وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی کوآرڈینٹر شعبہ سیاسیات آصف رضا ایڈوکیٹ کی سربراہی میں ایم ڈبلیوایم کوئٹہ ڈویژن کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جسمیں رکن شوری عالی سیکرٹری آئمہ جمعہ و امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی،رکن شوری عالی وممبر صوبائی اسمبلی بلوچستان آغا رضا، کوئٹہ ڈویژن سیکرٹری جنرل اور کمیٹی کے دیگر ممبران نے شرکت کی ،اجلاس میں آئندہ الیکشن کے حوالے سے اہم فیصلہ جات ہوئے جسمیں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان پورے پاکستان کی طرح کوئٹہ ڈویژن میں بھی بھر پور سیاسی کردار ادا کریگی اور کوئٹہ ڈویژن کے (3) تین صوبائی اور (2)دو قومی اسمبلی کے حلقوں میں اپنے امیدوار دیگی۔مجلس وحدت مسلمین عوامی امنگوں کی ترجمان ایک معتدل اور روشن خیال مذہبی سیاسی جماعت ہے اسی لئے ہم سیا سی اور جمہوری اداروں کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ آئینی اور اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے عوامی مسائل کے حل کی بھر پور کوشش کی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیکر ہم اپنے بہترین اور ایماندار امیدواروں کے ذریعے عوام کے حقوق ان کی دہلیز پر پہنچا سکتے ہیں ۔2013ء کے الیکشن میں حصہ لینے کا بھی یہی مقصد تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے ہماری بھر پور مدد فرمائی،اسکے علاوہ ہمارے شہداء کے لہو کی تاثیر تھی کہ ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی اور عوامی امنگوں پر پورا اترتے ہوئے ہمارے عوامی نمائندوں نے اب تک ایک مثال کارکردگی پیش کی ہے ۔

وحدت نیوز(لاہور) آل پارٹیز شیعہ اجلاس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء و رہنماوں کی شرکت،اجلاس سے سید نوبہار شاہ،پیر سید طاہر سجاد زنجانی،سید نثار صفدر شاہ ایڈوکیت،علامہ منورعلوی،علامہ سید حسن رضا ہمدانی،سید اظہر حسین شمسی،علامہ سید وقارلحسنین نقوی،سید ناصر علی بخاری،سید ذکی حسین شاہ،سید ھزقیل حسین شمسی،پیر ایس اے جعفری،علی عباس مرزا،سید زاہد عباس شمسی،ملک گوہر علی سمیت دیگر رہنماوں نے اظہار خیال کیا،اجلاس کے بعد تمام رہنماوں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے،پسرور سیالکوٹ میں جھوٹے الزام میں قتل کی شدید مذمت کی،اور مجرموں کی سرپرستی کرنے والے شدت پسندوں کیخلاف فوری کاروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ کالعدم دہشتگرد جماعتوں کیخلاف ملک بھر میں بے رحمانہ آپریشن شروع کیا جائے۔

رہنماوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ پنجاب بھر میں بے گناہ شیعہ علماء و نوجوانوں کو غائب کر دیا گیا ہے،ہم مطالبہ کرتے ہیں انہیں فوری بازیاب کرایا جائے،اگر کوئی مجرم ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے،پاکستان میں بسنے والے محب وطن بانیان پاکستان کے اولادوں کیساتھ بحرینی بادشاہوں والا سلوک بند کیا جائے،ہم نے ہمیشہ امن اور محبت کا پرچار کیا،اور اس کے صلے میں ہمیں چوبیس ہزار سے زائد لاشوں کا تحفہ دیا گیا،ہم سوال کرتے ہیں ارباب اختیار سے ہمیں بتائیں کہ کتنے ہمارے قاتلوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں ملی ہیں،ہمیں دیوار سے لگانے کی سازش کرنے والے سن لیں ہم اس ظلم و بربریت کیخلاف ہر فورم پر آواز اُٹھاتے رہیں گے،پریس کانفرنس میں پاکستان کا متنازعہ سعودی اتحاد جس کی سرپرستی امریکہ اسرائیل برملا کر رہے ہیں میں شمولیت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا،اور اسے سابقہ افغان پالیسی سے بھی خطرناک قرار دیا،رہنماوں کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سالمیت ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں،دشمن ہمیں تقسیم کرکے ملکی ترقی و استحکام کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں،ایسے میں ہمیں دانشمندانہ فیصلے کرنے ہونگے،جس کے سبب پاکستان کی سلامتی و اقتصادی ترقی پر کوئی آنچ نہ آئے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ ہاشم موسوی , صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ برکت بلوچ , صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کیپٹن حسرت اللہ ہزارہ , رکن صوبائی اسمبلی بلوچستان آغا رضا , صوبائی رہنما ظفر عباس شمسی, ڈویژنل سیکرٹری جنرل سید عباس آغا, علامہ ولایت حسین جعفری, کونسلر رجب علی, کونسلر سید مہدی , جعفر علی جعفری, فدا حسین ہزارہ, رشید علی طوری, حاجی عمران ہزارہ و دیگر پارٹی عمائدین نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری پر بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں. علامہ ہاشم موسوی نے کہا کہ بلوچستان بھر میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ضرورت ہے مستونگ , درینگڑھ اور نوشکی میں انتہا پسندی عروج پر پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں دہشتگردوں نے اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں لیکن اب تک ان علاقوں میں دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا ۔

