نے شرکت کی، پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری امور خارجہ حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی نے کہا کہ شہید کی پوری زندگی قوم و ملت کی رہنمائی، انکی خدمت اور جوانوں کی تربیت میں گزری، شہید نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود سفیر انقلاب بن کر پوری دنیا کے مظلومین کے حقوق کی جنگ لڑی اور اپنی پوری زندگی شناخت وب صیرت کیساتھ مسلسل جھاد میں گزاری، انہوں نے مزید کہا کہ شہید کی ایک بنیادی اور اہم خصوصیت انکی بصرت اور دشمن شناسی تھی، وہ دشمن کے عزائم اور ارادوں سے باخبر تھے اور انکی سازشوں کے مقابلے میں ہمہ وقت آمادہ و تیار رہتے تھے۔
برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سابق ڈائریکٹر ثقافتی مرکز اسلامی جمہوریہ ایران اسلام آباد جناب ڈاکٹر تقی صادقی نے کہا کہ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی اعلٰی الٰہی اقدار و صفات سے متصف تھے، انہوں نے ہمیشہ دین و ملت کی خدمت، جوانوں کی تربیت اور تمام تر مشکلات کے باوجود اجتماعی سیاسی و ثقافتی امور میں موثر کردار ادا کیا۔ وہ حقیقت میں ملت پاکستان کے ڈاکٹر چمران تھے۔ جوانوں کو چاہئے کہ انکی الہام بخش زندگی سے درس لیں، قوم و ملت کی بے لوث خدمت کریں اور اپنے زمانے کے ولی کی معرفت کیساتھ انکی اطاعت محض کریں،شہید کی برسی میں انکی شخصیت اور دیگر شہداء کے حوالے سے ثقافتی اسٹالز لگائے گے تھے اور سفیر انقلاب کے عنوان سے خصوصی نشریہ شرکاء کی خدمت میں ہدیہ دیا گیا۔
وحدت نیوز(گلگت) سرکاری آفیسران ریاست کے محافظ بنیں، نا اہل حکمرانوں کے غلط احکامات کے سامنے ڈٹ جائیں تو عوام ان ریاستی اداروں کی مکمل سپورٹ کرینگے ۔جو آفیسران اپنی عزت کو دائو پر لگاکر حکومت کے غیر قانونی احکامات کو تسلیم کرینگے انہیں عنقریب عوامی عدالت نشان عبرت بنائے گی۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل سید علی رضوی نے کہا ہے کہ پولیس آفیسران نے جس طرح شیڈول فور میں شامل افراد کو پولیس فورس میں حالیہ بھرتیوں کی میرٹ لسٹ سے خارج کیا ہے وہ قابل تحسین اقدام ہے ۔پولیس آفیسران مزید جرات کا اظہار کرتے ہوئے پیراشوٹ سے میرٹ لسٹ پر آنے والے بقیہ 35 افراد کو بھی فارغ کرکے مثال قائم کریں۔حالیہ بھرتیوں میں بعض پولیس آفیسران نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی احکامات ماننے سے انکار کیا ہے جو کہ ریاست کے مفاد میں ہے اور عوام ان کی اس جرات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ تقرریوں میں شفافیت کے اعتبار سے حکومت اتنی داغدار ہوچکی ہے کہ اب وزیر اعلیٰ کے منہ سے میرٹ کا نام بھی اچھا نہیں لگتا۔کچھ وزرا جو کریشن کے ماسٹر مائنڈ ہیں وہ اخباری بیانات کے ذریعے حکومت کا ناکام دفاع کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔پولیس بھرتیوں میں بے ضابطگی کرکے حکومت نے اپنا اصل چہرہ دکھایا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے میرٹ کا خاص شراب ان وزراء کو پلایا ہے جنہیں پیراشوٹ سے بھرتی ہونے والے 37 افراد کی لسٹ نظر ہی نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین نے حالیہ پولیس بھرتیوں میں کرپشن کے ٹھوس شواہد مقتدر حلقوں تک پہنچائے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ مقتدر حلقے اس سلسلے میں ایکشن لیتے ہوئے پیراشوٹ سے بھرتی ہونے والوں کے نام لسٹ سے فارغ کرینگے اور میرٹ پر اترنے والے افراد کو ان کا حق دلوائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم حکومتی اقدامات کے آگے بے بس نہیں اور نہ ہی یہاں کے عوام لاوارث ہیں ہم حکومت کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ اپنا قبلہ ٹھیک کرلے ورنہ عوامی مظاہرین کا سمندر گلگت بلتستان کی سڑکوں پر ہوگا۔