مجلس وحدت مسلمین صوبہ بلوچستان کے سیکرٹری جنرل علامہ برکت بلوچ نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری اور جمعیت کے دیگر کارکنان پر حملہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گرد ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے جس کے متحد ہونے کی ضرورت ہے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما و رکن صوبائی اسمبلی بلوچستان آغا رضا نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری  ایک سلجھے ہوئے سیاست دان ہیں جو امن وامان کی بحالی کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں ان کے قافلے پر حملہ اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اسی راستے پر شیعہ زائرین پر کئی بار دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں جس پر ہم نے احتجاج بھی کیا اور اس وقت بھی ہم نے حکومت اور اداروں پر زور دیا کہ اس روٹ پر دہشت گردوں کیخلاف سنجیدہ آپریشن کرکے دہشتگردوں کا مکمل صفایا کیا جائے لیکن آج تک اس روٹ پر دہشت گردوں کیخلاف آپریشن نہیں کیا گیا اور دہشت گردوں کو صرف شیعہ مسلک کا دشمن سمجھ کر انکے ساتھ نرمی برتی گئی اگر ہمارے مطالبات مان کر حکومت اور ادارے دہشت گردوں کا صفایا کرتے تو آج یہ افسوسناک سانحہ پیش نہ آتا . سانحہ پر اپنے شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے دیگر رہنماؤں نے حکومت اور اداروں سے مطالبہ کیا کہ کوئٹہ تفتان روٹ اور خصوصاً مستونگ میں  دہشتگردوں کا مکمل صفایا کیا جائے..