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین (شعبہ سیاسیات)کے زیراہتمام ملکی حالیہ صورتحال، مزارات پر حملے اور تقدس کی پامالی کے خلاف ’’تحفظ مزارات ِ اولیائو اللہ ‘‘کانفرنس 26مارچ کوجنوبی پنجاب کی بزرگ روحانی شخصیت حضرت شاہ شمس سبزواری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار ملتان میںمنعقد ہوگی۔ ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے ترجمان ثقلین نقوی کے مطابق ’’تحفظ مزارات ِ اولیائو اللہ ‘‘کانفرنس میں جنوبی پنجاب بھر کے تمام مزارات کے سجادہ نشین، گدی نشین، علماء و مشائخ ،سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین شرکت کریں گے۔ کانفرنس کا مقصد ملک دشمن عناصر کی جانب سے بزدلانہ کاروائیوں کے خلاف اور مزارات مقدسہ کے تحفظ اور تقدس کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ کانفرنس کے آخر میں تمام جماعتوں اور قائدین کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جائے گا۔ کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے دعوت ناموں کا سلسلہ جاری ہے، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما 24مارچ کو پریس کانفرنس کریں گے اور انتظامات کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیں گے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) ذمہ دار لوگوں کے گرد سارا معاشرہ گھومتا ہے، جولوگ اپنی ذمہ داری کا صحیح تعین کرتے ہیں اور پھر اسے ٹھیک طریقے سے ادا کرنے کا عزم کرتے ہیں وہی معاشرے میں کوئی سنجیدہ کردار ادا کر پاتے ہیں۔ ایک مورخ نے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ گورنمنٹ ہاوس کراچی پہنچ کر قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اپنے ہمراہ سے کہا تھا کہ شاید تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ مجھے کبھی یہ امید نہ تھی کہ پاکستان میری زندگی میں قائم ہوجائے گا۔ہم نے جو کچھ حاصل کر لیا ہے ہمیں اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔[1]
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم نے اپنی ذمہ داری ادا کی تھی اور نتیجہ انہیں ان کی امید سے بڑھ کر ملا۔ مارچ کے مہینے میں یہ جملہ ہمیں بھی کثرت سے سننے کو ملتا ہے کہ ذمہ داری کوئی چیز نہیں بلکہ احساس ذمہ داری بڑی چیز ہے۔
یہ جملہ واقعتا آب زر سے لکھنے کے قابل ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جو ملت اس جملے کابار بار تکرار کرتی ہے وہی احساس ذمہ داری کے بجائے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔غیر ذمہ داری فقط ذمہ داری سے بھاگ جانے کا نام نہیں ہے بلکہ جس کام کی صلاحیت نہ ہو اس کی ذمہ داری اٹھا لینا بھی ایک طرح کی غیر ذمہ داری ہے اور اسی طرح کسی ذمہ داری کو قبول کرکے پھر ٹال مٹول سے کام لینا یہ بھی غیر ذمہ داری ہی ہے۔
ٹال مٹول سے یاد آیا کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کراچی پہنچنے کے بعد جب پہلے دن روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے عملے کے ایک آدمی سے کہا کہ فوری طور پر میرے کمرے میں ایک ریڈیو سیٹ لگوادیا جائے تاکہ میں آج کی خبریں سن سکوں۔
ملازم نے کہا جناب عالی ! آپ بہت سفر کر کے آئے ہیں اور بہت تھک چکے ہیں اس وقت آرام کریں کل ریڈیو سیٹ بھی لگوا دیں گے۔۔۔
یہ سننا تھا کہ محمد علی جناح ؒ نے صاف الفاظ میں کہا دیکھو میاں میرے ساتھ یہ ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔
آج ہمارے سارے کے سارے ملی کام ٹال مٹول کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں، دہشت گردی کے خاتمے سے لے کر ملکی تعمیروترقی تک ہر طرف ٹال مٹول سے کام لیا جارہاہے، وہ دفاتر سے رشوت کے خاتمے کا مسئلہ ہو، نادرا سے شناختی کارڈ اورپاسپورٹ بنوانے کی بات ہو، ایران سے گیس خریدنے کا منصوبہ ہو، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی خبر ہو ہر طرف ذمہ داریوں سے فرار نظر آتا ہے۔
اس سال بھی سات مارچ کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی برسی بنائی گئی۔ان کے افکارو نظریات کو دہریا گیا اور بار بار یہ نعرے لگائے گئے کہ ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔۔۔
ڈاکٹر کے بارے میں منعقد ہونے والے پروگراموں میں ہونے والی گفتگوسے مجھے یہی پتہ چلا کہ ڈاکٹر کا سب سے بڑا نعرہ احساسِ ذمہ داری تھا۔آج اگرچہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے لیکن ہمارے قومی اداروں میں غیر ذمہ داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،پہلے لوگ سیاستدانوں سے مایوس ہوتے تھے تو دینی اداروں سے اصلاح احوال کی امید رکھتے تھے اب ہمارے مذہبی مدارس اور دینی ٹرسٹ ایک طرف سے تو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں اور دوسری طرف تیزی سے موروثی جائیدادوں میں بدل رہےہیں، جو بھی ملت و دین کے نام پر کوئی ادارہ قائم کرتا ہے وہی اس کا تاحیات مالک بن جاتا ہے اور پھر اس ادارے کی پراپرٹی اور بینک بیلنس اس کے بعد اس کی نسلوں کو منتقل ہوجاتا ہے، سیاستدان الیکشن کے موقع پر چند اچھے اچھے نعرے لگانے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں، بین الاقوامی برادری جیسے چاہتی ہے ہمارے سیاستدانوں اور دینی مدارس سے استفادہ کرتی ہے اور پھر بھی ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔
اگر ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہوتا اور ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ٹال مٹول سے کام نہ لیتے تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ مٹھی بھر کرپٹ سیاستدان ہمیں اپنا غلام بنا لیتے اور چند نام نہاد مذہبی کاسہ لیس دینی مدارس اور اداروں کی قسمت سے کھیلتے۔
آج ضرورت ہے کہ ملت کے ہرفرد کو عملی طور پر احساس زمہ داری دلایا جائے، ہمیں اپنے وطن کے ایک ذرے سے لے کر بلند و بالا کہساروں اور سیاست و اقتصاد سے لے کر مسجد و محراب تک ہر سمت اپنی زمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ ذمہ داری بڑی ہو بلکہ ضروری ہے کہ ذمہ داری کی نسبت احساس بڑا ہو۔
یہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کے آخری سال کا واقعہ ہے کہ ایک دن انہوں نے اپنی سرکاری رہائش گاہ کے معائنے کے دوران لائبریری میں کچھ الماریاں خالی دیکھیں، پوچھنے پر پتہ چلا کہ سندھ کے گورنر صاحب کوٹھی خالی کرتے وقت یہ کتابیں بھی اپنے ہمراہ لے گئے ہیں، یہ سنتے ہی قائداعظم نے فورا وہ کتابیں واپس منگوا کر کتاب خانے میں رکھوائیں۔
ایک طرف قائداعظم جیسا حساس شخص ہے جو کسی قومی ادارے سے چند کتابیں اٹھنے پر بھی بے تاب ہوجاتا ہے اور دوسری طرف ہمارے جیسے لوگ ہیں جن کے سامنے قومی اداروں کو لوٹ کر کھایا جاتاہے اور ملت اور دین کانام فقط تجوریاں بھرنے کے لئے لیا جاتا ہے لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
ہاں اگر ہم اپنے دینی و قومی معاملات میں حساس ہو جائیں اور ملک ودین کی خاطر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں تو پھر بلا شبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔۔۔
لیکن جب تک ہم ذمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے، ایک دوسرےپر ڈالتے رہیں گے، ٹال مٹول کرتے رہیں گے اور اپنے سامنے ملک و قوم کے ساتھ ہونے والی خیانتوں پر خاموش رہیں گے یعنی جب تک ہم ذمہ داریوں سے فرار کرتے رہیں گے تب تک کوئی تبدیلی رونما ہونے والی نہیں۔
مورخ تاریخ لکھ رہا ہے اور اگر تاریخ اسی طرح لکھی گئی جیسے کہ لکھی جارہی ہے تو پھر ہماری آئندہ نسلیں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی مناتے ہوئے یہ افسوس بھی کیا کریں گی کہ کاش شہید نقوی کے بعد ہمارے اباواجداد اپنی ذمہ داریوں سے نہ بھاگے ہوتے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے سیکریٹری سیاسیات علی حسین نقوی نے کہا ہے کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں مردم شماری جیسے حساس ملکی معاملے کو متنازعہ بنانے سے گریز کریں، مردم شماری کو کامیاب بنانا حکومت اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام محب وطن حلقوں کی ذمہ داری ہے، اسے متنازعہ بنا کر ملک و قوم سے خیانت نہ کی جائے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے وحدت ہاو س کراچی میں ڈویژنل پولیٹیکل کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کراچی کے سیکریٹری سیاسیات میر تقی ظفر، ثمر عباس ،حسن عباس اور سبط اصغر و دیگر رہنما بھی