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ برکت مطہری نے کہا ہے کہ ہمیں ہر آزمائش میں صبر سے کام لینا ہوگا۔پاکستان اس وقت چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے ہمیں ایک ملت بن کر ان مشکلات سے نکلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اجتماعی ترقی اور خوشحالی کیلئے جن معاشرتی خوبیوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر اور اپنے اداروں پر بھروسہ کر سکیں ، انہوں نے معاشرے میں ترقی کیلئے اعتماد کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس دولت کی بات تو بہت کرتے ہیں جس کی ایک مادی حیثیت ہے لیکن ایک دولت وہ بھی ہوتی ہے جس کا رشتہ ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی سے ہوتا ہے جہاں تک اعتماد کا معاملہ ہے تو اس کا اطلاق صرف سیاست پر نہیں ہوتا ۔ انکا کہنا تھا کہ ہماری اجتماعی زندگی میں بھروسے اور اعتماد کی کمی اتنی پھیل گئی ہے کہ ایماندار اور نیک لوگ اپنے اپنے شعبوں میں خود کو اس کیلئے موزوں نہیں سمجھتے ۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے اگر کرپشن، بد عنوانی کے کلچر کو ختم کرنا ہے تو ہمیں مل کر اسکے خلاف کام کرنا ہوگا ہمارے معاشرے میں ہر طرح کی گندگی موجود ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں صرف بھروسے اور اعتماد کی ہی کمی نہیں ہے برداشت کی اس سے بھی زیادہ کمی ہے ، بیان کے آخر میں آغا رضا نے کہا کہ یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ کیسی کیسی محرومیوں کو ہم قبول کر لیتے ہیں اور کیسی کیسی باتوں پر پورا ملک ،پورا معاشرہ غیظ و غضب کا شکار ہو جاتا ہے جس کیلئے سنجیدہ طرز عمل ضروری ہے ۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)  سورج افق میں چھپ چکا تھا رات کی تاریکی چھا رھی تھی طلاب مدرسے کی عمارت کو دلھن کی طرح سجھا رھے تھے سبھی کے چھرے خوشی و سرور سے تلملا رہے تھے کچھ ہی دیرمیں سارےمدرسے پے قمقموں کی روشنی چمکنے لگی جشن کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ ایک ایسی خبر آئی جسے سنتے ہی سب چہرے اتر گئے خوشی غم و غصہ میں تبدیل ہوگئی جشن کی تقاریر کے موضوعات بدل گئے ایسا لگ رہا تھا جیسے قمقموں کی روشنی ماند پڑ گئی ھو جی ھاں یہ پچهلے سال تین شعبان کی بات ہے جب ہم محسن انسانیت،علمبردار حریت،غیور و آزاد صفت انسانوں کے قافلہ سالار امام حسین ؑابن علیؑ کی ولادت کا جشن منانے میں مصروف تھے اسی دوران خبر ملی کہ پاراچنار کے محب وطن اور غیرتمند عوام پر کہ جنھوں نے ہمیشہ وطن کے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا آج ایک اور ظلم ڈھایا گیا ہے جی ہاں پتہ چلا کے عوام کی جان و مال کے رکھوالوں نے مومنین پے صرف اس لیے فائر کھول دیے کہ وه نواسہ رسول کی آمد کی خوشی منارہے تھے ہاں وه محب وطن قوم جس نے پاکستان کے لیے سب سے زیاده قربانیاں دیں اور دہشتگردی نے جس کی ماؤں سے جوان بیٹے بھنوں کا سہارا بھائی بچوں سے والدین اور جوان سال بیٹیوں سے انکے سہاگ چھینے آج وه ریاستی دہشتگردی کے نشانے پر تھی سمجھ نھیں آرہا تھا کہ آخر کون آواز اٹھائے گا کون اس مظلومیت کو پاراچنار کے پهاڑوں سے نکال کر ریاستی اداروں کی دہلیز تک پهنچائے گا جمعہ 13 مئی 2016 کو مختلف تنظیموں نے احتجاج کی کال دی مختلف جگہوں پے احتجاج کیا گیا اسلام آباد کے مرکزی احتجاج کے اختتام پر ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفرى نے مظلوموں کے مطالبات کی منظوری تک بھوک ھڑتال کرنے کا اعلان کردیا سب حیران تھے کہ ناصر ملت نے یہ کیسا سخت اعلان کردیا جبکہ آغا کے بقول وه کسی بڑی احتجاجی تحریک کے ذریعے ملت کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے خود کو مشکل میں ڈالنا زیاده بھتر سمجھ رہے تھے ۔

13 مئی وه تاریخی دن تھا جب ملت مظلوم پاکستان کے ایک مخلص رہنما نے وطن عزیز کو دہشتگردی کی عفریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے بھوک ہڑتال کا آغاز کیا میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ راجہ صاحب کے پاس موجود تھا دن ڈھلا تاریکی چھائی اور یہ عالم بزرگوار بھوک برداشت کرتے ہوئے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے زمین پے اگی گھاس پے اپنی عبا سر کے نیچے رکھے سو گیا جن احباب کو وه مقام دیکھنے کا موقع ملا وه جانتے ہیں کہ وه جگہ سیکیوریٹی اعتبار سے انتہائی غیر محفوظ تھی لیکن شہادت کے تمنائی کے لیے خطرات کوئی ارزش نہیں رکھتے راجہ صاحب اور آغا احمد اقبال زمین پے سو گئے جبکہ آغا اعجاز بھشتی اور چند جوان جن کی تعداد تقریبا 12 یا 14 سے زیاده نہیں تھی آغا کی حفاظت کے لیے جاگ رہے تھے اتنے میں آسمان نے کھا آج اس مرد مقاوم کی مقاومت کا امتحان لیا جائے تیز ہوا چلی اور طوفان کی شکل اختیار کرگئی جوان راجہ صاحب کے ٹینٹ کے ستون پکڑ کے کھڑے ہوئے تو ہوا نے سارا ٹینٹ پارا پارا کردیا راجہ صاحب بھی نیند سے بیدار ہوگئے ادھر سے ٹینٹ ناکاره ہوکے گرا اور ادھر سے بارش نے برسنا شروع کردیا آغا صاحب سے گزارش کی گئی کہ آپ گاڑی میں چلے جائیں لیکن شاید شھداء کی مظلومیت کا درد ناصر ملت کو وھاں سے اٹھنے نہیں دے رہا تھا ہم نے ایک بینر کے ساتھ آغا صاحب پے سایہ کیا کافی دیر بارش کے بعد ناصر ملت سمیت سب جوان بھیگ چکے تھے فجر کی نماز بھی بارش میں ھوئی اور دعائے عہد کے بعد ناصر ملت نے بارش میں بیٹھے ہوئے صبر کے موضوع پے درس دیا اور خانواده عصمت و طہارت کے مصائب پڑہے ناصر ملت بھوک برداشت کرتے رہے اور ظلم پے خاموش حکمرانوں کے ضمیر جھنجوڑتے رہے ۔

آغا کا بلڈ پریشر کم اور شوگر مسلسل بڑھتا رہا دھیرے دھیرے کھڑے ہوکے نماز پڑھنا دشوار ہونے لگا کئی بار آندھی طوفان اور بارش نے امتحان لیا لیکن یہ مرد مجاہد کھلے مقام پر دہشتگردوں سے بے خوف اور کیمپ میں آنے والوں کی تعداد سے لاپرواه اپنے فریضے کی انجام دهی میں مصروف رھا کبھی فون پے بات کرتے ھوئے زمین پے گرا اور کبھی طبیعت زیاده ناساز ھونے پر ھسپتال منتقل ہوا لیکن اپنے وعده سے پیچھے نہ ہٹا مظلومیت کی آواز ہر باضمیر کے کانوں تک پهنچی اور شیعہ ، سنی، دیوبندی، عیسائی، ھندو،سکھ،وکلاء،میڈیا،خواتین،بچے، جوان،بزرگ اور تقریبا تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے حمایت کے لیے بھوک ھڑتالی کیمپ تشریف لائے پاراچنار ڈی آئی خان گلگت اور پنجاب میں مظلوموں کے مطالبات پر کافی حد تک پیشرفت ہوئی جسکی تفصیلات ایک مکمل کتابچے میں چھپ چکی ہیں، شوریٰ عالی  کے اصرار اور مراجع و فقہاء کے خطوط کے بعد ناصر ملت نے شھید قائد کی برسی پے اپنی جدوجھد کے اس مرحلے کو تمام کیا اور اپنے خلوص اور سچائی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا البتہ ابھی اس مادر وطن میں امن و ترقی کے حصول کی جنگ جاری ہے اور قائد کے پاکستان کو لوٹانے کے لیے ایک لمبا عرصہ جدوجہد کی ضرورت ہہے ملت مظلوم پاکستان کو ایسے مخلص لیڈرکا ساتھ دینا ہوگا اور اپنی مسلسل استقامت سے دشمنان وطن کو ذلیل و خوار کرنا ہوگا۔


تحریر۔۔۔سید حسن رضا نقوی

وحدت نیوز(آرٹیکل) پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی پاور ہے ، تمام اسلامی مسالک و مذاہب  کا حسین گلدستہ ہے اور بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا ایک نمایاں اور منفرد مقام ہے۔پاکستا نیوں کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستانیوں کو حقیقی معنوں میں ملی اور اجتماعی شعور  رکھنے والے سیاستدان نصیب نہیں ہوئے۔

سرزمین پاکستان کی نظریاتی سطح کے لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے ہماری قوم مختلف تعصبات میں بٹتی گئی اور ہم اکثر اوقات، حقائق بیان کرنے کے بجائے دانستہ یا نادانستہ طور پر انہی تعصبات کے بتوں کو سجدہ کرتے ہیں۔ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم جس قدر  نظریہ پاکستان سے دور ہوکر تعصبات میں بٹتے جارہے ہیں اتنے ہی کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔

ہم میں سے بعض افرادنے اپنی کمزوریوں کا علاج تعصبات کو مزید ہوا دینے میں ڈھونڈ رکھا ہے، وہ بڑے خلوص کےساتھ  جھوٹ اور غلط اطلاعات کو پھیلاکر سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہمارا لسانی ، علاقائی یا مذہبی گروہ مضبوط اور مستحکم ہوجائے گا۔  اس مقصد کے لئے سوشل میڈیا پر بعض  افراد مسلسل جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں۔ اب اگر ان  جھوٹ پھیلانے والوں سے کوئی کہے کہ یہ خبر تو جھوٹ پر مبنی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہماری تجزیاتی خبر ہے۔ صحافت اور دیانت داری کا تقاضایہ ہے کہ اصل خبر کو تجزیے سے الگ  بالکل شفاف طریقے سےبیان ہونا چاہیے اور اس کے بعد رپورٹر اگر چاہے تو  اپنے تجزیے کو چند لائنوں میں الگ سے پیش کردے۔ تاکہ قاری کو پتہ چلے کہ اصل خبر یہاں ختم ہو گئی ہے اور اس کے بعد  یہ رپورٹر کا  اپناتجزیہ ہے۔

اگر کوئی سننے والا ایک خبر یا کسی کے انٹرویو کو سنتا یا کسی کا کیا ہوا ترجمہ پڑھتا ہے اور پھر اس کے بعد اپنے مسلکی و لسانی  یا کسی  علاقائی  یا سیاسی  پارٹی کے مفادات و نظریات  کے تنا ظر میں اس بیان یا انٹرویو میں تحریف کر کے ایک چربہ بناکر لوگوں کو غلط اطلاع دیتا ہے تو باشعور افراد کو اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

  ایک رپورٹر  کو معلوم ہونا چاہیے کہ  دنیائے صحافت کی آبرو رپورٹنگ سے قائم ہے۔تجزیے میں غلطی ہو سکتی ہے ، ممکن ہے ایک آدمی  اپنی کم علمی یا کسی اور وجہ  کی بنیاد پر تجزیہ کرنے میں غلطی کرجائے ، تجزیہ کرنے والے کو سب جانتے ہیں کہ یہ فلاں آدمی کا تجزیہ ہے۔ لیکن  رپورٹنگ اتنا حساس مسئلہ ہے کہ اس کی تلافی اور ازالہ تقریبا ناممکن ہے، خصوصا اگر رپورٹنگ کرنے والا اپنے تجزیے  اور اپنی سوجھ بوجھ کو خبر بنا کر پیش کرے تو یہ بہت ہی غلط قدم ہے۔ چونکہ ممکن ہے کہ رپورٹر جوبات سمجھ رہاہو وہ غلط سمجھ رہا ہو لہذا   اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی غلط سمجھ کو خبر کہے۔ خبر کی روح یہی ہے کہ خبرکو  شفاف طریقے سے جیسے کہ ہے اسے ویسے ہی بیان ہونا چاہیے اور رپورٹر اگر اس میں کوئی اضافہ کرنا چاہے تو  اسے الگ سے بتانا چاہیے کہ اس سے میں یہ سمجھا ہوں اوریہ میری رائے اورمیری زاتی سوچ ہے ۔

بدقسمتی سے  رپورٹنگ کی دنیا میں لغزشوں کی مثالیں پاکستان میں بکثرت ملتی ہیں۔پاکستان سے ایران و افغانستان   کی کشیدگی آج کل عروج پر ہے، یہ  کشیدگی کوئی آج کی بات نہیں،  یہ  بھی ہم جانتے ہی ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کا  ہمیشہ سے یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو ہندوستان کی ایجنسی را کی سازش قرار دے کر اپنا دامن صاف کر لیتے ہیں۔ اس موضوع پر میں نے   متعدد مرتبہ قلم اٹھایا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب کرنے میں ہماری نااہل حکومتوں کا بہت عمل دخل ہے۔