موجود تھے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی سیکریٹری سیاسیات علی حسین نقوی نے کہا کہ ملک میں آخری بار مردم شماری 1998ئمیں کی گئی جس کے بعد سے آج تک سیاسی اور لسانی مفادات مردم شماری کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے اور اس اہم ملکی معاملے کو سیاست کی نذر کیا جاتا رہا، اب جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مردم شماری ہونے جا رہی ہے تو حکمران اور سیاسی جماعتیں اسے متنازعہ بنا کر ملک و قوم سے خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، حکومت اور سیاسی جماعتیں مردم شماری جیسے حساس ملکی معاملے کو متنازعہ بنانے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی حکمرانوں کی جانب سے بروقت مردم شماری نہ کروا کر آئین کی خلاف ورزی کی جاتی رہی اور اب جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت مردم شماری پر مجبور ہے تو حکمران اور سیاسی جماعتیں اسے اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر متنازعہ بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں، جس کا چیف جسٹس آف پاکستان سمیت تمام ارباب اختیار کو نوٹس لینا چاہیئے، کہیں اس بار بھی مردم شماری سیاسی و لسانی مفادات کی نذر ہو کر تعطل کا شکار نہ ہو جائے، جس سے ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچے گا۔
ڈویژنل سیکریٹری سیاسیات میر تقی ظفر نے کہا کہ ملکی ترقی غیر متنازعہ مردم شماری کے تحت حاصل ہونے والے انہی اعداد و شمار کی بنیاد پر ہوتی ہے، انہی اعداد و شمار کی بنیاد پر ایک مکمل قابل عمل منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے، ترقیاتی منصوبہ بندی، عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی، صحت اور تعلیم کیلئے وسائل مختص کرنے کیلئے اہم ہوتی ہے، لہٰذا مردم شماری قوموں کی تعمیر و ترقی کیلئے انتہائی اہم عمل ہے، اس پر ہمارے بہت سے آئینی معاملات کا انحصار ہوتا ہے، لہٰذا اسے سیاست کی نذر ہونے سے بچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اور رہنما عام انتخابات کا انعقاد ہر اگلے روز چاہتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار ملتا ہے، اس کیلئے وہ وسط مدتی انتخابات کے انعقاد کیلئے دھینگا مشتی سے بھی باز نہیں آتے، جبکہ انہیں مردم شماری کی فکر نہیں ہوتی، جس کے نتیجے میں قوم کو وسائل سمیت بہت کچھ ملتا ہے، حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں اسی نااہلی کے سبب ملک و قوم ایسے مسائل اور الجھنوں کے چنگل میں پھنستی جا رہی ہے، جو ریاستوں کو ناکام بنا دیتی ہیں، لہٰذا ارباب اقتدار ملکی مفادات میں مردم شماری کو سیاست کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے اقدامات کریں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری جنرل خانم سیدہ زہرا نقوی نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر مرکزی میڈیا سیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ دور حاضر میں خواتین کی جملہ معاشرتی مشکلات کی بنیادی وجہ تعلیمات اسلامی سے دوری ہے،عورت بیک وقت تین مناسبتوں (ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی ) کی صورت میں معاشرے میں زندگی بسر کرتی ہے ، تمام رشتوں میں توازن بہترین زندگی گزارنے کے لیئے ضرور ی ہے ، چودہ سوسال سے لے کر اس ماڈریٹ زمانے تک ایک کامل بیٹی ،بیوی اور ماں انسانی تاریخ میں فقط سیدہ فاطمہ زہراؑ کی ذات اقدس گزری ہے ، لہذٰا مغربی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں افت وپاکدامنی کا درس حاصل کرنے کیلئے تمام خواتین کو بلاتفریق رنگ ونسل، مذہب ومسلک سیرت دختر رسول (ص)حضرت فاطمہ زہرا(س)کا مطالعہ کرنا ہو گا اور اسے اپنی زندگی میں عملی کرنا ہو گا،غربی ثقافتی یلغارکے مقابل ایک پاکدامن عورت کے پاس سیرت حضرت فاطمہ زہراؑہی بہترین ہتھیارہے ،حقوق نسواں کیلئے متحرک عالمی اداروں کو بھی چاہئے کے جناب فاطمہ زہرا (س)کےحیات مبارکہ کے ظاہری اور پوشیدہ پہلووں کا جائزہ لیں اور اسے اپنے نصاب کا حصہ بنائیں ۔