سچ بات تو یہ ہے کہ  ناہل حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی دشمن ایجنسی کی ضرورت ہی نہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے  مجھ جیسے ایک ناتجربہ کار شخص کو بھی یہ صاف دکھائی دے رہاتھا کہ افغانستان کے بعد اب  ایران سے بھی  پاکستان کے تعلقات بہت  تیزی کے ساتھ  خراب  ہو  رہے ہیں،    اس کا ایک ثبوت میرے پاس یہ تھا کہ  گزشتہ چند سالوں سے  ایران جانے والے پاکستانیوں کو کوئٹہ میں ہی  شیعہ کانفرنس نامی تنظیم کے کارندے خوب رسوا کرتے تھے۔ کوئٹہ میں موجود پولیس اور ایف سی بھی شیعہ کانفرنس کی  حمایت کرتی تھی، اب لوگ شکایت کریں تو کس سے کریں ،  لوٹتے  تو شیعہ کانفرنس والے تھے اور لوگوں کی جنگ ایف سی اور پولیس سے ہوتی تھی ، یہاں سے ہی فوج، ایف سی اور پولیس کے خلاف ایک خاص ذہنیت  بن جاتی تھی کہ  یہ ادارے تو ہمارے محافظ نہیں بلکہ ہمارے دشمن ہیں، اس کے بعد راستے میں ایف سی والے اور دیگر سرکاری اہلکار مسافروں اور بسوں والوں سے بھتہ لیتے تھے جس سے مزید منفی  تاثر پیدا ہوتا تھا، لے دے کر جب یہ مسافر تفتان  پہنچتے تھے تو سرکاری وردیوں میں ملبوس اہلکار باقاعدہ مبلغین کی طرح لوگوں کو ایران کے خلاف تبلیغ کرتے تھے کہ ایران کیوں جا رہے ہو ، ایران تو ہمارا دشمن ہے ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔اب یہ لوگ  یہ سب کچھ دیکھ کر جب ایران میں آکر  سب کو بتاتے تھے کہ پاکستان تو ایران کے شدید خلاف ہے، ایران آنے والے پاکستانیوں کو مسلسل ستایا جاتا ہے اور ایران کے خلاف لیکچرز دیے جاتے ہیں، اب اس سے یہ تاثر بھی جنم لیتا تھا کہ چونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات  بہت اچھے ہیں لہذا سعودی عرب یہ سب کچھ کروا رہا ہے۔

ظاہر ہے کہ جب پاکستانیوں کی زبانی یہ حالات ایران میں منتقل ہوتے تھے تو ایران میں مقیم پاکستانیوں کو یوں لگتا تھا کہ جیسے پورا پاکستان سعودی عرب کے قبضے میں چلا گیا ہے ، سونے پر سہاگہ  یہ کہ  اس دوران  کئی سالوں تک تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے عملے میں موجود ایک آدھ کالی بھیڑ نے لوگوں کو ایمبیسی سے مایوس کیا اور مایوس ہونے والوں میں سے اکثر نے یہی سمجھا کہ بھائی یہ سب سعودی ایجنڈا ہے اس لئے  پاکستان ایمبیسی   ہمارے کام انجام نہیں دے رہی۔

 آج کل بھی ایران میں اگر کسی پاکستانی کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو اس سے تہران ایمبیسی میں  شناختی کارڈ کی فیس وصول کرنے کے بعد  اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ وہ بے چارہ  مجبورا پاکستان سے ہی شناختی کارڈ بنواتا ہے،  اکثر لوگوں سے یہاں پر فیس کے نام پر رقم انیٹھ لی جاتی ہے لیکن انہیں یہاں سے شناختی کارڈ نہیں ملتا اور وہ پاکستان جاکر دوبارہ فیس جمع کرواتے ہیں اور شناختی کارڈ بنواتے ہیں، میں نے کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بھائی انہیں اوپر سے یوں ہی کہا جاتا ہے۔۔۔ یعنی سعودی عرب سے۔۔۔اس سے آپ اندازہ لگالیں کہ  ہمارے ہاں فائدہ تو چند کرپٹ لوگ اٹھاتے ہیں اور  غلط فہمیاں کسی اور کے بارے میں پیدا ہوتی ہیں۔

یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ پاک ایران بارڈر پر کئی مرتبہ ایرانی سرحدی گارڈز کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ہے اور تفتان میں زائرین کو بھی اپنی سفاکیت کا نشانہ بنا چکے ہیں،  گزشتہ ماہ پا کستان اور ایران کے سرحدی مقام میرجاوا میں دس ایرانی سرحدی محافظین کو پاکستانی علاقے سے دور مار بندوقوں کے ساتھ ’’جیش العدل‘‘ نامی گروہ نے  موت کے گھاٹ اتار دیا۔

 اس واقعے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے  پاکستان کا دورہ  کیا اور انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے سرحدی سکیورٹی بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ، علاوہ ازیں ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کے نام ایک پیغام میں کہا کہ بدقسمتی سے کچھ ممالک پراکسی وار کے ذریعے اسلامی ممالک کی یکجہتی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، انھیں ’’بھرتی کیے گئے دہشت گردوں‘‘ کے ہاتھوں سرحدی محافظوں کی ہلاکت پر افسوس ہے کہ جو حملے کرنے کیلئے پاکستان کی زمین استعمال کرتے ہیں۔

اس کے بعد  حالیہ دنوں میں ایرانی افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری  نے ایک بیان میں کہا  ہے کہ وہ پاک ایران سرحد پر اپنی جانب عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے بصورت دیگر تہران ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو خود نشانہ بنائے گا۔

پیر کو ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' کے مطابق مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری کا کہنا تھا کہ صورتحال کا اس طرح جاری رہنا قابل قبول نہیں ہے۔

انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستانی حکام سرحدوں پر قابو رکھیں گے اور دہشت گردوں کو گرفتار اور ان کے ٹھکانوں کو بند کریں گے۔ جنرل باقری کے بقول اگر دہشت گرد حملے جاری رہتے ہیں تو ایران عسکریت پسندوں کی آماجگاہوں کو جہاں کہیں بھی وہ ہوں گی نشانہ بنائے گا۔[1]

  یہ بیان میں نے ایران کے بدترین دشمن، امریکہ کی  معروف سائیٹ، وائس آف امریکہ سے من و عن  نقل کیا ہے۔ تاکہ قارئین  ایرانی جنرل کے اصل مدعا کو سمجھ سکیں۔

اس  بیان سےسے صاف پتہ چل رہا ہے کہ  ایرانی جنرل نے   پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کی بات کی ہے  اور یہ بات ممالک کے تعلقات میں بالکل نارمل سی بات ہے جیسا کہ پاکستان بھی کئی مرتبہ افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کر چکا ہے ، یاد رہے کہ  ہمسایہ ممالک ایک دوسرے سے تعاون کر کے دہشت گردوں کے خلاف اس طرح کے آپریشن انجام دیتے رہتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر روزنامہ ایکسپریس کا  یہ لنک  قارئین کے لئے پیش ہے:             https://www.express.pk/story/741738/

اب یہ حقیقت تو واضح ہے کہ   ایرانی جنرل کا روئے سخن تو  دہشت گردوں  کی طرف  تھا، اور انہوں نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ دہشت گردوں کے سرپرست اور حامی  ان کے بیان کو پاکستان پر حملہ کرنے کے بیان میں بدل دیں گے اور یوں رائے عامہ کو گمراہ کریں گے۔

خیر جو ہونا تھا وہ تو ہوا ،اس وقت یہ  ہمارے حکومتی اداروں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملکی معاملات پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لئے بغیر مصدقہ سورس کے خبریں لگانے ، خبروں کو بغیر کسی سورس کے  مختلف جگہوں سے کاپی پیسٹ کرکے پھر   اپنے  من پسند نظریات  کے مطابق خبریں گھڑنے ، درست خبروں کو غلط رنگ میں پیش کرنے  اور خبروں میں سچ اور جھوٹ ملاکر پیش کرنے والی سائٹوں اور رپورٹرز کے خلاف فوری ایکشن لے۔ اس عمل کو فوری طور پر انجام دیا جانا چاہیے اور جعلی خبریں بنانے والے لوگوں کے خلاف  بلا تفریق  جلد از جلد قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔

 بے شک ہماری   دیانت دار اور شفاف  صحافت ہی ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کی ضامن ہے۔


تحریر۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree